پاکستان کو بطور تحفہ ملنے والا ہاتھی کمبوڈیا کے حوالے کیوں کیا جارہا ہے؟
رواں سال مئی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے کاون نامی نفسیاتی مسائل کے شکار ایشیائی ہاتھی کو اسلام آباد کے چڑیا گھر سے کمبوڈیا منتقل کرنے کا حکم دینے پر وکیل اویس اعوان بہت خوش ہیں۔
اویس اعوان نے کہا، 'یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں ایسے جج ملے جو جانوروں کی فلاح و بہبود کے مقصد کی اہمیت کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ اس کا جذبہ بھی رکھتے ہیں'۔
1985ء میں ایک سالہ کاون کو سری لنکا نے بطور تحفہ پاکستانی حکومت کے حوالے کیا تھا۔
اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ (آئی ڈبلیو ایم بی) کے صدر انیس الرحمٰن کہتے ہیں کہ 'میرے بچے اور یہاں تک کہ میرے پوتے پوتیاں بھی کاون کو دیکھ کر بڑے ہوئے ہیں، اس کے جانے سے دکھ تو ہوگا لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ایک خوبصورت مستقبل اس کا منتظر ہے اور وہ وہاں امن و سکون کے ساتھ رہے گا۔
پڑھیے: اسلام آباد کا واحد ہاتھی کمبوڈیا جانے کیلئے آزاد
کاون کو ستمبر سے پہلے کمبوڈیا کے ایک جائے امان میں منتقل کردیا جائے گا اور کورٹ نے بورڈ کو حکم دیا ہے کہ وہ مرغزار چڑیا گھر کا انتظام سنبھالنے کے ساتھ ساتھ کاون کی محفوظ منتقلی کی نگرانی بھی کرے۔
جج نے یہ بھی ہدایت کی کہ اسلام آباد کے چڑیا گھر میں موجود دیگر 878 جانوروں کو بھی عدالتی حکم کے بعد 60 دنوں کے اندر اندر منتقل کردیا جائے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں کاون کے لیے مہم چلانے والوں نے اس فیصلے کا بھرپور خیرمقدم کیا۔ تاہم عدالتی فیصلے نے ایک حلقے کو اس طرح کے چڑیا گھروں کی اہمیت پر بھی سوال کرنے پر مجبور کردیا ہے، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان کے مختلف شہروں میں جانوروں کے استحصال سے متعلق رپورٹ ہونے والے درجنوں واقعات پر نظر ڈالی جاتی ہے۔
وہ ہاتھی جو مہم کا محرک بنا
عدالت کو پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں کاون کے ساتھ روا سلوک سے متعلق مسائل کی تفصیلات بیان کی گئیں اور فیصلے میں اس کا حوالہ دیا گیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہاتھی اپنی 'جسمانی، معاشرتی اور طرزِ عمل کی ضروریات' سے متعلق 'نامناسب' حالات میں رہ رہا ہے۔ اسے 2012ء سے باقاعدگی کے ساتھ ایک چھوٹے سے احاطے میں زنجیروں سے جکڑ کر الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ اس کا کھانا 'غیر معیاری' اور 'ناکافی' ہے، اور اس کے مہاوتوں یا نگہبانوں کا اس کے ساتھ 'تعلق منفی' ہے۔
2015ء میں، ثمر خان نامی طالبہ نے ہاتھی کی حالتِ زار پر دنیا کی توجہ دلانے کے لیے ایک آن لائن پٹیشن کا آغاز کیا تھا۔
جانوروں کی معالج بن چکی ثمر خان نے کاون کی رہائی کو 'تقریباً غیر حقیقی' قرار دیتے ہوئے اپنی مہم کو یاد کیا۔
انہوں نے تھرڈ پول کو بتایا کہ 'اس کی تکلیف بہت سے لوگوں نے محسوس کی، اور اس کے جذباتی مداحوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس کے علاوہ لوگوں نے پاکستانی سفارت خانوں کے باہر احتجاج بھی کیا'۔
بعدازاں انہوں نے کاون کی کہانی لوگوں تک پہنچانے کے لیے ایک فیس بک پیج بنایا۔
ڈاکٹر ثمر کا ماننا تھا کہ سوشل میڈیا ایک طاقتور ٹول ہے۔ اسی کے ذریعے پوری دنیا کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے اور چڑیا گھر کے عہدیداروں کو جوابدہ ٹھہرانے کا موقع ملا۔
انہوں نے بتایا کہ 'لوگوں نے مشہور شخصیات کو ٹوئٹس میں ٹیگ کرنا شروع کردیا۔ ہم نے ایک ای میل ٹیمپلیٹ بنایا اور سیکڑوں افراد کے ذریعے روزانہ سرکاری عہدیداروں کو خطوط بھیجنے کے لیے اس کا استعمال کیا'۔ امریکی پاپ گلوکار شئیر (Cher) اس مہم میں شامل ہونے والوں میں سے ایک تھیں۔
انیس الرحمٰن نے کہا کہ شئیر کی تنظیم فری دی وائلڈ، اب نقل مکانی کے لیے فنڈ فراہم کرے گی۔ 'یہ عمل پیچیدہ ہے اور اس میں بڑے پیمانے پر کاغذی کارروائی کی ضرورت پڑے گی۔ اس کے بعد ماہر ویٹس اس بات کا جائزہ لیں گے کہ آیا کاون فلائٹ کے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر فٹ ہے یا نہیں۔ ان تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد ایک اسٹیل کا پنجرا تعمیر کیا جائے گا اور کاون کو اس میں جانے کی تربیت دی جائے گی جس میں 2 سے 4 ہفتے لگ سکتے ہیں'۔
درپیش مسائل
اگرچہ ایک طرف لوگ کاون کو ملنے والی آزادی کا خیر مقدم کررہے ہیں لیکن دوسری طرف ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان میں بائیو ڈائیورسٹی کی ڈائریکٹر عظمیٰ خان اس حوالے سے کچھ تحفظات رکھتی ہیں۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھیں جنہوں نے اس کیس کے دوران عدالت کو شواہد پیش کیے اور کہا کہ نقل و حمل کسی جانور میں شدید تناؤ کی وجہ بن سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'خدانخواستہ اس منتقلی کے دوران کچھ ہوتا ہے تو ذمہ داری کون قبول کرے گا؟'
عظمیٰ خان نے اس بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا کہ آیا کاون اپنی نئی زندگی میں ایڈجسٹ ہوسکے گا یا نہیں۔ وہ کہتی ہیں 'ایک ایشیائی ہاتھی کی متوقع اوسط زو لائف عمر کو مدنظر رکھیں تو کاون اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزار چکا ہے، اب یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ اس کے احاطے کو پہلے سے بہتر بنایا جائے اور اعلیٰ معیار کی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ اس کا معیارِ زندگی بہتر ہو اور وہ پہلے سے زیادہ سرگرم ہو'۔
یورپ میں قید رکھے جانے والے ایشیائی ہاتھیوں کی اوسط عمر 47.6 سال اور شمالی امریکا میں 41.9 سال ہے۔ وہ جنگل میں 60 سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ معدومیت کے خطرے سے دوچار قرار دیے گئے ایشیائی ہاتھی کو انٹرنیشنل یونین فار دی کنزرویشن آف نیچر نے سرخ فہرست میں شامل کیا ہے۔
تاہم اس پورے واقعے نے عظمیٰ خان کو کسی ایک نتیجے پر پہنچنے پر مجبور کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'ہماری حکومت کو ایک اسٹریٹجک فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ ہمارے چڑیا گھروں کے لیے مزید کوئی ہاتھی نہ منگوائے'۔ کیونکہ مؤخر الذکر ان کی 'پیچیدہ معاشرتی اور نفسیاتی ضروریات' کو پورا نہیں کرسکتے ہیں۔
نارواسلوک کی کوئی حد نہیں
کاون کی کہانی کی طرف مبذول بین الاقوامی توجہ کے باوجود، پاکستان میں عوامی چڑیا گھروں میں بہت کم تبدیلی آئی ہے۔ چڑیا گھر کے دوسرے جانوروں کی حالیہ اموات نے اس بارے میں نئی بحث کا آغاز کردیا ہے کہ آیا پاکستان میں چڑیا گھر ہونے بھی چاہئیں یا نہیں؟
پڑھیے: لاک ڈاؤن میں چڑیا گھر کی سیر
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے 67 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا ہے کہ 'چڑیا گھر لوگوں کو اپنے قیدی نمائشی چیزوں کی طرح دکھانے کے سوائے اور کسی مقصد میں کام نہیں آتے ہیں'۔
جولائی میں شیر اور شیرنی کی مرغزار چڑیا گھر سے پنجاب کے ضلع قصور میں واقع ایک محفوظ مقام میں منتقلی کے دوران موت واقع ہوگئی تھی۔ عظمیٰ خان کے مطابق ان کو 'اس گرم اور نمی کے موسم میں' منتقلی کے فیصلے سے 'نااہلی اور ظلم' کی عکاسی ہوتی ہے۔
رواں برس مئی میں پشاور کے چڑیا گھر میں ایک زرافہ مردہ پایا گیا تھا جبکہ حال ہی میں کراچی اور لاہور میں بھی زرافوں کی اموات ہوئی ہیں۔ رواں سال مرغزار چڑیا گھر میں 3 نیل گائے یا نیلے بیل اور ایک شتر مرغ کی موت واقع ہوئی ہے۔
2018ء میں ایک ایشیائی شیر تپ دق سے مرگیا تھا۔ 2014ء میں ایک بنگال کا شیر نامعلوم بیماری سے مرگیا تھا اور 2011ء میں 4 شیر کے بچے مرگئے تھے۔ یہ سب کراچی چڑیا گھر میں ہوا۔
دستاویزی فلم ساز اور پاکستان اینیمل ویلفیئر سوسائٹی کی شریک بانی ماہرہ عمر نے ٹوئیٹ کیا کہ 'اس سال کے شروع میں ہم نے لاہور کے چڑیا گھر میں موجود ایک ٹائیگر کو فلمبند کیا تھا جس میں زوکوسز (zoochosis) کی علامتیں نمایاں تھیں‘۔ انہوں نے ایک ویڈیو بنائی جس میں دکھایا گیا تھا کہ ٹائیگر اپنے خالی بنجر پنجرے کے چکر لگا رہا ہے اور تماش بین جانور کو اکسا رہے ہیں۔
عظمیٰ خان نے کہا کہ اس بدسلوکی کو کئی عوامل سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔
مرغزار جیسے کچھ چڑیا گھروں میں فنڈز کی کمی ہے، ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہی ہوا کہ جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے اتنی زیادہ رقم دستیاب نہیں ہے۔ تاہم، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں بہت سارے چڑیا گھروں کے لیے بڑا مسئلہ ان معیارات کا فقدان ہے جس کے تحت جانوروں کی بنیادی نگہداشت، نسلوں کے اعتبار سے خصوصی احاطوں کی مطلوبہ خصوصیات اور مینجمنٹ کے لیے رہنمائی کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔ اس مسئلے کو چڑیا گھر کے غیر تربیت یافتہ ملازمین نے مزید سنگین بنا دیا ہے۔ عظمیٰ خان نے کہا کہ کچھ نگہبان، جن کو اکثر کم تنخواہ دی جاتی ہے، پڑھ لکھ بھی نہیں سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ایسے کئی چڑیا گھر موجود ہیں جو چڑیا گھروں کے رکھوالوں کو ٹریننگ اور یہاں تک کہ اسکالرشپس بھی فراہم کرتے ہیں۔ عظمیٰ خان نے کہا کہ 'ہمارے چڑیا گھر کے عملے کو بھی وہاں بھیجنا چاہیے تاکہ وہ جانوروں کی دیکھ بھال کے روایتی طریقوں سے آزاد ہوسکیں۔ ہمارے ہاں زیادہ تر افراد مثبت طریقہ کار کے ذریعے جانوروں کی تربیت یا جانوروں سے مثبت انداز میں تعلق قائم کرنے سے متعلق آگاہی نہیں رکھتے'۔
چڑیا گھر پر بحث
بدسلوکی کے واقعات پر عوامی اشتعال نے کچھ لوگوں کو چڑیا گھر کے تصور پر ہی غور کرنے کے لیے مجبور کردیا ہے۔ اسلام آباد میں مقیم جانوروں کے خیر خواہ ایک گروپ فرینڈز آف اسلام آباد زُو کے رضاکار اور آرکٹیکٹ محمد بن نوید نے کہا کہ 'میں کہتا ہوں کہ اسے مرغزارچڑیا گھر کو ایک فیملی پارک میں تبدیل کریں جہاں لوگ پکنک منا سکیں'۔
اس رائے کی تائید کرتے ہوئے آئی ڈبلیو ایم بی کے انیس الرحمٰن نے کہا کہ 'ہمارے ہاں چڑیا گھر نہیں ہونے چاہئیں اور نہ ہی ہمیں مزید چڑیا گھر قائم کرنے چاہئیں'۔ انہوں نے کہا کہ جانوروں کو سلاخوں کے پیچھے رکھنے سے ہمارے 'بچوں کو غلط پیغام جاتا ہے'۔
لیکن ساتھ ہی انیس الرحمٰن کا کہنا ہے کہ چڑیا گھر کے جانوروں کو اچانک سے آزاد کرنا ظلم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ 'وہ زندہ نہیں رہ پائیں گے'۔ ان کے مطابق چڑیا گھروں کو اس وقت تک قائم رکھنے کی ضرورت ہے جب تک کہ جانور اپنی فطری موت نہ مرجائیں۔
پڑھیے: جنوبی ایشیا میں لاک ڈاؤن کے دوران غیر قانونی شکار عروج پر کیسے پہنچا؟
ڈبلیو ڈبلیو ایف سے وابستہ عظمیٰ خان درمیانہ مؤقف رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا 'میں چڑیا گھروں کے خلاف نہیں ہوں کیونکہ ان میں جانوروں اور جانوروں کی فلاح و بہبود کے بارے میں عوامی شعور اجاگر کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہوتی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری اور نجی چڑیا گھروں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی جانور رکھنے والے افراد کا ڈیٹا بیس بنانے کے سلسلے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے 'چڑیا گھر سے متعلق قانون سازی اور معیار' کی اہمیت پر زور دیا تاکہ جب عدالتیں جانوروں کے کیسز اٹھائیں تو وہ چڑیا گھر میں موجود تمام جانوروں کی خوشحالی پر نظر ڈال سکیں۔
اسی طرح بچپن میں چڑیا گھر کی سیر سے جانوروں کی محبت میں گرفتار ہونے والی ڈاکٹر ثمر نے کہا کہ ذمہ داری سے کام کرنے والا چڑیا گھر جنگلی جانوروں کے تحفظ، تحقیق اور بحالی میں مدد کرسکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ 'بہتر وسائل کے ساتھ ایک مناسب طریقہ کار سے چلنے والا چڑیا گھر لوگوں میں جنگلی حیات کی محبت اور ان کے تحفظ کا جذبہ بیدار کرسکتا ہے'۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول پر شائع ہوا، جسے بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔
ذوفین ابراہیم فری لانس جرنلسٹ ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: zofeen28@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔