کراچی میں ٹپ ٹپ اور ٹپی
کراچی میں ساون برسا اور خوب برسا، سارا شہر جل تھل ہوگیا. گرد سے اٹی عمارتیں، سڑکیں اور درخت دھل گئے اور ساتھ ساتھ ہمارے بلدیاتی محکمے کے چہرے بھی سامنے آگئے
بارش اپنے ساتھ ہلاکتیں بھی لائی اور انیس افراد ہلاک ہو گئے لیکن یہ اتنا بڑا مسلہ نہیں کیونکہ تقریبا اتنے ہی لوگ یہاں ٹارگٹ کلنگ اور دوسرے حادثوں میں ہلاک ہوجاتے ہیں
نوٹ کرنے والی جو بات تھی وہ یہ کہ عین بارش کے دوران ہمارے وزیر بلدیات جناب اویس مظفر ٹپی اور وزیراطلاعات جناب شرجیل میمن کراچی کی سڑکوں پر نکل آئے, مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور یہ دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا کہ پورے کراچی میں ایک جیسی بارش ہورہی ہے اور کوئی بھی علاقہ الله کی رحمت سے محروم نہیں ہے
دورے کے بعد ہوسکتا ہے کہ وہ حضرات وزیر آعلیٰ صاحب کے گھر بھی گئے ہوں اور چائے کے ساتھ سموسوں اور پکوڑوں کی پا رٹی کی ہو اور الله کی رحمت کراچی اور سندھ میں برسنے پر نوافل بھی ادا کئے ہوں.
رہا کراچی تو وہ پہلے بھی الله کے حوالے تھا اور اب بھی اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا. پھر پانی تو اپنا راستہ خود بناتا ہے خود ہی بہتاہوا بحیرہ عرب میں گر جائے گا۔
جو تھوڑی بہت پریشانی کراچی والوں کو ہوئی تو یاد رہے کہ ہر خوشی کے حصول کے لئے تھوڑی بہت پریشانی تو اٹھانی پڑتی ہے. بارش والے دن انہیں مفت کی چھٹی ملی. گھر پہنچنے میں تکلیف توہوئی, ٹریفک میں پھنسے گاڑی اور موٹر ساییکل پانی میں ڈوب گئی۔ بھیگتے ہوےگھر پہنچے جہاں بجلی نہیں تھی لیکن جناب بارش بھی تو کراچی میں روز روز نہیں ہوتی۔
سنا ہے کہ کراچی کا سالانہ بلدیاتی بجٹ تقریبا 79 ارب روپے ہے۔ ہمارے پچھلے وزیر بلدیات نے نہایت ایمانداری اور خوش اسلوبی کے ساتھ اس بجٹ کا دس فیصد بھی کراچی پر نہیں لگایا اور سندھ حکومت پانچ سال اس بات پر ہی بحث کرتی رہی کے بلدیاتی نظام ضیاء الحق کا بنایا ہوا ہونا چاہئے یا پرویز مشرف کا۔
اب جناب آپ کچھ بھی کہئے ہمارے ان دونوں ڈکٹیٹر حضرا ت نے دولت کی تقسیم کا منصفانہ نظام بنآی۔ کیا کرپشن کا حق صرف ان سیاستدانوں کو ہے جو کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبیلیوں میں آتے ہیں؟ کیا غریب اور مڈل کلاس کو اس بات حق نہیں کے قومی خزانے سے وہ بھی اپنا حصّہ گھر لیجائے؟
پچھلی دور حکومت میں تو بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے ایک ممبر نے کہیں کوئی کمائی کا موقع نہ پاکر یہ بیان بھی داغ دیا کہ کرپشن پر سب صوبوں کا مساوی حق ہونا چاہئے۔
ہمارے موجودہ وزیر بلدیات جانب ٹپی صاحب کی وجہ شہرت کرپشن تو ہرگز نہیں ہے لہذا ہم یہ امید کر سکتے ہیں کے کراچی کے لئے منظور کیا جانے والا خطیر بجٹ پورے کا پورا کراچی پر ہی خرچ ہو گا اور ہم اگلی بارشوں میں بچوں کی لاشوں کو اپنے ندی نالوں میں تیرتے ہوے نہیں نہیں دیکھیں گے نہ کسی خاندان کو اپنی گاڑی سمیت نالے میں بہتے ہوئے دیکھیں گے اور نہ ان کی گاڑی نالے سے نکالنے میں ہمیں تین دن لگ جائیں گے۔