صحت

کچھ لوگوں میں کووڈ 19 کی شدت دیگر کے مقابلے میں سنگین کیوں ہوتی ہے؟

ماہرین کی جانب سے مسلسل یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کچھ افراد میں کووڈ 19 کی شدت دیگر کے مقابلے میں زیادہ سنگین کیوں ہوتی ہے۔

دنیا بھر میں طبی ماہرین کی جانب سے مہینوں سے یہ جاننے کے لیے کام کیا جارہا ہے کہ آخر کچھ افراد میں کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی شدت دیگر کے مقابلے میں زیادہ سنگین کیوں ہوتی ہے۔

اس حوالے سے مسلسل خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ کچھ مخصوص جینز اس حوالے سے کردار ادا کرتے ہیں۔

اب پہلی بار ایک تحقیق میں ایسے جینز کو شناخت کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جو کووڈ 19 کے جان لیوا کیسز سے منسلک ہوسکتے ہیں۔

اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرگ یونیورسٹی کے ماہرین نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے 5 جینز کو شناخت کیا ہے جو کووڈ 19 کی سنگین شدت سے منسلک ہوسکتے ہیں۔

یہ جینز کمزور فطری مدافعتی ردعمل اور زیادہ جارحانہ ورم سے جڑے ہوتے ہیں۔

اس تحقیق میں برطانیہ کے آئی سی یو یونٹس میں زیرعلاج رہنے والے 22 سو سے زیادہ مریضوں کا موازنہ کووڈ کی کم شدت سے متاثر افراد سے کیا گیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 سے جان لیوا حد تک بیمار مریضوں میں ایفران 2 نامی جین (یہ انٹرفیرونز نامی پروٹینز کے کوڈز میں مدد دیتا ہے) کے افعال کمزور تھے۔

یہ پروٹینز ہنگامی الرٹ کے طور پر کام کرکے مدافعتی نظام کو کسی حملہ آور سے خبردار کرتے ہیں، یہ پروٹینز او اے ایس نامی جینز کے اجتماع میں بھی پائے جاتے ہیں، جو وائر کو نقول بنانے سے روکنے میں مدد دیتے ہیں۔

محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ سنگین حد تک بیمار افراد میں ٹی وائے کے 2 اور سی سی آر 2 جینز بہت زیادہ متحرک ہوجاتے ہیں جو ورم کو بڑھانے اور پھیپھڑوں کی ممکنہ انجری کا باعث بنتے ہیں۔

انہوں نے ایک اور جین ڈی پی پی 9 کی بھی نشاندہی کی جس کو پھیپھڑوں کے ٹشوز کے نقصان پہنچنے سے جوڑا گیا ہے۔

عام طور پر جب ہمارے مدافعتی نظام کو کسی بیرونی حملہ آور کا احساس ہوتا ہے، تو اس کی جانب سے خطرے کو ختم کرنے کے لیے خون کے سفید خلیات کا اخراج ہوتا ہے۔

مگر کووڈ کے کچھ مریضوں میں یہ مدافعتی ردعمل اتنا مضبوط نہیں ہوتا جو کورونا وائرس کا خاتمہ کرسکے، اس کے نتیجے میں شدید ورم متحرک ہوتا ہے جو صحت مند ٹشوز کو نقصان پہنچاتا ہے یا اعضا کے افعال تھمنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔

آسان الفاظ میں جسم کے قدرتی دفاع میں مدد فراہم کرنے والے جینیاتی سگنل یا ورم متحرک کرنے کے عمل سے ایک ردعمل حرکت میں آتا ہے جو نظام تنفس کے ناکام ہونے کی جانب لے جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ پہلے سے مختلف بیماریوں ے متاثر ہونا اور عمر بھی سنگین کووڈ کیسز کے عناصر ہوسکتے ہیں۔

کووڈ 19 کے سنگین کیسز کے جڑے اسرار کو جاننے کے ساتھ محققین نے مریضوں کے علاج کے لیے بھی چند سراغ دریافت کیے۔

تحقیق میں شامل کینتھ بیلی نے بتایا کہ ہمارے نتائج میں عندیہ ملتا ہے کہ کچھ ادویات کی آزمائش کلینیکل ٹرائل کی فہرست میں ترجیح ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مخصوص پروٹینز کے افعال بہتر بنانے والی ادویات سے وائرس کو جسم کے اندر تباہی مچانے سے روکا جاسکتا ہے۔

تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ورم کو ہدف بنانے والی ادویات بھی مرض کو آگے بڑھنے سے روکنے میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہیں۔

وہ شخص جس نے کورونا ویکسین کو محض چند گھنٹوں میں ڈیزائن کیا

پاکستانی نژاد ڈاکٹر نے اسمارٹ فون کے ذریعے کووڈ 19 کا فوری ٹیسٹ متعارف کروادیا

امریکا نے بھی کورونا ویکسین کے استعمال کی منظوری دے دی