ملک کو بند گلی سے نکالنا ہے تو سیاسی جماعتوں کو یہ ’اہم‘ کام کرنے ہوں گے
گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی گونج کبھی اونچی ہوجاتی ہے اور کبھی مدھم پڑجاتی ہے۔ اگرچہ آج کی سیاسی تپش میں مذکرات کے امکانات نہ ہونے کے برابر لگ رہے ہیں، لیکن اس حقیقت کو کوئی بھی رد نہیں کرسکتا تھا کہ معاملات بات چیت سے ہی سلجھتے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور اب بھی یہی ہوگا، آج نہیں تو کل۔
سوال یہ ہے کہ اس حل تک پہنچا کیسے جائے؟
آج میں آپ کے سامنے ایک ایسا خاکہ رکھنا چاہتا ہوں جس کے ذریعے ممکنہ طور پر مذاکرات کے عمل کو شروع کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ سیاسی کشیدگی فوری طور پر کم نہ بھی ہوسکے، تب بھی مذاکرات کا آغاز تو کیا جا سکتا ہے، کیونکہ معاملات فوری طور پر نہیں، بلکہ بتدریج حل ہوتے ہیں۔
اس لیے میں اس تجویز کردہ مذاکرات کے مرحلے کو 2 حصوں میں تقسیم کروں گا، یعنی ٹریک ون اور ٹریک ٹو۔
مزید پڑھیے: وزیرِاعظم پروگرام کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف کیا کوئی کارروائی ہوگی؟
ٹریک ون
ٹریک ون کیا ہے اور یہ کس طرح کام کرے گا، آئیے اس پر بات کرتے ہیں۔
پوائنٹ نمبر ایک: یہ ٹریک کیا ہے؟
گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا ٹریک ون سیاسی فریقین کے درمیان ہوگا۔ اس کی مکمل اونرشپ سیاستدانوں کے پاس ہوگی اور اس ٹریک کے ذریعے یہ ہدف حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ اس وقت کے بڑے اور سلگتے ہوئے مسائل کا کوئی حل تلاش کیا جائے۔
پوائنٹ نمبر دو: مسائل
اگر آج کی کشیدہ سیاسی صورتحال کو دیکھیں تو اس کی بنیاد 2 بڑے مسائل ہیں۔ انتخابی عمل پر عدم اعتماد اور متنازعہ احتساب کا عمل جو سیاسی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ ان دونوں مسائل سے نمٹنے کے لیے اس گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے ٹریک ون کا 2 نکاتی ایجنڈا ہونا چاہیے: یعنی
- انتخابی اصلاحات اور
- نیب قوانین میں ترامیم۔
انتخابی اصلاحات
پہلے ذرا انتخابی اصلاحات کا ذکر کرلیں۔ ہمارے مستقل سیاسی مسائل کی بنیاد متنازعہ انتخابات ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ہونے والے تقریباً ہر انتخابات میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہوتی ہے۔
انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعت کم ہی اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ اس کی جیت کسی گڑ بڑ کا نتیجہ ہے، مگر صرف ہم ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان میں فری اور فیئر الیکشن نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
اگر 70 سال کے بعد بھی ہم اپنے انتخابی عمل میں اصلاحات کو ممکن نہیں بنا سکیں تو پھر واقعی ہم اسی نظام کے مستحق ہیں، جو ہمیں مستقل نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس لیے اگر تمام فریقین اپنی ناک سے آگے دیکھیں تو انہیں اندازہ ہوگا کہ یہ اصلاحات اب ناگزیر ہوچکی ہیں۔
نیب قوانین میں ترمیم
اب ذرا بات کرتے ہیں نیب قوانین میں ترامیم کی، جن سے جڑا ہے موجودہ احتسابی عمل اور جس پر اپوزیشن کو شدید اعتراض ہے۔ اگر ہم نے حقیقی معنوں میں سیاسی طور پر بالغ ہونا ہے اور احتساب کے عمل کو حقیقت میں غیر جانبدار بنانا ہے تو پھر ہمیں ساتھ بیٹھ کر الجھے بغیر نیب قوانین کی ترامیم پر اتفاق کرنا ہوگا۔ اس وقت یہ سلسلہ سیاست کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے، لیکن مذاکرات کے ذریعے اس عمل کو ترجیحی بنیادوں پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
اگر ہم اگلے انتخابات سے پہلے ان 2 مسائل پر سیاسی اتفاقِ رائے قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے اور عملی اقدامات بھی اٹھا لیے تو پھر ہمارے اکثر سیاسی مسائل حل ہوجائیں گے۔
پوائنٹ نمبر تین: ممبران
اس گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے ٹریک ون میں حصہ کون لے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے کیونکہ اس کشیدہ ماحول میں ان انتہائی اہم معاملات پر مذاکرات کرنے کے لیے ہمیں ایسے سیاستدان چاہئیں جو تجربہ کار بھی ہوں اور پارٹی میں ان کی حیثیت بھی اچھی ہو۔ اپنے لیڈروں کا اعتماد بھی رکھتے ہوں اور تلخ زبانی سے گریز کرنے کا فن بھی جانتے ہوں۔
موجودہ حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ مذاکرات حکومت اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے درمیان ہونے ہیں۔ میری نظر میں اور میرے تجربے کی روشنی میں ان مذاکرات میں جو ممبران شامل ہونے چاہیے وہ یہ ہیں۔
حکومت: اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، پرویز خٹک، فروغ نسیم، حماد اظہر اور اعظم سواتی۔
اپوزیشن: شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، مریم اورنگزیب، راجا پرویز اشرف، شیری رحمٰن، مولانا غفور حیدری اور حیدر ہوتی۔
مجھے احساس ہے کہ اس فہرست میں خواتین کی کمی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ دونوں طرف سے خواتین کو اتنی سیاسی ذمہ داری دی جاسکتی ہے کہ وہ اس قومی سطح کے مذاکرات میں اپنی جماعت کی احسن طریقے سے نمائندگی کرسکیں۔ اس حوالے سے چند اور ضروری تفصیلات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
مزید پڑھیے: کورونا کے بڑھتے کیسز کے باوجود اپوزیشن جلسے کرنے سے کیوں نہیں رک رہی؟
مذاکرات کس پلیٹ فارم سے؟
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سب سے بہتر جگہ ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں یہ مذاکرات ہونے چاہیے، مگر میری ذاتی رائے میں یہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا ٹریک ون پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے نہیں ہوسکتا کیونکہ پارلیمنٹ میں ماحول کشیدہ ہوچکا ہے اور وہاں سنجیدہ گفتگو مشکل ہوگئی ہے۔
پھر فارمل رولز آف دی بزنس کی موجودگی میں شاید یہ مرحلہ اور بھی کٹھن ہوجائے، اس لیے کم از کم ابتدائی مراحل میں یہ مذاکرات ایک انفارمل پلیٹ فارم سے ہونے چاہئیں۔ بوقتِ ضرورت اس کو ایک باقاعدہ فورم بھی دیا جاسکتا ہے۔
یہ مذاکرات بند کمرے میں کیوں ہونے چاہئیں؟
اگر یہ مذاکرات پارلیمنٹ یا کسی بھی ایسے فورم پر ہوتے ہیں جس کی پل پل کی خبر باہر آرہی ہو تو ہر جماعت اپنی سیاسی پوزیشن کی وجہ سے پریشانی سے دوچار ہوجائے گی، اور کوئی کھل کر بات نہیں کرے گا۔ اس لیے شروع کے مراحل میں مذاکرات بند کمرے میں ہونے چاہئیں، ہاں پھر جب ایک بنیادی مسودہ تیار ہوجائے تو اس کو پارلیمنٹ میں لانا ہوگا تاکہ اس پر تفصیلی بحث کو ممکن بنایا جاسکے۔
لیکن کیا ہماری سیاسی قیادت اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے؟ اس قیادت میں سیاسی چالاکی تو ہے مگر کیا سیاسی دانشمندی بھی ہے؟
چلیے اب بات کرتے ہیں گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے ٹریک ٹو کی، جو کچھ طویل مدتی مسائل سے تعلق رکھتا ہے۔
ٹریک ٹو
پوائنٹ نمبر ایک: ٹریک ٹو ہے کیا؟
اس مرحلے کا بنیادی مقصد ان نہایت ہی اہم موضوعات اور مسائل پر گفتگو کرکے حل تلاش کرنا ہے جن کا براہِ راست ہماری سیاسی کشمکش سے تعلق ہے۔ ان معاملات پر ایک قومی اتفاقِ رائے قائم کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہ وہ رولز آف دی گیم ہے جن کے تحت ہمیں ملک کی گورننس کرنی ہے۔
آئے روز اگر یہ جھگڑا ہوتا رہے تو پھر ہمارا سیاسی الاؤ ایسے ہی دہکتا رہے گا اور یہ نظام عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ چنانچہ ٹریک ٹو میں مسائل بھی مختلف ہیں اور مذاکرات کرنے والے لوگ بھی۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ٹریک بھی سیاسی قیادت کے زیرِ نگرانی ہوگا۔
پوائنٹ نمبر دو: مسائل
ٹریک ٹو میں ان مسائل پر بات کرنے کی ضرورت ہے جن کی بنیاد آنے والے کئی سالوں تک اور شاید اس سے بھی زیادہ عرصہ کے لیے ہے۔ ہمارے بنیادی مسائل پر جھگڑے ختم ہوجائیں تو میری نظر میں اس نوعیت کے 4 ایسے بڑے مسائل ہیں جو حل طلب ہیں۔
- پاکستانی سیاست اور گورننس میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار
- 18ویں ترمیم اور اس میں ممکنہ ترمیم
- معیشت کے حوالے سے چند بنیادی اصولوں پر اتفاق یا چارٹر آف اکانومی
- مجموعی اقتصادی عمل کے حوالے سے قانونی اور انتظامی اصلاحات
یہ چاروں نکات ایک تفصیلی جائزے کے متقاضی ہیں۔ ان پر اتفاق رائے قائم کرنا اور ان کے اصول واضح کرنا اور ان کو گورننس کی بنیاد بنانا یہ آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ہمیں بہت گہرائی میں جانا ہوگا اور ماہرین کی مدد لینا ہوگی اور سیاسی، صوبائی، علاقائی اور دیگر احساسات اور ترجیحات کو مدِنظر رکھنا ہوگا۔ بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے نہایت باریک بینی سے کام لینا ہوگا کیونکہ سول ملٹری تعلقات چٹکی بجانے سے یا خواہشات کا اظہار کرنے سے توازن میں نہیں آجائیں گے۔
مزید پڑھیے: تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن)، مہنگی ایل این جی کس نے خریدی؟
پوائنٹ نمبر تین: ممبران
ٹریک ٹو کو آگے بڑھانے کے لیے ایسے ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز کی ضرورت ہے جنہیں پاکستانی نظام کا وسیع تجربہ ہو اور وہ اس کے بارے میں گہرا مشاہدہ رکھتے ہوں۔ چنانچہ اس کے ممبران میں جن شعبہ جات سے افراد کو شامل ہونا چاہیے وہ یہ ہیں:
- سینئر ریٹائرڈ فوجی افسران،
- سینئر ریٹائرڈ جج صاحبان،
- سینئر ریٹائرڈ بیوروکریٹس،
- قانونی ماہرین اور سینئر وکلا،
- ماہرِ اقتصادیات
لیکن سب سے اہم نقطہ یہ ہے یہ تمام لوگ سیاسی جماعتوں کی نگرانی میں کام کریں گے کیونکہ اصل مقصد کوئی متوازی نظام بنانا نہیں بلکہ اسی جمہوری نظام کو مستحکم کرنا ہے۔ چنانچہ ٹریک ٹو کے ممبران کا انتخاب حکومت اور اپوزیشن کو ہی کرنا ہوگا۔
ٹریک ٹو میں ان 4 موضوعات پر ممکنہ طور پر کمیٹیاں بنیں گی جو بحث اور تحقیق کے بعد سیاسی جماعتوں کے لیے سفارشات مرتب کریں گی، اور ان کی روشنی میں ضرورت کے مطابق قانون سازی ہوسکتی ہے یا انتظامی اصلاحات عمل میں لائی جاسکتی ہیں، یا ایک قومی سطح پر بحث کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ٹریک ٹو کا ایک بڑا مقصد ان حساس معاملات پر آپس میں باہمی اعتماد قائم کرنے اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سراہنے کا موقع ملے گا۔
اگر ان دو ٹریکس پر مشتمل ہم ایک گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کرسکیں تو عین ممکن ہے ہم اس بند گلی سے نکلنے میں کامیاب ہوجائیں، جہاں ہر طرف غیر یقینی، باہمی نفرت اور عدم استحکام ہے۔ کیا ہم یہ کرسکتے ہیں؟
لکھاری اسلام آباد میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔