پاکستان کی ساحلی پٹی پر موجود جزائر کی ماحولیاتی اہمیت کیا ہے؟
پاکستان کی ساحلی پٹی پر موجود جزائر کی ماحولیاتی اہمیت کیا ہے؟
تحریر و تصاویر: شیما صدیقی
ساحلی تفریح گاہیں اور سمندر کراچی کی پہچان ہیں۔ سستی ترین تفریح کی وجہ سے اکثر یہاں ہجوم رہتا ہے، اور اب کچھ عرصے سے سمندر میں موجود مختلف جزائر پر اسکوبا ڈائیونگ اور سرفنگ جیسے کھیل بھی فروغ پارہے ہیں۔
پاکستان کے پاس 990 کلومیٹر کی ساحلی پٹی ہے جو بلوچستان اور سندھ کے ساحلوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان کے جنوب میں ٹھاٹھیں مارتا بحیرہ عرب ہے جبکہ ہمالیہ سے جاری ہونے والا دریائے سندھ پاکستان کے شمالی حصوں سے بہتا ہوا سندھ میں آکر ڈیلٹا بناتا ہے اور کراچی کے قریب سمندر کا حصہ بن جاتا ہے۔ ہمارا ساحل گوادر سے لے کر بھارتی سرحد سرکریک تک پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان کے ساحل کو 6 حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی گوادر، کراچی، لسبیلا، ٹھٹہ، رن آف کَچھ اور بدین۔
جزائر کیوں بنتے ہیں؟ پاکستان میں کتنی اقسام کے جزائر ہیں؟
بنیادی طور پر پاکستان میں 3 طرح کے جزائر ہیں۔ یہ جزائر اپنے محل وقوع اور ساخت کی وجہ مختلف ہیں۔ کہیں پہاڑیاں ہیں، تو کچھ ظاہر اور غائب ہوتے ’زلزلہ جزیرے‘۔ کچھ جزیرے نسبتاً نرم اور دلدلی مٹی والے ہوتے ہیں۔ اکثر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جزیرے بنتے کیسے ہیں؟
سادہ اور عام فہم زبان میں کہیں تو سمندر میں موجود پہاڑی سلسلے اور دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے ساتھ بہہ کر آنے والی لاکھوں ٹن ریت نے جزائر کو جنم دیا ہے، اور یہ عمل ایک یا 2 برس میں نہیں بلکہ صدیوں سے چلنے والے قدرتی اور نامیاتی عمل کے نتیجے میں مکمل ہوتا ہے۔
لیکن اس کا بہتر جواب کوئی ماہر سمندری حیات اور ماہر بحری جغرافیہ ہی دے سکتا ہے۔
اریبہ حسن سینٹر آف ایکسیلنس ان میرین بیالوجی جامعہ کراچی میں سمندری مچھلیوں کی Taxonomy یعنی درجہ بندی پر تحقیق کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر ہم جزیرہ ایسی زمین کو کہتے ہیں جو چاروں اطراف سے پانی سے گھری ہوتی ہے۔
ان کے بننے کے 3 بنیادی اور قدرتی عوامل ہیں۔ پہلا تو آتش فشاں سے لاوا پھوٹنے کا عمل ہے، جہاں پوری طاقت کے ساتھ میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں بلوچستان میں زیرِ زمین قدرتی گیس کے بڑے ذخائر ہیں۔ زمینی حرکت کی وجہ سے زیرِ زمین ہائیڈرو کاربن اور میتھین گیس میں دباؤ پیدا ہوجاتا ہے اور یہ دباؤ جب پوری طاقت کے ساتھ زمین سے باہر نکلتا ہے تو اپنے ساتھ مٹی بھی لے کر آتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مٹی سخت ہوتی چلی جاتی ہے۔
اریبہ نے مزید بتایا کہ کبھی کبھی یہ عمل نرم مٹی لے کر آتا ہے جس سے عارضی جزائر وجود میں آتے ہیں۔ جب زمین کے اندر موجود گیسوں کا دباؤ کم ہوجاتا ہے تو پھر یہ مٹی وقت کے ساتھ نرم پڑتی جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد وہ جزیرہ سمندر برد ہوجاتا ہے۔ یہ عمل ہم نے 2013ء میں گوادر میں بننے والے عارضی جزیرے کی صورت میں دیکھا جسے ’زلزلہ کوہ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ جزیرہ 6 ماہ بعد قدرتی انداز میں ختم ہوگیا تھا۔ یہ عمل 1945ء، 1999ء اور 2010ء میں بھی دیکھا گیا تھا۔ اس قسم کا جزیرہ وقتی ہوتا ہے۔
جزیرہ بننے کی ایک اہم وجہ متحرک زمینی پلیٹوں کی حرکت اور زلزلے بھی ہیں۔ اس طرح جزائر بننے کا عمل صدیوں سے چل رہا ہے۔ ان میں کچھ جزائر سنگلاخ چٹانوں پر مشتمل ہیں۔ پاکستان میں ان کی مثال چرنا، منوڑا اور بلوچستان کا اسٹولا جزیرے ہیں۔
بلوچستان کے آبی ذخائر اور ساحلی پٹی سندھ کی ساحلی پٹی سے مختلف ہے۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں جیسے پسنی اور سومیانی میں چھوٹی پہاڑیاں ہیں اور اکثر جزائر غیر آباد ہیں۔ سندھ میں کم و بیش 300 چھوٹے بڑے جزائر ہیں اور یہاں پر بھی ہمیں زیادہ تر حصوں پر انسانی آبادی نہیں ملتی سوائے سندھ کے انتہائی مغرب کے کچھ جزائر میں، جیسے جزیرہ بابا بھٹ، منوڑا، شمس پیر، چاگلو، قلعو کنیری، واگورو اور بھنڈار شامل ہیں۔ ان میں 3 بڑے جزیرے، چرنا، شمس پیر اور بنڈل شامل ہیں۔
آبی ماحولیات میں جزائر کی کیا اہمیت ہے؟
جرمن واچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں 5ویں نمبر پر ہے جنہیں سخت ماحولیاتی تغیرات کا سامنا ہے۔ بات یہیں پر نہیں رکی بلکہ پاکستان کی زمینی، سمندری اور فضائی آلودگی نے پورے ایکوسسٹم کو متاثر کیا ہے، اور ہمارا ملک دنیا کے ان 12 ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں پورے ایکوسسٹم کو سخت خطرات لاحق ہیں۔
سینٹر آف ایکسیلنس ان میرین بیالوجی جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد کا کہنا ہے کہ ہمارے ساحل پر کچھ سمندری حیات ایسی ہیں جو ہمارے ایکوسسٹم کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ یہاں کئی طرح کے کیکڑے اور خاص طور پر مڈاسیکپر، یعنی کیچڑ میں رہنے والی مچھلی کی ایک خاص قسم پائی جاتی ہے۔ پھر ماحولیات میں فوڈ چین کی بھی خاص اہمیت ہے۔ صرف تیمر ہی نہیں بلکہ بہت سے دیگر پودے ہیں جو یہاں فوڈ چین کا حصہ ہیں۔ جیسے سالٹ ٹوورڈ نامی ایک چھوٹی جھاڑی ہے جو اس علاقے کا حصہ ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (WWF) کراچی کے طاہر رشید کا کہنا ہے کہ ہماری پوری ساحلی پٹی پر بائیو ڈائیورسٹی اور قدرتی سمندری ماحول موجود ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہاں بلین وہیل، شارک اور سورج مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ جبکہ پودوں میں Halophyte اقسام کے پودے ہیں جو نمکین پانی میں پائے جانے والی جھاڑیوں کی قسم ہے۔ ہمارے پانیوں میں چوہے، نیولے اور گرگٹ جیسے Rodent اقسام کے ممالیہ جانور بھی پائے جاتے ہیں جن کے جبڑے نوکیلے اور لمبے ہوتے ہیں اور یہ تیزی کے ساتھ اپنی آبادی میں اضافہ کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ چرنا جزیرے پر مونگے اور اوئسٹر کی بڑی آبادیاں ہیں۔ جھیل نما پٹی جیسے اوسٹلو، پر چھوٹے اور کم تعداد میں تیمر کے درخت ہیں۔ یہاں سمندری ڈولفن اور کچھوؤں کی 3 اقسام موجود ہیں۔ 99 اقسام کی مچھلیاں یہاں آکر انڈے دیتی ہیں یعنی مچھلی اور دیگر سمندری مخلوق کی آفزائش نسل کے لیے یہ جزائر نرسری کا کام کرتے ہیں۔
ان جزائر پر موجود پودے خاص کر تیمر کے درخت، مچھلیوں کے انڈوں کی آماج گاہ بن جاتے ہیں۔ جیونائل اسٹیج (لاروا سے ٹیڈ پول بننے کا عمل) سے لے کر مچھلی بننے تک یہی علاقہ ان کی محفوظ پناہ گاہ ہوتا ہے۔ اس طرح یہ کھلے سمندر کے تھپیڑوں اور بڑی مچھلیوں کا لقمہ بننے سے بچ جاتے ہیں۔
مقامی پرندوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان جزائر پر تقریباً 50 اقسام معلوم کی گئی ہیں۔ یہ ساری چیزیں مل کر ہی ایک اچھا قدرتی ماحولیاتی نظام بناتی ہیں۔ یہاں پرندوں کے موجود ہونے کا مطلب ہے کہ ان کی غذا وہ کیڑے بنتے ہیں جو انسانی ماحول کے لیے خطرہ ہیں اور ان سے ہی ایکو سسٹم اور فوڈ چین کا سلسلہ برقرار رہتا ہے۔
ماہرِ ماحولیات اور انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کا حصہ رہنے والے رفیع الحق کہتے ہیں کہ ’جزائر قدرت کی نعمت سے کم نہیں ہیں۔ ان کی وجہ سے ہمارا آبی ماحول متنوع ہے اور سمندری حیات کی بقا میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ قدرتی ماحول پیدا نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس کا قیام صدیوں کے نامیاتی اور غیر نامیاتی عمل کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ ہمارے ساحل اپنے تنوع کی وجہ سے خاصے معروف ہیں۔ اس تنوع میں حیاتیاتی تنوع کا کلیدی کردار ہے۔ ہمیں اپنے نقصان کا اندازہ اس لیے بھی نہیں ہے کہ ہم ان کی اہمیت کو سمجھتے ہی نہیں۔ ہمارے پاس جانوروں اور پودوں کی معلومات اور اس کی قومی سطح پہ معدومی سے متعلق مستند معلومات نہ ہونے کے برابر ہے‘۔
ایکو سسٹم کے خراب ہونے پر ان کا کہنا تھا کہ ’جن جزائر اور ساحلی پٹیوں پر ایکو سسٹم متاثر ہوچکا ہے وہاں اس کی اصلی شکل میں واپسی ایک دشوار عمل ہے۔ ہاں اگر سنجیدہ کوشش کی جائے تو قدرتی ماحول سے ملتے جلتے ماحول کے حصول سے کچھ بہتری آسکتی ہے‘۔
رفیع الحق کی تائید کرتے ہوئے اریبہ حسن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں سمندری جزائر پر فلورا اور فانا (سمندری جاندار اور پودے) پائے جاتے ہیں۔ جیسے کلفٹن کی جانب آپ کو پہاڑی اوئسٹر ملیں گے۔ جانورں میں فِن لِیس پورپائیس اور سمندری پرندے یہاں پائے جاتے ہیں۔ لیکن ہماری بہت سی آبی حیات خطرے میں ہے اور وہیل، شارک، کچھوؤں اور آبی پرندوں کی نسل میں کمی دیکھی جارہی ہے۔
آبی حیات کی بقا کے لیے ضروری دریائے سندھ کا ڈیلٹا اور تیمر کے جنگلات
جزائر اور خاص کر سندھ کے جزائر اور آبی ماحولیات کی کہانی دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ سندھ ڈیلٹا، دنیا کا چھٹا بڑا ڈیلٹا مانا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ ڈیلٹا ہزار مربع میل کی لمبی پٹی پر پھیلا ہوا ہے۔ انڈس ڈیلٹا ہی کی بدولت آبی حیات اور ماحولیات کی پرورش ہوتی ہے۔ یہ ڈیلٹا بحیرہ عرب کے ساتھ 150 کلو میٹر تک چلا جاتا ہے۔ اس ڈیلٹا کی زرخیزی سے ہی چھوٹی بڑی انسانی آبادیاں وجود میں آتی ہیں۔
دریائے سندھ کا میٹھا پانی بحیرہ عرب میں آکر گرتا ہے اور ڈیلٹا کا میٹھا اور نمکین پانی کئی اقسام کی سمندری حیات کے لیے ضروری ہے۔ یہی نہیں بلکہ ڈیلٹا کا 85 فیصد حصہ ایسا ہے جہاں پر دلدلی زمین اور 17 بڑی کریکس ہیں جن پر تیمر کے درخت موجود ہیں۔
تیمر کے جنگلات کیوں تباہ ہو رہے ہیں؟
ایک وقت تھا جب کورنگی کریک سے لے کر سرکریک تک پھیلے ہوئے حصے پر 2007ء تک دنیا کا سب سے بڑا تیمر کا جنگل واقع تھا۔ مسلسل کٹائی کی وجہ سے یہ جنگل اب 7ویں نمبر پر آچکا ہے۔ عموماً ان پودوں کی عمریں 40 سے 60 سال کے درمیان ہوتی ہے۔ ہمارے پانیوں میں ان کی 8 اقسام پائی جاتی تھیں لیکن میٹھے پانی کی کم یابی کی وجہ سے اب تک 4 اقسام ناپید ہوچکی ہیں۔ بلوچستان کے ساحلوں تک دریائے سندھ کا میٹھا پانی نہیں پہنچتا لہٰذا وہاں صرف 3 فیصد تیمر کے جنگلات پائے جاتے ہیں۔
تیمر کے جنگلات ختم ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک دریا پر ڈیموں کی تعمیر بھی ہے جس کی وجہ سے پانی کے بہاؤ میں تبدیلی آئی ہے اور ڈیلٹا میں وقت کے ساتھ پانی کی سطح کم ہوتی چلی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیمر کے جنگلات میں تازہ اور میٹھا پانی نہیں پہنچ پارہا۔نمکین پانی میں یہ پودے تیزی سے نشونما تو پاتے ہیں لیکن پانی کی PH بہتر رکھنے کے لیے پانی میں میٹھا پانی شامل ہونا ضروری ہے۔ دیگر کئی وجوہات میں جنگلات کی کٹائی بھی شامل ہے۔ یہ پودے، جانوروں خاص کر اونٹوں کی غذا بن جاتے ہیں۔
جہاں تک گندگی اور آلودگی کا سوال ہے تو ابراہیم حیدری کا ساحلی کنارہ گندے پانی اور کالے کیچڑ کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ جبکہ 40 برس قبل ایسا کچھ نہیں تھا۔ کناروں پر سفید چاندی کی طرح ریت ہوا کرتی تھی۔ مگر جب اس صاف ستھرے پانی میں روزانہ کراچی شہر کا 50 کروڑ گیلن گھریلو اور صنعتی فضلہ ڈالیں گے اور 5 سے 10 ہزار ٹن ک چرا سمندر میں پھینکیں گے تو بحری حیات، سمندری کچھوؤں اور سمندری پرندوں کے پیٹ سے پلاسٹک ہی نکلے گا۔ ہم نے ایک سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد تیمر کے جنگلوں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسی حالت میں ساحل بھی گندے ہوں گے اور تیمر کے جنگل بھی برباد ہوں گے۔
سندھ کے جزائر پر سیاست اور آبی ماحولیات کی ایکو آڈیٹنگ
آج کل صوبہ سندھ اور وفاق کے درمیان جزائر کی ملکیت اور ان پر تعمیرات کے معاملے پر تنازعہ جاری ہے۔ سندھ وائلڈ لائف کے ڈائریکٹر جاوید احمد مہر کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں سمندری حیات کی اہمیت ابھی تک سمجھی ہی نہیں گئی۔ ہمارے پاس بہترین آبی حیاتیاتی ماحول ہے۔ تیمر کے جنگلات کی کٹائی سے پہلے ہی ہمارا آبی ماحول تباہی کی طرف گامزن تھا‘۔
طاہر رشید بھی سمجھتے ہیں کہ ’اگر یہ حصہ شہری آبادی سے ڈھک جائے گا تو یقیناً ہمارا ایکو سسٹم مزید تباہ حالی کی طرف چلا جائے گا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت مقامی آبادی کے مسائل اور رائے کی اہمیت حکمرانوں کی سوچ سے زیادہ ہے۔ بین الاقوامی قانون جیسے کنوینشن آف بائیو ڈائیورسٹی (CBD) کے آرٹیکل 8 کی شق 1A کے مطابق ’مقامی آبادی کے معاشی، ثقافتی اور سماجی پہلوؤں کو زک نہیں پہنچائی جائے گی اور مقامی آبادی کی منظوری اور ان کو اعتماد میں لیے بغیر کسی بھی طرح کی تعمیر نہیں کی جاسکتی‘‘۔
اسسٹنٹ پروفیسر وقار احمد صاحب کہتے ہیں کہ ’ان جزائر پر تعمیرات سے پورا ’آبی حیاتاتی ماحول‘ متاثر ہوگا۔ یہاں پر پائے جانے والے دیگر سمندری حیات جیسے جھینگوں کو اپنی نرسری کے لیے خاص ماحول چاہیے۔ مختلف اقسام کی مچھلیاں، جیلی فش اور دیگر سیکڑوں اقسام کی سمندری حیات ان جزائر اور اطراف میں رہتی ہیں۔ یہاں پائے جانے والے پرائمری پروڈیوسر (چھوٹے کیڑے مکوڑے) پر سیکنڈری پروڈیوسر (چھوٹی مچھلیاں) انحصار کرتی ہیں۔ اگر یہ سب موجود نہیں ہوگا تو یہاں یہ جانور زندہ نہیں رہ سکیں گے‘۔
رفیع الحق صاحب بھی سمجھتے ہیں کہ 2019ء میں انڈونیشیا کے شہر آچے میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس فار نیچر اینڈ انوائرنمنٹ میں ممالک پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سمندری حدود کا 10 فیصد آبی حیات کے تحفظ پر خرچ کریں گے۔ ایک تحقیق ہے کہ میانمار اور تھائی لینڈ میں جب سونامی آیا تو میانمار میں تھائی لینڈ کے مقابلے صرف تیمر کے درختوں کی وجہ سے کم نقصان ہوا۔ یعنی ساحلی پٹی پر ان کا ہونا ہمارے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔ ہمارے یہاں ابراہیم حیدری، ریڑھی گوٹھ اور ساحلی پٹی سے جڑی تمام کچی اور غریب آبادیاں کسی سمندری طوفان کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔
1945ءمیں ایک سونامی بلوچستان کے ساحلوں سے ٹکرایا تھا اور اس وقت ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ ہمارے ساحلی خطے سمندری طوفان کی زد میں آسکتے ہیں۔ اس طرح کی صورتحال میں بھی اس طرح کے جزائر طوفان کی شدت کو کم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
ساتھ ہی یہاں تقریباً 400 سال پرانا یوسف شاہ صاحب کا مزار ہے جن کا عرس ہر سال نومبر میں منایا جاتا ہے۔ یعنی سماجی اور مذہبی دونوں لحاظ سے یہ جزائر اہمیت کے حامل ہیں۔
پاکستان فشر فوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ بتاتے ہیں کہ ان جزائر پر 06ء-2005ء تک چھوٹی موٹی آبادیاں تھیں لیکن انہیں بے دخل کردیا گیا۔ ہم اسے عام سمندری گزرگاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہاں سستاتے ہیں، مچھلی اور جھینگے سکھاتے اور جال درست کرتے ہیں۔ سمندری طغیانی کے زمانے میں یہ پورا جزیرہ پانی سے بھر جاتا ہے۔ چونکہ بنڈل کے شمالی کی جانب گہرہ پانی ہے اس وجہ سے وہاں تیمر کے بڑے جھنڈ ہیں۔ سندھ اور وفاق کے درمیان اس سیاسی رسہ کشی میں عام مچھیروں کا نقصان ہو رہا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومت کو مل کر ان جزائر کی ایکو آڈیٹنگ (Eco Auditing) کروانی چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ ان جزائر کی آبی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ اس رپورٹ سے ہی یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ان پر شہر کی تعمیر سے ہمارا ایکو سسٹم مکمل طور پر تباہ ہوجائے گا۔
آخری خبروں کے مطابق ان جزائر پر شہر کی تعمیر کے ابتدائی کاموں کا آغاز کردیا گیا ہے۔
موسمِ سرما میں سائبیریا کے پرندوں کی جزائر پر آمد
سائبیریا کی برفانی ہواؤں سے بچ کر سندھ کے ساحلوں تک پہنچنے والے پرندے جہاں ہمارے ساحلوں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں وہیں دریائے سندھ کے ڈیلٹا کو دنیا کا ساتواں بڑا فضائی راستہ بناتے ہیں جسے ’انڈس فلائے وے‘ (Indus flyway) کا نام دیا گیا ہے اور زرخیزی کی وجہ سے اسے ’گرین روٹ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ جزائر بھی سائبیریا کے پرندوں کا مسکن ہیں۔ WWF کی جانب سے کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق 2008ء میں ایک لاکھ 60 ہزار تک پرندے ان جزائر تک پہنچے اور یہاں بسیرا کیا۔ جاوید احمد مہر اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ 2019ء کے سروے کے مطابق 2 لاکھ 48 ہزار 105 پرندے سندھ کی پٹی تک آئے تھے۔ جبکہ اس سال 7 لاکھ 41 ہزار 42 آبی پرندوں کے آنے کی امید ہے۔
موسمِ سرما میں سائبیریا کی برفانی ہواؤں سے بچ کر آنے والے آبی پرندوں میں مرغابی چیکھلو، نیرگی، ڈگھوش، آڑی، کونج، گریبس، گیز، ڈارٹرز، بگلا، ایریٹس، اسٹورکس، آئبائیس، اسپونبلز اور دیگر شامل ہیں۔ یہ آبی پرندے لمبا سفر کرتے ہیں اور سفر کے دوران یا تو وہ جھیلوں میں بسیرا کرتے ہیں یا اگر ان میں طاقت ہو تو سمندر عبور کرتے ہوئے ان ساحلی جزائر کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔
کیا ہمارے ایکو سسٹم اور بائیو ڈائیورسٹی کو بچایا جاسکتا ہے؟
رفیع الحق کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’ہم نے شارک کے لیے ماحول برباد کردیا ہے اور اب سمندر سے شارک بھی ختم ہونے لگی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے مطابق استولا کا جزیرہ چھوٹی چٹانی پہاڑیوں پر مشتمل ہے اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ یہاں پائی جانے والی کئی آبی حیات اور نباتات پاکستان کے دیگر علاقہ جات تو کیا کسی دوسرے ملک میں بھی نہیں ملتی۔ ان میں سن وائپر نامی زہریلا سانپ اہم ہے۔ اس کے علاوہ یہاں گریٹر کرسٹیڈ نامی پرندے ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ جبکہ دنیا کے دیگر علاقوں میں ان کی تعداد بہت کم ہے۔
یہاں مونگے کی 250 سے زائد اقسام ہیں۔ جب یہ مونگے فاسلز بنتے ہیں تو یہ مچھلیوں کی نسل بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں، اور مچھلیاں انڈوں سے نکلنے کے بعد ان کی چٹانوں میں چھپ کر بڑی مچھلیوں کا لقمہ بنے سے محفوظ رہتی ہیں۔ استولا کو 2017ء میں کنوینشن آف میرین بائیو ڈائیورسٹی کے تحت محفوظ علاقہ قرار دیا گیا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کے 2007ء میں تسمان اسپرٹ نامی تیل بردار جہاز کے ڈوبنے سے ہمارا پورا آبی ماحول متاثر ہوا تھا، اور ہمارے ساحل مردہ مچھلیوں اور کچھوؤں سے بھر گئے تھے۔ جبکہ وہ آبی حیات کی افزائش نسل کا زمانہ تھا۔ شارک ہمارے سمندری حدود سے باہر چلی گئیں تھیں اور پھر کئی برسوں تک وہ یہاں نہیں آئیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بین الاقوامی اور مقامی قوانین کی پاسداری کریں اور اپنی سمندری حیات کی افزائش میں موجود تمام رکاوٹوں کو دُور کریں۔
شیما صدیقی 15 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں. انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔