چھتل شاہ نورانی کا مزار: جس کی دریافت اور زوال ایک ساتھ شروع ہوئے
بلوچستان کا دریائے مُولا 400 کلومیٹر طویل کیرتھر پہاڑوں میں بہنے والا واحد دریا ہے۔ مغرب سے مشرق کی سمت بہنے والا یہ دریا قلات کے جنوب مشرق میں واقع بروہی پہاڑوں سے جاری ہوتا ہے۔
جنوبی سمت میں بہتے ہوئے یہ دریا اپنے ہی نام سے موسوم وسیع وادی مُولا کو سیراب کرتا ہے۔ آدھے راستے میں یہ اپنا رخ تبدیل کرلیتا ہے اور شمال کی جانب مُڑ جاتا ہے اور اس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ یہ کیرتھر پہاڑوں کو کاٹتا ہوا گنڈاوا تک پہنچ جاتا ہے۔
جس مقام پر دریا نشیبی علاقے میں داخل ہوتا ہے تو اسے نو لنگ یعنی نو گھاٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پہاڑوں پر رہنے والے بلوچ اسے پنچ منہ یعنی پانچ منہ بھی کہتے ہیں۔
اگر دریا کو پہاڑوں کی قید سے نکل کر نشیبی علاقے میں آتے ہوئے دیکھا جائے تو یہ دونوں نام ہی درست معلوم ہوتے ہیں۔ ہزاروں سال تک یہ وادی سندھ سے قلات تک کا آسان ترین راستہ رہا ہے کیونکہ یہ واحد راستہ تھا جہاں سے بیل گاڑیاں گزر سکتی تھیں۔
325 قبل مسیح میں سکندرِ اعظم نے پٹالہ (موجودہ حیدرآباد) کے قلعے کو مضبوط کرنے کے بعد اپنے 10 ہزار سپاہیوں کو عمر رسیدہ جنرل کریٹوس کی قیادت میں واپس مقدونیہ اور یونان بھیج دیا۔ اپنے ساتھ ہندوستان کی مہم کے دوران جمع کیے گئے خزانے کو لے کر یہ لشکر کیرتھر پہاڑوں کی مشرقی دیوار کے ساتھ ساتھ مُولا گھاٹی میں سفر کرتا ہوا فارس کی جانب سفر کرتا رہا۔
یورپی باشندے جس مقام سے مُولا گھاٹی میں داخل ہوئے وہاں سے صرف 5 کلومیٹر شمال میں جنگل میں ایک خوبصورت مقام تھا جسے وہ نہ دیکھ سکے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس دور میں اس جگہ کا کیا نام تھا، تاہم 1831ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے تعلق رکھنے والے جیمز لوئیس نے قلات سے جھل مگسی جانے کے لیے اس راستے پر مخالف سمت سے سفر کیا۔ وہ مگسی قبیلے کے سربراہ نواب احمد خان سے ملنے جارہے تھے۔
جیمز خود کو امریکی ظاہر کرکے چارلس میسن کے فرضی نام کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ اپنے سفر میں انہوں نے دیکھا کہ ’ہمارے شمال میں تقریباً ایک میل دُور ایک گنبد نما عمارت موجود تھی، یہ پیر چھتہ کی زیارت گاہ تھی جہاں عام طور پر قلات اور کچھی کے درمیان سفر کرنے والے قافلے آرام کے لیے رکتے تھے‘۔
میسن کو تو جھل مگسی پہنچنے کی جلدی تھی، اسی لیے نہ ہی انہوں نے رُک کر مزار کو دیکھا یا اس کی کہانی دریافت کی اور نہ ہی وہ وہاں ایک پتھر سے جاری ہوتے چشمے کو دیکھ سکے جس کا صاف شفاف پانی ایک تالاب کی صورت میں جمع ہوجاتا ہے۔
2003ء میں بلوچستان کے اس دُور افتادہ علاقے کے اپنے پہلے سفر کے دوران میں نے اس تالاب اور اس میں موجود مہاشیر مچھلیوں کو تلاش کرلیا تھا۔ یہ مچھلیاں تقریباً 60 سینٹی میٹر لمبی ہوتی ہیں۔ یہ انسانوں سے اس قدر مانوس تھیں کہ جس جگہ میں کھڑا تھا یہ اس کے آس پاس تیر رہی تھیں۔
مزار کے متولی نے مجھے بتایا کہ یہ مچھلیاں انسانوں سے اس لیے مانوس ہیں کیونکہ یہاں آنے والے لوگ انہیں کھانا ڈالتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ چونکہ یہ مچھلیاں یہاں مدفون بزرگ کی پالی ہوئی ہیں اس لیے انہیں کبھی کسی نے نہیں کھایا۔ اگر ان کو پکڑ کر کھا لیا جائے تو یہ اگلے دن کھانے والے کے پیٹ سے زندہ سلامت باہر نکل آئیں گی۔
مزار کے متولی مِٹھل نے بتایا کہ ایک انگریز سیاح نے ان میں سے ایک مچھلی کو کھالیا تھا، پھر اگلی صبح اس کے ساتھ جو ہوا اس کی وجہ سے اسے شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
میں نے اس سے دریافت کیا کہ یہاں مدفون بزرگ کہاں سے آئے تھے؟ تو اس نے آسمان کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ’صرف اللہ ہی جانتا ہے‘۔ وہ صرف اتنا بتا سکتا تھا کہ چھتل شاہ نورانی مرادیں پوری کرنے والے تھے۔ ہندو اور مسلمان سب ہی یہاں آتے تھے اور ان کی مرادیں پوری ہوجاتی تھیں۔ 2003ء سے یہ کہانی ایسے ہی چلی آرہی ہے۔
لیکن یہاں کا منظر اب ضرور تبدیل ہوگیا ہے۔ گزشتہ دورے کے دوران یہ جگہ ویران اور پُرامن تھی جبکہ اس بار یہاں کچھ لوگ تالاب میں کھیلتے ہوئے نظر آئے۔ ظاہر ہے ان کی وجہ سے مچھلیاں بھی ڈر کر چھپ گئی تھیں۔ ان افراد سے گزارش کی گئی کہ براہ کرم آپ باہر آجائیے۔ ان کے باہر آنے کے چند ہی منٹوں میں مچھلیاں ایک بار پھر نظر آنے لگیں۔ لیکن اکثر مچھلیاں گہرے پانی میں چلی گئی تھیں جہاں پہلے صرف چھوٹی مچھلیاں نظر آتی تھیں۔
اپنے گزشتہ دورے کے دوران میں نے یہاں کے بوڑھے متولی جس کا نام مجھے نہیں معلوم، اس سے کہا کہ میں ان مچھلیوں کو کھانا چاہتا ہوں کیونکہ میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ یہ میرے پیٹ میں زندہ رہیں گی۔ میرے مزید تنگ کرنے پر اس نے بلآخر یہ پوچھ ہی لیا کہ میں یہ کام کیوں کرنا چاہتا ہوں۔ آخر کیوں میں صرف انہیں دیکھ کر ان کی خوبصورتی سے محظوظ نہیں ہوسکتا۔ اور یقیناً درختوں کے پتوں سے چھن کر آنے والی روشنی میں یہ مچھلیاں مختلف رنگوں میں چمکتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
اس نے مجھ سے کہا کہ ’اگر ہم یہ کہانی لوگوں کو نہ سنائیں تو لوگ کب کا ان مچھلیوں کو پکڑ کر کھا چکے ہوتے اور یہاں کوئی مچھلی باقی نہیں رہتی‘۔
پھر مجھے احساس ہوا کہ کسی نہایت ہوشیار شخص نے یہ کہانی ایجاد کرکے اس مقام کو شاید پاکستان کا سب سے قدیم کنزرویشن پوائنٹ بنادیا ہے۔
تالاب میں موجود لوگوں سے بات کرکے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ لوگ واقعی جسم میں مچھلی کے زندہ رہنے کی کہانی پر یقین رکھتے ہیں۔ میں نے انہیں تنگ کرنے کے لیے کہا کہ وہ ایک مچھلی کو کھا کر دیکھیں کہ یہ واقعی سچ ہے یا نہیں۔ انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا اگر مجھ میں ہمت ہے تو میں یہ تجربہ کرکے دیکھ لوں۔ وہاں موجود لوگوں میں سے ایک نے کہا کہ یہ ان بزرگ کا معجزہ نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے حکم سے ہوا ہے جو اس نے اپنے منتخب بندے کے لیے کیا ہے۔
میں ایک چھوٹے سے ٹیلے پر چڑھ کر چھتل شاہ کے مزار تک گیا جسے میسن نے ایک گنبد کے نیچے دیکھا تھا۔ لیکن میسن کے دور سے اب تک کے دوران کسی وقت یہ گنبد ٹوٹ گیا ہے۔ 2003ء کے دورے کے دوران میں نے ایک بغیر چھت کی چار دیواری دیکھی جس کے درمیان میں قبر موجود تھی۔ دیواریں نسبتاً جدید طرز کی تھیں لیکن خام حالت میں تھیں۔
مِٹھل نے مجھے بتایا کہ وہ کسی گنبد کے بارے میں نہیں جانتا۔ اس کے دادا کے وقتوں سے یہ مزار اسی حالت میں ہے۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ کسی زلزلے کی وجہ سے گنبد گر گیا ہو۔ جیسے 1860ء کی دہائی میں آنے والا زلزلہ، جس کی تباہی کی کہانیاں کچھ عرصے قبل تک گنڈاوا داستان میں شامل تھیں۔ بر سبیل تذکرہ میں نے مئی 1935ء میں آنے والے زلزلے کا بھی ذکر کیا جس نے قلات اور کوئٹہ کو الٹ کر رکھ دیا تھا۔ لیکن اگر اس زلزلے کی وجہ سے گنبد گرا ہوتا تو اس کا ملبہ یہاں کہیں ضرور موجود ہوتا۔ مِٹھل کو ان سب چیزوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔
میں صرف یہ جاننے کے لیے کہ آیا وہ بھی مچھلیوں کی خوبصورتی کو سراہتا ہے اور اس سے مچھلیوں سے متعلق کہانی کے بارے میں دریافت کیا۔ اس نے کہا کہ پانی میں یہ مچھلیاں بہت اچی لگتی ہیں۔ اس نے اس کے لیے ’منظر‘ کا لفظ استعمال کیا۔ اس نے مزید کہا کہ کوئی انہیں کھانے کا تصور کیسے کرسکتا ہے۔ یہاں آنے والے خدا کی اس زبردست تخلیق کو کھانا ڈالتے ہیں، اگر یہ مچھلیاں ختم ہوگئیں تو وہ کسے کھانا ڈالیں گے؟
گزشتہ 17 برسوں میں کچھ خاص تبدیلیاں تو واقع نہیں ہوئی ہیں لیکن میں چھتل شاہ کے لیے پکنک اسپاٹ کا لفظ سن کر بہت مایوس ہوا۔ اس عرصے میں اس جگہ کو ویسے ہی لوگوں نے تلاش کرلیا ہے جنہیں میں نے تالاب میں دیکھا تھا۔ اب تالاب تک پہنچنے کے لیے بھی سیڑھیاں بن چکی ہیں اور ایک ٹین کے شیڈ اور بینچ نے پکنک اسپاٹ کو مکمل کردیا ہے۔ لیکن ظاہر ہے اس کا نتیجہ کوڑے کرکٹ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ 2003ء میں یہ ایک پاکیزہ جگہ تھی جسے اب ہر طرح کے کچرے نے داغدار کردیا ہے۔
میں جب بھی دہائیوں بعد کسی مقام پر دوبارہ جاتا ہوں تو مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہی ہوتا ہے کہ تاریخی مقامات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور قدرتی مقامات کچرے کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ مجھے سب سے زیادہ افسوس ان جدید گھروں اور شیڈ کو دیکھ کر ہوتا ہے جنہیں سیاحوں کی رہائش کے لیے تعمیر کیا جاتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ چھتل شاہ نورانی کے مزار کی دریافت اور اس مقام کا زوال ایک ساتھ شروع ہوئے ہیں۔
یہ مضمون 18 اکتوبر 2020ء کو ای او ایس میں شائع ہوا۔
لکھاری رائل جیوگرافیکل سوسائٹی کے فیلو ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔