تاہم پشاور زلمی کو اس بار جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے فاف ڈیوپلیسی کا ساتھ میسر ہوگا جو پہلی بار پی ایس ایل میں جلوہ گر ہوں گے۔ وہ ویسٹ انڈیز کے کیرن پولارڈ کی جگہ ٹیم کا حصہ ہوں گے جو نیوزی لینڈ کے دورے پر ہیں۔ اس کے علاوہ پشاور زلمی کو کارلوس بریتھویٹ بھی دستیاب ہیں، جو بدقسمتی سے ویسٹ انڈیز کی ٹیم کا مستقل حصہ نہیں ہیں، لیکن پشاور کی ٹیم میں جگہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ ان کے علاوہ لیام لیونگسٹون بھی پشاور کو میسر ہوں گے۔
لاہور قلندرز
اگر کوئی ٹیم واقعی جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں اترے گی تو وہ لاہور قلندرز ہوگی۔ قلندرز نے پی ایس ایل میں اپنے 36 میچوں میں سے صرف 10میچ جیتے ہیں اور یہ ٹیم گزشتہ 4 سیزنز میں پوائنٹس ٹیبل پر سب سے نیچے رہی تھی۔ اس سیزن کے ابتدائی 3 میچوں میں بھی اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے بعد جیسے قسمت نے لاہور قلندرز کا ہاتھ تھام لیا اور قلندرز نے اپنے باقی 7 لیگ میچوں میں سے 5 میچ جیت لیے۔ پی ایس ایل کے اس سیزن میں قلندر کا سفر جذبے سے بھرپور ایک داستان ہے۔
اس مرتبہ لاہور قلندرز کی امیدوں کا مرکز 33 سالہ بین ڈنک ہوں گے جنہوں نے پہلے بھی اپنی شاندار کارکردگی سے ایونٹ کو یادگار بنا دیا تھا۔ بین ڈنک کو سمیت پٹیل اور بنگلادیشی اوپنر تمیم اقبال کے ساتھ ساتھ فخر زمان اور شاہین شاہ آفریدی کا ساتھ بھی دستیاب ہوگا۔
ملتان سلطانز
دوسری جانب ملتان سلطانز کے کیمپ میں بنگلادیش کے تجربہ کار آل راؤنڈر محمود اللہ سمیت رائیلی روسو اور عمران طاہر جیسے کھلاڑی موجود ہیں۔ اب تک کی پی ایس ایل فرانچائزوں میں ملتان سلطانز پی ایس ایل میں شامل ہونے والی آخری فرنچائز ہے جو تیسرے سیزن میں اس کا حصہ بنی تھی۔ اس سیزن میں انہوں نے 6 فتوحات حاصل کیں اور پوائنٹس ٹیبل پر پہلی پوزیشن حاصل کرلی۔ یقیناً ملتان سلطانز کو معین علی کی کمی محسوس ہوگی لیکن خوش قسمتی سے انہیں جیمس وینس کی خدمات حاصل ہیں۔
پی ایس ایل سمیت فرنچائز کی سطح پر کھیلی جانے والی ہر ٹی20 لیگ کا سب سے زیادہ پُرکشش پہلو غیر ملکی کھلاڑیوں کا جمع ہونا ہے۔ لیکن اس مرتبہ پی ایس ایل میں اس حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس کی وجہ غیر ملکی کھلاڑیوں کی دیگر مصروفیات ہیں۔ شاید 17 برطانوی کھلاڑیوں میں سے اکثر پلے آف مرحلے میں شریک نہ ہوں کیونکہ انہیں پہلے سے طے شدہ دورے جنوبی افریقہ پر جانا ہوگا۔
بہرحال یہاں کوالیفائنگ ٹیموں کے لیے ایک فائدہ موجود ہے۔ اگر ابتدائی منصوبے پر ہی عمل کیا جاتا تو لاہور اور کراچی کی ٹیمیں سیمی فائنل میں ایک دوسرے سے ٹکراتیں جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی ایک ہی فائنل میں پہنچتا۔ لیکن منتظمین نے پلے آف میچوں کو دوبارہ شامل کرلیا ہے اور اب پہلے ایلی منیٹر میں قلندرز اپنی قسمت پشاور زلمی کے ساتھ آزمائیں گے جبکہ دوسرے میچ میں کراچی کنگز کا مقابلہ ملتان سلطانز کے ساتھ ہوگا۔ اس مقابلے کا فاتح فائنل تک رسائی حاصل کرلے گا جبکہ ہارنے والے کو ایک اور موقع ملے گا اور وہ لاہور- پشاور کے مابین کھیلے گئے میچ کے فاتح سے مقابلہ کرے گا۔ اس میچ میں جیتنے والی ٹیم 17 نومبر کو ہونے والے فائنل میں رسائی حاصل کرلے گی۔
پی ایس ایل سیزن 5 کو الوداع کہنے کا اس سے بہتر اور کیا طریقہ ہوگا کہ اس کا فائنل لاہور اور کراچی کے درمیان کھیلا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یقینی طور پر اس کا جوش و خروش دگنا ہوجائے گا۔
یہ مضمون 8 نومبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔