نقطہ نظر

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ چھڑی تو فائدہ کون اٹھائے گا؟

30 سال سےزائد عرصہ گزرنے کے باوجود عالمی برادری نیگورنوکاراباخ کا تنازع حل کرانےمیں ناکام ہے جس پر آذربائیجان کا صبر جواب دےرہا ہے

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نیگورنو-کاراباخ کا تنازع 30 سال سے چلا آ رہا ہے اور اس سال دونوں ملکوں کے سرحدی تصادم نے اس تنازع کی سنگینی اس قدر بڑھا دی ہے کہ مکمل جنگ کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔

1990ء کی جنگ کے بعد بھی دونوں ملکوں میں سرحدی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں لیکن اس بار یہ تصادم پورے بارڈر پر ہے، اور دونوں طرف سے توپ خانے اور بھاری ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں کا خدشہ ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو مکمل جنگ کو سفارتی ذرائع سے ٹالنا مشکل ہوجائے گا۔

آذربائیجان اور آرمینیا کے تنازع میں ترکی، روس اور ایران کا کردار اہم ہے جو مشرقِ وسطیٰ اور یورپ میں کئی معاملات پر یکساں مؤقف رکھتے ہیں لیکن اس تنازع میں سب کے اپنے مفادات ہیں۔

ماسکو آرمینیا کا دفاعی پارٹنر ہے اور روس کی شراکت داری آرمینیا کے لیے لائف لائن جیسی اہمیت رکھتی ہے جبکہ ترکی ہم نسل آذربائیجان کی پشت پر کھڑا ہے۔ اگر آذربائیجان اور آرمینیا میں مکمل جنگ چھڑتی ہے تو ترکی اور روس بھی اس میں کود سکتے ہیں اور جنگ کے اثرات اس خطے سے باہر دُور تک جائیں گے۔

قفقاز جنوب مشرقی یورپ میں اسٹریٹجک اہمیت کا ایک پہاڑی علاقہ ہے جس پر کنٹرول کے لیے مسلمان اور عیسائی حکمران صدیوں سے لڑتے رہے ہیں۔ آج کا آذربائیجان اور آرمینیا اسی خطے میں واقع ہیں اور 1920ء میں جب سوویت یونین وجود میں آیا تو دونوں اس کا حصہ بن گئے۔

نیگورنو-کاراباخ میں آرمینیائی آبادی کی اکثریت تھی لیکن سوویت یونین نے اسے آذربائیجان کے کنٹرول میں دیا۔ نیگورنو-کاراباخ کے آرمینیائی باشندے آذربائیجان سے نکل کر آرمینیا میں جانے کا مطالبہ کرتے رہے لیکن سوویت یونین نے اس مطالبے پر توجہ نہیں دی۔

1980ء کی دہائی میں جب سویت یونین بکھرنے کو تھا اور نیگورنو-کاراباخ کی علاقائی پارلیمنٹ نے آرمینیا کا حصہ بننے کی قرارداد منظور کی، تو آذربائیجان نے علیحدگی پسندی کو دبانے کی کوشش کی جبکہ آرمینیا نے اس علیحدگی کی تحریک کو مدد دی جس پر نسلی جنگ چھڑگئی۔ لیکن جب آذربائیجان اور آرمینیا نے سوویت یونین سے آزادی کا اعلان کیا تو دونوں ملکوں کے درمیان مکمل جنگ چھڑگئی۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد مارے گئے اور نیگورنو-کاراباخ سے ترک آذری نسل کے لاکھوں باشندوں کو بے دخل کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں سے نسلی بنیادوں پر مزید لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔

نگورنو کاراباراخ کے آرمینیائی عیسائیوں کو آرمینیا کی مکمل مدد حاصل تھی، اور مقامی آرمینیائی آبادی نے آذری ترک نسل کے باشندوں کو بے دخل کرکے دارالحکومت باکو سے قطع تعلق کرلیا اور خودمختاری کا دعویٰ کیا۔

پھر 1994ء میں روس نے دونوں ملکوں میں جنگ بندی کرائی۔ اس جنگ بندی معاہدے کے تحت نیگورنو-کاراباخ آذربائیجان کا حصہ قرار پایا لیکن عملی طور پر آرمینیا کے کنٹرول میں ہے جس کا انتظام مقامی آرمینیائی باشندوں کے سپرد ہے اور مقامی انتظامیہ آزاد اور خودمختار جمہوریہ ہونے کی دعویدار ہے۔ بین الاقوامی برادری کے نزدیک نیگورنو-کاراباخ آج بھی مقبوضہ علاقہ ہے۔ 30 سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود عالمی برادری نیگورنو-کاراباخ کا تنازع حل کرانے میں ناکام رہی ہے جس پر آذربائیجان کا صبر جواب دے رہا ہے۔

اس سال جولائی میں نیگورنو-کاراباخ کا مسئلہ اس وقت عالمی برادری اور دنیا کی توجہ کا مرکز بنا جب آرمینیا نے نیگورنو-کاراباخ کی سرحد سے دُور آذربائیجان کی فورسز کو نشانہ بنایا۔ اگست میں آذربائیجان نے آرمینیا کے ایک ملٹری کمانڈر کو گرفتار کیا اور الزام لگایا کہ وہ ملک میں سبوتاژ کی کارروائیوں کے لیے داخل ہوا تھا۔

اس وقت چونکہ لڑائی نیگورنو-کاراباخ ریجن میں ہو رہی ہے اس لیے آذربائیجان کا دعویٰ ہے کہ آرمینیا اس پر حملہ آور ہوا کیونکہ اس کی افواج عالمی سطح پر مسلمہ ملکی حدود کے اندر لڑ رہی ہیں۔ اس اعتبار سے آذربائیجان آرمینیا کو جارح طاقت قرار دیتا ہے۔ دوسری طرف آرمینیا کی پارلیمنٹ نے آذربائیجان کی طرف سے ’مکمل جنگ چھیڑنے‘ کی مذمت کی ہے اور آرمینیا کی وزارتِ خارجہ کی خاتون ترجمان نے الزام لگایا کہ ترکی کے فوجی ماہرین آذربائیجان کی فوج کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں اور ترکی نے آذربائیجان کو لڑاکا طیارے اور ڈرونز فراہم کیے ہیں۔ لیکن آذربائیجان ان الزامات کو مسترد کر رہا ہے۔ آرمینیا کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ترکی نے اپنے زیرِ تسلط شام کے علاقوں سے جنگجو آذربائیجان بھجوائے ہیں جو آذری فوج کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔

ترکی میں تعینات آذربائیجان کے سفیر نے الزام لگایا ہے کہ آرمینیا نے نیگورنو-کاراباخ میں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) اور آرمینین سیکرٹ آرمی فار لبریشن آف آرمینیا (اے ایس اے ایل اے) کے ’دہشتگرد‘ نیگورنو-کاراباخ کی لڑائی میں بھجوائے ہیں اور وہ آذربائیجان میں مزید علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اس سے پہلے ترک میڈیا میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کردستان ورکرز پارٹی کے دہشتگردوں کو شام میں تربیت دینے کے بعد نیگورنو-کاراباخ بھجوایا گیا ہے جو آرمینیا کے دہشتگردوں کی تربیت کریں گے اور آرمینیا ترکی کے خلاف ایک اور محاذ کھولنا چاہتا ہے۔

آذربائیجان کے اعلانِ آزادی کے بعد اسے تسلیم کرنے والا پہلا ملک ترکی تھا اور آذربائیجان کے پہلے صدر حیدر علیوف نے ایک بار کہا تھا کہ ترکی اور آذربائیجان ایک قوم اور دو ریاستیں ہیں۔ دونوں ملکوں کی اکثریتی آبادی ترک نسل سے ہے۔ ترکی کے آرمینیا کے ساتھ سفارتی روابط آج تک قائم نہیں ہوسکے اور ترکی نے 1993ء میں نیگورنو-کاراباخ جنگ کے دوران آرمینیا کے لیے اپنی سرحدیں بند کردی تھیں۔ آذربائیجان میں ترکی کا فوجی اڈہ ہے جبکہ آرمینیا میں روس کا فوجی اڈہ ہونے کے ساتھ دونوں ملک اجتماعی سیکیورٹی معاہدے (سی ایس ٹی او) کے رکن ہیں۔

ترکی اور آرمینیا کا جھگڑا پرانا ہے۔ جنگِ عظیم اوّل کے دوران خلافتِ عثمانیہ نے مشرقی اناطولیہ سے ہزاروں آرمینیائی باشندوں کو شام کے صحرا اعر و دیگر علاقوں کی طرف دھکیلا تھا اور یہ آرمینیائی باشندے صحرا میں بھوک اور پیاس سے ہلاک ہوگئے تھے۔ بھوک پیاس سے مرنے والے آرمینیائی باشندوں کی تعداد پر اختلاف ہے۔ آرمینیا کا دعویٰ ہے کہ 15 لاکھ افراد مارے گئے جبکہ ترکی آرمینیائی نسل کے لوگوں پر ظلم کا عتراف کرتا ہے لیکن اس کے مطابق یہ تعداد 3 لاکھ سے زیادہ نہیں۔ تعداد کا تنازع ہی ان ہلاکتوں کو نسل کشی قرار دینے میں رکاوٹ ہے۔ آج بھی آرمینیا جنگِ عظیم اوّل کے دوران مارے گئے باشندوں کی ہلاکتوں کو نسل کشی قرار دلوانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ امریکی کانگریس میں بھی اسے نسل کشی کہا گیا لیکن صدر ٹرمپ نے اسے ویٹو کردیا۔

آذربائیجان ایران کا ہمسایہ اور ہم مسلک ہے اس لیے عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ آذربائیجان کا ہمدرد یا مددگار ہے لیکن ایران خفیہ طور پر آرمینیا کا حامی ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔

ایران روس کا پارٹنر ہونے کے علاوہ آرمینیا کا تجارتی شراکت دار بھی ہے۔ ایران آرمینیا کے ذریعے سابق سوویت ریاستوں سے تجارت کر رہا ہے جبکہ نیگورنو-کاراباخ کو تیل بھی آرمینیا کے راستے فراہم کرتا ہے۔ آرمینیا کے یورپی یونین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدوں سے بھی تہران فائدہ اٹھا رہا ہے۔ روس ایران کی فضائی حدود استعمال کرکے آرمینیا کو کمک پہنچاتا ہے۔ اس سب سے بڑھ کر ایران کا سیاسی مسئلہ بھی ہے۔

ایران میں آذری ترکوں کی بڑی آبادی موجود ہے اور ان میں ترک نیشنل ازم کا ڈر ایران کو ہر وقت ستاتا ہے۔ ایران کی آبادی کا بڑا حصہ خود کو ترکی النسل مانتا ہے جن میں ترکمان اور قاشقائی سمیت دیگر ترکی بولنے والے قبیلے شامل ہیں۔ آذربائیجان کی آبادی کا بڑا حصہ بھی ایران کے شمالی علاقے کو جنوبی آذربائیجان کہتا ہے۔ اس علاقے میں 2 کروڑ افراد آذری نسل کے ہیں، کچھ آذری دانشور اور قوم پرست دونوں حصوں کو ایک سیاسی یونین کے تحت یکجا کرنے کا تصور بھی پیش کرتے ہیں۔

ایران میں ترک نسل کی بڑی آبادی کی وجہ سے خوف پایا جاتا ہے کہ کسی موقع پر دونوں آذربائیجان یعنی باکو اور تبریز اکٹھے ہونے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ آذربائیجان کی خارجہ پالیسی میں بھی گریٹر آذربائیجان کا تصور پایا جاتا ہے۔ حالیہ جھڑپوں میں آذربائیجان نے نیگورنو-کاراباخ کے کئی دیہات اور پہاڑی چوٹیاں قبضے میں لینے کا دعویٰ کیا ہے۔ اگر آزربائیجان کو اس جنگ میں برتری ملتی ہے تو تہران اس پر بے چینی محسوس کرے گا لیکن باضابطہ اظہار سے گریز کرے گا۔

آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ کا ایک پہلو انرجی جیوپولیٹکس بھی ہے۔ 2018ء میں ٹرانس اناطولین نیچرل گیس پائپ لائن (ٹی اے این اے پی) کا افتتاح ہوا۔ یہ پائپ لائن آذربائیجان سے براستہ جارجیا اور ترکی یورپ تک گیس پہنچاتی ہے۔ اس جنگ میں سب سے بڑا خطرہ اس پائپ لائن کو ہے اور اگر پائپ لائن کو نقصان پہنچتا ہے تو روس اس سے مایوس نہیں ہوگا کیونکہ اس پائپ لائن نے یورپ کی انرجی مارکیٹ پر ماسکو کی گرفت کمزور کی ہے۔

ماسکو آذربائیجان اور آرمینیا دونوں کو اسلحہ فروخت کرتا ہے اور حالیہ برسوں میں ماسکو نے آذری قیادت سے بھی قریبی تعلقات استوار کیے ہیں لیکن اس کی تمام ہمدردیاں آرمینیا کے ساتھ ہیں کیونکہ آرمینیا آرتھوڈوکس عیسائی ملک ہے اور روس کی بنیاد ہی آرتھوڈوکس عیسائیت اور اس کے دفاع پر ہے۔ اگر اس گیس پائپ لائن کو نقصان پہنچتا ہے تو ماسکو اور برلن کے درمیان گیس منصوبے ’نارڈ اسٹریم ٹو‘، کو تقویت ملے گی جسے ابھی تک امریکا نے رکوایا ہوا ہے۔

آذربائیجان کے گیس پائپ لائن منصوبوں کو امریکا پچھلے 25 سال سے فروغ دے رہا ہے تاکہ یورپی اتحادیوں کی توانائی ضروریات کا انحصار روس پر نہ رہے اور ایران کی طرف بھی کوئی ملک نہ دیکھے۔ اس کے علاوہ علاقے کے ہائی ویز اور فضائی روٹس بھی امریکا کے لیے اہم ہیں۔ افغان جنگ میں ایک تہائی کمک اسی راستے سے جاتی رہی اور اب چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو بے اثر رکھنے کے لیے ان ہائی ویز اور راستوں کا مؤثر رہنا ضروری ہے۔

کئی آذری عہدیداروں کا شبہ ہے کہ حالیہ جنگ میں روس ملوث ہے اور آرمینیا اسی کی شے پر جارحیت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس کا ثبوت یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جولائی میں نیگورنو-کاراباخ سے دُور اور پائپ لائن کے قریب آرمینیا جارحیت کا مرتکب ہوا جس کا جواز ہی نہیں تھا۔ آذربائیجان کا خیال ہے کہ آرمینیا مکمل جنگ پر تلا ہوا ہے اور اس کے مقاصد اس کے تیل و گیس منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کے ہیں۔ روس کے وزیرِ خارجہ سمیت کئی عہدیدار اور بڑی آبادی بھی آرمینیائی نسل سے ہے۔

اگر آذربائیجان اور آرمینیا میں مکمل جنگ چھڑتی ہے تو آرمینیا روس سے دفاعی معاہدے کے تحت مدد طلب کرسکتا ہے۔ روس نے 17 سے 20 جولائی تک آرمینیا کی زمین پر فوجی مشقیں بھی کیں۔ اس موقع پر ترک صدر رجب طیب اردوان نے صاف کہا تھا کہ ترکی آذربائیجان کے ساتھ کھڑا ہونے میں ایک لمحے کو بھی ہچکچاہٹ نہیں دکھائے گا۔ روس-آرمینیا کی فوجی مشقوں کے جواب میں ترکی اور آذربائیجان نے بھی 29 جولائی سے 10 اگست تک مشترکہ فوجی مشقیں کیں۔ روس اور ترکی شام اور لیبیا میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں اور یہی معاملہ جنوبی قفقاز کا بھی ہے لیکن دونوں ملک کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتے۔ ترکی روس سے براہِ راست تصادم کے بجائے اس کی پیش قدمی روکنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان اب تک جنگ بندی کی تمام تر کوششیں آرگنائزیشن آف سیکیورٹی اینڈ کو آپریشن اِن یورپ (او ایس سی ای) کراتا ہے لیکن ان دنوں یہ گروپ غیر فعال ہے۔ اس گروپ کی مشترکہ قیادت امریکا، روس اور فرانس کے پاس ہے لیکن اب آذربائیجان اور آرمینیا دونوں اس گروپ سے مایوس ہیں۔ ان حالات میں ترکی اور روس اس سفارتی خلا کو پُر کرسکتے ہیں اور دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر لاسکتے ہیں۔ آذربائیجان اور آرمینیا دونوں ہی مکمل جنگ چھیڑنے کے متحمل نہیں تاہم محدود جنگ سے ایک دوسرے کے اسٹریٹجک مفادات کو ضرور زک پہنچا سکتے ہیں۔ اگر جنگ ہوئی تو اس سے فائدہ روس اور ایران کو ہوگا اور کسی حد تک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو بھی فائدہ ہوگا۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔