پی ڈی ایم کے پشاور جلسے کا احوال
صحافت کا شمار ان چند شعبوں میں ہوتا ہے جس میں ہر گھڑی تیار رہنا پڑتا ہے۔ چھٹی کا بھی کوئی دن مخصوص نہیں۔ خاص کر پاکستان میں جہاں سیاست کے سمندر میں کسی نہ کسی بہانے طوفان بپا ہی رہتا ہے۔
ابھی گلگت بلتستان کے انتخابات کی گہما گہمی تھمی نہیں تھی کہ ہیڈ آفس سے احکامات موصول ہوئے کہ 22 نومبر کو پشاور میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے میں جانے کی تیاری کریں۔
اتوار 22 نومبر کی صبح 8 بجے ہم اپنے سینئر پروڈیوسر علی راؤ، پروڈیوسر علی کیانی اور کیمرا مین کے ہمراہ پشاور کی جانب نکل پڑے۔
موسم ٹھنڈا اور خوشگوار تھا۔ سوچا کیوں نہ میلوڈی کے کوئٹہ کیفے سے گُڑ والی چائے پی لی جائے، آنکھ بھی کھل جائے گی اور سردی کا کچھ حد تک توڑ بھی ہوجائے گا۔ ٹیم کے ساتھ گرما گرم چائے پیتے ہوئے جلسے کی کوریج اور لائحہ عمل بھی طے کرتے رہے۔
چائے کی نشست برخاست کرتے ہی ہم اب سیدھا اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔ 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہماری گاڑی اسلام آباد پشاور موٹر وے M-1 پر دوڑ رہی تھی۔ دورانِ سفر ٹیم کی سیاسی گفتگو، جلسے کے دوران کوریج کے طریقہ کار اور ہلکی پھلکی موسیقی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
مزید پڑھیے: ’میں نے کوئٹہ جلسے میں کیا کچھ دیکھا؟‘
ہمارا ہدف تھا کہ صبح 11 بجے تک پشاور رنگ روڈ سے متصل کبوتر چوک پہنچ جائیں، جو پی ڈی ایم کے جلسے کا مقام تھا۔ موٹر وے پر رشکئی انٹر چینج کے مقام پر پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ پشاور جانے کے لیے موٹر وے بند ہے۔ موٹر وے پولیس کے افسران و اہلکار ہر آنے والی گاڑی کو رشکئی انٹرچینج کی طرف موڑ رہے تھے۔
ہم نے موٹروے پولیس کے ایک اہلکار سے اس بندش کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو جواب میں صرف اتنا کہا کہ موٹر وے پشاور جانے کی لیے بند ہے، آپ رشکئی کی جانب مڑ جائیں۔
میں نے پھر سوال پوچھا، جناب یہ بند کرنے کی وجہ کیا ہے؟ آج تو دھند بھی نہیں۔ اہلکار نے بے رخی سے جواب دیا کہ حکومت کی طرف سے بندش کے احکامات ہیں۔
وجہ تو مجھے سمجھ آگئی تھی لیکن جس موٹر وے پولیس کے اخلاق کی ہم تعریف کرتے نہیں تھکتے، وہ بھی نظریں چُراتے ہوئے بے رخی سے جواب دینے پر مجبور نظر آئے۔ خیر ہم نہ چاہتے ہوئے بھی رشکئی انٹرچینج کی طرف مڑ گئے اور یہاں سے موٹر وے کو خیرباد کہہ دیا۔
اب ہمیں براستہ جی ٹی روڈ پشاور پہنچنا تھا۔ عام دنوں میں اتوار کے روز جی ٹی روڈ پر اتنا رش نہیں ہوتا لیکن اس روز خلافِ معمول ٹریفک کا دباؤ کچھ زیادہ تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ایک طرف تو معمول کا ٹریفک تھا اور دوسری طرف پشاور جانے کے لیے تمام ٹریفک اب جی ٹی روڈ پر گامزن تھا۔
راستے میں ہم نے جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے قافلے دیکھے جو جلسے میں شرکت کے لیے رواں دواں تھے۔ ان قافلوں میں کار، موٹر سائیکلیں، جیپ، سوزوکی اور کوسٹر شامل تھیں۔ کہیں ان قافلوں کی صورت میں پیپلزپارٹی کے پرچموں کی بہار دیکھی تو کہیں مسلم لیگ (ن) کے پرچم لہراتے نظر آئے۔ ایک مقام پر تو مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے جھنڈوں سے سجا قافلہ خراماں خراماں جا رہا تھا۔ اس قافلے کے پیچھے تمام گاڑیاں انہیں کی آہستہ چال چلنے پر مجبور تھیں۔
ہم اکثر ازراہِ تفنن کہتے ہیں کہ ہمت ہے تو پاس کر ورنہ برداشت کر، لیکن اس موقع پر ہم نے تھوڑی سنجیدگی سے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ آپ تھوڑی سی ہمت کیجئے، اگر اس قافلے کے پیچھے ہم اسی رفتار سے چلتے رہے تو پشاور 11 بجے کے بجائے دوپہر 2 بجے ہی پہنچ پائیں گے۔
مزید پڑھیے: پی ڈی ایم کا کراچی جلسہ: پورا دن جلسہ گاہ میں کیا کچھ دیکھا
خیر سے ہمارے ڈرائیور نے ہمت کی اور ایک مقام پر نہایت مہارت کے ساتھ گاڑی آگے نکال لی۔ جگہ جگہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی جانب سے بینر اور بورڈز آویزاں کیے گئے تھے۔ سیاسی قائدین کی تصاویر سے مزین بورڈ اور بینروں پر جلسے کی تاریخ اور اس میں بھرپور شرکت کے لیے کہا گیا تھا۔ سرخ رنگ اے این پی کی سیاسی تاریخ سے منصوب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان قافلوں میں لال رنگ کے شلوار قمیض میں ملبوس اور سرخ ٹوپی پہنے لال رنگ کا جھنڈا اٹھائے اے این پی کے کارکنان اور حمایتی جگہ جگہ نظر آئے۔
ایک بات قابلِ ذکر ہے، اور وہ یہ کہ میری لاکھ کوشش کے باوجود مجھے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم کہیں نظر نہیں آیا۔ ان آنکھوں نے لاکھ کوشش کی کہ کہیں کسی سیاسی جماعت کے پرچموں میں، کہیں کسی اوٹ سے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم نظر آجائے لیکن میری آنکھوں کو یہ منظر نصیب نہ ہوسکا۔
جگہ جگہ پولیس کے ناکے بھی نظر آئے۔ پولیس اہلکاروں کی تعداد معمول سے زیادہ تھی لیکن کہیں بھی کوئی روک ٹوک نہیں تھی، جس کے سبب ٹریفک کی روانی متاثر نہیں ہوئی۔ ساڑھے11 بجے کے قریب ہم پشاور پہنچ گئے۔
یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ صورتحال اتنی سادہ بھی نہیں جتنا ہم سمجھ رہے تھے۔ ہم نے اپنے دوست اور نمائندے عبدالقیوم آفریدی کو فون کیا تاکہ شہر کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہی لی جاسکے۔ قیوم آفریدی نے ہمیں راستہ سمجھاتے ہوئے جمیل چوک پہنچنے کو کہا۔ جمیل چوک پہنچ کر ہم نے ملاقات کی۔ ہمیں بتایا گیا کہ شہر میں موبائل فون کے سگنل بند کیے گئے ہیں۔ کہیں کہیں موبائل کام کر رہا ہے لیکن زیادہ تر علاقوں میں موبائل کی سروس میسر نہیں۔ اس کے علاوہ رنگ روڈ کے اطراف بھاری کنٹینروں سے راستے بھی بلاک کیے گئے ہیں۔
جمیل چوک پر پی ڈی ایم میں شامل مختلف سیاسی جماعتوں کے قافلے جمع تھے۔ کچھ گاڑیوں میں سیاسی پرچم رکھے ہوئے تھے اور شرکا کو جلسے کے مقام پر جانے سے پہلے یہ جھنڈے فراہم کیے جارہے تھے۔
یہاں سے ہم بھی آگے بڑھے تاکہ جلد از جلد جلسے کے مقام تک پہنچ سکیں۔ کچھ دُور جاکر معلوم ہوا کہ جلسے کے مقام سے تقریباً 3 کلومیٹر پہلے راستے بند کردیے گئے ہیں اور باقی کا سفر پیدل ہی طے کرنا ہوگا۔
ہم نے ایک پولیس اہلکار سے معلومات حاصل کرنا چاہیں۔ تعارف کروایا کہ ہم میڈیا سے ہیں۔ گاڑی میں ہمارا کیمرا اور دیگر ٹیکنیکل سامان موجود ہے۔ کیا آپ ہمیں وہ راستہ بتا سکتے ہیں جہاں ہم باآسانی گاڑی سے پہنچ جائیں؟ اہلکار نے ایک جانب اشارہ کیا کہ اس طرف چلے جائیں تمام میڈیا والوں کو اس راستے سے کبوتر چوک تک رسائی حاصل ہے جہاں وہ باآسانی اپنی گاڑی بھی پارک کرسکتے ہیں۔
ہم اس اہلکار کے بتائے ہوئے راستے پر چل پڑے لیکن کچھ ہی دیر بعد احساس ہوگیا کہ سب سے بڑی غلطی کر بیٹھے ہیں۔ ہمارے پاس کسی اور سے معلومات لینے کا کوئی طریقہ موجود نہیں تھا۔ موبائل سگنل بند ہوچکے تھے اور ہم شدید ٹریفک جام میں پھنس چکے تھے۔ واپس مڑنے کا کوئی راستہ نہ تھا اور وقت تیزی سے نکل رہا تھا۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ گاڑی کو اسی مقام پر چھوڑ دیا جائے اور اپنا تمام ساز و سامان لے کر کسی متبادل ذریعے سے جلسے کے مقام تک پہنچا جائے۔
ہم نے ٹریفک جام میں سڑک کراس کی اور سامنے کھڑے ایک رکشے والے سے کہا کہ ہمیں جلسے کے مقام تک لے چلو۔ اس نے صاف انکار کردیا۔ کہنے لگا سر کہاں جا رہے ہیں، تمام راستے بند ہیں، آگے کنٹینر لگے ہیں۔ ہم نے منت سماجت کی کہ بھائی لے چلو جو پیسے مانگو گے دیں گے۔ جہاں تک بات ہے کنٹینر کی تو ہم میڈیا کارڈ دکھا کر نکل جائیں گے۔
کہنے لگا آپ تو نکل جائیں گے میں واپس کیسے آؤں گا۔ ہم نے کہا کہ یار جہاں تک لے جا سکتے ہو لے جاو، کنٹینر کے مقام پر ہم اتر جائیں گے۔ 100 روپے کے عوض رکشے والا چلنے پر راضی ہوا۔ میں رکشے والے کے ساتھ آگے کی نشست پر براجمان ہوا اور ٹیم پیچھے بیٹھ گئی۔ کچھ دُور ہی گئے تھے کہ کنٹینر نظر آگئے جہاں سے آگے جانا ممنوع تھا۔ بس پھر رکشے والے کو پیسے دیے اور اتر گئے۔
اس مقام پر بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔ ایک پولیس اہلکار سے پھر جلسے کا مقام پوچھا۔ ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ اس طرف۔ مُرتے کیا نہ کرتے، بھروسہ تو کرنا تھا۔ پیدل چل پڑے مگر بہت جلد احساس ہوا کہ اس طرح وقت پر پہنچنا ممکن نہیں۔
ظہر کی اذان کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت نے دوپہر 2 بجے تک جلسہ گاہ پہنچنا تھا اور اس سے پہلے ہم نے وہاں پہنچنے کے لیے جتن کرنا تھے۔ ہم نے لفٹ لینے کا فیصلہ کیا۔ ایک گاڑی کو ہاتھ دیا، وہ رک گئی، ہم نے درخواست کی ہم نے کبوتر چوک جانا ہے۔ بھلا ہو اس گاڑی والے کا، کہنے لگا میں بھی وہیں جا رہا ہوں جہاں تک گاڑی جائے گی چلے جائیں گے آگے کنٹینر لگے ہیں پیدل چلنا ہوگا۔
ہم 4 افراد تھے اور گاڑی میں صرف 3 کی جگہ تھی، ہمارے سینئر پروڈیوسر علی راؤ نے کہا ’سر آپ لوگ بیٹھیں میں پیدل آتا ہوں‘۔ وقت کم تھا اور مقابلہ سخت۔ ہم آگے نکل گئے اور کچھ دُور جانے کے بعد ہم ایک چوک پر پہنچے۔ یہ چارسدہ روڈ تھی اور اس مقام کو بھی کنٹینر لگا کر بند کردیا گیا تھا۔
ہم گاڑی سے اتر گئے اور کنٹینر پار کرکے پیدل چل پڑے۔ اس روڈ پر ہر ایک کلومیٹر کے فاصلے پر کنٹینر لگائے گئے تھے، سفر جلدی طے کرنے کے لیے کبھی کسی موٹر سائیکل والے سے لفٹ لی تو کبھی رکشے کا سہارا لیا اور کبھی پیدل چلنے پر ہی اکتفا کیا۔ کبوتر چوک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ثابت ہوا۔ جلسہ گاہ پہنچنے میں اتنی مشکل ہوگی اس کا ہرگز اندازہ نہیں تھا۔
اللہ اللہ کرکے بلآخر ہم جلسہ گاہ پہنچے اور ہمیں اسٹیج نظر آ ہی گیا جہاں بیرونی سیکیورٹی پولیس نے سنبھالی ہوئی تھی لیکن اندرونی سیکیورٹی جے یو آئی کے لٹھ بردار سیکیورٹی اسکواڈ کے ذمہ تھی۔
یہاں پہنچ کر بہت سے دیرینہ دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ سیکیورٹی پاس کا حصول ضروری تھا۔ ایک پاس تو اپنے ہی ڈی ایس این جی اسٹاف سے حاصل کیا جبکہ بھلا ہو ہمارے دیرینہ دوست اور ڈان نیوز کے صحافی عارف حیات کا جس نے کیمرا مین کے لیے دوسرے پاس کا حصول ممکن بنایا۔ اسٹیج پر پہنچنا ایک مشکل مرحلہ تھا لیکن تھوڑی سی کوشش اور دھکم پیل کے بعد ہم بشمول کیمرا مین اسٹیج پر چڑھ ہی گئے۔
اسٹیج پر پہنچ کر سب سے پہلے سکون کی ایک گہری سانس لی۔ یوں محسوس ہوا جیسے ہم نے کوہِ ہمالیہ سر کر لیا ہو۔ ویسے اتنے جتن کے بعد ایسا محسوس ہونا کچھ غلط نہیں تھا۔
رات 8 بجے پروگرام آن ایئر ہونا تھا اس لیے جلد از جلد ریکارڈ ہونا ضروری تھا۔ مرکزی قائدین سے گپ شپ لگائی۔ سابق چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری، جمعیت علمائے اسلام کے اسد محمود، سینیٹر مولانا عطا الرحمٰن، مسلم لیگ (ن) کے سابق گورنر سندھ محمد زبیر، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر، مولانا عبدالغفور حیدری، اے این پی کے ثمر ہارون بلور اورپی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے قائدین سے ملاقات اور سیاست کے داؤ پیچ پر گفتگو کی۔
موجودہ حکومت کو عوامی طاقت اور آئینی طریقے سے گھر بھیجنے پر سب ہی متفق نظر آئے۔ قومی ڈائیلاگ کا حصہ بننے کے سوال پر کسی بھی سیاسی قائد نے آمادگی ظاہر نہیں کی۔ سب کا ایک ہی مؤقف تھا کہ موجودہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اور اس حکومت کے رہنے کا اب کوئی جواز نہیں۔ جنوری 2021ء میں پی ڈی ایم کی طرف سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا عندیہ ضرور ملا۔
ہم نے کام ختم کیا اور کچھ ہی دیر بعد جلسے کا بھی اختتام ہوا اور ہم نے اپنے پشاور آفس دوڑ لگائی تاکہ ریکارڈ کیے گئے پروگرام کو تکنیکی مراحل سے گزار کر اسے 8 بجے آن ایئر ہونے کے قابل بنایا جائے۔
اس بار جلسے کے مقام سے صدر کے علاقے، جہاں ہمارا پشاور بیورو واقع ہے، 400 روپے کے عوض ٹیکسی کا سہارا لینا پڑا۔ ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ دورانِ سفر کچھ دلچسپ گفتگو ہوتی رہی جس کا احوال ہم یہاں تو بیان نہیں کرسکتے لیکن دوستوں کی محفل میں ضرور بیان کریں گے تاکہ کچھ لمحوں کے لیے ان کے چہروں پر مسکراہٹیں ضرور بکھر جائیں۔
ہمارے بیورو چیف فدا خٹک صاحب نے ہمیں روکنے کی بہت کوشش کی کہ اسلام آباد واپسی سے پہلے کھانا کھا کر جائیں، لیکن ہمیں اب واپسی کی جلدی تھی۔ اس وعدے کے ساتھ ان سے رخصت لی کہ اگلی بار انشااللہ ان کے ساتھ ضرور کھانا کھائیں گے۔
واپسی کے سفر پر ہماری ٹیم نے مردان کے چپلی کباب کھانے کی خواہش ظاہر کی جسے ہم نہ ٹال سکے۔ یہاں کے چپلی کباب کا احوال پھر کبھی تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔ مختصراً اتنا ضرور بتا دیں کہ یہاں کے چپلی کباب کا کوئی ثانی نہیں۔ کھانے کے بعد اسلام آباد واپسی کے لیے رختِ سفر باندھا۔ کئی گھنٹوں بعد کچھ لمحات سکون کے میسر آئے اور اسی دوران کب گاڑی میں بیٹھے بیٹھے آنکھ لگ گئی معلوم ہی نہ ہوا۔
فرید ریئس ایک نجی ٹی وی چینل میں بطور سینئر اینکر اور ایگزیٹو پروڈیوسر ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔