آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔
اس مقصد کے لیے ایک گیس xenon کو ایم آر آئی اسکینز استعمال کرکے پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کی تصاویر تیار کی گئیں۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھی اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نئی تیکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
اب تحقیقی ٹیم کی جانب سے سو مریضوں کو ٹرائل کا حصہ بناکر دیکھا جائے گا کہ جن افراد کو کووڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا نہیں ہوا یا ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے، ان کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا یا نہیں۔
اس تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ کووڈ سے پھیپھڑوں کو نقصان تو نہیں پہنچتا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا یہ مستقل ہے یا وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی حد تک پھیپھڑوں کو نقصان پہنچنے کی توقع تھی مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی زیادہ ہوگی جتنی ہم نے دیکھی۔
انہوں نے بتایا کہ ویسے تو کووڈ 19 کی سنگین شدت اور موت کا خطرہ 60 سال سے زائد عمر افراد میں زیادہ ہوتا ہے، مگر ہمارے ٹرائل میں دریافت کیا گیا کہ ہر عمر کے گروپ میں پھیپھڑوں کو نقصان پہنچتا ہے، چاہے انہیں ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہ پڑے، تو ہم اپنا مقصد پالیں گے۔