نقطہ نظر

اسرائیل اور سعودی عرب کا واضح پیغام: جو بائیڈن اب کیا کریں گے؟

شاہ سلمان 2 ریاستی حل سے پہلے اسرائیل کا وجود تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے لیکن محمد بن سلمان کے ارادے کچھ اور ہی ہیں.

جمعہ کے روز ایران کے جوہری پروگرام کے معمار محسن فخری زادہ کو تہران کے نواحی علاقے آب سرد میں قتل کردیا گیا، جو اس ہفتے کی بڑی خبر ہے، لیکن اس خبر سے پہلے اسرائیلی وزیرِاعظم کے دورہ سعودی عرب اور امریکی وزیرِ خارجہ کی موجودگی میں سعودی عرب کے مستقبل کے بادشاہ سے ہونے والی ملاقات کی بڑی خبر بھی سامنے آئی تھی۔

اگرچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مدتِ صدارت کا الیکشن ہار چکے ہیں، لیکن ان کے وزیرِ خارجہ نے انتخابی نتائج کے بعد مشرق وسطیٰ کا اہم اور طویل دورہ کیا جبکہ ان کے واپس جاتے ہی امریکا کے قائم مقام وزیرِ دفاع کرسٹوفر ملر ’تھینکس گوِنگ‘ کا تہوار فوجیوں کے ساتھ منانے کے بہانے خطے میں آن وارد ہوئے اور ابھی تک وہیں موجود ہیں۔

امریکی وزیرِ خارجہ کے دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران ہی امریکی مرکزی کمان نے اعلان کیا کہ اس کے بی52 طیاروں نے مختصر نوٹس پر طویل فاصلے پر موجود ہدف کو کم سے کم وقت میں نشانہ بنانے کی مشق کی ہے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اسٹوری شائع کی کہ صدر ٹرمپ نے ایران کے کسی جوہری پروگرام کے مقام پر حملے کے لیے اپنی قومی سلامتی ٹیم سے مشاورت کی ہے۔ پھر امریکی اور اسرائیلی میڈیا نے اسرائیلی وزیرِاعظم کے دورہ سعودی عرب کے فوری بعد رپورٹ شائع کی کہ ایران پر ممکنہ امریکی حملے اور ایران کی جوابی کارروائی کے پیش نظر اسرائیلی قیادت نے فوج کو تیاریوں کی ہدایت کردی ہے۔ یہ تمام خبریں خطے میں ایک نیا اور خطرناک منظرنامہ پیش کر رہی ہیں اور ان سب میں ایک ربط موجود ہے۔

سب سے پہلے تو بات کرتے ہیں امریکی وزیرِ خارجہ کے دورہ مشرق وسطیٰ اور اس دوران اسرائیلی وزیرِاعظم کی نئے بسائے گئے سعودی ساحلی شہر نیوم میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ہونے والی ملاقات کی۔ اگرچہ سعودی وزیرِ خارجہ اس ملاقات کی تردید کرتے ہیں لیکن اسرائیلی وزیرِاعظم کا دفتر باضابطہ تصدیق کے بجائے اس خبر کو لیک کرکے تماشائی بنا ہوا ہے۔

امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب کے 3 بڑوں کی ملاقات جو سعودی حکام کے مطابق ہوئی ہی نہیں، اسرائیلی اور امریکی راوی کہتے ہیں کہ اس ملاقات میں گفتگو کا مرکز و محور ایران ہی تھا۔ اگرچہ اس ملاقات میں سعودی اسرائیل تعلقات معمول پر لانے پر بھی بات ہوئی لیکن فوری طور پر معاہدہ طے نہیں پا سکا، مگر اس دورے سے کئی اہم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔

سعودی اور اسرائیلی حکمرانوں کا سب سے اہم مقصد تو یہ تھا کہ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کو اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی ایک مضبوط اور مؤثر پیغام دیا جائے کہ وہ اپنے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے اپنی دشمنی اور اختلاف بھلا کر ایک صفحے پر آسکتے ہیں اور ایران کے عزائم کے خلاف دونوں اکٹھے ہیں۔

جو بائیڈن ایران کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں اور جوہری پروگرام پر ہونے والے بین الاقوامی معاہدے میں واپسی کے ارادے رکھتے ہیں، جو سعودی عرب اور اسرائیل کی شدید مخالفت کے باوجود ڈیموکریٹ انتظامیہ نے کیا تھا۔

سعودی اور اسرائیلی حکمرانوں کو صدر ٹرمپ کی صورت میں وائٹ ہاؤس میں ایسا اتحادی مل گیا تھا جس نے ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی معاہدے سے ناصرف نکلنے کا اعلان کیا تھا بلکہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اپنا کر اسے معاشی طور پر اس قدر مجبور بنا دیا تھا کہ وہ القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے کوئی بڑی اور کھلی کارروائی بھی نہیں کرسکا تھا۔

اگرچہ سعودی تیل تنصیبات کو یمنی باغیوں کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا رہا لیکن ایران کا بدلہ شاید پورا نہیں ہو پایا۔ ایران سعودی عرب کے ساتھ خطے میں کئی پراکسی جنگوں میں مصروف ہے لیکن بائیڈن انتظامیہ اگر اوباما دور کی پالیسی پر واپس آتی ہے تو سعودی عرب کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی بھی ایران دشمن پالیسی کمزور پڑ سکتی ہے۔ اسرائیل بھی ایران کے ساتھ خفیہ جنگی کارروائیوں میں مصروف ہے اور شام میں ایرانی مفادات پر فضائی حملے کرتا رہتا ہے۔

سعودی عرب کے شاہ سلمان 2 ریاستی حل سے پہلے اسرائیل کا وجود تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے لیکن محمد بن سلمان نے اس خفیہ میٹنگ سے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ انہیں 2 ریاستی حل سے پہلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔

بظاہر تو شاہ سلمان کی زندگی میں باضابطہ سعودی اسرائیل تعلقات کا امکان نظر نہیں آتا، لیکن محمد بن سلمان نے اس ملاقات کے ذریعے بائیڈن انتظامیہ کی توجہ چند دیگر مسائل سے ہٹانے کی کوشش کی ہے، جن کے متعلق انہیں خدشہ ہے کہ وہ وائٹ ہاؤس کے ساتھ ان کی رسم و راہیں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ ان مسائل میں یمن کی جنگ، انسانی حقوق کارکنوں کی گرفتاریاں اور واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خشوگی کے قتل جیسے معاملات شامل ہیں۔

اسرائیلی وزیرِاعظم نے سعودی ولی عہد سے ملاقات کی خبر خود لیک کی اور ملاقات سے پہلے دونوں فریقوں میں طے پایا تھا کہ اس لیک پر اعتراض نہیں کیا جائے گا بلکہ دوسرا فریق صرف تردید پر اکتفا کرے گا۔

اسرائیلی وزیرِاعظم نے اپنے زیرِ استعمال رہنے والے ایگزیکٹو جیٹ کو استعمال کیا، اور تل ابیب سے ریاض کے لیے پرواز فلائٹ ٹریکنگ ڈیٹا سے چھپائی نہیں جاسکتی تھی۔ اس مخصوص جہاز سے اسرائیلی وزیرِاعظم کے ریاض جانے کے اشارے صاف مل رہے تھے اور پھر بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے خود خبر لیک کرنی شروع کی اور اس کے ساتھ ہی نیتن یاہو کی ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی وزیرِ تعلیم نے اسرائیلی فوجی ریڈیو سے گفتگو میں خود تصدیق کرکے وزیرِاعظم دفتر سے لیک کے تاثر کو مضبوط کیا۔

اسرائیل میں قومی سلامتی امور سے متعلق رپورٹنگ ممنوع ہے اور سینسر فوری حرکت میں آتا ہے لیکن سینسر حکام کا خاموش رہنا بھی سوچی سمجھی لیک کے تاثر کو پختہ کرتا ہے۔

اسرائیلی وزیرِاعظم نے اس لیک سے اندرونی اور بیرونی سیاست میں بیک وقت کئی شکار کیے۔ سب سے پہلے تو ان کے سب سے بڑے حریف لیکن اس وقت مخلوط کابینہ کا حصہ، وزیرِ دفاع بینی گانتز کو شرمندہ کیا گیا، جو پاور شیئرنگ فارمولا کے تحت ایک سال بعد وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے خواب سجائے بیٹھے ہیں۔ دراصل اس لیک پر بینی گانتز نے بیان دیا کہ خبر لیک کرنا انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔

نیتن یاہو نے اس سے پہلے عرب امارات کے ساتھ مذاکرات سے بھی بینی گانتز کو لاعلم رکھا تھا، یوں نیتن یاہو نے اسرائیلی ووٹرز کو پیغام دیا کہ خفیہ سفارتکاری میں بینی گانتز کو شریک نہیں کیا جاسکتا۔ نیتن یاہو نے بائیڈن انتظامیہ کو بھی پیغام دیا کہ وہ ایران کے متعلق ٹرمپ کی پالیسی رول بیک کرنے سے باز رہیں ورنہ امریکا کو خطے میں کوئی نہیں پوچھے گا اور ایران کے معاملے پر پورا خطہ یک زبان ہے۔

اسرائیلی وزیرِاعظم 4 سے 5 گھنٹے سعودی سرزمین پر موجود رہے، اس لیے کھوج لگائی گئی کہ اس قدر طویل ملاقات میں کیا کچھ زیرِ بحث آیا۔ تمام ذرائع اس بات پر متفق ہیں کہ ایران مرکزی موضوع تھا لیکن منصوبے کیا تھے اس پر الگ الگ رپورٹنگ ہوئی۔

ایک بات جس پر تمام میڈیا ہاؤسز کی رپورٹنگ متفق نظر آئی وہ یہ تھی کہ ایران پر حملہ زیرِ بحث آیا تاکہ بائیڈن کو 2015ء کے جوہری معاہدے پر واپسی سے روکا جاسکے۔ یہی مقصد ٹرمپ انتظامیہ کا بھی ہے۔

بائیڈن انتظامیہ کے لیے پیغام واضح تھا کہ خطے میں امریکا کے 2 بڑے اتحادی ایران کے معاملے پر ان کی پرانی پالیسی کا ساتھ نہیں دیں گے۔ نیتن یاہو وائٹ ہاؤس کی آشیرباد سے غزہ کے مغربی کنارے کا 30 فیصد حصہ ہڑپ کرنے کو تیار بیٹھے تھے، لیکن بائیڈن انتظامیہ نے عرب دنیا میں پہلا رابطہ اردن کے شاہ عبداللہ سے کرکے اشارہ دیا کہ وہ 2 ریاستی حل کو ترجیح دیں گے اور اسرائیل کو پہلے جیسی کھلی چھوٹ نہیں ہوگی۔

بائیڈن انتظامیہ سابق صدر اوباما کی پالیسی پر چلے گی جس میں فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی، ایران کے ساتھ کشیدگی میں کمی اور انسانی حقوق پر زور شامل ہے۔ سعودی ولی عہد اور اسرائیلی وزیرِاعظم نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ بائیڈن انتظامیہ کے آنے سے ان کے مشترکہ مفادات کو زک نہ پہنچے۔

دوسری اہم خبر ایران پر حملے کے لیے وائٹ ہاؤس میں مشاورتی اجلاس اور امریکی مرکزی کمان کی طرف سے بی52 طیاروں کی مشقوں کی تھی۔ صدر ٹرمپ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ کو کسی نہ کسی امتحان میں ڈال کر ہی وائٹ ہاؤس چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن انتقالِ اقتدار کا عمل شروع ہوچکا ہے اور پینٹاگون سمیت تمام اہم ادارے نو منتخب صدر کو بریفنگ دے رہے ہیں اور نئی انتظامیہ کو اداروں تک رسائی دی جاچکی ہے۔ ان حالات میں امریکا کے براہِ راست حملے کا امکان بہت کم ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ ان مشاورتی اجلاسوں کی خبریں بھی کسی نہ کسی لیک کا حصہ ہوں۔ لیکن اس کے باوجود حملے کے امکانات یکسر مسترد نہیں کیے جاسکتے اور اس کے لیے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ اسرائیل کو گرین سگنل دے سکتی ہے۔

تہران میں جوہری پروگرام کے معمار محسن فخری زادہ کے قتل پر نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 2 امریکی ذرائع کا ماننا ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل ہے، یہی وہ امکان ہے جس پر ممکنہ طور پر سعودی سرزمین پر ہونے والی خفیہ ملاقات میں بات ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ ایران پر حملے کے متعلق اسرائیلی وزیرِاعظم بات کرتے رہے اور مائیک پومیو نے اس ایشو پر کوئی صلاح نہیں دی۔ اسرائیلی وزیرِاعظم نے ایران کے جارحانہ رویے کے خلاف مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے متحد ہونے پر بات کی۔

یوں لگتا ہے کہ مائیک پومپیو ایران پر اسرائیلی حملے کی خاموش وکالت کے لیے موجود تھے اور اس ملاقات کا اہتمام بھی اسی لیے کیا گیا تھا۔ مائیک پومپیو نے سعودی ولی عہد کو یہ کہہ کر اس ملاقات پر آمادہ کیا تھا کہ اگر بائیڈن انتظامیہ کے دباؤ سے بچنے کے لیے وہ ری پبلکنز کی مدد چاہتے ہیں تو انہیں صدر ٹرمپ اور اسرائیلی لابی کو خوش کرنا ہوگا۔ سعودی ولی عہد کو اس ملاقات میں فکرمند پایا گیا لیکن ایران پر حملے کے متعلق منصوبے پر ان کا جواب کیا تھا ابھی کچھ سامنے نہیں آیا۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عرب امارات نے اسرائیل سے تعلقات کے بدلے امریکا سے ایف35 طیارے لیے، مگر سعودی ولی عہد اس سے بڑا پیکج چاہتے ہیں، جس میں ایف35 طیاروں کے علاوہ آرمرڈ گاڑیوں کے لیے ایکٹو پروٹیکشن سسٹمز، میزائل ڈیفنس بیٹریز، الیکٹرانک انٹرفیس سسٹمز، ایڈوانس ریڈارز، ایم کیو نائن ریپر ڈرونز اور بحری دفاعی سامان شامل ہے۔

تازہ ترین خبر ایرانی سائنسدان کا تہران کے نواح میں قتل ہے۔ دراصل اسرائیل نے اس قتل کے ذریعے ایران کو کسی ایسے اقدام پر اکسانے کی کوشش کی ہے جس سے خطے میں کوئی نئی لڑائی چھڑ جائے اور بائیڈن انتظامیہ آتے ہی جوہری معاہدے یا مذاکرات کے بجائے اس لڑائی میں الجھ جائے۔ ایران نے اگرچہ بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے تاہم ایران ایسے کسی قدم سے گریز کرے گا جس سے کھلی جنگ کے خدشات پیدا ہوں۔ امریکی انتخابات کے بعد ایران نے نئی انتظامیہ آنے تک خطے میں اپنی پراکسیز کو محتاط رہنے کا پیغام اس واقع سے پہلے ہی بھجوا دیا تھا۔

ایران نے اپنے اعلیٰ ترین جرنیلوں کو بغداد اس پیغام کے ساتھ بھجوایا تھا کہ بائیڈن کے چارج سنبھالنے تک تمام حملے روک دیے جائیں۔ بریگیڈیئر جنرل قاسم قاسم قاآنی نے تمام پیرا ملٹری اور ملیشیاز کو کہا تھا کہ انتخابات میں شکست کے انتقام کے لیے ٹرمپ پورے خطے کو کھلی جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے، ایسی کسی حرکت کے لیے ٹرمپ کو جواز مہیا کرنا ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔

جنرل قاآنی کے اس خدشے کی تائید ایرانی سائنسدان کے قتل کے بعد صدر ٹرمپ کے ری ٹویٹس سے ہوئی۔ صدر ٹرمپ نے اسرائیلی صحافی کے 2 ٹویٹس ری ٹویٹ کیے جن میں کہا گیا کہ محسن زادہ کا قتل ایران کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ جنرل قاآنی کے واضح پیغام سے صاف ظاہر ہے کہ اب بھی ایران بائیڈن انتظامیہ کے چارج سنبھالنے کا انتظار کرے گا اور کسی کھلی انتقامی کارروائی سے گریز کرے گا۔

ایران کو بائیڈن سے توقعات اس لیے بھی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ خود کانگریس کو سرٹیفکیٹ دے چکی ہے کہ ایران جوہری معاہدے کی پابندی کررہا ہے۔ نئی انتظامیہ کے لیے جوہری معاہدے کی طرف واپسی کا دروازہ بھی ٹرمپ انتظامیہ نے کھلا چھوڑا ہے اور اب اس دروازے کو کسی دوسرے ذریعے سے بند کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔