کورونا وائرس کی وبا کا ایک سال، ہم اس کے بارے میں کیا جان سکے؟
کورونا وائرس کی وبا کو 2020 کے اختتام کے ساتھ ایک سال بھی مکمل ہوگیا ہے۔
ویسے تو کہا جاتا ہے کہ چین میں پہلا کیس 17 نومبر 2019 کو سامنے آیا تھا مگر باضابطہ طور پر چین کی جانب سے اس کے پہلے کیس کے بارے میں 31 دسمبر 2019 کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے کنٹری آفس سے آگاہ کیا گیا تھا۔
12 ماہ کے دوران بھی اس نئے وائرس کے بارے میں بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے، مگر یہ تو علم ہوچکا ہے کہ یہ اتنا خطرناک ضرور ہے کہ لاکھوں اموات کا باعث بن جائے، مگر اس کے ساتھ ساتھ حیران کن طور پر اکثر افراد میں اس کی شدت معمولی یا معتدل ہوتی ہے۔
ایسے کیسز بھی سامنے آچکے ہیں جب مدافعتی نظام کے ایک حصے نے اسے پھیلنے سے روکا تو وہ جسم کے دیگر حصوں میں خطرناک انداز سے پھیلنا شروع ہوگیا۔
یہ نظام تنفس کے اوپری خلیات یعنی ناک اور حلق میں گھر بنا سکتا ہے اور ساتھ ہی پھیپھڑوں کی گہرائی میں بھی جاسکتا ہے۔
یہ لوگوں کو بیمار کیے بغیر انہیں کووڈ 19 پھیلانے کے کارخانے میں بھی تبدیل کرسکتا ہے۔
اب تک اس کے بارے میں سائنسدان جو کچھ جان چکے ہیں وہ درج ذیل ہے۔
آر این اے وائرسز میں ایسے اسپائیک پروٹین ہوتے ہیں جو انسانی خلیات میں ایس 2 نامی ریسیپٹر کو للچا کر وائرس کو خلیات میں داخل ہونے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔
اس کے بعد یہ وائرس خلیات کی مشینری پر کنٹرول حاصل کرکے اپنی نقول بنانے لگتا ہے، یہ نقول باہر نکل کر نئے خلیات پر حملہ کرتی ہیں۔
ان کا یہی بنیادی مقصد ہوتا ہے اپنی نقول بنانا اور یہی اس کے پھیلاؤ میں سب سے اہم بھی ہے۔
لوگ اسے دیگر صحت مند افراد تک اس وقت منتقل کرسکتے ہیں جب وہ خود کو بیمار محسوس نہیں کرتے بلکہ علامات بھی ظاہر نہیں ہوئی ہوتیں۔
درحقیقت 50 فیصد تک کیسز ایسے ہوتے ہیں جن میں علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں اور وہ خود کو صحت مند سمجھ کر دیگر کو اس کا شکار بنادیتے ہیں۔
خیال رہے کہ عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے وائرسز بھی کورونا خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، مگر یہ نیا کورونا وائرس بہت تیز سمجھا جاسکتا ہے۔
اگر کوئی وائرس کسی کو اپنا شکار بناکر فوری طور پر ہلاک کردے تو وہ آسانی سے نہیں پھیل سکتا، مگر سارس کوو 2 کے شکار افراد بظاہر صحت مند ہوتے ہیں مگر اس دوران دیگر میں اس کو منتقل کررہے ہوتے ہیں۔
یہ وائرس ایسا کیسے کرتا ہے، ابھی تک معلوم نہیں، بظاہر یہ وائرس جسم کے اندر مدافعتی نظام کے نوٹس لینے سے قبل اپنی بہت زیادہ مقدار جمع کرلیتا ہے، جس کے دوران علامات جیسے بخار متحرک ہوتی ہیں۔
جب کسی فرد کی ناک اور حلق میں وائرس کی مقدار بہت زیادہ ہو تو وہ آسانی سے سانس، بولنے، ہنسنے اور چیخنے کے دوران اپنے جسم سے خارج کرسکتے ہیں۔
یہ بھی ابھی واضح نہیں کہ ایک فرد آگے کتنے لوگوں تک اس بیماری کو منتقل کرسکتا ہے، مگر ایک تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد کی بہت کم تعداد اسے آگے پھیلاتی ہے جبکہ بچے اور نوجوان اس بیماری کے پھیلاؤ میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔
امریکا کی جونز ہوپکنز یونیورسٹی، کیلیفورنیا یونیورسٹی اور پرنسٹن انوائرمنٹ انسٹیٹوٹ (پی ای آئی) کی اس تحقیق میں بھارتی ریاست تامل ناڈو اور آندھرا پردیش کے 5 لاکھ 75 ہزار سے زائد کورونا وائرس کے شکار افراد میں آگے دیگر افراد میں اس کے پھیلاؤ اور اموات کی شرح کا جائزہ لیا گیا تھا۔
یہ کورونا وائرس کے حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی کانٹیکٹ ٹریسنگ تحقیق ہے جس میں ایسے افراد کی شناخت کی گئی جو کسی متاثرہ فرد سے رابطے میں آکر کووڈ 19 کا شکار ہوئے۔
محققین نے بتایا کہ 71 فیصد متاثرہ افراد نے اپنے رابطے میں آنے والے کسی بھی فرد میں بیماری کو منتقل نہیں کیا، مگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ چند افراد کی جانب سے متعدد افراد کو اس کا شکار بنانا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ محض 8 فیصد متاثرہ افراد 60 فیصد نئے کیسز کا باعث بنے۔
مجموعی طور پر کووڈ 19 کے 10 میں سے 7 مریض کسی نئے کیس کا باعث نہیں بنتے مگر باقی 3 مریض متعدد کیسز کا اضافہ کرسکتے ہیں۔
اس طرح کے واقعات کو سپر اسپریڈرز کہا جاتا ہے، عام طور پر نئے کیسز کے 10 سے 20 فیصد اسی طرح کے ایونٹس کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
ویسے تو دنیا بھر میں کروڑوں یا اربوں کورونا وائرسز موجود ہیں مگر انسانوں کو متاثر کرنے والے وائرسز کی تعداد اس نئے وائرس کے بعد 7 ہوگئی ہے۔
4 تو ایسے کورونا وائرس ہیں جو نزلہ زکام کا باعث بنتے ہیں اور عموماً ان پر توجہ نہیں دی جاتی جبکہ باقی سارس اور مرس تھے جو بہت کم عرصے میں کچھ افراد کی ہلاکت کے بعد غائب ہوگئے۔
اس کے مقابلے میں سارس کوو 2 وائرس نے لگتا ہے کہ نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرسز کی تیزی سے پھیلنے کی خاصیت اور سارس اور مرس سے جان لیوا بننے کی خاصیت کو اکٹھا کرلیا ہے۔
یہ علامات ظاہر ہونے سے پہلے بیمار فرد سے صحت مند شخص میں منتقل ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے اس کو پھیلنے سے روکنا بہت مشکل ہوگیا ہے اور فی الحال سماجی دوری اور ماسک کے استعمال کو ہی مؤثر سمجھا جارہا ہے۔
اوریجنل ارس وائرس اور نئے سارس کوو 2 وائرس میں جینیاتی طور پر کافی فرق ہے، نئے وائرس میں 30 ہزار جینیاتی 'لیٹرز' موجود ہیں اور اسی لیے زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے۔
انسانوں کو کسی کورونا وائرس کا سامنا اس سے متاثرہ کسی جانور کے باعث ہوتا ہے۔
عام طور پر کورونا وائرس کی بیشتر اقسام چمگادڑوں میں پائی جاتی ہیں، مگر وہ انسانوں میں براہ راست ان کو منتقل نہیں کرتیں بلکہ یہ منتقلی کسی اور جانور سے ہوتی ہے۔
اس نئے کورونا وائرس کے ابتدائی کیسز چین کے شہر ووہان کی ایک سی فوڈ مارکیٹ میں رپورٹ ہوئے تھے تاہم بعد میں دنیا بھر میں اس کے پھیلنے سے عندیہ ملتا ہے کہ اس وبا کی کوئی واحد سورس نہیں۔
ابھی تک تعین نہیں کیا جاسکتا کہ وائرس کا اصل ذریعہ کیا تھا بلکہ اب تک تحقیقات کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت کی ایک ٹیم جنوری 2021 میں چین بھی جارہی ہے۔
جب کوئی جراثیم حملہ آور ہوتا ہے، تو اس کو روکنے کے لیے مدافعتی نظام متحرک ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں مختلف پہلو متحرک ہوتے ہیں پہلے قدرتی دفاع حرکت میں آتا ہے اور پھر وہ جنگجو کام شروع کرتے ہیں جو نئے دشمن کی مخصوص عادات کو جانتے ہوئے اہداف کا تعین کرتے ہیں۔
مگر کئی بار مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے، جس کا نقصان جسم کے صحت مند خلیات کو ہوتا ہے اور ایسا کووڈ 19 کے سنگین کیسز میں عام نظر آتا ہے، جن کو ہونے والا نقصان وائرس کی بجائے مدافعتی نظام کا شدید ردعمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔
سارس کوو 2 عجیب خصوصیات کا حامل ہے، جو مدفعتی نظام کے ردعمل میں مداخلت کرسکتا ہے اور خود کو اس طرح چھپا بھی لیتا ہے کہ جسم کے دیگر حصوں کے افعال قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔
جب وائرس پھیپھڑوں میں سفر کررہا ہوتا ہے تو مدافعتی نظام اسے روکنے کے لیے پوری طاقت سے کوشش کررہا ہوتا ہے اور ایک فوج دشمن کا تعاقب کررہی ہوتی ہے۔
اکثر اوقات مدافعتی نظام متاثرہ فرد کے جسم کو زیادہ نقصان نہیں پہنچنے دیتا اور عموماً ایسا اوسطاً ایک ہفتے میں ہوجاتا ہے۔
مگر چونکہ یہ وائرس انسانی جسم کے لیے بالکل نیا ہے تو ہمیشہ یہ لڑائی اتنی سادہ نہیں ہوتی کیونکہ عمر کے ساتھ مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بزرگ افراد میں اس سے سنگین بیماری کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ جو پہلے سے کسی مرض جیسے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر یا دیگر کا شکار ہوتے ہیں، ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے جو وائرس کے خلاف ردعمل کے باوجود جسم کو زیادہ کمزور بنادیتا ہے۔
جب مدافعتی ردعمل دوبارہ خود کو منظم کرتا ہے تو پھر جسم کو نقصان پہنچتا ہے کیونکہ یہ حد سے زیادہ ردعمل صرف وائرس کو ہدف نہیں بناتا بلکہ جسمانی ٹشوز کو بھی نقصان پہنچانے لگتا ہے۔
اگر یہ وائرس بالائی نظام تنفس کے خلیات میں اچھی طرح پھیل جائے تو یہ لوگوں کو زیادہ بیمار کردیتا ہے کیونکہ یہ اس دوران پھیپھڑوں کی گہرائی میں بھی جارہا ہوتا ہے۔
مگر یہ سوچنا غلط ہے کہ کووڈ یہاں رک جاتا ہے۔
کبھی یہ وائرس اعصابی نظام میں داخل ہوکر تباہی مچا دیتا ہے، جس کے نتیجے میں سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کا سب سے پہلے سامنا ہوتا ہے۔
اس بیماری کے نتیجے میں دل کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، گردے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ دماغی صحت کی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ خون گاڑھا ہونے سے لاتعداد ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مسئلہ بھی بہت زیادہ بیمار افراد میں دریافت کیا گیا ہے جو ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
پھر ایک اور معمہ خون میں آکسیجن کی حیران کن کمی ہے۔
جریدے سائنس میگزین میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں خون میں آکسیجن کی سطح انتہائی حد تک گر جاتی ہے مگر پھر بھی وہ ڈاکٹروں سے بات کررہے ہوتے ہیں، اپنے فونز پر اسکرولنگ کرتے ہیں اور خود کو ٹھیک ہی محسوس کرتے ہیں۔
حالانکہ عام حالات میں جسم میں آکسیجن کی اتنی کمی چلنے پھرنے یا بات کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی بلکہ اتنی کمی میں بے ہوشی طاری ہونے یا موت کا خطرہ بھی ہوتا ہے مگر کووڈ 19 کے مریض اتنی کمی کے باوجود ہشاش بشاش اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
عام طور پر خون میں آکسیجن کی سطح 95 فیصد ہوتی ہے اور پھیپھڑوں کے امراض جیسے نمونیا میں اگر اس سطح میں کمی آتی ہے تو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی پھیپھڑوں میں پانی بھرنے لگتا ہے یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسے ہیپی یا سائیلنٹ ہائپوکسیا کا نام دیا گیا کیونکہ کووڈ 19 کے مریضوں میں 95 فیصد کی بجائے 80، 70 بلکہ 50 فیصد کمی بھی دیکھی گئی ہے۔
مگر یہ تو سنگین کیسز کی بات ہے، اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے بیشتر افراد کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے بعد اتنی جلد اور آسانی سے صحتیاب ہوجاتے ہیں کہ دیگر کے لیے اس بیماری کو سنجیدہ لینا مشکل ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب بھی دنیا بھر میں متعدد افراد کووڈ 19 کو افواہ سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں اور کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔
کورونا وائرس کا ایک اور پہلو بھی ماہرین کے لیے معمہ بنا ہوا ہے کہ لوگوں میں ایک بار کے بعد دوبارہ اس کے پھیلاؤ کا امکان ہوتا ہے یا نہیں، اگر ان کو تحفظ ملتا ہے تو اس کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے۔
اس کے بارے میں دسمبر 2020 میں عالمی ادارہ صحت کے حکام نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد دوبارہ بھی کووڈ 19 کا شکار ہوسکتے ہیں، جس کی وجہ اینٹی باڈی ردعمل میں کمی آنا ہے۔
عالمی ادارے کے عہدیداران نے یہ بیان حالیہ ڈیٹا کو بنیاد بناتے ہوئے دیا۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان نے ایک پریس بریفننگ کے دوران کہا کہ 'ہم نے ایسے ڈیٹا کو دیکھا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ایک بار بیمار ہونے کے بعد اس بیماری کے خلاف تحفظ زندگی بھر کے لیے نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے دوبارہ بیماری کے کیسز کو دیکھا'۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنگ ڈیزیز و زونیسز کی سربراہ ماریہ وان کرکوف نے اس حوالے سے بتایا کہ محققین کی جانب سے تاحال تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اینٹی باڈی تحفظ پہلی بیماری کے بعد کب تک برقرار رہ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم اب تک جو سمجھ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر 90 سے سو فیصد افراد میں اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے، چاہے بیماری کی شدت معمولی ہو، علامات نمودار نہ ہو یا اس کی شدت سنگین ہو'۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے خلاف مدافعتی ردعمل 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔
ماریہ وان نے بتایا کہ 'کچھ افراد میں ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز چند ماہ میں ختم ہونے لگتی ہیں، مگر ایسے اشارے موجود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ بیمار ہونے والے افراد میں مدافعتی ردعمل چند ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے، ابھی وبا کو ایک سال ہی ہوا ہے تو ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے'۔
یاد رہے کہ اگست میں کووڈ 19 سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی تھی۔
ہانگ کانگ کے محققین نے کورونا وائرس سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے مصدقہ کیس کی تصدیق کی۔
اس کے بعد امریکا، نیدرلینڈز اور بیلجیئم میں بھی ایسے کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔
پاکستان میں بھی نومبر میں ایسا پہلا کیس سامنے آیا تھا جب مردان سے تعلق رکھنے والے شہری میں پہلی بیماری کے 4 ماہ بعد دوبارہ کووڈ کی تشخیص ہوئی۔
تمام وائرسز میں تبدیلیاں آتی ہیں اور کورونا وائرس میں بھی ایسا ہوا ہے اور اسپائیک پروٹین میں ایسی ایک تبدیلی آئی، جسے ڈی 614 جی کا نام دیا گیا، جو بظاہر وائرس کو زیادہ متعدی بنانے کا باعث ہے۔
نومبر میں ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں یا میوٹیشن نے اسے انسانی خلیات کو زیادہ آسانی سے متاثر کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 5 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ اس بیماری میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، جس نے اسے ممکنہ طور پر زیادہ متعدی بنایا۔
طبی جریدے جرنل ایم بائیو میں شائع تحقیق میں کورونا کی اس تبدیلی کو ڈی 614 جی کہا گیا ہے، جو اسپائیک پروٹین میں ہوئی جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہیوسٹن کے 71 فیصد مریضوں میں وائرس کی اس قسم کو دریافت کیا گیا تھا جبکہ دوسری لہر میں یہ شرح 99.9 فیصد تک پہنچ گئی۔
یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
جولائی میں 28 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر مبنی ایک تحقیق میں کورونا وائرس کی ان اقسام کو دریافت کیا گیا، جن میں ڈی 614 جی میوٹیشن موجود تھی اور یہ دنیا بھر میں بالادست قسم ہے۔
مگر نومبر کے آخر میں ایک اور تحقیق میں کہا گیا کہ کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں سے اس کی لوگوں کو آسانی سے بیمار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع تحقیق میں 99 ممالک سے حاصل کیے گئے 46 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونس کے نمونوں میں تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
تاہم ان تبدیلیوں سے وائرس کے افعال پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
برطانیہ کی لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ نئے کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کے پھیلاؤ کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
تحقیق میں کورونا وائرس کی اس قسم کا بھی جائزہ لیا گیا جس کے بارے میں متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ وائرس کو زیادہ آسانی سے لوگوں کو بیمار کرنے میں مدد دیتی ہے تاہم تحقیق میں اس خیال کو مسترد کردیا گیا۔
تحقیق کے مطابق درحقیقت کورونا کی یہ قسم ڈی 614 جی سے وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت پر کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ دریافت کیا کہ ڈی 614 جی اس وائرس کو تیزی سے پھیلنے میں مدد نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ قسم وبا کے آغاز میں ابھری تھی اور اب زیادہ تر افراد میں اسے دریافت کیا جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ قسم پھیلاؤ کی رفتار بڑھانے کی بجائے کامیاب ورثے کے باعث توجہ کا مرکز بن گئی۔
کووڈ 19 کے بیشتر مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں، مگر ان میں سے بیشتر کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو 'لانگ کووڈ' کا نام دیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔
مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔
دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔
ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔
تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا کہ 'لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا'۔
محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔
دسمبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھیں اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نئی تیکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
نومبر میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار جوان اور پہلے سے صحت مند افراد کو اس وبائی مرض سے نجات پانے کے 4 ماہ بعد بھی مختلف علامات اور متعدد اعضا میں نقصان کا سامنا کررہا۔
تحقیق میں ان افراد کے اعضا پر کووڈ 19 کے اثرات کا تجزیہ طویل المعیاد بنیاد پر کیا جائے گا، جس کے لیے ایم آر آئی اسکینز، خون کے ٹیسٹ، جسمانی جانچ پڑتال اور آن لائن سوالناموں کی مدد لی جائے گی۔
اولین 200 مریضوں کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ ان میں سے لگ بھگ 70 فیصد افراد کے ایک یا اس سے زیادہ اعضا بشمول دل، پھیپھڑوں، جگر اور لبلے کے افعال ابتدائی بیماری کے 4 ماہ بعد متاثر ہوئے ہیں۔
کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 58 مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے ابتدائی ڈیٹا میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔
تحقیق میں ابتدائی بیماری کے 2 سے 3 ماہ بعد 60 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 60 فیصد خلاف معمول تبدیلیاں سامنے آئیں، 29 فیصد کے گردوں، 26 فیصد کے دل اور 10 فیصد کے جگر کے افعال میں مسائل دیکھے گئے جبکہ دماغی ٹشوز کے حصوں میں بھی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
آسٹریا کے سائنسدانوں نے ستمبر میں دریافت کیا تھا کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔
تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔
12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔
انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا کہ 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔
نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
آر این اے وائرسز میں ایسے اسپائیک پروٹین ہوتے ہیں جو انسانی خلیات میں ایس 2 نامی ریسیپٹر کو للچا کر وائرس کو خلیات میں داخل ہونے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔
اس کے بعد یہ وائرس خلیات کی مشینری پر کنٹرول حاصل کرکے اپنی نقول بنانے لگتا ہے، یہ نقول باہر نکل کر نئے خلیات پر حملہ کرتی ہیں۔
ان کا یہی بنیادی مقصد ہوتا ہے اپنی نقول بنانا اور یہی اس کے پھیلاؤ میں سب سے اہم بھی ہے۔
لوگ اسے دیگر صحت مند افراد تک اس وقت منتقل کرسکتے ہیں جب وہ خود کو بیمار محسوس نہیں کرتے بلکہ علامات بھی ظاہر نہیں ہوئی ہوتیں۔
درحقیقت 50 فیصد تک کیسز ایسے ہوتے ہیں جن میں علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں اور وہ خود کو صحت مند سمجھ کر دیگر کو اس کا شکار بنادیتے ہیں۔
خیال رہے کہ عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے وائرسز بھی کورونا خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، مگر یہ نیا کورونا وائرس بہت تیز سمجھا جاسکتا ہے۔
اگر کوئی وائرس کسی کو اپنا شکار بناکر فوری طور پر ہلاک کردے تو وہ آسانی سے نہیں پھیل سکتا، مگر سارس کوو 2 کے شکار افراد بظاہر صحت مند ہوتے ہیں مگر اس دوران دیگر میں اس کو منتقل کررہے ہوتے ہیں۔
یہ وائرس ایسا کیسے کرتا ہے، ابھی تک معلوم نہیں، بظاہر یہ وائرس جسم کے اندر مدافعتی نظام کے نوٹس لینے سے قبل اپنی بہت زیادہ مقدار جمع کرلیتا ہے، جس کے دوران علامات جیسے بخار متحرک ہوتی ہیں۔
جب کسی فرد کی ناک اور حلق میں وائرس کی مقدار بہت زیادہ ہو تو وہ آسانی سے سانس، بولنے، ہنسنے اور چیخنے کے دوران اپنے جسم سے خارج کرسکتے ہیں۔
یہ بھی ابھی واضح نہیں کہ ایک فرد آگے کتنے لوگوں تک اس بیماری کو منتقل کرسکتا ہے، مگر ایک تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد کی بہت کم تعداد اسے آگے پھیلاتی ہے جبکہ بچے اور نوجوان اس بیماری کے پھیلاؤ میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔
امریکا کی جونز ہوپکنز یونیورسٹی، کیلیفورنیا یونیورسٹی اور پرنسٹن انوائرمنٹ انسٹیٹوٹ (پی ای آئی) کی اس تحقیق میں بھارتی ریاست تامل ناڈو اور آندھرا پردیش کے 5 لاکھ 75 ہزار سے زائد کورونا وائرس کے شکار افراد میں آگے دیگر افراد میں اس کے پھیلاؤ اور اموات کی شرح کا جائزہ لیا گیا تھا۔
یہ کورونا وائرس کے حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی کانٹیکٹ ٹریسنگ تحقیق ہے جس میں ایسے افراد کی شناخت کی گئی جو کسی متاثرہ فرد سے رابطے میں آکر کووڈ 19 کا شکار ہوئے۔
محققین نے بتایا کہ 71 فیصد متاثرہ افراد نے اپنے رابطے میں آنے والے کسی بھی فرد میں بیماری کو منتقل نہیں کیا، مگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ چند افراد کی جانب سے متعدد افراد کو اس کا شکار بنانا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ محض 8 فیصد متاثرہ افراد 60 فیصد نئے کیسز کا باعث بنے۔
مجموعی طور پر کووڈ 19 کے 10 میں سے 7 مریض کسی نئے کیس کا باعث نہیں بنتے مگر باقی 3 مریض متعدد کیسز کا اضافہ کرسکتے ہیں۔
اس طرح کے واقعات کو سپر اسپریڈرز کہا جاتا ہے، عام طور پر نئے کیسز کے 10 سے 20 فیصد اسی طرح کے ایونٹس کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
ویسے تو دنیا بھر میں کروڑوں یا اربوں کورونا وائرسز موجود ہیں مگر انسانوں کو متاثر کرنے والے وائرسز کی تعداد اس نئے وائرس کے بعد 7 ہوگئی ہے۔
4 تو ایسے کورونا وائرس ہیں جو نزلہ زکام کا باعث بنتے ہیں اور عموماً ان پر توجہ نہیں دی جاتی جبکہ باقی سارس اور مرس تھے جو بہت کم عرصے میں کچھ افراد کی ہلاکت کے بعد غائب ہوگئے۔
اس کے مقابلے میں سارس کوو 2 وائرس نے لگتا ہے کہ نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرسز کی تیزی سے پھیلنے کی خاصیت اور سارس اور مرس سے جان لیوا بننے کی خاصیت کو اکٹھا کرلیا ہے۔
یہ علامات ظاہر ہونے سے پہلے بیمار فرد سے صحت مند شخص میں منتقل ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے اس کو پھیلنے سے روکنا بہت مشکل ہوگیا ہے اور فی الحال سماجی دوری اور ماسک کے استعمال کو ہی مؤثر سمجھا جارہا ہے۔
اوریجنل ارس وائرس اور نئے سارس کوو 2 وائرس میں جینیاتی طور پر کافی فرق ہے، نئے وائرس میں 30 ہزار جینیاتی 'لیٹرز' موجود ہیں اور اسی لیے زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے۔
انسانوں کو کسی کورونا وائرس کا سامنا اس سے متاثرہ کسی جانور کے باعث ہوتا ہے۔
عام طور پر کورونا وائرس کی بیشتر اقسام چمگادڑوں میں پائی جاتی ہیں، مگر وہ انسانوں میں براہ راست ان کو منتقل نہیں کرتیں بلکہ یہ منتقلی کسی اور جانور سے ہوتی ہے۔
اس نئے کورونا وائرس کے ابتدائی کیسز چین کے شہر ووہان کی ایک سی فوڈ مارکیٹ میں رپورٹ ہوئے تھے تاہم بعد میں دنیا بھر میں اس کے پھیلنے سے عندیہ ملتا ہے کہ اس وبا کی کوئی واحد سورس نہیں۔
ابھی تک تعین نہیں کیا جاسکتا کہ وائرس کا اصل ذریعہ کیا تھا بلکہ اب تک تحقیقات کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت کی ایک ٹیم جنوری 2021 میں چین بھی جارہی ہے۔
جب کوئی جراثیم حملہ آور ہوتا ہے، تو اس کو روکنے کے لیے مدافعتی نظام متحرک ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں مختلف پہلو متحرک ہوتے ہیں پہلے قدرتی دفاع حرکت میں آتا ہے اور پھر وہ جنگجو کام شروع کرتے ہیں جو نئے دشمن کی مخصوص عادات کو جانتے ہوئے اہداف کا تعین کرتے ہیں۔
مگر کئی بار مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے، جس کا نقصان جسم کے صحت مند خلیات کو ہوتا ہے اور ایسا کووڈ 19 کے سنگین کیسز میں عام نظر آتا ہے، جن کو ہونے والا نقصان وائرس کی بجائے مدافعتی نظام کا شدید ردعمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔
سارس کوو 2 عجیب خصوصیات کا حامل ہے، جو مدفعتی نظام کے ردعمل میں مداخلت کرسکتا ہے اور خود کو اس طرح چھپا بھی لیتا ہے کہ جسم کے دیگر حصوں کے افعال قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔
جب وائرس پھیپھڑوں میں سفر کررہا ہوتا ہے تو مدافعتی نظام اسے روکنے کے لیے پوری طاقت سے کوشش کررہا ہوتا ہے اور ایک فوج دشمن کا تعاقب کررہی ہوتی ہے۔
اکثر اوقات مدافعتی نظام متاثرہ فرد کے جسم کو زیادہ نقصان نہیں پہنچنے دیتا اور عموماً ایسا اوسطاً ایک ہفتے میں ہوجاتا ہے۔
مگر چونکہ یہ وائرس انسانی جسم کے لیے بالکل نیا ہے تو ہمیشہ یہ لڑائی اتنی سادہ نہیں ہوتی کیونکہ عمر کے ساتھ مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بزرگ افراد میں اس سے سنگین بیماری کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ جو پہلے سے کسی مرض جیسے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر یا دیگر کا شکار ہوتے ہیں، ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے جو وائرس کے خلاف ردعمل کے باوجود جسم کو زیادہ کمزور بنادیتا ہے۔
جب مدافعتی ردعمل دوبارہ خود کو منظم کرتا ہے تو پھر جسم کو نقصان پہنچتا ہے کیونکہ یہ حد سے زیادہ ردعمل صرف وائرس کو ہدف نہیں بناتا بلکہ جسمانی ٹشوز کو بھی نقصان پہنچانے لگتا ہے۔
اگر یہ وائرس بالائی نظام تنفس کے خلیات میں اچھی طرح پھیل جائے تو یہ لوگوں کو زیادہ بیمار کردیتا ہے کیونکہ یہ اس دوران پھیپھڑوں کی گہرائی میں بھی جارہا ہوتا ہے۔
مگر یہ سوچنا غلط ہے کہ کووڈ یہاں رک جاتا ہے۔
کبھی یہ وائرس اعصابی نظام میں داخل ہوکر تباہی مچا دیتا ہے، جس کے نتیجے میں سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کا سب سے پہلے سامنا ہوتا ہے۔
اس بیماری کے نتیجے میں دل کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، گردے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ دماغی صحت کی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ خون گاڑھا ہونے سے لاتعداد ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مسئلہ بھی بہت زیادہ بیمار افراد میں دریافت کیا گیا ہے جو ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
پھر ایک اور معمہ خون میں آکسیجن کی حیران کن کمی ہے۔
جریدے سائنس میگزین میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں خون میں آکسیجن کی سطح انتہائی حد تک گر جاتی ہے مگر پھر بھی وہ ڈاکٹروں سے بات کررہے ہوتے ہیں، اپنے فونز پر اسکرولنگ کرتے ہیں اور خود کو ٹھیک ہی محسوس کرتے ہیں۔
حالانکہ عام حالات میں جسم میں آکسیجن کی اتنی کمی چلنے پھرنے یا بات کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی بلکہ اتنی کمی میں بے ہوشی طاری ہونے یا موت کا خطرہ بھی ہوتا ہے مگر کووڈ 19 کے مریض اتنی کمی کے باوجود ہشاش بشاش اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
عام طور پر خون میں آکسیجن کی سطح 95 فیصد ہوتی ہے اور پھیپھڑوں کے امراض جیسے نمونیا میں اگر اس سطح میں کمی آتی ہے تو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی پھیپھڑوں میں پانی بھرنے لگتا ہے یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسے ہیپی یا سائیلنٹ ہائپوکسیا کا نام دیا گیا کیونکہ کووڈ 19 کے مریضوں میں 95 فیصد کی بجائے 80، 70 بلکہ 50 فیصد کمی بھی دیکھی گئی ہے۔
مگر یہ تو سنگین کیسز کی بات ہے، اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے بیشتر افراد کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے بعد اتنی جلد اور آسانی سے صحتیاب ہوجاتے ہیں کہ دیگر کے لیے اس بیماری کو سنجیدہ لینا مشکل ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب بھی دنیا بھر میں متعدد افراد کووڈ 19 کو افواہ سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں اور کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔
کورونا وائرس کا ایک اور پہلو بھی ماہرین کے لیے معمہ بنا ہوا ہے کہ لوگوں میں ایک بار کے بعد دوبارہ اس کے پھیلاؤ کا امکان ہوتا ہے یا نہیں، اگر ان کو تحفظ ملتا ہے تو اس کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے۔
اس کے بارے میں دسمبر 2020 میں عالمی ادارہ صحت کے حکام نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد دوبارہ بھی کووڈ 19 کا شکار ہوسکتے ہیں، جس کی وجہ اینٹی باڈی ردعمل میں کمی آنا ہے۔
عالمی ادارے کے عہدیداران نے یہ بیان حالیہ ڈیٹا کو بنیاد بناتے ہوئے دیا۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان نے ایک پریس بریفننگ کے دوران کہا کہ 'ہم نے ایسے ڈیٹا کو دیکھا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ایک بار بیمار ہونے کے بعد اس بیماری کے خلاف تحفظ زندگی بھر کے لیے نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے دوبارہ بیماری کے کیسز کو دیکھا'۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنگ ڈیزیز و زونیسز کی سربراہ ماریہ وان کرکوف نے اس حوالے سے بتایا کہ محققین کی جانب سے تاحال تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اینٹی باڈی تحفظ پہلی بیماری کے بعد کب تک برقرار رہ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم اب تک جو سمجھ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر 90 سے سو فیصد افراد میں اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے، چاہے بیماری کی شدت معمولی ہو، علامات نمودار نہ ہو یا اس کی شدت سنگین ہو'۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے خلاف مدافعتی ردعمل 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔
ماریہ وان نے بتایا کہ 'کچھ افراد میں ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز چند ماہ میں ختم ہونے لگتی ہیں، مگر ایسے اشارے موجود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ بیمار ہونے والے افراد میں مدافعتی ردعمل چند ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے، ابھی وبا کو ایک سال ہی ہوا ہے تو ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے'۔
یاد رہے کہ اگست میں کووڈ 19 سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی تھی۔
ہانگ کانگ کے محققین نے کورونا وائرس سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے مصدقہ کیس کی تصدیق کی۔
اس کے بعد امریکا، نیدرلینڈز اور بیلجیئم میں بھی ایسے کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔
پاکستان میں بھی نومبر میں ایسا پہلا کیس سامنے آیا تھا جب مردان سے تعلق رکھنے والے شہری میں پہلی بیماری کے 4 ماہ بعد دوبارہ کووڈ کی تشخیص ہوئی۔
تمام وائرسز میں تبدیلیاں آتی ہیں اور کورونا وائرس میں بھی ایسا ہوا ہے اور اسپائیک پروٹین میں ایسی ایک تبدیلی آئی، جسے ڈی 614 جی کا نام دیا گیا، جو بظاہر وائرس کو زیادہ متعدی بنانے کا باعث ہے۔
نومبر میں ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں یا میوٹیشن نے اسے انسانی خلیات کو زیادہ آسانی سے متاثر کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 5 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ اس بیماری میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، جس نے اسے ممکنہ طور پر زیادہ متعدی بنایا۔
طبی جریدے جرنل ایم بائیو میں شائع تحقیق میں کورونا کی اس تبدیلی کو ڈی 614 جی کہا گیا ہے، جو اسپائیک پروٹین میں ہوئی جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہیوسٹن کے 71 فیصد مریضوں میں وائرس کی اس قسم کو دریافت کیا گیا تھا جبکہ دوسری لہر میں یہ شرح 99.9 فیصد تک پہنچ گئی۔
یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
جولائی میں 28 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر مبنی ایک تحقیق میں کورونا وائرس کی ان اقسام کو دریافت کیا گیا، جن میں ڈی 614 جی میوٹیشن موجود تھی اور یہ دنیا بھر میں بالادست قسم ہے۔
مگر نومبر کے آخر میں ایک اور تحقیق میں کہا گیا کہ کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں سے اس کی لوگوں کو آسانی سے بیمار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع تحقیق میں 99 ممالک سے حاصل کیے گئے 46 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونس کے نمونوں میں تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
تاہم ان تبدیلیوں سے وائرس کے افعال پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
برطانیہ کی لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ نئے کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کے پھیلاؤ کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
تحقیق میں کورونا وائرس کی اس قسم کا بھی جائزہ لیا گیا جس کے بارے میں متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ وائرس کو زیادہ آسانی سے لوگوں کو بیمار کرنے میں مدد دیتی ہے تاہم تحقیق میں اس خیال کو مسترد کردیا گیا۔
تحقیق کے مطابق درحقیقت کورونا کی یہ قسم ڈی 614 جی سے وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت پر کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ دریافت کیا کہ ڈی 614 جی اس وائرس کو تیزی سے پھیلنے میں مدد نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ قسم وبا کے آغاز میں ابھری تھی اور اب زیادہ تر افراد میں اسے دریافت کیا جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ قسم پھیلاؤ کی رفتار بڑھانے کی بجائے کامیاب ورثے کے باعث توجہ کا مرکز بن گئی۔
کووڈ 19 کے بیشتر مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں، مگر ان میں سے بیشتر کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو 'لانگ کووڈ' کا نام دیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔
مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔
دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔
ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔
تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا کہ 'لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا'۔
محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔
دسمبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھیں اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نئی تیکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
نومبر میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار جوان اور پہلے سے صحت مند افراد کو اس وبائی مرض سے نجات پانے کے 4 ماہ بعد بھی مختلف علامات اور متعدد اعضا میں نقصان کا سامنا کررہا۔
تحقیق میں ان افراد کے اعضا پر کووڈ 19 کے اثرات کا تجزیہ طویل المعیاد بنیاد پر کیا جائے گا، جس کے لیے ایم آر آئی اسکینز، خون کے ٹیسٹ، جسمانی جانچ پڑتال اور آن لائن سوالناموں کی مدد لی جائے گی۔
اولین 200 مریضوں کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ ان میں سے لگ بھگ 70 فیصد افراد کے ایک یا اس سے زیادہ اعضا بشمول دل، پھیپھڑوں، جگر اور لبلے کے افعال ابتدائی بیماری کے 4 ماہ بعد متاثر ہوئے ہیں۔
کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 58 مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے ابتدائی ڈیٹا میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔
تحقیق میں ابتدائی بیماری کے 2 سے 3 ماہ بعد 60 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 60 فیصد خلاف معمول تبدیلیاں سامنے آئیں، 29 فیصد کے گردوں، 26 فیصد کے دل اور 10 فیصد کے جگر کے افعال میں مسائل دیکھے گئے جبکہ دماغی ٹشوز کے حصوں میں بھی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
آسٹریا کے سائنسدانوں نے ستمبر میں دریافت کیا تھا کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔
تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔
12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔
انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا کہ 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔
نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
آر این اے وائرسز میں ایسے اسپائیک پروٹین ہوتے ہیں جو انسانی خلیات میں ایس 2 نامی ریسیپٹر کو للچا کر وائرس کو خلیات میں داخل ہونے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔
اس کے بعد یہ وائرس خلیات کی مشینری پر کنٹرول حاصل کرکے اپنی نقول بنانے لگتا ہے، یہ نقول باہر نکل کر نئے خلیات پر حملہ کرتی ہیں۔
ان کا یہی بنیادی مقصد ہوتا ہے اپنی نقول بنانا اور یہی اس کے پھیلاؤ میں سب سے اہم بھی ہے۔
لوگ اسے دیگر صحت مند افراد تک اس وقت منتقل کرسکتے ہیں جب وہ خود کو بیمار محسوس نہیں کرتے بلکہ علامات بھی ظاہر نہیں ہوئی ہوتیں۔
درحقیقت 50 فیصد تک کیسز ایسے ہوتے ہیں جن میں علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں اور وہ خود کو صحت مند سمجھ کر دیگر کو اس کا شکار بنادیتے ہیں۔
خیال رہے کہ عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے وائرسز بھی کورونا خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، مگر یہ نیا کورونا وائرس بہت تیز سمجھا جاسکتا ہے۔
اگر کوئی وائرس کسی کو اپنا شکار بناکر فوری طور پر ہلاک کردے تو وہ آسانی سے نہیں پھیل سکتا، مگر سارس کوو 2 کے شکار افراد بظاہر صحت مند ہوتے ہیں مگر اس دوران دیگر میں اس کو منتقل کررہے ہوتے ہیں۔
یہ وائرس ایسا کیسے کرتا ہے، ابھی تک معلوم نہیں، بظاہر یہ وائرس جسم کے اندر مدافعتی نظام کے نوٹس لینے سے قبل اپنی بہت زیادہ مقدار جمع کرلیتا ہے، جس کے دوران علامات جیسے بخار متحرک ہوتی ہیں۔
جب کسی فرد کی ناک اور حلق میں وائرس کی مقدار بہت زیادہ ہو تو وہ آسانی سے سانس، بولنے، ہنسنے اور چیخنے کے دوران اپنے جسم سے خارج کرسکتے ہیں۔
یہ بھی ابھی واضح نہیں کہ ایک فرد آگے کتنے لوگوں تک اس بیماری کو منتقل کرسکتا ہے، مگر ایک تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد کی بہت کم تعداد اسے آگے پھیلاتی ہے جبکہ بچے اور نوجوان اس بیماری کے پھیلاؤ میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔
امریکا کی جونز ہوپکنز یونیورسٹی، کیلیفورنیا یونیورسٹی اور پرنسٹن انوائرمنٹ انسٹیٹوٹ (پی ای آئی) کی اس تحقیق میں بھارتی ریاست تامل ناڈو اور آندھرا پردیش کے 5 لاکھ 75 ہزار سے زائد کورونا وائرس کے شکار افراد میں آگے دیگر افراد میں اس کے پھیلاؤ اور اموات کی شرح کا جائزہ لیا گیا تھا۔
یہ کورونا وائرس کے حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی کانٹیکٹ ٹریسنگ تحقیق ہے جس میں ایسے افراد کی شناخت کی گئی جو کسی متاثرہ فرد سے رابطے میں آکر کووڈ 19 کا شکار ہوئے۔
محققین نے بتایا کہ 71 فیصد متاثرہ افراد نے اپنے رابطے میں آنے والے کسی بھی فرد میں بیماری کو منتقل نہیں کیا، مگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ چند افراد کی جانب سے متعدد افراد کو اس کا شکار بنانا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ محض 8 فیصد متاثرہ افراد 60 فیصد نئے کیسز کا باعث بنے۔
مجموعی طور پر کووڈ 19 کے 10 میں سے 7 مریض کسی نئے کیس کا باعث نہیں بنتے مگر باقی 3 مریض متعدد کیسز کا اضافہ کرسکتے ہیں۔
اس طرح کے واقعات کو سپر اسپریڈرز کہا جاتا ہے، عام طور پر نئے کیسز کے 10 سے 20 فیصد اسی طرح کے ایونٹس کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
ویسے تو دنیا بھر میں کروڑوں یا اربوں کورونا وائرسز موجود ہیں مگر انسانوں کو متاثر کرنے والے وائرسز کی تعداد اس نئے وائرس کے بعد 7 ہوگئی ہے۔
4 تو ایسے کورونا وائرس ہیں جو نزلہ زکام کا باعث بنتے ہیں اور عموماً ان پر توجہ نہیں دی جاتی جبکہ باقی سارس اور مرس تھے جو بہت کم عرصے میں کچھ افراد کی ہلاکت کے بعد غائب ہوگئے۔
اس کے مقابلے میں سارس کوو 2 وائرس نے لگتا ہے کہ نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرسز کی تیزی سے پھیلنے کی خاصیت اور سارس اور مرس سے جان لیوا بننے کی خاصیت کو اکٹھا کرلیا ہے۔
یہ علامات ظاہر ہونے سے پہلے بیمار فرد سے صحت مند شخص میں منتقل ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے اس کو پھیلنے سے روکنا بہت مشکل ہوگیا ہے اور فی الحال سماجی دوری اور ماسک کے استعمال کو ہی مؤثر سمجھا جارہا ہے۔
اوریجنل ارس وائرس اور نئے سارس کوو 2 وائرس میں جینیاتی طور پر کافی فرق ہے، نئے وائرس میں 30 ہزار جینیاتی 'لیٹرز' موجود ہیں اور اسی لیے زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے۔
انسانوں کو کسی کورونا وائرس کا سامنا اس سے متاثرہ کسی جانور کے باعث ہوتا ہے۔
عام طور پر کورونا وائرس کی بیشتر اقسام چمگادڑوں میں پائی جاتی ہیں، مگر وہ انسانوں میں براہ راست ان کو منتقل نہیں کرتیں بلکہ یہ منتقلی کسی اور جانور سے ہوتی ہے۔
اس نئے کورونا وائرس کے ابتدائی کیسز چین کے شہر ووہان کی ایک سی فوڈ مارکیٹ میں رپورٹ ہوئے تھے تاہم بعد میں دنیا بھر میں اس کے پھیلنے سے عندیہ ملتا ہے کہ اس وبا کی کوئی واحد سورس نہیں۔
ابھی تک تعین نہیں کیا جاسکتا کہ وائرس کا اصل ذریعہ کیا تھا بلکہ اب تک تحقیقات کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت کی ایک ٹیم جنوری 2021 میں چین بھی جارہی ہے۔
جب کوئی جراثیم حملہ آور ہوتا ہے، تو اس کو روکنے کے لیے مدافعتی نظام متحرک ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں مختلف پہلو متحرک ہوتے ہیں پہلے قدرتی دفاع حرکت میں آتا ہے اور پھر وہ جنگجو کام شروع کرتے ہیں جو نئے دشمن کی مخصوص عادات کو جانتے ہوئے اہداف کا تعین کرتے ہیں۔
مگر کئی بار مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے، جس کا نقصان جسم کے صحت مند خلیات کو ہوتا ہے اور ایسا کووڈ 19 کے سنگین کیسز میں عام نظر آتا ہے، جن کو ہونے والا نقصان وائرس کی بجائے مدافعتی نظام کا شدید ردعمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔
سارس کوو 2 عجیب خصوصیات کا حامل ہے، جو مدفعتی نظام کے ردعمل میں مداخلت کرسکتا ہے اور خود کو اس طرح چھپا بھی لیتا ہے کہ جسم کے دیگر حصوں کے افعال قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔
جب وائرس پھیپھڑوں میں سفر کررہا ہوتا ہے تو مدافعتی نظام اسے روکنے کے لیے پوری طاقت سے کوشش کررہا ہوتا ہے اور ایک فوج دشمن کا تعاقب کررہی ہوتی ہے۔
اکثر اوقات مدافعتی نظام متاثرہ فرد کے جسم کو زیادہ نقصان نہیں پہنچنے دیتا اور عموماً ایسا اوسطاً ایک ہفتے میں ہوجاتا ہے۔
مگر چونکہ یہ وائرس انسانی جسم کے لیے بالکل نیا ہے تو ہمیشہ یہ لڑائی اتنی سادہ نہیں ہوتی کیونکہ عمر کے ساتھ مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بزرگ افراد میں اس سے سنگین بیماری کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ جو پہلے سے کسی مرض جیسے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر یا دیگر کا شکار ہوتے ہیں، ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے جو وائرس کے خلاف ردعمل کے باوجود جسم کو زیادہ کمزور بنادیتا ہے۔
جب مدافعتی ردعمل دوبارہ خود کو منظم کرتا ہے تو پھر جسم کو نقصان پہنچتا ہے کیونکہ یہ حد سے زیادہ ردعمل صرف وائرس کو ہدف نہیں بناتا بلکہ جسمانی ٹشوز کو بھی نقصان پہنچانے لگتا ہے۔
اگر یہ وائرس بالائی نظام تنفس کے خلیات میں اچھی طرح پھیل جائے تو یہ لوگوں کو زیادہ بیمار کردیتا ہے کیونکہ یہ اس دوران پھیپھڑوں کی گہرائی میں بھی جارہا ہوتا ہے۔
مگر یہ سوچنا غلط ہے کہ کووڈ یہاں رک جاتا ہے۔
کبھی یہ وائرس اعصابی نظام میں داخل ہوکر تباہی مچا دیتا ہے، جس کے نتیجے میں سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کا سب سے پہلے سامنا ہوتا ہے۔
اس بیماری کے نتیجے میں دل کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، گردے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ دماغی صحت کی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ خون گاڑھا ہونے سے لاتعداد ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مسئلہ بھی بہت زیادہ بیمار افراد میں دریافت کیا گیا ہے جو ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
پھر ایک اور معمہ خون میں آکسیجن کی حیران کن کمی ہے۔
جریدے سائنس میگزین میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں خون میں آکسیجن کی سطح انتہائی حد تک گر جاتی ہے مگر پھر بھی وہ ڈاکٹروں سے بات کررہے ہوتے ہیں، اپنے فونز پر اسکرولنگ کرتے ہیں اور خود کو ٹھیک ہی محسوس کرتے ہیں۔
حالانکہ عام حالات میں جسم میں آکسیجن کی اتنی کمی چلنے پھرنے یا بات کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی بلکہ اتنی کمی میں بے ہوشی طاری ہونے یا موت کا خطرہ بھی ہوتا ہے مگر کووڈ 19 کے مریض اتنی کمی کے باوجود ہشاش بشاش اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
عام طور پر خون میں آکسیجن کی سطح 95 فیصد ہوتی ہے اور پھیپھڑوں کے امراض جیسے نمونیا میں اگر اس سطح میں کمی آتی ہے تو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی پھیپھڑوں میں پانی بھرنے لگتا ہے یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسے ہیپی یا سائیلنٹ ہائپوکسیا کا نام دیا گیا کیونکہ کووڈ 19 کے مریضوں میں 95 فیصد کی بجائے 80، 70 بلکہ 50 فیصد کمی بھی دیکھی گئی ہے۔
مگر یہ تو سنگین کیسز کی بات ہے، اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے بیشتر افراد کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے بعد اتنی جلد اور آسانی سے صحتیاب ہوجاتے ہیں کہ دیگر کے لیے اس بیماری کو سنجیدہ لینا مشکل ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب بھی دنیا بھر میں متعدد افراد کووڈ 19 کو افواہ سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں اور کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔
کورونا وائرس کا ایک اور پہلو بھی ماہرین کے لیے معمہ بنا ہوا ہے کہ لوگوں میں ایک بار کے بعد دوبارہ اس کے پھیلاؤ کا امکان ہوتا ہے یا نہیں، اگر ان کو تحفظ ملتا ہے تو اس کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے۔
اس کے بارے میں دسمبر 2020 میں عالمی ادارہ صحت کے حکام نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد دوبارہ بھی کووڈ 19 کا شکار ہوسکتے ہیں، جس کی وجہ اینٹی باڈی ردعمل میں کمی آنا ہے۔
عالمی ادارے کے عہدیداران نے یہ بیان حالیہ ڈیٹا کو بنیاد بناتے ہوئے دیا۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان نے ایک پریس بریفننگ کے دوران کہا کہ 'ہم نے ایسے ڈیٹا کو دیکھا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ایک بار بیمار ہونے کے بعد اس بیماری کے خلاف تحفظ زندگی بھر کے لیے نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے دوبارہ بیماری کے کیسز کو دیکھا'۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنگ ڈیزیز و زونیسز کی سربراہ ماریہ وان کرکوف نے اس حوالے سے بتایا کہ محققین کی جانب سے تاحال تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اینٹی باڈی تحفظ پہلی بیماری کے بعد کب تک برقرار رہ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم اب تک جو سمجھ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر 90 سے سو فیصد افراد میں اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے، چاہے بیماری کی شدت معمولی ہو، علامات نمودار نہ ہو یا اس کی شدت سنگین ہو'۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے خلاف مدافعتی ردعمل 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔
ماریہ وان نے بتایا کہ 'کچھ افراد میں ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز چند ماہ میں ختم ہونے لگتی ہیں، مگر ایسے اشارے موجود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ بیمار ہونے والے افراد میں مدافعتی ردعمل چند ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے، ابھی وبا کو ایک سال ہی ہوا ہے تو ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے'۔
یاد رہے کہ اگست میں کووڈ 19 سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی تھی۔
ہانگ کانگ کے محققین نے کورونا وائرس سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے مصدقہ کیس کی تصدیق کی۔
اس کے بعد امریکا، نیدرلینڈز اور بیلجیئم میں بھی ایسے کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔
پاکستان میں بھی نومبر میں ایسا پہلا کیس سامنے آیا تھا جب مردان سے تعلق رکھنے والے شہری میں پہلی بیماری کے 4 ماہ بعد دوبارہ کووڈ کی تشخیص ہوئی۔
تمام وائرسز میں تبدیلیاں آتی ہیں اور کورونا وائرس میں بھی ایسا ہوا ہے اور اسپائیک پروٹین میں ایسی ایک تبدیلی آئی، جسے ڈی 614 جی کا نام دیا گیا، جو بظاہر وائرس کو زیادہ متعدی بنانے کا باعث ہے۔
نومبر میں ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں یا میوٹیشن نے اسے انسانی خلیات کو زیادہ آسانی سے متاثر کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 5 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ اس بیماری میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، جس نے اسے ممکنہ طور پر زیادہ متعدی بنایا۔
طبی جریدے جرنل ایم بائیو میں شائع تحقیق میں کورونا کی اس تبدیلی کو ڈی 614 جی کہا گیا ہے، جو اسپائیک پروٹین میں ہوئی جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہیوسٹن کے 71 فیصد مریضوں میں وائرس کی اس قسم کو دریافت کیا گیا تھا جبکہ دوسری لہر میں یہ شرح 99.9 فیصد تک پہنچ گئی۔
یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
جولائی میں 28 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر مبنی ایک تحقیق میں کورونا وائرس کی ان اقسام کو دریافت کیا گیا، جن میں ڈی 614 جی میوٹیشن موجود تھی اور یہ دنیا بھر میں بالادست قسم ہے۔
مگر نومبر کے آخر میں ایک اور تحقیق میں کہا گیا کہ کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں سے اس کی لوگوں کو آسانی سے بیمار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع تحقیق میں 99 ممالک سے حاصل کیے گئے 46 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونس کے نمونوں میں تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
تاہم ان تبدیلیوں سے وائرس کے افعال پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
برطانیہ کی لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ نئے کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کے پھیلاؤ کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
تحقیق میں کورونا وائرس کی اس قسم کا بھی جائزہ لیا گیا جس کے بارے میں متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ وائرس کو زیادہ آسانی سے لوگوں کو بیمار کرنے میں مدد دیتی ہے تاہم تحقیق میں اس خیال کو مسترد کردیا گیا۔
تحقیق کے مطابق درحقیقت کورونا کی یہ قسم ڈی 614 جی سے وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت پر کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ دریافت کیا کہ ڈی 614 جی اس وائرس کو تیزی سے پھیلنے میں مدد نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ قسم وبا کے آغاز میں ابھری تھی اور اب زیادہ تر افراد میں اسے دریافت کیا جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ قسم پھیلاؤ کی رفتار بڑھانے کی بجائے کامیاب ورثے کے باعث توجہ کا مرکز بن گئی۔
کووڈ 19 کے بیشتر مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں، مگر ان میں سے بیشتر کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو 'لانگ کووڈ' کا نام دیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔
مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔
دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔
ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔
تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا کہ 'لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا'۔
محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔
دسمبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھیں اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نئی تیکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
نومبر میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار جوان اور پہلے سے صحت مند افراد کو اس وبائی مرض سے نجات پانے کے 4 ماہ بعد بھی مختلف علامات اور متعدد اعضا میں نقصان کا سامنا کررہا۔
تحقیق میں ان افراد کے اعضا پر کووڈ 19 کے اثرات کا تجزیہ طویل المعیاد بنیاد پر کیا جائے گا، جس کے لیے ایم آر آئی اسکینز، خون کے ٹیسٹ، جسمانی جانچ پڑتال اور آن لائن سوالناموں کی مدد لی جائے گی۔
اولین 200 مریضوں کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ ان میں سے لگ بھگ 70 فیصد افراد کے ایک یا اس سے زیادہ اعضا بشمول دل، پھیپھڑوں، جگر اور لبلے کے افعال ابتدائی بیماری کے 4 ماہ بعد متاثر ہوئے ہیں۔
کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 58 مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے ابتدائی ڈیٹا میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔
تحقیق میں ابتدائی بیماری کے 2 سے 3 ماہ بعد 60 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 60 فیصد خلاف معمول تبدیلیاں سامنے آئیں، 29 فیصد کے گردوں، 26 فیصد کے دل اور 10 فیصد کے جگر کے افعال میں مسائل دیکھے گئے جبکہ دماغی ٹشوز کے حصوں میں بھی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
آسٹریا کے سائنسدانوں نے ستمبر میں دریافت کیا تھا کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔
تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔
12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔
انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا کہ 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔
نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
اوریجنل ارس وائرس اور نئے سارس کوو 2 وائرس میں جینیاتی طور پر کافی فرق ہے، نئے وائرس میں 30 ہزار جینیاتی 'لیٹرز' موجود ہیں اور اسی لیے زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے۔
انسانوں کو کسی کورونا وائرس کا سامنا اس سے متاثرہ کسی جانور کے باعث ہوتا ہے۔
عام طور پر کورونا وائرس کی بیشتر اقسام چمگادڑوں میں پائی جاتی ہیں، مگر وہ انسانوں میں براہ راست ان کو منتقل نہیں کرتیں بلکہ یہ منتقلی کسی اور جانور سے ہوتی ہے۔
اس نئے کورونا وائرس کے ابتدائی کیسز چین کے شہر ووہان کی ایک سی فوڈ مارکیٹ میں رپورٹ ہوئے تھے تاہم بعد میں دنیا بھر میں اس کے پھیلنے سے عندیہ ملتا ہے کہ اس وبا کی کوئی واحد سورس نہیں۔
ابھی تک تعین نہیں کیا جاسکتا کہ وائرس کا اصل ذریعہ کیا تھا بلکہ اب تک تحقیقات کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت کی ایک ٹیم جنوری 2021 میں چین بھی جارہی ہے۔
جب کوئی جراثیم حملہ آور ہوتا ہے، تو اس کو روکنے کے لیے مدافعتی نظام متحرک ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں مختلف پہلو متحرک ہوتے ہیں پہلے قدرتی دفاع حرکت میں آتا ہے اور پھر وہ جنگجو کام شروع کرتے ہیں جو نئے دشمن کی مخصوص عادات کو جانتے ہوئے اہداف کا تعین کرتے ہیں۔
مگر کئی بار مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے، جس کا نقصان جسم کے صحت مند خلیات کو ہوتا ہے اور ایسا کووڈ 19 کے سنگین کیسز میں عام نظر آتا ہے، جن کو ہونے والا نقصان وائرس کی بجائے مدافعتی نظام کا شدید ردعمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔
سارس کوو 2 عجیب خصوصیات کا حامل ہے، جو مدفعتی نظام کے ردعمل میں مداخلت کرسکتا ہے اور خود کو اس طرح چھپا بھی لیتا ہے کہ جسم کے دیگر حصوں کے افعال قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔
جب وائرس پھیپھڑوں میں سفر کررہا ہوتا ہے تو مدافعتی نظام اسے روکنے کے لیے پوری طاقت سے کوشش کررہا ہوتا ہے اور ایک فوج دشمن کا تعاقب کررہی ہوتی ہے۔
اکثر اوقات مدافعتی نظام متاثرہ فرد کے جسم کو زیادہ نقصان نہیں پہنچنے دیتا اور عموماً ایسا اوسطاً ایک ہفتے میں ہوجاتا ہے۔
مگر چونکہ یہ وائرس انسانی جسم کے لیے بالکل نیا ہے تو ہمیشہ یہ لڑائی اتنی سادہ نہیں ہوتی کیونکہ عمر کے ساتھ مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بزرگ افراد میں اس سے سنگین بیماری کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ جو پہلے سے کسی مرض جیسے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر یا دیگر کا شکار ہوتے ہیں، ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے جو وائرس کے خلاف ردعمل کے باوجود جسم کو زیادہ کمزور بنادیتا ہے۔
جب مدافعتی ردعمل دوبارہ خود کو منظم کرتا ہے تو پھر جسم کو نقصان پہنچتا ہے کیونکہ یہ حد سے زیادہ ردعمل صرف وائرس کو ہدف نہیں بناتا بلکہ جسمانی ٹشوز کو بھی نقصان پہنچانے لگتا ہے۔
اگر یہ وائرس بالائی نظام تنفس کے خلیات میں اچھی طرح پھیل جائے تو یہ لوگوں کو زیادہ بیمار کردیتا ہے کیونکہ یہ اس دوران پھیپھڑوں کی گہرائی میں بھی جارہا ہوتا ہے۔
مگر یہ سوچنا غلط ہے کہ کووڈ یہاں رک جاتا ہے۔
کبھی یہ وائرس اعصابی نظام میں داخل ہوکر تباہی مچا دیتا ہے، جس کے نتیجے میں سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کا سب سے پہلے سامنا ہوتا ہے۔
اس بیماری کے نتیجے میں دل کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، گردے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ دماغی صحت کی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ خون گاڑھا ہونے سے لاتعداد ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مسئلہ بھی بہت زیادہ بیمار افراد میں دریافت کیا گیا ہے جو ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
پھر ایک اور معمہ خون میں آکسیجن کی حیران کن کمی ہے۔
جریدے سائنس میگزین میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں خون میں آکسیجن کی سطح انتہائی حد تک گر جاتی ہے مگر پھر بھی وہ ڈاکٹروں سے بات کررہے ہوتے ہیں، اپنے فونز پر اسکرولنگ کرتے ہیں اور خود کو ٹھیک ہی محسوس کرتے ہیں۔
حالانکہ عام حالات میں جسم میں آکسیجن کی اتنی کمی چلنے پھرنے یا بات کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی بلکہ اتنی کمی میں بے ہوشی طاری ہونے یا موت کا خطرہ بھی ہوتا ہے مگر کووڈ 19 کے مریض اتنی کمی کے باوجود ہشاش بشاش اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
عام طور پر خون میں آکسیجن کی سطح 95 فیصد ہوتی ہے اور پھیپھڑوں کے امراض جیسے نمونیا میں اگر اس سطح میں کمی آتی ہے تو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی پھیپھڑوں میں پانی بھرنے لگتا ہے یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسے ہیپی یا سائیلنٹ ہائپوکسیا کا نام دیا گیا کیونکہ کووڈ 19 کے مریضوں میں 95 فیصد کی بجائے 80، 70 بلکہ 50 فیصد کمی بھی دیکھی گئی ہے۔
مگر یہ تو سنگین کیسز کی بات ہے، اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے بیشتر افراد کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے بعد اتنی جلد اور آسانی سے صحتیاب ہوجاتے ہیں کہ دیگر کے لیے اس بیماری کو سنجیدہ لینا مشکل ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب بھی دنیا بھر میں متعدد افراد کووڈ 19 کو افواہ سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں اور کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔
کورونا وائرس کا ایک اور پہلو بھی ماہرین کے لیے معمہ بنا ہوا ہے کہ لوگوں میں ایک بار کے بعد دوبارہ اس کے پھیلاؤ کا امکان ہوتا ہے یا نہیں، اگر ان کو تحفظ ملتا ہے تو اس کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے۔
اس کے بارے میں دسمبر 2020 میں عالمی ادارہ صحت کے حکام نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد دوبارہ بھی کووڈ 19 کا شکار ہوسکتے ہیں، جس کی وجہ اینٹی باڈی ردعمل میں کمی آنا ہے۔
عالمی ادارے کے عہدیداران نے یہ بیان حالیہ ڈیٹا کو بنیاد بناتے ہوئے دیا۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان نے ایک پریس بریفننگ کے دوران کہا کہ 'ہم نے ایسے ڈیٹا کو دیکھا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ایک بار بیمار ہونے کے بعد اس بیماری کے خلاف تحفظ زندگی بھر کے لیے نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے دوبارہ بیماری کے کیسز کو دیکھا'۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنگ ڈیزیز و زونیسز کی سربراہ ماریہ وان کرکوف نے اس حوالے سے بتایا کہ محققین کی جانب سے تاحال تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اینٹی باڈی تحفظ پہلی بیماری کے بعد کب تک برقرار رہ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم اب تک جو سمجھ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر 90 سے سو فیصد افراد میں اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے، چاہے بیماری کی شدت معمولی ہو، علامات نمودار نہ ہو یا اس کی شدت سنگین ہو'۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے خلاف مدافعتی ردعمل 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔
ماریہ وان نے بتایا کہ 'کچھ افراد میں ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز چند ماہ میں ختم ہونے لگتی ہیں، مگر ایسے اشارے موجود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ بیمار ہونے والے افراد میں مدافعتی ردعمل چند ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے، ابھی وبا کو ایک سال ہی ہوا ہے تو ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے'۔
یاد رہے کہ اگست میں کووڈ 19 سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی تھی۔
ہانگ کانگ کے محققین نے کورونا وائرس سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے مصدقہ کیس کی تصدیق کی۔
اس کے بعد امریکا، نیدرلینڈز اور بیلجیئم میں بھی ایسے کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔
پاکستان میں بھی نومبر میں ایسا پہلا کیس سامنے آیا تھا جب مردان سے تعلق رکھنے والے شہری میں پہلی بیماری کے 4 ماہ بعد دوبارہ کووڈ کی تشخیص ہوئی۔
تمام وائرسز میں تبدیلیاں آتی ہیں اور کورونا وائرس میں بھی ایسا ہوا ہے اور اسپائیک پروٹین میں ایسی ایک تبدیلی آئی، جسے ڈی 614 جی کا نام دیا گیا، جو بظاہر وائرس کو زیادہ متعدی بنانے کا باعث ہے۔
نومبر میں ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں یا میوٹیشن نے اسے انسانی خلیات کو زیادہ آسانی سے متاثر کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 5 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ اس بیماری میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، جس نے اسے ممکنہ طور پر زیادہ متعدی بنایا۔
طبی جریدے جرنل ایم بائیو میں شائع تحقیق میں کورونا کی اس تبدیلی کو ڈی 614 جی کہا گیا ہے، جو اسپائیک پروٹین میں ہوئی جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہیوسٹن کے 71 فیصد مریضوں میں وائرس کی اس قسم کو دریافت کیا گیا تھا جبکہ دوسری لہر میں یہ شرح 99.9 فیصد تک پہنچ گئی۔
یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
جولائی میں 28 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر مبنی ایک تحقیق میں کورونا وائرس کی ان اقسام کو دریافت کیا گیا، جن میں ڈی 614 جی میوٹیشن موجود تھی اور یہ دنیا بھر میں بالادست قسم ہے۔
مگر نومبر کے آخر میں ایک اور تحقیق میں کہا گیا کہ کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں سے اس کی لوگوں کو آسانی سے بیمار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع تحقیق میں 99 ممالک سے حاصل کیے گئے 46 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونس کے نمونوں میں تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
تاہم ان تبدیلیوں سے وائرس کے افعال پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
برطانیہ کی لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ نئے کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کے پھیلاؤ کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
تحقیق میں کورونا وائرس کی اس قسم کا بھی جائزہ لیا گیا جس کے بارے میں متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ وائرس کو زیادہ آسانی سے لوگوں کو بیمار کرنے میں مدد دیتی ہے تاہم تحقیق میں اس خیال کو مسترد کردیا گیا۔
تحقیق کے مطابق درحقیقت کورونا کی یہ قسم ڈی 614 جی سے وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت پر کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ دریافت کیا کہ ڈی 614 جی اس وائرس کو تیزی سے پھیلنے میں مدد نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ قسم وبا کے آغاز میں ابھری تھی اور اب زیادہ تر افراد میں اسے دریافت کیا جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ قسم پھیلاؤ کی رفتار بڑھانے کی بجائے کامیاب ورثے کے باعث توجہ کا مرکز بن گئی۔
کووڈ 19 کے بیشتر مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں، مگر ان میں سے بیشتر کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو 'لانگ کووڈ' کا نام دیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔
مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔
دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔
ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔
تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا کہ 'لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا'۔
محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔
دسمبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھیں اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نئی تیکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
نومبر میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار جوان اور پہلے سے صحت مند افراد کو اس وبائی مرض سے نجات پانے کے 4 ماہ بعد بھی مختلف علامات اور متعدد اعضا میں نقصان کا سامنا کررہا۔
تحقیق میں ان افراد کے اعضا پر کووڈ 19 کے اثرات کا تجزیہ طویل المعیاد بنیاد پر کیا جائے گا، جس کے لیے ایم آر آئی اسکینز، خون کے ٹیسٹ، جسمانی جانچ پڑتال اور آن لائن سوالناموں کی مدد لی جائے گی۔
اولین 200 مریضوں کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ ان میں سے لگ بھگ 70 فیصد افراد کے ایک یا اس سے زیادہ اعضا بشمول دل، پھیپھڑوں، جگر اور لبلے کے افعال ابتدائی بیماری کے 4 ماہ بعد متاثر ہوئے ہیں۔
کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 58 مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے ابتدائی ڈیٹا میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔
تحقیق میں ابتدائی بیماری کے 2 سے 3 ماہ بعد 60 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 60 فیصد خلاف معمول تبدیلیاں سامنے آئیں، 29 فیصد کے گردوں، 26 فیصد کے دل اور 10 فیصد کے جگر کے افعال میں مسائل دیکھے گئے جبکہ دماغی ٹشوز کے حصوں میں بھی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
آسٹریا کے سائنسدانوں نے ستمبر میں دریافت کیا تھا کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔
تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔
12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔
انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا کہ 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔
نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
اوریجنل ارس وائرس اور نئے سارس کوو 2 وائرس میں جینیاتی طور پر کافی فرق ہے، نئے وائرس میں 30 ہزار جینیاتی 'لیٹرز' موجود ہیں اور اسی لیے زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے۔
انسانوں کو کسی کورونا وائرس کا سامنا اس سے متاثرہ کسی جانور کے باعث ہوتا ہے۔
عام طور پر کورونا وائرس کی بیشتر اقسام چمگادڑوں میں پائی جاتی ہیں، مگر وہ انسانوں میں براہ راست ان کو منتقل نہیں کرتیں بلکہ یہ منتقلی کسی اور جانور سے ہوتی ہے۔
اس نئے کورونا وائرس کے ابتدائی کیسز چین کے شہر ووہان کی ایک سی فوڈ مارکیٹ میں رپورٹ ہوئے تھے تاہم بعد میں دنیا بھر میں اس کے پھیلنے سے عندیہ ملتا ہے کہ اس وبا کی کوئی واحد سورس نہیں۔
ابھی تک تعین نہیں کیا جاسکتا کہ وائرس کا اصل ذریعہ کیا تھا بلکہ اب تک تحقیقات کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت کی ایک ٹیم جنوری 2021 میں چین بھی جارہی ہے۔
جب کوئی جراثیم حملہ آور ہوتا ہے، تو اس کو روکنے کے لیے مدافعتی نظام متحرک ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں مختلف پہلو متحرک ہوتے ہیں پہلے قدرتی دفاع حرکت میں آتا ہے اور پھر وہ جنگجو کام شروع کرتے ہیں جو نئے دشمن کی مخصوص عادات کو جانتے ہوئے اہداف کا تعین کرتے ہیں۔
مگر کئی بار مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے، جس کا نقصان جسم کے صحت مند خلیات کو ہوتا ہے اور ایسا کووڈ 19 کے سنگین کیسز میں عام نظر آتا ہے، جن کو ہونے والا نقصان وائرس کی بجائے مدافعتی نظام کا شدید ردعمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔
سارس کوو 2 عجیب خصوصیات کا حامل ہے، جو مدفعتی نظام کے ردعمل میں مداخلت کرسکتا ہے اور خود کو اس طرح چھپا بھی لیتا ہے کہ جسم کے دیگر حصوں کے افعال قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔
جب وائرس پھیپھڑوں میں سفر کررہا ہوتا ہے تو مدافعتی نظام اسے روکنے کے لیے پوری طاقت سے کوشش کررہا ہوتا ہے اور ایک فوج دشمن کا تعاقب کررہی ہوتی ہے۔
اکثر اوقات مدافعتی نظام متاثرہ فرد کے جسم کو زیادہ نقصان نہیں پہنچنے دیتا اور عموماً ایسا اوسطاً ایک ہفتے میں ہوجاتا ہے۔
مگر چونکہ یہ وائرس انسانی جسم کے لیے بالکل نیا ہے تو ہمیشہ یہ لڑائی اتنی سادہ نہیں ہوتی کیونکہ عمر کے ساتھ مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بزرگ افراد میں اس سے سنگین بیماری کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ جو پہلے سے کسی مرض جیسے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر یا دیگر کا شکار ہوتے ہیں، ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے جو وائرس کے خلاف ردعمل کے باوجود جسم کو زیادہ کمزور بنادیتا ہے۔
جب مدافعتی ردعمل دوبارہ خود کو منظم کرتا ہے تو پھر جسم کو نقصان پہنچتا ہے کیونکہ یہ حد سے زیادہ ردعمل صرف وائرس کو ہدف نہیں بناتا بلکہ جسمانی ٹشوز کو بھی نقصان پہنچانے لگتا ہے۔
اگر یہ وائرس بالائی نظام تنفس کے خلیات میں اچھی طرح پھیل جائے تو یہ لوگوں کو زیادہ بیمار کردیتا ہے کیونکہ یہ اس دوران پھیپھڑوں کی گہرائی میں بھی جارہا ہوتا ہے۔
مگر یہ سوچنا غلط ہے کہ کووڈ یہاں رک جاتا ہے۔
کبھی یہ وائرس اعصابی نظام میں داخل ہوکر تباہی مچا دیتا ہے، جس کے نتیجے میں سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کا سب سے پہلے سامنا ہوتا ہے۔
اس بیماری کے نتیجے میں دل کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، گردے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ دماغی صحت کی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ خون گاڑھا ہونے سے لاتعداد ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مسئلہ بھی بہت زیادہ بیمار افراد میں دریافت کیا گیا ہے جو ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
پھر ایک اور معمہ خون میں آکسیجن کی حیران کن کمی ہے۔
جریدے سائنس میگزین میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں خون میں آکسیجن کی سطح انتہائی حد تک گر جاتی ہے مگر پھر بھی وہ ڈاکٹروں سے بات کررہے ہوتے ہیں، اپنے فونز پر اسکرولنگ کرتے ہیں اور خود کو ٹھیک ہی محسوس کرتے ہیں۔
حالانکہ عام حالات میں جسم میں آکسیجن کی اتنی کمی چلنے پھرنے یا بات کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی بلکہ اتنی کمی میں بے ہوشی طاری ہونے یا موت کا خطرہ بھی ہوتا ہے مگر کووڈ 19 کے مریض اتنی کمی کے باوجود ہشاش بشاش اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
عام طور پر خون میں آکسیجن کی سطح 95 فیصد ہوتی ہے اور پھیپھڑوں کے امراض جیسے نمونیا میں اگر اس سطح میں کمی آتی ہے تو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی پھیپھڑوں میں پانی بھرنے لگتا ہے یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسے ہیپی یا سائیلنٹ ہائپوکسیا کا نام دیا گیا کیونکہ کووڈ 19 کے مریضوں میں 95 فیصد کی بجائے 80، 70 بلکہ 50 فیصد کمی بھی دیکھی گئی ہے۔
مگر یہ تو سنگین کیسز کی بات ہے، اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے بیشتر افراد کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے بعد اتنی جلد اور آسانی سے صحتیاب ہوجاتے ہیں کہ دیگر کے لیے اس بیماری کو سنجیدہ لینا مشکل ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب بھی دنیا بھر میں متعدد افراد کووڈ 19 کو افواہ سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں اور کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔
کورونا وائرس کا ایک اور پہلو بھی ماہرین کے لیے معمہ بنا ہوا ہے کہ لوگوں میں ایک بار کے بعد دوبارہ اس کے پھیلاؤ کا امکان ہوتا ہے یا نہیں، اگر ان کو تحفظ ملتا ہے تو اس کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے۔
اس کے بارے میں دسمبر 2020 میں عالمی ادارہ صحت کے حکام نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد دوبارہ بھی کووڈ 19 کا شکار ہوسکتے ہیں، جس کی وجہ اینٹی باڈی ردعمل میں کمی آنا ہے۔
عالمی ادارے کے عہدیداران نے یہ بیان حالیہ ڈیٹا کو بنیاد بناتے ہوئے دیا۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان نے ایک پریس بریفننگ کے دوران کہا کہ 'ہم نے ایسے ڈیٹا کو دیکھا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ایک بار بیمار ہونے کے بعد اس بیماری کے خلاف تحفظ زندگی بھر کے لیے نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے دوبارہ بیماری کے کیسز کو دیکھا'۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنگ ڈیزیز و زونیسز کی سربراہ ماریہ وان کرکوف نے اس حوالے سے بتایا کہ محققین کی جانب سے تاحال تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اینٹی باڈی تحفظ پہلی بیماری کے بعد کب تک برقرار رہ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم اب تک جو سمجھ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر 90 سے سو فیصد افراد میں اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے، چاہے بیماری کی شدت معمولی ہو، علامات نمودار نہ ہو یا اس کی شدت سنگین ہو'۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے خلاف مدافعتی ردعمل 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔
ماریہ وان نے بتایا کہ 'کچھ افراد میں ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز چند ماہ میں ختم ہونے لگتی ہیں، مگر ایسے اشارے موجود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ بیمار ہونے والے افراد میں مدافعتی ردعمل چند ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے، ابھی وبا کو ایک سال ہی ہوا ہے تو ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے'۔
یاد رہے کہ اگست میں کووڈ 19 سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی تھی۔
ہانگ کانگ کے محققین نے کورونا وائرس سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے مصدقہ کیس کی تصدیق کی۔
اس کے بعد امریکا، نیدرلینڈز اور بیلجیئم میں بھی ایسے کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔
پاکستان میں بھی نومبر میں ایسا پہلا کیس سامنے آیا تھا جب مردان سے تعلق رکھنے والے شہری میں پہلی بیماری کے 4 ماہ بعد دوبارہ کووڈ کی تشخیص ہوئی۔
تمام وائرسز میں تبدیلیاں آتی ہیں اور کورونا وائرس میں بھی ایسا ہوا ہے اور اسپائیک پروٹین میں ایسی ایک تبدیلی آئی، جسے ڈی 614 جی کا نام دیا گیا، جو بظاہر وائرس کو زیادہ متعدی بنانے کا باعث ہے۔
نومبر میں ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں یا میوٹیشن نے اسے انسانی خلیات کو زیادہ آسانی سے متاثر کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 5 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ اس بیماری میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، جس نے اسے ممکنہ طور پر زیادہ متعدی بنایا۔
طبی جریدے جرنل ایم بائیو میں شائع تحقیق میں کورونا کی اس تبدیلی کو ڈی 614 جی کہا گیا ہے، جو اسپائیک پروٹین میں ہوئی جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہیوسٹن کے 71 فیصد مریضوں میں وائرس کی اس قسم کو دریافت کیا گیا تھا جبکہ دوسری لہر میں یہ شرح 99.9 فیصد تک پہنچ گئی۔
یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
جولائی میں 28 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر مبنی ایک تحقیق میں کورونا وائرس کی ان اقسام کو دریافت کیا گیا، جن میں ڈی 614 جی میوٹیشن موجود تھی اور یہ دنیا بھر میں بالادست قسم ہے۔
مگر نومبر کے آخر میں ایک اور تحقیق میں کہا گیا کہ کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں سے اس کی لوگوں کو آسانی سے بیمار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع تحقیق میں 99 ممالک سے حاصل کیے گئے 46 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونس کے نمونوں میں تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
تاہم ان تبدیلیوں سے وائرس کے افعال پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
برطانیہ کی لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ نئے کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کے پھیلاؤ کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
تحقیق میں کورونا وائرس کی اس قسم کا بھی جائزہ لیا گیا جس کے بارے میں متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ وائرس کو زیادہ آسانی سے لوگوں کو بیمار کرنے میں مدد دیتی ہے تاہم تحقیق میں اس خیال کو مسترد کردیا گیا۔
تحقیق کے مطابق درحقیقت کورونا کی یہ قسم ڈی 614 جی سے وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت پر کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ دریافت کیا کہ ڈی 614 جی اس وائرس کو تیزی سے پھیلنے میں مدد نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ قسم وبا کے آغاز میں ابھری تھی اور اب زیادہ تر افراد میں اسے دریافت کیا جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ قسم پھیلاؤ کی رفتار بڑھانے کی بجائے کامیاب ورثے کے باعث توجہ کا مرکز بن گئی۔
کووڈ 19 کے بیشتر مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں، مگر ان میں سے بیشتر کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو 'لانگ کووڈ' کا نام دیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔
مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔
دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔
ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔
تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا کہ 'لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا'۔
محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔
دسمبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھیں اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نئی تیکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
نومبر میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار جوان اور پہلے سے صحت مند افراد کو اس وبائی مرض سے نجات پانے کے 4 ماہ بعد بھی مختلف علامات اور متعدد اعضا میں نقصان کا سامنا کررہا۔
تحقیق میں ان افراد کے اعضا پر کووڈ 19 کے اثرات کا تجزیہ طویل المعیاد بنیاد پر کیا جائے گا، جس کے لیے ایم آر آئی اسکینز، خون کے ٹیسٹ، جسمانی جانچ پڑتال اور آن لائن سوالناموں کی مدد لی جائے گی۔
اولین 200 مریضوں کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ ان میں سے لگ بھگ 70 فیصد افراد کے ایک یا اس سے زیادہ اعضا بشمول دل، پھیپھڑوں، جگر اور لبلے کے افعال ابتدائی بیماری کے 4 ماہ بعد متاثر ہوئے ہیں۔
کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 58 مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے ابتدائی ڈیٹا میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔
تحقیق میں ابتدائی بیماری کے 2 سے 3 ماہ بعد 60 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 60 فیصد خلاف معمول تبدیلیاں سامنے آئیں، 29 فیصد کے گردوں، 26 فیصد کے دل اور 10 فیصد کے جگر کے افعال میں مسائل دیکھے گئے جبکہ دماغی ٹشوز کے حصوں میں بھی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
آسٹریا کے سائنسدانوں نے ستمبر میں دریافت کیا تھا کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔
تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔
12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔
انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا کہ 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔
نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
جب کوئی جراثیم حملہ آور ہوتا ہے، تو اس کو روکنے کے لیے مدافعتی نظام متحرک ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں مختلف پہلو متحرک ہوتے ہیں پہلے قدرتی دفاع حرکت میں آتا ہے اور پھر وہ جنگجو کام شروع کرتے ہیں جو نئے دشمن کی مخصوص عادات کو جانتے ہوئے اہداف کا تعین کرتے ہیں۔
مگر کئی بار مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے، جس کا نقصان جسم کے صحت مند خلیات کو ہوتا ہے اور ایسا کووڈ 19 کے سنگین کیسز میں عام نظر آتا ہے، جن کو ہونے والا نقصان وائرس کی بجائے مدافعتی نظام کا شدید ردعمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔
سارس کوو 2 عجیب خصوصیات کا حامل ہے، جو مدفعتی نظام کے ردعمل میں مداخلت کرسکتا ہے اور خود کو اس طرح چھپا بھی لیتا ہے کہ جسم کے دیگر حصوں کے افعال قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔
جب وائرس پھیپھڑوں میں سفر کررہا ہوتا ہے تو مدافعتی نظام اسے روکنے کے لیے پوری طاقت سے کوشش کررہا ہوتا ہے اور ایک فوج دشمن کا تعاقب کررہی ہوتی ہے۔
اکثر اوقات مدافعتی نظام متاثرہ فرد کے جسم کو زیادہ نقصان نہیں پہنچنے دیتا اور عموماً ایسا اوسطاً ایک ہفتے میں ہوجاتا ہے۔
مگر چونکہ یہ وائرس انسانی جسم کے لیے بالکل نیا ہے تو ہمیشہ یہ لڑائی اتنی سادہ نہیں ہوتی کیونکہ عمر کے ساتھ مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بزرگ افراد میں اس سے سنگین بیماری کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ جو پہلے سے کسی مرض جیسے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر یا دیگر کا شکار ہوتے ہیں، ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے جو وائرس کے خلاف ردعمل کے باوجود جسم کو زیادہ کمزور بنادیتا ہے۔
جب مدافعتی ردعمل دوبارہ خود کو منظم کرتا ہے تو پھر جسم کو نقصان پہنچتا ہے کیونکہ یہ حد سے زیادہ ردعمل صرف وائرس کو ہدف نہیں بناتا بلکہ جسمانی ٹشوز کو بھی نقصان پہنچانے لگتا ہے۔
اگر یہ وائرس بالائی نظام تنفس کے خلیات میں اچھی طرح پھیل جائے تو یہ لوگوں کو زیادہ بیمار کردیتا ہے کیونکہ یہ اس دوران پھیپھڑوں کی گہرائی میں بھی جارہا ہوتا ہے۔
مگر یہ سوچنا غلط ہے کہ کووڈ یہاں رک جاتا ہے۔
کبھی یہ وائرس اعصابی نظام میں داخل ہوکر تباہی مچا دیتا ہے، جس کے نتیجے میں سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کا سب سے پہلے سامنا ہوتا ہے۔
اس بیماری کے نتیجے میں دل کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، گردے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ دماغی صحت کی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ خون گاڑھا ہونے سے لاتعداد ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مسئلہ بھی بہت زیادہ بیمار افراد میں دریافت کیا گیا ہے جو ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
پھر ایک اور معمہ خون میں آکسیجن کی حیران کن کمی ہے۔
جریدے سائنس میگزین میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں خون میں آکسیجن کی سطح انتہائی حد تک گر جاتی ہے مگر پھر بھی وہ ڈاکٹروں سے بات کررہے ہوتے ہیں، اپنے فونز پر اسکرولنگ کرتے ہیں اور خود کو ٹھیک ہی محسوس کرتے ہیں۔
حالانکہ عام حالات میں جسم میں آکسیجن کی اتنی کمی چلنے پھرنے یا بات کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی بلکہ اتنی کمی میں بے ہوشی طاری ہونے یا موت کا خطرہ بھی ہوتا ہے مگر کووڈ 19 کے مریض اتنی کمی کے باوجود ہشاش بشاش اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
عام طور پر خون میں آکسیجن کی سطح 95 فیصد ہوتی ہے اور پھیپھڑوں کے امراض جیسے نمونیا میں اگر اس سطح میں کمی آتی ہے تو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی پھیپھڑوں میں پانی بھرنے لگتا ہے یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسے ہیپی یا سائیلنٹ ہائپوکسیا کا نام دیا گیا کیونکہ کووڈ 19 کے مریضوں میں 95 فیصد کی بجائے 80، 70 بلکہ 50 فیصد کمی بھی دیکھی گئی ہے۔
مگر یہ تو سنگین کیسز کی بات ہے، اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے بیشتر افراد کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے بعد اتنی جلد اور آسانی سے صحتیاب ہوجاتے ہیں کہ دیگر کے لیے اس بیماری کو سنجیدہ لینا مشکل ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب بھی دنیا بھر میں متعدد افراد کووڈ 19 کو افواہ سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں اور کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔
کورونا وائرس کا ایک اور پہلو بھی ماہرین کے لیے معمہ بنا ہوا ہے کہ لوگوں میں ایک بار کے بعد دوبارہ اس کے پھیلاؤ کا امکان ہوتا ہے یا نہیں، اگر ان کو تحفظ ملتا ہے تو اس کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے۔
اس کے بارے میں دسمبر 2020 میں عالمی ادارہ صحت کے حکام نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد دوبارہ بھی کووڈ 19 کا شکار ہوسکتے ہیں، جس کی وجہ اینٹی باڈی ردعمل میں کمی آنا ہے۔
عالمی ادارے کے عہدیداران نے یہ بیان حالیہ ڈیٹا کو بنیاد بناتے ہوئے دیا۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان نے ایک پریس بریفننگ کے دوران کہا کہ 'ہم نے ایسے ڈیٹا کو دیکھا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ایک بار بیمار ہونے کے بعد اس بیماری کے خلاف تحفظ زندگی بھر کے لیے نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے دوبارہ بیماری کے کیسز کو دیکھا'۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنگ ڈیزیز و زونیسز کی سربراہ ماریہ وان کرکوف نے اس حوالے سے بتایا کہ محققین کی جانب سے تاحال تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اینٹی باڈی تحفظ پہلی بیماری کے بعد کب تک برقرار رہ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم اب تک جو سمجھ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر 90 سے سو فیصد افراد میں اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے، چاہے بیماری کی شدت معمولی ہو، علامات نمودار نہ ہو یا اس کی شدت سنگین ہو'۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے خلاف مدافعتی ردعمل 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔
ماریہ وان نے بتایا کہ 'کچھ افراد میں ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز چند ماہ میں ختم ہونے لگتی ہیں، مگر ایسے اشارے موجود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ بیمار ہونے والے افراد میں مدافعتی ردعمل چند ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے، ابھی وبا کو ایک سال ہی ہوا ہے تو ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے'۔
یاد رہے کہ اگست میں کووڈ 19 سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی تھی۔
ہانگ کانگ کے محققین نے کورونا وائرس سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے مصدقہ کیس کی تصدیق کی۔
اس کے بعد امریکا، نیدرلینڈز اور بیلجیئم میں بھی ایسے کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔
پاکستان میں بھی نومبر میں ایسا پہلا کیس سامنے آیا تھا جب مردان سے تعلق رکھنے والے شہری میں پہلی بیماری کے 4 ماہ بعد دوبارہ کووڈ کی تشخیص ہوئی۔
تمام وائرسز میں تبدیلیاں آتی ہیں اور کورونا وائرس میں بھی ایسا ہوا ہے اور اسپائیک پروٹین میں ایسی ایک تبدیلی آئی، جسے ڈی 614 جی کا نام دیا گیا، جو بظاہر وائرس کو زیادہ متعدی بنانے کا باعث ہے۔
نومبر میں ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں یا میوٹیشن نے اسے انسانی خلیات کو زیادہ آسانی سے متاثر کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 5 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ اس بیماری میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، جس نے اسے ممکنہ طور پر زیادہ متعدی بنایا۔
طبی جریدے جرنل ایم بائیو میں شائع تحقیق میں کورونا کی اس تبدیلی کو ڈی 614 جی کہا گیا ہے، جو اسپائیک پروٹین میں ہوئی جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہیوسٹن کے 71 فیصد مریضوں میں وائرس کی اس قسم کو دریافت کیا گیا تھا جبکہ دوسری لہر میں یہ شرح 99.9 فیصد تک پہنچ گئی۔
یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
جولائی میں 28 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر مبنی ایک تحقیق میں کورونا وائرس کی ان اقسام کو دریافت کیا گیا، جن میں ڈی 614 جی میوٹیشن موجود تھی اور یہ دنیا بھر میں بالادست قسم ہے۔
مگر نومبر کے آخر میں ایک اور تحقیق میں کہا گیا کہ کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں سے اس کی لوگوں کو آسانی سے بیمار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع تحقیق میں 99 ممالک سے حاصل کیے گئے 46 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونس کے نمونوں میں تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
تاہم ان تبدیلیوں سے وائرس کے افعال پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
برطانیہ کی لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ نئے کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کے پھیلاؤ کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
تحقیق میں کورونا وائرس کی اس قسم کا بھی جائزہ لیا گیا جس کے بارے میں متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ وائرس کو زیادہ آسانی سے لوگوں کو بیمار کرنے میں مدد دیتی ہے تاہم تحقیق میں اس خیال کو مسترد کردیا گیا۔
تحقیق کے مطابق درحقیقت کورونا کی یہ قسم ڈی 614 جی سے وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت پر کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ دریافت کیا کہ ڈی 614 جی اس وائرس کو تیزی سے پھیلنے میں مدد نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ قسم وبا کے آغاز میں ابھری تھی اور اب زیادہ تر افراد میں اسے دریافت کیا جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ قسم پھیلاؤ کی رفتار بڑھانے کی بجائے کامیاب ورثے کے باعث توجہ کا مرکز بن گئی۔
کووڈ 19 کے بیشتر مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں، مگر ان میں سے بیشتر کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو 'لانگ کووڈ' کا نام دیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔
مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔
دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔
ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔
تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا کہ 'لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا'۔
محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔
دسمبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھیں اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نئی تیکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
نومبر میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار جوان اور پہلے سے صحت مند افراد کو اس وبائی مرض سے نجات پانے کے 4 ماہ بعد بھی مختلف علامات اور متعدد اعضا میں نقصان کا سامنا کررہا۔
تحقیق میں ان افراد کے اعضا پر کووڈ 19 کے اثرات کا تجزیہ طویل المعیاد بنیاد پر کیا جائے گا، جس کے لیے ایم آر آئی اسکینز، خون کے ٹیسٹ، جسمانی جانچ پڑتال اور آن لائن سوالناموں کی مدد لی جائے گی۔
اولین 200 مریضوں کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ ان میں سے لگ بھگ 70 فیصد افراد کے ایک یا اس سے زیادہ اعضا بشمول دل، پھیپھڑوں، جگر اور لبلے کے افعال ابتدائی بیماری کے 4 ماہ بعد متاثر ہوئے ہیں۔
کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 58 مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے ابتدائی ڈیٹا میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔
تحقیق میں ابتدائی بیماری کے 2 سے 3 ماہ بعد 60 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 60 فیصد خلاف معمول تبدیلیاں سامنے آئیں، 29 فیصد کے گردوں، 26 فیصد کے دل اور 10 فیصد کے جگر کے افعال میں مسائل دیکھے گئے جبکہ دماغی ٹشوز کے حصوں میں بھی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
آسٹریا کے سائنسدانوں نے ستمبر میں دریافت کیا تھا کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔
تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔
12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔
انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا کہ 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔
نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
جب کوئی جراثیم حملہ آور ہوتا ہے، تو اس کو روکنے کے لیے مدافعتی نظام متحرک ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں مختلف پہلو متحرک ہوتے ہیں پہلے قدرتی دفاع حرکت میں آتا ہے اور پھر وہ جنگجو کام شروع کرتے ہیں جو نئے دشمن کی مخصوص عادات کو جانتے ہوئے اہداف کا تعین کرتے ہیں۔
مگر کئی بار مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے، جس کا نقصان جسم کے صحت مند خلیات کو ہوتا ہے اور ایسا کووڈ 19 کے سنگین کیسز میں عام نظر آتا ہے، جن کو ہونے والا نقصان وائرس کی بجائے مدافعتی نظام کا شدید ردعمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔
سارس کوو 2 عجیب خصوصیات کا حامل ہے، جو مدفعتی نظام کے ردعمل میں مداخلت کرسکتا ہے اور خود کو اس طرح چھپا بھی لیتا ہے کہ جسم کے دیگر حصوں کے افعال قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔
جب وائرس پھیپھڑوں میں سفر کررہا ہوتا ہے تو مدافعتی نظام اسے روکنے کے لیے پوری طاقت سے کوشش کررہا ہوتا ہے اور ایک فوج دشمن کا تعاقب کررہی ہوتی ہے۔
اکثر اوقات مدافعتی نظام متاثرہ فرد کے جسم کو زیادہ نقصان نہیں پہنچنے دیتا اور عموماً ایسا اوسطاً ایک ہفتے میں ہوجاتا ہے۔
مگر چونکہ یہ وائرس انسانی جسم کے لیے بالکل نیا ہے تو ہمیشہ یہ لڑائی اتنی سادہ نہیں ہوتی کیونکہ عمر کے ساتھ مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بزرگ افراد میں اس سے سنگین بیماری کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ جو پہلے سے کسی مرض جیسے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر یا دیگر کا شکار ہوتے ہیں، ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے جو وائرس کے خلاف ردعمل کے باوجود جسم کو زیادہ کمزور بنادیتا ہے۔
جب مدافعتی ردعمل دوبارہ خود کو منظم کرتا ہے تو پھر جسم کو نقصان پہنچتا ہے کیونکہ یہ حد سے زیادہ ردعمل صرف وائرس کو ہدف نہیں بناتا بلکہ جسمانی ٹشوز کو بھی نقصان پہنچانے لگتا ہے۔
اگر یہ وائرس بالائی نظام تنفس کے خلیات میں اچھی طرح پھیل جائے تو یہ لوگوں کو زیادہ بیمار کردیتا ہے کیونکہ یہ اس دوران پھیپھڑوں کی گہرائی میں بھی جارہا ہوتا ہے۔
مگر یہ سوچنا غلط ہے کہ کووڈ یہاں رک جاتا ہے۔
کبھی یہ وائرس اعصابی نظام میں داخل ہوکر تباہی مچا دیتا ہے، جس کے نتیجے میں سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کا سب سے پہلے سامنا ہوتا ہے۔
اس بیماری کے نتیجے میں دل کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، گردے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ دماغی صحت کی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ خون گاڑھا ہونے سے لاتعداد ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مسئلہ بھی بہت زیادہ بیمار افراد میں دریافت کیا گیا ہے جو ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
پھر ایک اور معمہ خون میں آکسیجن کی حیران کن کمی ہے۔
جریدے سائنس میگزین میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں خون میں آکسیجن کی سطح انتہائی حد تک گر جاتی ہے مگر پھر بھی وہ ڈاکٹروں سے بات کررہے ہوتے ہیں، اپنے فونز پر اسکرولنگ کرتے ہیں اور خود کو ٹھیک ہی محسوس کرتے ہیں۔
حالانکہ عام حالات میں جسم میں آکسیجن کی اتنی کمی چلنے پھرنے یا بات کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی بلکہ اتنی کمی میں بے ہوشی طاری ہونے یا موت کا خطرہ بھی ہوتا ہے مگر کووڈ 19 کے مریض اتنی کمی کے باوجود ہشاش بشاش اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
عام طور پر خون میں آکسیجن کی سطح 95 فیصد ہوتی ہے اور پھیپھڑوں کے امراض جیسے نمونیا میں اگر اس سطح میں کمی آتی ہے تو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی پھیپھڑوں میں پانی بھرنے لگتا ہے یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسے ہیپی یا سائیلنٹ ہائپوکسیا کا نام دیا گیا کیونکہ کووڈ 19 کے مریضوں میں 95 فیصد کی بجائے 80، 70 بلکہ 50 فیصد کمی بھی دیکھی گئی ہے۔
مگر یہ تو سنگین کیسز کی بات ہے، اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے بیشتر افراد کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے بعد اتنی جلد اور آسانی سے صحتیاب ہوجاتے ہیں کہ دیگر کے لیے اس بیماری کو سنجیدہ لینا مشکل ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب بھی دنیا بھر میں متعدد افراد کووڈ 19 کو افواہ سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں اور کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔
کورونا وائرس کا ایک اور پہلو بھی ماہرین کے لیے معمہ بنا ہوا ہے کہ لوگوں میں ایک بار کے بعد دوبارہ اس کے پھیلاؤ کا امکان ہوتا ہے یا نہیں، اگر ان کو تحفظ ملتا ہے تو اس کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے۔
اس کے بارے میں دسمبر 2020 میں عالمی ادارہ صحت کے حکام نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد دوبارہ بھی کووڈ 19 کا شکار ہوسکتے ہیں، جس کی وجہ اینٹی باڈی ردعمل میں کمی آنا ہے۔
عالمی ادارے کے عہدیداران نے یہ بیان حالیہ ڈیٹا کو بنیاد بناتے ہوئے دیا۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان نے ایک پریس بریفننگ کے دوران کہا کہ 'ہم نے ایسے ڈیٹا کو دیکھا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ایک بار بیمار ہونے کے بعد اس بیماری کے خلاف تحفظ زندگی بھر کے لیے نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے دوبارہ بیماری کے کیسز کو دیکھا'۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنگ ڈیزیز و زونیسز کی سربراہ ماریہ وان کرکوف نے اس حوالے سے بتایا کہ محققین کی جانب سے تاحال تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اینٹی باڈی تحفظ پہلی بیماری کے بعد کب تک برقرار رہ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم اب تک جو سمجھ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر 90 سے سو فیصد افراد میں اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے، چاہے بیماری کی شدت معمولی ہو، علامات نمودار نہ ہو یا اس کی شدت سنگین ہو'۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے خلاف مدافعتی ردعمل 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔
ماریہ وان نے بتایا کہ 'کچھ افراد میں ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز چند ماہ میں ختم ہونے لگتی ہیں، مگر ایسے اشارے موجود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ بیمار ہونے والے افراد میں مدافعتی ردعمل چند ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے، ابھی وبا کو ایک سال ہی ہوا ہے تو ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے'۔
یاد رہے کہ اگست میں کووڈ 19 سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی تھی۔
ہانگ کانگ کے محققین نے کورونا وائرس سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے مصدقہ کیس کی تصدیق کی۔
اس کے بعد امریکا، نیدرلینڈز اور بیلجیئم میں بھی ایسے کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔
پاکستان میں بھی نومبر میں ایسا پہلا کیس سامنے آیا تھا جب مردان سے تعلق رکھنے والے شہری میں پہلی بیماری کے 4 ماہ بعد دوبارہ کووڈ کی تشخیص ہوئی۔
تمام وائرسز میں تبدیلیاں آتی ہیں اور کورونا وائرس میں بھی ایسا ہوا ہے اور اسپائیک پروٹین میں ایسی ایک تبدیلی آئی، جسے ڈی 614 جی کا نام دیا گیا، جو بظاہر وائرس کو زیادہ متعدی بنانے کا باعث ہے۔
نومبر میں ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں یا میوٹیشن نے اسے انسانی خلیات کو زیادہ آسانی سے متاثر کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 5 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ اس بیماری میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، جس نے اسے ممکنہ طور پر زیادہ متعدی بنایا۔
طبی جریدے جرنل ایم بائیو میں شائع تحقیق میں کورونا کی اس تبدیلی کو ڈی 614 جی کہا گیا ہے، جو اسپائیک پروٹین میں ہوئی جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہیوسٹن کے 71 فیصد مریضوں میں وائرس کی اس قسم کو دریافت کیا گیا تھا جبکہ دوسری لہر میں یہ شرح 99.9 فیصد تک پہنچ گئی۔
یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
جولائی میں 28 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر مبنی ایک تحقیق میں کورونا وائرس کی ان اقسام کو دریافت کیا گیا، جن میں ڈی 614 جی میوٹیشن موجود تھی اور یہ دنیا بھر میں بالادست قسم ہے۔
مگر نومبر کے آخر میں ایک اور تحقیق میں کہا گیا کہ کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں سے اس کی لوگوں کو آسانی سے بیمار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع تحقیق میں 99 ممالک سے حاصل کیے گئے 46 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونس کے نمونوں میں تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
تاہم ان تبدیلیوں سے وائرس کے افعال پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
برطانیہ کی لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ نئے کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کے پھیلاؤ کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
تحقیق میں کورونا وائرس کی اس قسم کا بھی جائزہ لیا گیا جس کے بارے میں متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ وائرس کو زیادہ آسانی سے لوگوں کو بیمار کرنے میں مدد دیتی ہے تاہم تحقیق میں اس خیال کو مسترد کردیا گیا۔
تحقیق کے مطابق درحقیقت کورونا کی یہ قسم ڈی 614 جی سے وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت پر کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ دریافت کیا کہ ڈی 614 جی اس وائرس کو تیزی سے پھیلنے میں مدد نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ قسم وبا کے آغاز میں ابھری تھی اور اب زیادہ تر افراد میں اسے دریافت کیا جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ قسم پھیلاؤ کی رفتار بڑھانے کی بجائے کامیاب ورثے کے باعث توجہ کا مرکز بن گئی۔
کووڈ 19 کے بیشتر مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں، مگر ان میں سے بیشتر کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو 'لانگ کووڈ' کا نام دیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔
مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔
دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔
ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔
تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا کہ 'لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا'۔
محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔
دسمبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھیں اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نئی تیکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
نومبر میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار جوان اور پہلے سے صحت مند افراد کو اس وبائی مرض سے نجات پانے کے 4 ماہ بعد بھی مختلف علامات اور متعدد اعضا میں نقصان کا سامنا کررہا۔
تحقیق میں ان افراد کے اعضا پر کووڈ 19 کے اثرات کا تجزیہ طویل المعیاد بنیاد پر کیا جائے گا، جس کے لیے ایم آر آئی اسکینز، خون کے ٹیسٹ، جسمانی جانچ پڑتال اور آن لائن سوالناموں کی مدد لی جائے گی۔
اولین 200 مریضوں کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ ان میں سے لگ بھگ 70 فیصد افراد کے ایک یا اس سے زیادہ اعضا بشمول دل، پھیپھڑوں، جگر اور لبلے کے افعال ابتدائی بیماری کے 4 ماہ بعد متاثر ہوئے ہیں۔
کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 58 مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے ابتدائی ڈیٹا میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔
تحقیق میں ابتدائی بیماری کے 2 سے 3 ماہ بعد 60 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 60 فیصد خلاف معمول تبدیلیاں سامنے آئیں، 29 فیصد کے گردوں، 26 فیصد کے دل اور 10 فیصد کے جگر کے افعال میں مسائل دیکھے گئے جبکہ دماغی ٹشوز کے حصوں میں بھی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
آسٹریا کے سائنسدانوں نے ستمبر میں دریافت کیا تھا کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔
تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔
12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔
انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا کہ 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔
نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
اگر یہ وائرس بالائی نظام تنفس کے خلیات میں اچھی طرح پھیل جائے تو یہ لوگوں کو زیادہ بیمار کردیتا ہے کیونکہ یہ اس دوران پھیپھڑوں کی گہرائی میں بھی جارہا ہوتا ہے۔
مگر یہ سوچنا غلط ہے کہ کووڈ یہاں رک جاتا ہے۔
کبھی یہ وائرس اعصابی نظام میں داخل ہوکر تباہی مچا دیتا ہے، جس کے نتیجے میں سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کا سب سے پہلے سامنا ہوتا ہے۔
اس بیماری کے نتیجے میں دل کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، گردے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ دماغی صحت کی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ خون گاڑھا ہونے سے لاتعداد ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مسئلہ بھی بہت زیادہ بیمار افراد میں دریافت کیا گیا ہے جو ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
پھر ایک اور معمہ خون میں آکسیجن کی حیران کن کمی ہے۔
جریدے سائنس میگزین میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں خون میں آکسیجن کی سطح انتہائی حد تک گر جاتی ہے مگر پھر بھی وہ ڈاکٹروں سے بات کررہے ہوتے ہیں، اپنے فونز پر اسکرولنگ کرتے ہیں اور خود کو ٹھیک ہی محسوس کرتے ہیں۔
حالانکہ عام حالات میں جسم میں آکسیجن کی اتنی کمی چلنے پھرنے یا بات کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی بلکہ اتنی کمی میں بے ہوشی طاری ہونے یا موت کا خطرہ بھی ہوتا ہے مگر کووڈ 19 کے مریض اتنی کمی کے باوجود ہشاش بشاش اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
عام طور پر خون میں آکسیجن کی سطح 95 فیصد ہوتی ہے اور پھیپھڑوں کے امراض جیسے نمونیا میں اگر اس سطح میں کمی آتی ہے تو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی پھیپھڑوں میں پانی بھرنے لگتا ہے یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسے ہیپی یا سائیلنٹ ہائپوکسیا کا نام دیا گیا کیونکہ کووڈ 19 کے مریضوں میں 95 فیصد کی بجائے 80، 70 بلکہ 50 فیصد کمی بھی دیکھی گئی ہے۔
مگر یہ تو سنگین کیسز کی بات ہے، اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے بیشتر افراد کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے بعد اتنی جلد اور آسانی سے صحتیاب ہوجاتے ہیں کہ دیگر کے لیے اس بیماری کو سنجیدہ لینا مشکل ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب بھی دنیا بھر میں متعدد افراد کووڈ 19 کو افواہ سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں اور کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔
کورونا وائرس کا ایک اور پہلو بھی ماہرین کے لیے معمہ بنا ہوا ہے کہ لوگوں میں ایک بار کے بعد دوبارہ اس کے پھیلاؤ کا امکان ہوتا ہے یا نہیں، اگر ان کو تحفظ ملتا ہے تو اس کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے۔
اس کے بارے میں دسمبر 2020 میں عالمی ادارہ صحت کے حکام نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد دوبارہ بھی کووڈ 19 کا شکار ہوسکتے ہیں، جس کی وجہ اینٹی باڈی ردعمل میں کمی آنا ہے۔
عالمی ادارے کے عہدیداران نے یہ بیان حالیہ ڈیٹا کو بنیاد بناتے ہوئے دیا۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان نے ایک پریس بریفننگ کے دوران کہا کہ 'ہم نے ایسے ڈیٹا کو دیکھا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ایک بار بیمار ہونے کے بعد اس بیماری کے خلاف تحفظ زندگی بھر کے لیے نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے دوبارہ بیماری کے کیسز کو دیکھا'۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنگ ڈیزیز و زونیسز کی سربراہ ماریہ وان کرکوف نے اس حوالے سے بتایا کہ محققین کی جانب سے تاحال تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اینٹی باڈی تحفظ پہلی بیماری کے بعد کب تک برقرار رہ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم اب تک جو سمجھ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر 90 سے سو فیصد افراد میں اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے، چاہے بیماری کی شدت معمولی ہو، علامات نمودار نہ ہو یا اس کی شدت سنگین ہو'۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے خلاف مدافعتی ردعمل 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔
ماریہ وان نے بتایا کہ 'کچھ افراد میں ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز چند ماہ میں ختم ہونے لگتی ہیں، مگر ایسے اشارے موجود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ بیمار ہونے والے افراد میں مدافعتی ردعمل چند ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے، ابھی وبا کو ایک سال ہی ہوا ہے تو ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے'۔
یاد رہے کہ اگست میں کووڈ 19 سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی تھی۔
ہانگ کانگ کے محققین نے کورونا وائرس سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے مصدقہ کیس کی تصدیق کی۔
اس کے بعد امریکا، نیدرلینڈز اور بیلجیئم میں بھی ایسے کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔
پاکستان میں بھی نومبر میں ایسا پہلا کیس سامنے آیا تھا جب مردان سے تعلق رکھنے والے شہری میں پہلی بیماری کے 4 ماہ بعد دوبارہ کووڈ کی تشخیص ہوئی۔
تمام وائرسز میں تبدیلیاں آتی ہیں اور کورونا وائرس میں بھی ایسا ہوا ہے اور اسپائیک پروٹین میں ایسی ایک تبدیلی آئی، جسے ڈی 614 جی کا نام دیا گیا، جو بظاہر وائرس کو زیادہ متعدی بنانے کا باعث ہے۔
نومبر میں ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں یا میوٹیشن نے اسے انسانی خلیات کو زیادہ آسانی سے متاثر کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 5 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ اس بیماری میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، جس نے اسے ممکنہ طور پر زیادہ متعدی بنایا۔
طبی جریدے جرنل ایم بائیو میں شائع تحقیق میں کورونا کی اس تبدیلی کو ڈی 614 جی کہا گیا ہے، جو اسپائیک پروٹین میں ہوئی جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہیوسٹن کے 71 فیصد مریضوں میں وائرس کی اس قسم کو دریافت کیا گیا تھا جبکہ دوسری لہر میں یہ شرح 99.9 فیصد تک پہنچ گئی۔
یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
جولائی میں 28 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر مبنی ایک تحقیق میں کورونا وائرس کی ان اقسام کو دریافت کیا گیا، جن میں ڈی 614 جی میوٹیشن موجود تھی اور یہ دنیا بھر میں بالادست قسم ہے۔
مگر نومبر کے آخر میں ایک اور تحقیق میں کہا گیا کہ کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں سے اس کی لوگوں کو آسانی سے بیمار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع تحقیق میں 99 ممالک سے حاصل کیے گئے 46 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونس کے نمونوں میں تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
تاہم ان تبدیلیوں سے وائرس کے افعال پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
برطانیہ کی لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ نئے کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کے پھیلاؤ کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
تحقیق میں کورونا وائرس کی اس قسم کا بھی جائزہ لیا گیا جس کے بارے میں متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ وائرس کو زیادہ آسانی سے لوگوں کو بیمار کرنے میں مدد دیتی ہے تاہم تحقیق میں اس خیال کو مسترد کردیا گیا۔
تحقیق کے مطابق درحقیقت کورونا کی یہ قسم ڈی 614 جی سے وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت پر کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ دریافت کیا کہ ڈی 614 جی اس وائرس کو تیزی سے پھیلنے میں مدد نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ قسم وبا کے آغاز میں ابھری تھی اور اب زیادہ تر افراد میں اسے دریافت کیا جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ قسم پھیلاؤ کی رفتار بڑھانے کی بجائے کامیاب ورثے کے باعث توجہ کا مرکز بن گئی۔
کووڈ 19 کے بیشتر مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں، مگر ان میں سے بیشتر کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو 'لانگ کووڈ' کا نام دیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔
مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔
دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔
ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔
تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا کہ 'لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا'۔
محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔
دسمبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھیں اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نئی تیکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
نومبر میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار جوان اور پہلے سے صحت مند افراد کو اس وبائی مرض سے نجات پانے کے 4 ماہ بعد بھی مختلف علامات اور متعدد اعضا میں نقصان کا سامنا کررہا۔
تحقیق میں ان افراد کے اعضا پر کووڈ 19 کے اثرات کا تجزیہ طویل المعیاد بنیاد پر کیا جائے گا، جس کے لیے ایم آر آئی اسکینز، خون کے ٹیسٹ، جسمانی جانچ پڑتال اور آن لائن سوالناموں کی مدد لی جائے گی۔
اولین 200 مریضوں کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ ان میں سے لگ بھگ 70 فیصد افراد کے ایک یا اس سے زیادہ اعضا بشمول دل، پھیپھڑوں، جگر اور لبلے کے افعال ابتدائی بیماری کے 4 ماہ بعد متاثر ہوئے ہیں۔
کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 58 مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے ابتدائی ڈیٹا میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔
تحقیق میں ابتدائی بیماری کے 2 سے 3 ماہ بعد 60 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 60 فیصد خلاف معمول تبدیلیاں سامنے آئیں، 29 فیصد کے گردوں، 26 فیصد کے دل اور 10 فیصد کے جگر کے افعال میں مسائل دیکھے گئے جبکہ دماغی ٹشوز کے حصوں میں بھی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
آسٹریا کے سائنسدانوں نے ستمبر میں دریافت کیا تھا کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔
تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔
12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔
انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا کہ 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔
نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
اگر یہ وائرس بالائی نظام تنفس کے خلیات میں اچھی طرح پھیل جائے تو یہ لوگوں کو زیادہ بیمار کردیتا ہے کیونکہ یہ اس دوران پھیپھڑوں کی گہرائی میں بھی جارہا ہوتا ہے۔
مگر یہ سوچنا غلط ہے کہ کووڈ یہاں رک جاتا ہے۔
کبھی یہ وائرس اعصابی نظام میں داخل ہوکر تباہی مچا دیتا ہے، جس کے نتیجے میں سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کا سب سے پہلے سامنا ہوتا ہے۔
اس بیماری کے نتیجے میں دل کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، گردے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ دماغی صحت کی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ خون گاڑھا ہونے سے لاتعداد ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مسئلہ بھی بہت زیادہ بیمار افراد میں دریافت کیا گیا ہے جو ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
پھر ایک اور معمہ خون میں آکسیجن کی حیران کن کمی ہے۔
جریدے سائنس میگزین میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں خون میں آکسیجن کی سطح انتہائی حد تک گر جاتی ہے مگر پھر بھی وہ ڈاکٹروں سے بات کررہے ہوتے ہیں، اپنے فونز پر اسکرولنگ کرتے ہیں اور خود کو ٹھیک ہی محسوس کرتے ہیں۔
حالانکہ عام حالات میں جسم میں آکسیجن کی اتنی کمی چلنے پھرنے یا بات کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی بلکہ اتنی کمی میں بے ہوشی طاری ہونے یا موت کا خطرہ بھی ہوتا ہے مگر کووڈ 19 کے مریض اتنی کمی کے باوجود ہشاش بشاش اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
عام طور پر خون میں آکسیجن کی سطح 95 فیصد ہوتی ہے اور پھیپھڑوں کے امراض جیسے نمونیا میں اگر اس سطح میں کمی آتی ہے تو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی پھیپھڑوں میں پانی بھرنے لگتا ہے یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسے ہیپی یا سائیلنٹ ہائپوکسیا کا نام دیا گیا کیونکہ کووڈ 19 کے مریضوں میں 95 فیصد کی بجائے 80، 70 بلکہ 50 فیصد کمی بھی دیکھی گئی ہے۔
مگر یہ تو سنگین کیسز کی بات ہے، اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے بیشتر افراد کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے بعد اتنی جلد اور آسانی سے صحتیاب ہوجاتے ہیں کہ دیگر کے لیے اس بیماری کو سنجیدہ لینا مشکل ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب بھی دنیا بھر میں متعدد افراد کووڈ 19 کو افواہ سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں اور کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔
کورونا وائرس کا ایک اور پہلو بھی ماہرین کے لیے معمہ بنا ہوا ہے کہ لوگوں میں ایک بار کے بعد دوبارہ اس کے پھیلاؤ کا امکان ہوتا ہے یا نہیں، اگر ان کو تحفظ ملتا ہے تو اس کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے۔
اس کے بارے میں دسمبر 2020 میں عالمی ادارہ صحت کے حکام نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد دوبارہ بھی کووڈ 19 کا شکار ہوسکتے ہیں، جس کی وجہ اینٹی باڈی ردعمل میں کمی آنا ہے۔
عالمی ادارے کے عہدیداران نے یہ بیان حالیہ ڈیٹا کو بنیاد بناتے ہوئے دیا۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان نے ایک پریس بریفننگ کے دوران کہا کہ 'ہم نے ایسے ڈیٹا کو دیکھا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ایک بار بیمار ہونے کے بعد اس بیماری کے خلاف تحفظ زندگی بھر کے لیے نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے دوبارہ بیماری کے کیسز کو دیکھا'۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنگ ڈیزیز و زونیسز کی سربراہ ماریہ وان کرکوف نے اس حوالے سے بتایا کہ محققین کی جانب سے تاحال تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اینٹی باڈی تحفظ پہلی بیماری کے بعد کب تک برقرار رہ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم اب تک جو سمجھ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر 90 سے سو فیصد افراد میں اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے، چاہے بیماری کی شدت معمولی ہو، علامات نمودار نہ ہو یا اس کی شدت سنگین ہو'۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے خلاف مدافعتی ردعمل 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔
ماریہ وان نے بتایا کہ 'کچھ افراد میں ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز چند ماہ میں ختم ہونے لگتی ہیں، مگر ایسے اشارے موجود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ بیمار ہونے والے افراد میں مدافعتی ردعمل چند ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے، ابھی وبا کو ایک سال ہی ہوا ہے تو ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے'۔
یاد رہے کہ اگست میں کووڈ 19 سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی تھی۔
ہانگ کانگ کے محققین نے کورونا وائرس سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے مصدقہ کیس کی تصدیق کی۔
اس کے بعد امریکا، نیدرلینڈز اور بیلجیئم میں بھی ایسے کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔
پاکستان میں بھی نومبر میں ایسا پہلا کیس سامنے آیا تھا جب مردان سے تعلق رکھنے والے شہری میں پہلی بیماری کے 4 ماہ بعد دوبارہ کووڈ کی تشخیص ہوئی۔
تمام وائرسز میں تبدیلیاں آتی ہیں اور کورونا وائرس میں بھی ایسا ہوا ہے اور اسپائیک پروٹین میں ایسی ایک تبدیلی آئی، جسے ڈی 614 جی کا نام دیا گیا، جو بظاہر وائرس کو زیادہ متعدی بنانے کا باعث ہے۔
نومبر میں ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں یا میوٹیشن نے اسے انسانی خلیات کو زیادہ آسانی سے متاثر کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 5 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ اس بیماری میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، جس نے اسے ممکنہ طور پر زیادہ متعدی بنایا۔
طبی جریدے جرنل ایم بائیو میں شائع تحقیق میں کورونا کی اس تبدیلی کو ڈی 614 جی کہا گیا ہے، جو اسپائیک پروٹین میں ہوئی جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہیوسٹن کے 71 فیصد مریضوں میں وائرس کی اس قسم کو دریافت کیا گیا تھا جبکہ دوسری لہر میں یہ شرح 99.9 فیصد تک پہنچ گئی۔
یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
جولائی میں 28 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر مبنی ایک تحقیق میں کورونا وائرس کی ان اقسام کو دریافت کیا گیا، جن میں ڈی 614 جی میوٹیشن موجود تھی اور یہ دنیا بھر میں بالادست قسم ہے۔
مگر نومبر کے آخر میں ایک اور تحقیق میں کہا گیا کہ کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں سے اس کی لوگوں کو آسانی سے بیمار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع تحقیق میں 99 ممالک سے حاصل کیے گئے 46 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونس کے نمونوں میں تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
تاہم ان تبدیلیوں سے وائرس کے افعال پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
برطانیہ کی لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ نئے کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کے پھیلاؤ کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
تحقیق میں کورونا وائرس کی اس قسم کا بھی جائزہ لیا گیا جس کے بارے میں متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ وائرس کو زیادہ آسانی سے لوگوں کو بیمار کرنے میں مدد دیتی ہے تاہم تحقیق میں اس خیال کو مسترد کردیا گیا۔
تحقیق کے مطابق درحقیقت کورونا کی یہ قسم ڈی 614 جی سے وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت پر کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ دریافت کیا کہ ڈی 614 جی اس وائرس کو تیزی سے پھیلنے میں مدد نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ قسم وبا کے آغاز میں ابھری تھی اور اب زیادہ تر افراد میں اسے دریافت کیا جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ قسم پھیلاؤ کی رفتار بڑھانے کی بجائے کامیاب ورثے کے باعث توجہ کا مرکز بن گئی۔
کووڈ 19 کے بیشتر مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں، مگر ان میں سے بیشتر کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو 'لانگ کووڈ' کا نام دیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔
مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔
دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔
ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔
تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا کہ 'لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا'۔
محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔
دسمبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھیں اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نئی تیکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
نومبر میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار جوان اور پہلے سے صحت مند افراد کو اس وبائی مرض سے نجات پانے کے 4 ماہ بعد بھی مختلف علامات اور متعدد اعضا میں نقصان کا سامنا کررہا۔
تحقیق میں ان افراد کے اعضا پر کووڈ 19 کے اثرات کا تجزیہ طویل المعیاد بنیاد پر کیا جائے گا، جس کے لیے ایم آر آئی اسکینز، خون کے ٹیسٹ، جسمانی جانچ پڑتال اور آن لائن سوالناموں کی مدد لی جائے گی۔
اولین 200 مریضوں کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ ان میں سے لگ بھگ 70 فیصد افراد کے ایک یا اس سے زیادہ اعضا بشمول دل، پھیپھڑوں، جگر اور لبلے کے افعال ابتدائی بیماری کے 4 ماہ بعد متاثر ہوئے ہیں۔
کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 58 مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے ابتدائی ڈیٹا میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔
تحقیق میں ابتدائی بیماری کے 2 سے 3 ماہ بعد 60 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 60 فیصد خلاف معمول تبدیلیاں سامنے آئیں، 29 فیصد کے گردوں، 26 فیصد کے دل اور 10 فیصد کے جگر کے افعال میں مسائل دیکھے گئے جبکہ دماغی ٹشوز کے حصوں میں بھی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
آسٹریا کے سائنسدانوں نے ستمبر میں دریافت کیا تھا کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔
تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔
12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔
انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا کہ 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔
نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
کورونا وائرس کا ایک اور پہلو بھی ماہرین کے لیے معمہ بنا ہوا ہے کہ لوگوں میں ایک بار کے بعد دوبارہ اس کے پھیلاؤ کا امکان ہوتا ہے یا نہیں، اگر ان کو تحفظ ملتا ہے تو اس کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے۔
اس کے بارے میں دسمبر 2020 میں عالمی ادارہ صحت کے حکام نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد دوبارہ بھی کووڈ 19 کا شکار ہوسکتے ہیں، جس کی وجہ اینٹی باڈی ردعمل میں کمی آنا ہے۔
عالمی ادارے کے عہدیداران نے یہ بیان حالیہ ڈیٹا کو بنیاد بناتے ہوئے دیا۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان نے ایک پریس بریفننگ کے دوران کہا کہ 'ہم نے ایسے ڈیٹا کو دیکھا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ایک بار بیمار ہونے کے بعد اس بیماری کے خلاف تحفظ زندگی بھر کے لیے نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے دوبارہ بیماری کے کیسز کو دیکھا'۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنگ ڈیزیز و زونیسز کی سربراہ ماریہ وان کرکوف نے اس حوالے سے بتایا کہ محققین کی جانب سے تاحال تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اینٹی باڈی تحفظ پہلی بیماری کے بعد کب تک برقرار رہ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم اب تک جو سمجھ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر 90 سے سو فیصد افراد میں اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے، چاہے بیماری کی شدت معمولی ہو، علامات نمودار نہ ہو یا اس کی شدت سنگین ہو'۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے خلاف مدافعتی ردعمل 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔
ماریہ وان نے بتایا کہ 'کچھ افراد میں ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز چند ماہ میں ختم ہونے لگتی ہیں، مگر ایسے اشارے موجود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ بیمار ہونے والے افراد میں مدافعتی ردعمل چند ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے، ابھی وبا کو ایک سال ہی ہوا ہے تو ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے'۔
یاد رہے کہ اگست میں کووڈ 19 سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی تھی۔
ہانگ کانگ کے محققین نے کورونا وائرس سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے مصدقہ کیس کی تصدیق کی۔
اس کے بعد امریکا، نیدرلینڈز اور بیلجیئم میں بھی ایسے کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔
پاکستان میں بھی نومبر میں ایسا پہلا کیس سامنے آیا تھا جب مردان سے تعلق رکھنے والے شہری میں پہلی بیماری کے 4 ماہ بعد دوبارہ کووڈ کی تشخیص ہوئی۔
تمام وائرسز میں تبدیلیاں آتی ہیں اور کورونا وائرس میں بھی ایسا ہوا ہے اور اسپائیک پروٹین میں ایسی ایک تبدیلی آئی، جسے ڈی 614 جی کا نام دیا گیا، جو بظاہر وائرس کو زیادہ متعدی بنانے کا باعث ہے۔
نومبر میں ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں یا میوٹیشن نے اسے انسانی خلیات کو زیادہ آسانی سے متاثر کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 5 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ اس بیماری میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، جس نے اسے ممکنہ طور پر زیادہ متعدی بنایا۔
طبی جریدے جرنل ایم بائیو میں شائع تحقیق میں کورونا کی اس تبدیلی کو ڈی 614 جی کہا گیا ہے، جو اسپائیک پروٹین میں ہوئی جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہیوسٹن کے 71 فیصد مریضوں میں وائرس کی اس قسم کو دریافت کیا گیا تھا جبکہ دوسری لہر میں یہ شرح 99.9 فیصد تک پہنچ گئی۔
یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
جولائی میں 28 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر مبنی ایک تحقیق میں کورونا وائرس کی ان اقسام کو دریافت کیا گیا، جن میں ڈی 614 جی میوٹیشن موجود تھی اور یہ دنیا بھر میں بالادست قسم ہے۔
مگر نومبر کے آخر میں ایک اور تحقیق میں کہا گیا کہ کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں سے اس کی لوگوں کو آسانی سے بیمار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع تحقیق میں 99 ممالک سے حاصل کیے گئے 46 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونس کے نمونوں میں تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
تاہم ان تبدیلیوں سے وائرس کے افعال پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
برطانیہ کی لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ نئے کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کے پھیلاؤ کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
تحقیق میں کورونا وائرس کی اس قسم کا بھی جائزہ لیا گیا جس کے بارے میں متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ وائرس کو زیادہ آسانی سے لوگوں کو بیمار کرنے میں مدد دیتی ہے تاہم تحقیق میں اس خیال کو مسترد کردیا گیا۔
تحقیق کے مطابق درحقیقت کورونا کی یہ قسم ڈی 614 جی سے وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت پر کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ دریافت کیا کہ ڈی 614 جی اس وائرس کو تیزی سے پھیلنے میں مدد نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ قسم وبا کے آغاز میں ابھری تھی اور اب زیادہ تر افراد میں اسے دریافت کیا جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ قسم پھیلاؤ کی رفتار بڑھانے کی بجائے کامیاب ورثے کے باعث توجہ کا مرکز بن گئی۔
کووڈ 19 کے بیشتر مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں، مگر ان میں سے بیشتر کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو 'لانگ کووڈ' کا نام دیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔
مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔
دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔
ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔
تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا کہ 'لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا'۔
محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔
دسمبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھیں اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نئی تیکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
نومبر میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار جوان اور پہلے سے صحت مند افراد کو اس وبائی مرض سے نجات پانے کے 4 ماہ بعد بھی مختلف علامات اور متعدد اعضا میں نقصان کا سامنا کررہا۔
تحقیق میں ان افراد کے اعضا پر کووڈ 19 کے اثرات کا تجزیہ طویل المعیاد بنیاد پر کیا جائے گا، جس کے لیے ایم آر آئی اسکینز، خون کے ٹیسٹ، جسمانی جانچ پڑتال اور آن لائن سوالناموں کی مدد لی جائے گی۔
اولین 200 مریضوں کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ ان میں سے لگ بھگ 70 فیصد افراد کے ایک یا اس سے زیادہ اعضا بشمول دل، پھیپھڑوں، جگر اور لبلے کے افعال ابتدائی بیماری کے 4 ماہ بعد متاثر ہوئے ہیں۔
کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 58 مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے ابتدائی ڈیٹا میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔
تحقیق میں ابتدائی بیماری کے 2 سے 3 ماہ بعد 60 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 60 فیصد خلاف معمول تبدیلیاں سامنے آئیں، 29 فیصد کے گردوں، 26 فیصد کے دل اور 10 فیصد کے جگر کے افعال میں مسائل دیکھے گئے جبکہ دماغی ٹشوز کے حصوں میں بھی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
آسٹریا کے سائنسدانوں نے ستمبر میں دریافت کیا تھا کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔
تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔
12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔
انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا کہ 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔
نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
کورونا وائرس کا ایک اور پہلو بھی ماہرین کے لیے معمہ بنا ہوا ہے کہ لوگوں میں ایک بار کے بعد دوبارہ اس کے پھیلاؤ کا امکان ہوتا ہے یا نہیں، اگر ان کو تحفظ ملتا ہے تو اس کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے۔
اس کے بارے میں دسمبر 2020 میں عالمی ادارہ صحت کے حکام نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد دوبارہ بھی کووڈ 19 کا شکار ہوسکتے ہیں، جس کی وجہ اینٹی باڈی ردعمل میں کمی آنا ہے۔
عالمی ادارے کے عہدیداران نے یہ بیان حالیہ ڈیٹا کو بنیاد بناتے ہوئے دیا۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان نے ایک پریس بریفننگ کے دوران کہا کہ 'ہم نے ایسے ڈیٹا کو دیکھا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ایک بار بیمار ہونے کے بعد اس بیماری کے خلاف تحفظ زندگی بھر کے لیے نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے دوبارہ بیماری کے کیسز کو دیکھا'۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنگ ڈیزیز و زونیسز کی سربراہ ماریہ وان کرکوف نے اس حوالے سے بتایا کہ محققین کی جانب سے تاحال تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اینٹی باڈی تحفظ پہلی بیماری کے بعد کب تک برقرار رہ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم اب تک جو سمجھ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر 90 سے سو فیصد افراد میں اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے، چاہے بیماری کی شدت معمولی ہو، علامات نمودار نہ ہو یا اس کی شدت سنگین ہو'۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے خلاف مدافعتی ردعمل 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔
ماریہ وان نے بتایا کہ 'کچھ افراد میں ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز چند ماہ میں ختم ہونے لگتی ہیں، مگر ایسے اشارے موجود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ بیمار ہونے والے افراد میں مدافعتی ردعمل چند ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے، ابھی وبا کو ایک سال ہی ہوا ہے تو ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے'۔
یاد رہے کہ اگست میں کووڈ 19 سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی تھی۔
ہانگ کانگ کے محققین نے کورونا وائرس سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے مصدقہ کیس کی تصدیق کی۔
اس کے بعد امریکا، نیدرلینڈز اور بیلجیئم میں بھی ایسے کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔
پاکستان میں بھی نومبر میں ایسا پہلا کیس سامنے آیا تھا جب مردان سے تعلق رکھنے والے شہری میں پہلی بیماری کے 4 ماہ بعد دوبارہ کووڈ کی تشخیص ہوئی۔
تمام وائرسز میں تبدیلیاں آتی ہیں اور کورونا وائرس میں بھی ایسا ہوا ہے اور اسپائیک پروٹین میں ایسی ایک تبدیلی آئی، جسے ڈی 614 جی کا نام دیا گیا، جو بظاہر وائرس کو زیادہ متعدی بنانے کا باعث ہے۔
نومبر میں ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں یا میوٹیشن نے اسے انسانی خلیات کو زیادہ آسانی سے متاثر کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 5 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ اس بیماری میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، جس نے اسے ممکنہ طور پر زیادہ متعدی بنایا۔
طبی جریدے جرنل ایم بائیو میں شائع تحقیق میں کورونا کی اس تبدیلی کو ڈی 614 جی کہا گیا ہے، جو اسپائیک پروٹین میں ہوئی جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہیوسٹن کے 71 فیصد مریضوں میں وائرس کی اس قسم کو دریافت کیا گیا تھا جبکہ دوسری لہر میں یہ شرح 99.9 فیصد تک پہنچ گئی۔
یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
جولائی میں 28 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر مبنی ایک تحقیق میں کورونا وائرس کی ان اقسام کو دریافت کیا گیا، جن میں ڈی 614 جی میوٹیشن موجود تھی اور یہ دنیا بھر میں بالادست قسم ہے۔
مگر نومبر کے آخر میں ایک اور تحقیق میں کہا گیا کہ کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں سے اس کی لوگوں کو آسانی سے بیمار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع تحقیق میں 99 ممالک سے حاصل کیے گئے 46 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونس کے نمونوں میں تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
تاہم ان تبدیلیوں سے وائرس کے افعال پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
برطانیہ کی لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ نئے کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کے پھیلاؤ کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
تحقیق میں کورونا وائرس کی اس قسم کا بھی جائزہ لیا گیا جس کے بارے میں متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ وائرس کو زیادہ آسانی سے لوگوں کو بیمار کرنے میں مدد دیتی ہے تاہم تحقیق میں اس خیال کو مسترد کردیا گیا۔
تحقیق کے مطابق درحقیقت کورونا کی یہ قسم ڈی 614 جی سے وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت پر کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ دریافت کیا کہ ڈی 614 جی اس وائرس کو تیزی سے پھیلنے میں مدد نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ قسم وبا کے آغاز میں ابھری تھی اور اب زیادہ تر افراد میں اسے دریافت کیا جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ قسم پھیلاؤ کی رفتار بڑھانے کی بجائے کامیاب ورثے کے باعث توجہ کا مرکز بن گئی۔
کووڈ 19 کے بیشتر مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں، مگر ان میں سے بیشتر کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو 'لانگ کووڈ' کا نام دیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔
مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔
دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔
ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔
تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا کہ 'لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا'۔
محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔
دسمبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھیں اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نئی تیکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
نومبر میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار جوان اور پہلے سے صحت مند افراد کو اس وبائی مرض سے نجات پانے کے 4 ماہ بعد بھی مختلف علامات اور متعدد اعضا میں نقصان کا سامنا کررہا۔
تحقیق میں ان افراد کے اعضا پر کووڈ 19 کے اثرات کا تجزیہ طویل المعیاد بنیاد پر کیا جائے گا، جس کے لیے ایم آر آئی اسکینز، خون کے ٹیسٹ، جسمانی جانچ پڑتال اور آن لائن سوالناموں کی مدد لی جائے گی۔
اولین 200 مریضوں کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ ان میں سے لگ بھگ 70 فیصد افراد کے ایک یا اس سے زیادہ اعضا بشمول دل، پھیپھڑوں، جگر اور لبلے کے افعال ابتدائی بیماری کے 4 ماہ بعد متاثر ہوئے ہیں۔
کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 58 مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے ابتدائی ڈیٹا میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔
تحقیق میں ابتدائی بیماری کے 2 سے 3 ماہ بعد 60 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 60 فیصد خلاف معمول تبدیلیاں سامنے آئیں، 29 فیصد کے گردوں، 26 فیصد کے دل اور 10 فیصد کے جگر کے افعال میں مسائل دیکھے گئے جبکہ دماغی ٹشوز کے حصوں میں بھی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
آسٹریا کے سائنسدانوں نے ستمبر میں دریافت کیا تھا کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔
تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔
12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔
انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا کہ 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔
نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
تمام وائرسز میں تبدیلیاں آتی ہیں اور کورونا وائرس میں بھی ایسا ہوا ہے اور اسپائیک پروٹین میں ایسی ایک تبدیلی آئی، جسے ڈی 614 جی کا نام دیا گیا، جو بظاہر وائرس کو زیادہ متعدی بنانے کا باعث ہے۔
نومبر میں ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں یا میوٹیشن نے اسے انسانی خلیات کو زیادہ آسانی سے متاثر کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 5 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ اس بیماری میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، جس نے اسے ممکنہ طور پر زیادہ متعدی بنایا۔
طبی جریدے جرنل ایم بائیو میں شائع تحقیق میں کورونا کی اس تبدیلی کو ڈی 614 جی کہا گیا ہے، جو اسپائیک پروٹین میں ہوئی جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہیوسٹن کے 71 فیصد مریضوں میں وائرس کی اس قسم کو دریافت کیا گیا تھا جبکہ دوسری لہر میں یہ شرح 99.9 فیصد تک پہنچ گئی۔
یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
جولائی میں 28 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر مبنی ایک تحقیق میں کورونا وائرس کی ان اقسام کو دریافت کیا گیا، جن میں ڈی 614 جی میوٹیشن موجود تھی اور یہ دنیا بھر میں بالادست قسم ہے۔
مگر نومبر کے آخر میں ایک اور تحقیق میں کہا گیا کہ کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں سے اس کی لوگوں کو آسانی سے بیمار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع تحقیق میں 99 ممالک سے حاصل کیے گئے 46 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونس کے نمونوں میں تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
تاہم ان تبدیلیوں سے وائرس کے افعال پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
برطانیہ کی لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ نئے کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کے پھیلاؤ کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
تحقیق میں کورونا وائرس کی اس قسم کا بھی جائزہ لیا گیا جس کے بارے میں متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ وائرس کو زیادہ آسانی سے لوگوں کو بیمار کرنے میں مدد دیتی ہے تاہم تحقیق میں اس خیال کو مسترد کردیا گیا۔
تحقیق کے مطابق درحقیقت کورونا کی یہ قسم ڈی 614 جی سے وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت پر کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ دریافت کیا کہ ڈی 614 جی اس وائرس کو تیزی سے پھیلنے میں مدد نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ قسم وبا کے آغاز میں ابھری تھی اور اب زیادہ تر افراد میں اسے دریافت کیا جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ قسم پھیلاؤ کی رفتار بڑھانے کی بجائے کامیاب ورثے کے باعث توجہ کا مرکز بن گئی۔
کووڈ 19 کے بیشتر مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں، مگر ان میں سے بیشتر کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو 'لانگ کووڈ' کا نام دیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔
مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔
دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔
ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔
تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا کہ 'لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا'۔
محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔
دسمبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھیں اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نئی تیکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
نومبر میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار جوان اور پہلے سے صحت مند افراد کو اس وبائی مرض سے نجات پانے کے 4 ماہ بعد بھی مختلف علامات اور متعدد اعضا میں نقصان کا سامنا کررہا۔
تحقیق میں ان افراد کے اعضا پر کووڈ 19 کے اثرات کا تجزیہ طویل المعیاد بنیاد پر کیا جائے گا، جس کے لیے ایم آر آئی اسکینز، خون کے ٹیسٹ، جسمانی جانچ پڑتال اور آن لائن سوالناموں کی مدد لی جائے گی۔
اولین 200 مریضوں کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ ان میں سے لگ بھگ 70 فیصد افراد کے ایک یا اس سے زیادہ اعضا بشمول دل، پھیپھڑوں، جگر اور لبلے کے افعال ابتدائی بیماری کے 4 ماہ بعد متاثر ہوئے ہیں۔
کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 58 مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے ابتدائی ڈیٹا میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔
تحقیق میں ابتدائی بیماری کے 2 سے 3 ماہ بعد 60 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 60 فیصد خلاف معمول تبدیلیاں سامنے آئیں، 29 فیصد کے گردوں، 26 فیصد کے دل اور 10 فیصد کے جگر کے افعال میں مسائل دیکھے گئے جبکہ دماغی ٹشوز کے حصوں میں بھی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
آسٹریا کے سائنسدانوں نے ستمبر میں دریافت کیا تھا کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔
تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔
12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔
انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا کہ 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔
نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
تمام وائرسز میں تبدیلیاں آتی ہیں اور کورونا وائرس میں بھی ایسا ہوا ہے اور اسپائیک پروٹین میں ایسی ایک تبدیلی آئی، جسے ڈی 614 جی کا نام دیا گیا، جو بظاہر وائرس کو زیادہ متعدی بنانے کا باعث ہے۔
نومبر میں ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں یا میوٹیشن نے اسے انسانی خلیات کو زیادہ آسانی سے متاثر کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 5 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ اس بیماری میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، جس نے اسے ممکنہ طور پر زیادہ متعدی بنایا۔
طبی جریدے جرنل ایم بائیو میں شائع تحقیق میں کورونا کی اس تبدیلی کو ڈی 614 جی کہا گیا ہے، جو اسپائیک پروٹین میں ہوئی جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہیوسٹن کے 71 فیصد مریضوں میں وائرس کی اس قسم کو دریافت کیا گیا تھا جبکہ دوسری لہر میں یہ شرح 99.9 فیصد تک پہنچ گئی۔
یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
جولائی میں 28 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر مبنی ایک تحقیق میں کورونا وائرس کی ان اقسام کو دریافت کیا گیا، جن میں ڈی 614 جی میوٹیشن موجود تھی اور یہ دنیا بھر میں بالادست قسم ہے۔
مگر نومبر کے آخر میں ایک اور تحقیق میں کہا گیا کہ کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں سے اس کی لوگوں کو آسانی سے بیمار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع تحقیق میں 99 ممالک سے حاصل کیے گئے 46 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونس کے نمونوں میں تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
تاہم ان تبدیلیوں سے وائرس کے افعال پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
برطانیہ کی لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ نئے کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کے پھیلاؤ کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔
تحقیق میں کورونا وائرس کی اس قسم کا بھی جائزہ لیا گیا جس کے بارے میں متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ وائرس کو زیادہ آسانی سے لوگوں کو بیمار کرنے میں مدد دیتی ہے تاہم تحقیق میں اس خیال کو مسترد کردیا گیا۔
تحقیق کے مطابق درحقیقت کورونا کی یہ قسم ڈی 614 جی سے وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت پر کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ دریافت کیا کہ ڈی 614 جی اس وائرس کو تیزی سے پھیلنے میں مدد نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ قسم وبا کے آغاز میں ابھری تھی اور اب زیادہ تر افراد میں اسے دریافت کیا جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ قسم پھیلاؤ کی رفتار بڑھانے کی بجائے کامیاب ورثے کے باعث توجہ کا مرکز بن گئی۔
کووڈ 19 کے بیشتر مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں، مگر ان میں سے بیشتر کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو 'لانگ کووڈ' کا نام دیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔
مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔
دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔
ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔
تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا کہ 'لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا'۔
محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔
دسمبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھیں اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نئی تیکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
نومبر میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار جوان اور پہلے سے صحت مند افراد کو اس وبائی مرض سے نجات پانے کے 4 ماہ بعد بھی مختلف علامات اور متعدد اعضا میں نقصان کا سامنا کررہا۔
تحقیق میں ان افراد کے اعضا پر کووڈ 19 کے اثرات کا تجزیہ طویل المعیاد بنیاد پر کیا جائے گا، جس کے لیے ایم آر آئی اسکینز، خون کے ٹیسٹ، جسمانی جانچ پڑتال اور آن لائن سوالناموں کی مدد لی جائے گی۔
اولین 200 مریضوں کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ ان میں سے لگ بھگ 70 فیصد افراد کے ایک یا اس سے زیادہ اعضا بشمول دل، پھیپھڑوں، جگر اور لبلے کے افعال ابتدائی بیماری کے 4 ماہ بعد متاثر ہوئے ہیں۔
کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 58 مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے ابتدائی ڈیٹا میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔
تحقیق میں ابتدائی بیماری کے 2 سے 3 ماہ بعد 60 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 60 فیصد خلاف معمول تبدیلیاں سامنے آئیں، 29 فیصد کے گردوں، 26 فیصد کے دل اور 10 فیصد کے جگر کے افعال میں مسائل دیکھے گئے جبکہ دماغی ٹشوز کے حصوں میں بھی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
آسٹریا کے سائنسدانوں نے ستمبر میں دریافت کیا تھا کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔
تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔
12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔
انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا کہ 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔
نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
کووڈ 19 کے بیشتر مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں، مگر ان میں سے بیشتر کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو 'لانگ کووڈ' کا نام دیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔
مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔
دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔
ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔
تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا کہ 'لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا'۔
محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔
دسمبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھیں اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نئی تیکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
نومبر میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار جوان اور پہلے سے صحت مند افراد کو اس وبائی مرض سے نجات پانے کے 4 ماہ بعد بھی مختلف علامات اور متعدد اعضا میں نقصان کا سامنا کررہا۔
تحقیق میں ان افراد کے اعضا پر کووڈ 19 کے اثرات کا تجزیہ طویل المعیاد بنیاد پر کیا جائے گا، جس کے لیے ایم آر آئی اسکینز، خون کے ٹیسٹ، جسمانی جانچ پڑتال اور آن لائن سوالناموں کی مدد لی جائے گی۔
اولین 200 مریضوں کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ ان میں سے لگ بھگ 70 فیصد افراد کے ایک یا اس سے زیادہ اعضا بشمول دل، پھیپھڑوں، جگر اور لبلے کے افعال ابتدائی بیماری کے 4 ماہ بعد متاثر ہوئے ہیں۔
کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 58 مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے ابتدائی ڈیٹا میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔
تحقیق میں ابتدائی بیماری کے 2 سے 3 ماہ بعد 60 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 60 فیصد خلاف معمول تبدیلیاں سامنے آئیں، 29 فیصد کے گردوں، 26 فیصد کے دل اور 10 فیصد کے جگر کے افعال میں مسائل دیکھے گئے جبکہ دماغی ٹشوز کے حصوں میں بھی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
آسٹریا کے سائنسدانوں نے ستمبر میں دریافت کیا تھا کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔
تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔
12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔
انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا کہ 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔
نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
کووڈ 19 کے بیشتر مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں، مگر ان میں سے بیشتر کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو 'لانگ کووڈ' کا نام دیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔
مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔
دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔
ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔
تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا کہ 'لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا'۔
محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔
دسمبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھیں اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نئی تیکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
نومبر میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار جوان اور پہلے سے صحت مند افراد کو اس وبائی مرض سے نجات پانے کے 4 ماہ بعد بھی مختلف علامات اور متعدد اعضا میں نقصان کا سامنا کررہا۔
تحقیق میں ان افراد کے اعضا پر کووڈ 19 کے اثرات کا تجزیہ طویل المعیاد بنیاد پر کیا جائے گا، جس کے لیے ایم آر آئی اسکینز، خون کے ٹیسٹ، جسمانی جانچ پڑتال اور آن لائن سوالناموں کی مدد لی جائے گی۔
اولین 200 مریضوں کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ ان میں سے لگ بھگ 70 فیصد افراد کے ایک یا اس سے زیادہ اعضا بشمول دل، پھیپھڑوں، جگر اور لبلے کے افعال ابتدائی بیماری کے 4 ماہ بعد متاثر ہوئے ہیں۔
کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 58 مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے ابتدائی ڈیٹا میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔
تحقیق میں ابتدائی بیماری کے 2 سے 3 ماہ بعد 60 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 60 فیصد خلاف معمول تبدیلیاں سامنے آئیں، 29 فیصد کے گردوں، 26 فیصد کے دل اور 10 فیصد کے جگر کے افعال میں مسائل دیکھے گئے جبکہ دماغی ٹشوز کے حصوں میں بھی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔
آسٹریا کے سائنسدانوں نے ستمبر میں دریافت کیا تھا کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔
تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔
12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔
انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا کہ 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔
نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
عام طور پر کسی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگ جاتے ہیں، مگر کورونا وائرس کی وبا ابھرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں ویکسینز تیار ہوچکی ہیں۔
امریکا کی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی ویکسین کو کسی بیماری کے خلاف تیار ہونے والی دنیا کی تیز ترین ویکسین قرار دیا گیا ہے، جس کو مختلف ممالک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔