اس کے علاوہ خون گاڑھا ہونے سے لاتعداد ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مسئلہ بھی بہت زیادہ بیمار افراد میں دریافت کیا گیا ہے جو ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
اس وائرس کا ایک معمہ خون میں آکسیجن کی پراسرار کمی بھی ہے جو کچھ اس طرح کا ہے جو پہلے کبھی دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا۔
اور اب معلوم ہوا ہے کہ یہ دانتوں اور جبڑوں کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہورہا ہے اور یہ کورونا سے متاثرہ افراد تک محدود نہیں۔
امریکن ڈینٹل ایسوسی ایشن نے اب تک کوئی ایسا سروے تو نہیں کیا جو کورونا وائرس کی وبا کے آغاز سے دانتوں کے مسائل کی شرح میں اضافے کی تصدیق کرسکے، مگر اس حوالے سے مسلسل رپورٹس سامنے آرہی ہیں۔
امریکن ڈینٹل ایسوسی ایشن کے کنزیومر ایڈووکیٹ اور اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کالج آف ڈینٹسٹری کے اسسٹنٹ پروفیسر میتھیو میسینا نے بتایا 'وبا کے دوران دانتوں کی نگہداشت کی سروسز التوا کا شکار ہوئی مگر بیکٹریا کو معلوم نہیں تھا کہ وبا پھیلی ہوئی ہے۔
نگہداشت سے محرومی اور تناؤ کے تیجے میں کچھ ڈینٹسٹ کو اب دانتوں میں کریک، جبڑوں کی سوجن اور کیوٹیز کے کیسز اضافہ نظر آرہا ہے۔
تناؤ دانتوں پر اثرانداز ہوتا ہے اور ماہرین کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران دانتوں میں مسائل کے شکار مریضوں کی تعداد بڑھی ہے جبکہ ایسے مریضوں کی بھی کمی نہیں جن کو جبڑوں کی سوجن کا سامنا ہے۔
نیویارک ٹائمز میں حال ہی میں ایک مضمون میں دانتوں کے امراض کی ماہر ٹیمی چین نے لکھا 'دانتوں کے فریکچر کی شرح گزشتہ 6 برسوں سے بھی زیادہ ہے'۔
تناؤ اور سروسز سے محرومی سے ہٹ کر منہ کی صحت کا زیادہ خیال نہ رکھنے سے بھی دانتوں کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔
ماہریرن کے مطابق لوگوں کے معمولات زندگی بدل گئے ہیں اور منہ کی صفائی کی عادات بھی بدل گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گھروں میں زیادہ وقت گزارنے کے دوران زیادہ میٹھی اشیا کا استعمال ہورہا ہے اور اکثر دانت صاف کرنے بھول جاتے ہیں۔
کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ڈینٹسٹ روڈنی رانان نے بتایا کہ انہوں نے کیوٹیز فلنگ کرانے والے مریضوں کی تعداد میں اضافے کو نوٹس کیا ہے۔
یکم جولائی سے ستمبر کے وسط میں دانوں کو پیسنے سے تحفظ کے لیے آنے والے مریضوں کی شرح میں 36 فیصد اضافہ انہوں نے دیکھا جبکہ دانتوں کے کریک بھروانے والوں کی شرح 120 فیصد تک بڑھ گئی۔