گلگت بلتستان کے حالات بدل رہے ہیں، نئی حکومت کے لیے وقت کم مقابلہ سخت ہے!
دیکھنے والوں کے لیے گلگت بلتستان کے بلند و بالا پہاڑ، نیلی جھیلیں اور سرسبز وادیاں ایک مسحور کن نظارہ ہیں۔ یہاں کی ثقافت میں بھی تنوع پایا جاتا ہے۔ اس خطے میں اسلام کے تمام بڑے فرقوں سے تعلق رکھنے والے اور 6 مختلف زبانیں بولنے والے تقریباً 20 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔
ثقافتی تنوع ہونے کے باوجود بھی یہاں کے لوگوں کو ان کی مشترکہ تاریخ اور پاکستان کے ساتھ ایک وفاقی اکائی کے طور پر انضمام کی اجتماعی خواہش آپس میں جوڑے رکھتی ہے۔ انہی 2 وجوہات کی وجہ سے انہوں نے اس خطے کو ڈوگرہ حکمرانوں سے چھڑا کر پاکستان کے حوالے کیا تھا۔
لیکن اس طرح کا تنوع سیاسی تنازعات کو بھی جنم دیتا ہے، جیسا کہ ہم نے گلگت بلتستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں دیکھا۔ یہ ثقافتی تنوع ہر انتخابات میں وفاقی حکومت کی جانب سے انتخاب جیتنے اور اپنی حیثیت مستحکم کرنے کی کوشش کو چیلنج کرتا ہے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو جس سیاسی جماعت کے پاس وفاقی حکومت ہوتی ہے وہ گلگت میں بھی آسانی سے جیت جاتی ہے۔ 2009ء میں پاکستان پیپلز پارٹی اور 2015ء میں مسلم لیگ (ن) نے یہاں سے سادہ اکثریت حاصل کی اور بغیر کسی اتحاد کے اکیلے حکومت بنائی۔ اگرچہ اس طرح ان حکومتوں کو آزادی سے کام کرنے کا موقع ملا لیکن وہ پھر بھی کچھ اہم مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہیں۔
گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 میں سے صرف 10 نشستیں حاصل کیں اور 6 آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔
ان آزاد امیدواروں میں سے 4 تو تحریک انصاف کے ہی سابق کارکنان تھے جو اپنی کوششوں سے جیتے تھے۔ ان کو منانا آسان کام نہیں تھا۔ تحریک انصاف نے خود بھی پارٹی کارکنوں کے بجائے انتخاب جیتنے کے اہل افراد (ایلیکٹ ایبلز) کو ترجیح دی تھی جو جمہوری اصولوں کی نفی ہے۔
بہرحال مشکل مذاکرات کے بعد تحریک انصاف نے اپنی حکومت بنالی اور ایک پڑھے لکھے اور نوجوان سیاستدان بیرسٹر خالد خورشید وزیر اعلیٰ بن گئے۔ ان کے ساتھ 15 وزیر اور 2 مشیر ہیں۔ حکومت نے میرٹ کے مقابلے میں سیاسی وسعت کو ترجیح دیتے ہوئے حکومتی بینچوں پر بیٹھے تقریباً تمام ہی افراد کو کابینہ میں شامل کرلیا ہے۔
مقامی سماجی ڈھانچے میں مفادات کے ٹکراؤ کو دیکھتے ہوئے جمہوری اقدار کو نظر انداز کرنا کوئی بہتر عمل نہیں ہے۔ جب اہم فیصلے لینے کی باری آتی ہے تو سیاسی انجینئرنگ اور بھاؤ تاؤ کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت مشکلات کا شکار ہوجاتی ہے۔
گلگت میں بننے والی نئی حکومت کو کچھ مشکل چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن اگر انہیں حل کرلیا جائے تو اس سے مقامی آبادی کا طرزِ زندگی بدل سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں آنے والی تبدیلی سے ملک میں معاشی بحالی کی ابتدا بھی ہوسکتی ہے۔
یہاں ہم ان معاملات کی نشاندہی کر رہے ہیں جو فیصلہ کن اقدامات کے متقاضی ہیں۔
گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دے کر اس خطہ کو بھی بااختیار بنانا، کیونکہ اس طرح یہاں کے نمائندے بھی مختلف حکومتی اداروں اور پالیسی سازی میں معاونت کریں گے۔ سی پیک اور دیگر بڑے غیر ملکی منصوبے جن کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری درکار ہے، ان کے لیے یہ قانونی تعلق بہت ضروری ہے۔ کیونکہ کسی ایسے خطے میں سرمایہ کاری ممکن نہیں ہے جس کا کوئی باقاعدہ آئینی درجہ ہی نہ ہو۔ پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اس معاملے پر حمایت کا اظہار کیا ہے۔ اب تو اسٹیبلشمنٹ بھی اس مسئلے کی نزاکت کو بہتر طور پر سمجھ چکی ہے۔ ممکن ہے کہ اس ضمن میں ہونے والی تاخیر بدامنی کا باعث بنے کیونکہ یہاں پہلے ہی اعتماد کا فقدان ہے اور اس فقدان کو ہم حالیہ انتخابات میں دیکھ چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے یوٹرن یہاں تشویش کا باعث ہیں۔
دیامیر بھاشا ڈیم سے متعلق بھی کئی مسائل زیرِ التوا ہیں جن کو فوری طور پر حل کرنا ضروری ہے۔ جیسے ڈیم کے مقام سے منتقل ہونے والے افراد کی دوسری جگہ آباد کاری، ان افراد کے لیے ایک نئی بستی کا قیام۔ ساتھ ساتھ ان لوگوں کی آباد کاری، جن کے پاس زمینوں کے مالکانہ حقوق تو نہیں ہیں لیکن وہ ان زمینوں پر صدیوں سے کھیتی باڑی کرتے آرہے ہیں۔
اہل مقامی افرادی قوت کی دستیابی کے باوجود ترقیاتی منصوبوں میں مقامی امیدواروں کو ملازمت کے کم مواقع دستیاب ہیں۔ قومی سطح پر ڈومیسائل کوٹے پر ملازمتیں دی جاتی ہیں۔ عملی طور پر دیکھا جائے تو اس سے مقامی افراد کو ملازمتوں کے حصول میں دشواری ہوتی ہے۔
مقامی افراد سے عام اراضی اور چراگاہوں کے مالکانہ حقوق بغیر معاوضے کے حاصل نہیں کرنے چاہئیں اور نئی حکومت کو اس ضمن میں فوری قانون سازی کرنی چاہیے۔
بھارت اور پاکستان کے سرحدی تنازع کے سبب بے گھر ہونے والے خاندانوں کی آباد کاری کا مناسب انتظام ہونا چاہیے اور قومی سرحدوں کے حوالے سے پالیسی کے مطابق کارگل کے ساتھ سڑک کو کھول دینا چاہیے تاکہ تقسیم شدہ خاندان دوبارہ مل سکیں اور آپس میں کاروباری سرگرمیوں اور سیاحت میں اضافہ ہو۔
سی پیک کے منصوبوں کے حوالے سے چین کے ساتھ قائم مشترکہ کمیٹی میں بحیثیت صوبہ گلگت بلتستان کی نمائندگی موجود ہونی چاہیے۔
پائیدار زمینی راستے کو یقینی بنانے کے لیے مزتغ پاس سے یارکنڈ اور پھر شیگر تک جانے والی ترک شدہ سڑک کے ذریعے سی پیک کا متبادل راستہ بنانا۔
گلگت بلتستان کے عوام کو نئی حکومت سے بہت سی امیدیں ہیں۔ لیکن انتخابات کا تبدیل شدہ منظرنامہ نئی حکومت کے لیے ایک تنبیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگ آئینی تبدیلی کے لیے بہت عرصے سے منتظر ہیں کیونکہ موجودہ نظام یہاں کی ترقی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
یہ مضمون 6 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے، اور وہ سابق انسپیکٹر جنرل آف پولیس سندھ رہ چکے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔