طبی جریدے یورپین ہارٹ جرنل میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دوران خون کا انبساطی دباؤ (diastolic blood pressure) جو کہ دل کی دھڑکنوں کے درمیان خون کے دباؤ کو کہا جاتا ہے، میں 50 سال کی عمر سے قبل اضافے اور بعد کی زندگی میں دماغ کو نقصان پہنچنے میں مضبوط تعلق موجود ہے۔
اس تحقیق کے دوران 37 ہزار سے زیادہ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں 40 سے 69 سال کے درمیان تھی اور ان کی طبی تفصیلات بشمول دماغی ایم آر آی اسکینز دستیاب تھے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے سینٹر فار پریونٹیشن آف اسٹروک اینڈ ڈیمینشیا کی اس تحقیق میں ان رضاکاروں کے دماغ کو پہنچنے والے نقصان کو دیکھا گیا۔
ان افراد کے ایم آر آی اسکینز میں دماغ ی چھوٹی شریانوں کو عمر اور بلڈ پریشر سے ہونے والے نقصان کو روشن حصوں میں دیکھا گیا، جسے white matter hyperintensities (ڈبلیو ایم ایچ) کہا جاتا ہے۔
ڈبلیو ایم ایچ کو فالج، ڈیمینشیا، جسمانی معذوری، ڈپریشن اور سوچنے کی اہلیت میں کمی کے خطرے سے جوڑا جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ہر فرد میں عمر بڑھنے کے ساتھ یہ تدیلیاں نہیں آتیں، مگر ہم نے تحقیق میں شامل 65 سال سے زائد عمر کے 50 فیصد سے زیادہ مریضوں میں انہیں دیکھا، جبکہ 80 سال سے زائد عمر کے لوگوں میں بھی، جو ہائی بلڈ پریشر کے شکار نہیں تھے، مگر زیادہ بلڈ پریشر سے اس کا خطرہ بڑھتا ہے۔
تحقیق کے دوران مارچ 2006 سے اکتوبر 2010 کے درمیان رضاکاروں کی خدمات حاصل کی گی تھیں اور فالواپ ڈیٹا بشمول ایم آر آئی اسکینز اگست 2014 سے اکتوبر 2019 کے درمیان حاصل کیے گئے۔
محققین نے عمر، جنس، خطرے کے عناصر جیسے تمباکو نوشی اورر ذیابیطس کے ساتھ بلڈ پریشر کو مدنظر رکھ کر نتائج کو مرتب کیا۔
محققین نے بتایا کہ نتاج سے معلوم ہوا کہ درمیانی عمر میں بلڈ پریشر بعد کی عمر میں دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ اس سے ڈبلیو ایم ایچ کا لوڈ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ سال طبی جریدے دی لانسیٹ نیورولوجی میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ 40 سال سے زائد عمر کے ہائی بلڈ پریشر کے شکار افراد کے دماغ صحت مند افراد کے مقابلے میں حجم کے لحاظ سے چھوٹے ہوتے ہیں۔
لندن کالج یونیورسٹی کی کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی اس تحقیق میں 502 افراد کا جائزہ لیا گیا جن کی عمریں اب 69 سے 71 سال کے درمیان ہیں۔
ان رضاکاروں کی خدمات اس وقت حاصل کی گئی تھیں جب ان کی عمریں 36 سال یا اس سے زائد تھی اور پھر عمر کی 7 ویں دہائی تک محققین نے رضاکاروں کے بلڈپریشر کو مختلف اوقات میں ریکارڈ کیا۔
محققین نے دریافت کیا کہ درمیانی عمر میں بلڈپریشر میں اچانک اضافے سے بعد کی زندگی میں دماغی صحت میں تبدیلیوں خصوصاً دماغ کے سکڑنے کا امکان بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق کے مطابق عمر کی تیسری یا چوتھی دہائی میں بلڈپریشر بڑھنے سے دماغ کی جانب جانے والی خون کی شریان کو نقصان پہنچنے کا امکان ہوتا ہے جو بعد ازاں فالج کا خطرہ بڑھاتا ہے۔