نقطہ نظر

بک ریویو: تاریخ کے مسافر

ابوبکر شیخ کی تحریروں کا کمال یہ ہے کہ وہ قاری کو تھوڑی بہت تخیل کے ساتھ وہی وہی کچھ دکھاتے ہیں جو خود دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ اردو زبان میں سفرنامے لکھنے کی روایت پاکستان میں دم توڑ چکی ہے، اور اس کا قتل کسی اور نے نہیں بلکہ ایک خودپسند مصنف نے کیا، وہ بھی بے دردی سے۔ ایک ایسا مصنف جس کے سفری افسانے ایسے تھے جیسے چوتھی جماعت کے بچے نے موسمِ گرما کی تعطیلات کے بعد مضامین لکھے ہوں۔

گزشتہ 4 دہائیوں میں اس طرح کے لکھنے والوں کی ایسی لاتعداد کتابیں سامنے آئیں جن میں سفر سے زیادہ مصنف کے بارے میں مواد موجود ہونے لگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب زیادہ تر اردو قارئین کا خیال ہے کہ اب تک انہوں نے جو بھی پڑھا بس وہی سفری تحریر ہوتی ہے۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ سفرنامے محض سفری کہانیاں نہیں ہیں البتہ اس موضوع پر کچھ زبردست اور حقیقت سے بھرپور کتابیں بھی موجود ہیں۔ سفرنامے درحقیقت تاریخ، ثقافت، جغرافیہ، معاشیات پر منحصر ہوتے ہیں جس میں تھوڑی ارضیات اور کبھی کبھی بشریات کو بھی نمایاں کیا جاتا ہے۔ یہی وہ ایک کام تھا جو اردو میں پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ آج کل زیادہ اور ایک جیسا لکھنے کا رجحان تیزی سے بڑھتا جارہا ہے، جو قاری پر اپنا اثر چھوڑنے پر ناکام نظر آتا ہے۔

لیکن پاکستان میں ابوبکر شیخ اس دوڑ سے دُور نظر آتے ہیں۔ اس تحریر میں زیرِ غور کتاب ’تاریخ کے مسافر‘ (travellers of history) ابوبکر شیخ کی دوسری کتاب ہے، اور اس کے عنوان کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ ایک حقیقی تاریخی سفر ہے۔

ان کی پہلی کتاب ’نگری نگری پھرا مسافر‘ سندھ کے لیے افسردگی سے بھرپور رہی، خاص طور پر انڈس ڈیلٹا خطے کے لیے جہاں سمندر کی مداخلت کے سبب بڑا نقصان ہوا اور کوٹری ندی کو جانے والے پانی میں کمی واقع ہوئی۔

یہی وہ ایک کام تھا جو اردو میں پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ آج کل زیادہ اور ایک جیسا لکھنے کا رجحان تیزی سے بڑھتا جارہا ہے، جو قاری پر اپنا اثر چھوڑنے پر ناکام نظر آتا ہے۔

یہ نئی کتاب ان کی پہلی کتاب سے کچھ ہٹ کر ہے جہاں کچھ مضامین ڈیلٹا کے خاتمے پر بھی ہیں، باقی مضامین میں ماضی میں رہنے والی طاقتوں کو تاریخی حوالے سے بیان کیا گیا ہے جو قارئین کو حیران کردیتی ہیں۔

ابوبکر نے اپنی کتاب میں غیر نمایاں لیکن رنگین کردار بیان کیے ہیں بشمول لطف اللہ ٹھگ، جو 19ویں صدی کے پہلے نصف میں موجود تھے اور اپنی زندگی کو بیان کرنے کے لیے انگریزی زبان کا استعمال کیا۔

اسی طرح ہم اس کتاب کے ذریعے 16ویں صدی میں سندھ کے ترخان حکمرانوں کی سازشوں اور فریب کاریوں کے بارے میں جانتے ہیں جنہوں نے ٹھٹہ کے ایک ہی شاندار اور امیر شہر کو کس طرح دھوکا دیا۔

ٹھٹہ پر حملہ درحقیقت گوا میں موجود پرتگالیوں کے لیے دعوت ہوسکتا تھا تاکہ روہڑی کے کوکلتاش کے خلاف ترخانوں کا ساتھ دینے کے لیے سندھ کے خزانوں میں حصہ لے سکیں۔ دوسری جانب استعمار والوں کی فطرت صرف چوری چکاری اور لوٹ مار کرنا تھا۔

تاہم تاریخی دورے کا سفر صرف سندھ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ابوبکر نے دُور تک سفر کیا اور ٹیکسیلا میں موہرا مرادو کی خانقاہ میں بدھ مت زندگی کو بھی اجاگر کیا۔

اسی آسانی کے ساتھ انہوں نے مغل بادشاہ شاہ جہان کے بدقسمت وارث دارا شکوہ کی زندگی کو قارئین کے ساتھ بیان کیا، یعنی کس طرح دارا نے ساموگڑھ کی جنگ لڑی، پھر وہ کس طرح اپنے بھائی اورنگزیب سے بھاگتے ہوئے سندھ آئے۔ مصنف کے پاس ایسا خاص طریقہ ہے جو انہیں تاریخی شخصیت کی پیروی کا ماہر بناتا ہے، اور ایسا ہی طریقہ انہوں نے کراچی سے بالائی سندھ جانے والے برطانوی کھوجی رچرڈ برٹن کا پیچھا کرنے کے لیے اختیار کیا تھا۔

کتاب ’تاریخ کے مسافر‘ اپنی وسیع جغرافیائی حدود کے باعث قابلِ ذکر ہے جو ابوبکر شیخ کے فکری پھیلاؤ سے مماثلت رکھتی ہے۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے اور وہ اپنے وسیع علم کی روشنی میں ہی زبردست منظر کشی کرتے ہیں۔

ہمیشہ کی طرح ان کی تحریر میں ایسا شاعرانہ رنگ نظر آتا ہے جو مناظر کو ابھارنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ قارئین کے جذبات اور ہمدردی کو بھی ابھارنے کا کام کرتی ہے۔ بہترین ادیبوں کی طرح ابوبکر بھی اپنی سوچ کو زبردست طریقے سے لکھنے کا ہنر جانتے ہیں، اور قارئین کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اس زمین میں سب سے مثبت اور سب سے خطرناک کام سوچنے کا عمل ہے۔ یہ وہی عمل ہے جو اچھے اور بُرے میں فرق کرتا ہے، لیکن جب توقعات تمام حدیں پار کرجاتی ہیں تو دونوں کے درمیان یہ تفریق ختم ہوجاتی ہے۔

تاہم ابوبکر کے دل سے قریب ترین مسئلہ تیزی سے خراب ہونے والا ماحول ہے۔ اس کتاب میں بھی پچھلی کتاب کی طرح یہ احساسات شدت کے ساتھ موجود ہیں کہ ہم آنے والی نسل کے لیے کیا کچھ چھوڑ کر جارہے ہیں۔ وہ قارئین کو بتاتے ہیں کہ سمندر کو مزید آگے بڑھنے سے روکنے اور مرتے مینگرووز کے جنگلات کو بحال کرنے کے لیے 2 کروڑ 70 لاکھ ایکڑ فٹ پانی سمندر میں پھینکنے کی ضرورت ہے، مگر بدقسمتی سے اس کا ایک تہائی حصہ بھی سمندر میں نہیں ڈالا جاتا۔

کتاب ’تاریخ کے مسافر‘ اپنی وسیع جغرافیائی حدود کے باعث قابلِ ذکر ہے جو ابوبکر شیخ کے فکری پھیلاؤ سے مماثلت رکھتی ہے۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے اور وہ اپنے وسیع علم کی روشنی میں ہی زبردست منظر کشی کرتے ہیں۔

اگر ایک صدی پہلے کی بات کریں کہ مینگرووز تقریباً 4 لاکھ ہیکٹرز پر پھیلے ہوئے تھے لیکن آج یہ بمشکل سے 70 ہزار ہیکٹرز پر رہ گئے ہیں جس کی وجہ پانی کا کم بہاؤ ہونا ہے۔ اس کے نیتجے میں خولدار آبادی میں واضح کمی واقع ہوئی کیونکہ کیکڑے اور جھینگے مینگرووز کی جڑوں میں انڈے دیتے ہیں۔

اسی طرح سمندری قبضہ زرخیز مٹی کو تیزی سے کھا رہا ہے اور یوں کسان مزید غربت میں مبتلا ہورہے ہیں۔ ہمارے مصنف اظہارِ افسوس کرتے ہیں کہ کس طرح زمینداروں میں زراعت اور مال و دولت کی افزائش ڈیلٹا کے مکینوں اور ماہی گیروں کو اپنی معاش سے محروم کر رہی ہے۔

ابوبکر نے خود کو بڑی خوبصورتی سے ایک خالص ماحولیاتی مصنف سے تاریخی کہانیوں کے داستان گو میں تبدیل کیا۔ اگر آثارِ قدیمہ کے ماہر اینٹوں اور مٹی کے برتنوں کی بات کرتے ہیں تو یہ ابوبکر جیسے مصنفین ہیں جو انسانوں کے ساتھ تباہ شدہ مقامات کو آباد کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں کا کمال یہ ہے کہ وہ قاری کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور تھوڑی بہت تخیل کے ساتھ انہیں وہی کچھ دکھاتے ہیں جو خود دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔

تاریخ کو لکھنے کی ضرورت ہے، لیکن اس طرح نہیں جیسے ایک کلاس روم کوئی سبق پڑھایا جاتا ہے بلکہ حقیقی مقامات سے جڑتے ہوئے انہیں حقیقی کرداروں کے ساتھ زندگی دینی ہوگی اور یہی سب کچھ قدیم یونانی مصنفین نے کیا، اور اب یہی ابوبکر شیخ اردو کے قارئین کے لیے کر رہے ہیں۔


کتاب کا نام: تاریخ کے مسافر

مصنف: ابوبکر شیخ

صفحات: 214

اشاعت: 2020

ناشر: سنگ میل پبلیکیشنز لاہور


یہ مضمون 30 اگست 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

سلمان رشید

لکھاری رائل جیوگرافیکل سوسائٹی کے فیلو ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔