طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ کورونا کے بغیر علامات والے مریضوں کے جسم میں یہ وائرس ممکنہ طور پر زیادہ تیزی سے کلیئر ہوتا ہے اور وہ کم مدت کے لیے متعدی ہوتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ دیگر افراد کو اس بیماری کا شکار بناسکتے ہیں۔
یہ اپنی طرز کی پہلی تحقیق ہے جس میں ماہرین نے کورونا وائرس کی منتقلی کے حوالے سے ہونے والی 98 تحقیقی رپورٹس کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔
ان تحقیقی رپورٹس میں 3 بنیادی عناصر کو دیکھا گیا تھا، وائرل لوڈ (بیماری کے مختلف مراحل کے دوران جسم میں وائرس کی مقدار)، وائرس کے آر این اے کا جھڑنا (مریض کی جانب سے وائرل جینیاتی مواد کو جسم سے خارج کرنا) اور زندہ وائرس کو الگ کرنا۔
محققین نے ان تحقیقی رپورٹس کے نتاج کا موازنہ کورونا وائرس کی دیگر 2 اقسام کے ساتھ کیا، تاکہ سمجھ سکیں کہ کووڈ 19 اتنی تیزی سے کیسے پھیل رہا ہے۔
انہوں نے دریافت کیا کہ نئے کورونا وائرس کا وائرل لوڈ بیماری کے آغاز پر نظام تنفس کی اوپری نالی میں علامات کے نمودار ہونے کے بعد اولین 5 دن تک عروج پر ہوتا ہے۔
یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ نظام تنفس کی اوپری نالی میں وائرس کو اس کے پھیلاؤ کا بنیادی ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں دیگر 2 کورونا وائرسز سارس اور مرس میں وائرل لوڈ بالترتیب 10 سے 14 دن اور 7 سے 10 دن کے بعد عروج پر ہوتا ہے، جس سے علامات اور قرنطینہ کو شناخت کرنے کے لیے زیادہ وقت ملتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ نتائج سابقہ رپورٹس سے میل کھاتے ہیں جن میں عندیہ دیا گیا تھا کہ وائرس کی ایک سے دوسرے میں منتقلی کے اکثر واقعات بیماری کے آغاز میں ہی ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ علامات ظاہر ہوتے ہی خود ساختہ آئسولیشن اختیار کرلینی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں عوامی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر اس بیماری سے جڑی علامات کے حوالے سے۔