لکی تیرتھ، شِیو اور درد کی ایک دنیا
لکی تیرتھ، شِیو اور درد کی ایک دنیا
تحریر و تصاویر: ابوبکر شیخ
ہم جو سطح پر جینے والے لوگ ہیں۔ جن کو فقط وہی نظر آتا ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے اور ہم اس کو ہی پوری دنیا سمجھ لیتے ہیں۔ مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔
قرۃ العین حیدر نے لکھا تھا کہ تماشائی بہروپ کا عاشق ہوتا ہے لہٰذا ہم فقط وہ دیکھنا چاہتے ہیں جو نظر آتا ہے۔ رنگین، دھلا دھلا، جگمگاتا۔ مگر جس سطح پر ہم کھڑے ہوتے ہیں اگر بہروپ سے تھوڑا دھیان ہٹا کر سوچیں تو ہمارے نیچے ایک اور بھی کائنات بستی ہے۔ جہاں حقائق کی ایک الگ دنیا ہے۔ جہاں آنکھ میں کاجل کی لہر کے بجائے نمک سے بھرے آنسو ہیں۔ جہاں بارش کے بعد آسمان پر پھیلی ست رنگی میں کوئی کشش نہیں ہوتی کہ درد اور عذاب ہی اتنے ہوتے ہیں کہ ان کو سمیٹتے عمریں گزر جاتی ہیں اور یہ تصویر کا دوسرا اور اہم رخ ہے۔
گاڑی سے باہر دھند تھی اور آسمان پر بادلوں کی ایک بے رنگ تہہ بچھی ہوئی تھی۔ ہم سیہون سے جنوب کی طرف جارہے تھے۔ راستے میں مغرب کی جانب پہاڑیوں کا سلسلہ تھا اور کروڑوں برس سے یہیں پر کھڑا ہے۔ تارکول کی جس سڑک پر ہم سفر کر رہے تھے، صدیوں پہلے یہاں سے دریائے سندھ سفر کرتا تھا۔ بڑے غرور اور طمطراق کے ساتھ کہ زندگی بحال رکھنے والے اس شاندار دریا کے مٹیالے پانی کو دیکھنے کے لیے، سکندر مقدونی یہاں آ نکلا تھا۔
جب وہ اپنے بڑے شاندار بیڑوں کے قافلے میں یہاں سے سردیوں کے موسم میں گزرا ہوگا تو ان پہاڑیوں کو ہلکی دھند میں لپٹا ہوا ضرور دیکھا ہوگا۔ کیا شاندار شب و روز ہوں گے جب دریا کا پاٹ میلوں میں ہوتا تھا کہ نظر کی حد ختم ہوجاتی مگر دریا کا دوسرا کنارا نظر نہیں آتا تھا۔
مجھے نہیں پتا کہ جس تاریخی مقام کو دیکھنے ہم جارہے تھے اسے سکندر اعظم نے دیکھا بھی تھا یا نہیں کیونکہ یہ براہمنوں کا مذہبی پوجا استھان تھا اور ان زمانوں میں سیہون میں براہمنوں کی حکومت تھی اور وہ سکندر سے لڑ بھی پڑے تھے، تاہم وہ سکندر سے جیت نہ سکے۔ سکندر نے سیہون اور اس کے نزدیک میں ایک دوسرے نزدیکی شہر پر قبضہ کرلیا تھا اور براہمنوں کو سخت ترین سزائیں بھی دی تھیں۔ سکندر اپنے اس دریائے سندھ کے سفر کا ذکر ان خطوط میں بھی کرتا رہا جو وہ اپنی ماں 'اولمپیا' کو یہاں سے تحریر کرکے بھیجتا رہتا تھا۔ یہ 325 قبل مسیح کے ابتدائی ٹھنڈے مہینوں کا ذکر ہے۔
اب دریائے سندھ ان پہاڑیوں سے دُور مشرق میں بہتا ہے مگر اتنے کم پانی کے ساتھ کہ اس کی تمام رعنائیاں اور عنایتیں اب رگوید کے اشلوکوں میں ہی رہ گئی ہیں کہ اس شاندار دریا سے کمال کی خوبصورت فاختائیں تو کب کی اڑ گئیں۔ وہ کنارے جہاں پھول کھلتے اور جنگل ہوتے۔ ٹھنڈی چاندنی راتوں میں چاند سرکنڈوں سے جو نظر آتا تو فطرت کے عاشقوں کا اس خوبصورتی پر جان دینے کو جی چاہتا ہوگا مگر اب تو زوال کے شب و روز ہیں کہ بارشوں کے موسم سے پہلے تک تو اس کے بہاؤ میں اب بس ریت ہی اڑتی ہے!
اگر آپ جامشورو سے سیہون آرہے ہیں تو سیہون سے 20 کلومیٹر پہلے لکی شاہ صدر کا مشہور اسٹاپ آتا ہے۔ کمال اور زوال کی کہانی یہاں بھی دہرائی جا چکی ہے۔ اب جو فقط ایک مختصر سی بستی ہے۔
یہ ایک زمانے میں بیوپار کا بڑا مرکز ہوا کرتا تھا۔ محمد یوسف جویو اس حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ 'بٹوارے سے پہلے سیہون کے بعد یہ دوسرا مشہور شہر تھا کیونکہ دریائے سندھ یہاں سے مشرق میں نزدیک بہتا تھا جہاں مشہور 'لکی گھاٹ' تھا۔ اس گھاٹ کی وجہ سے یہاں کے بازاروں میں اچھا بیوپار ہوتا تھا۔ الیگزینڈر برنس بھی اس گھاٹ کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ شہر چونکہ ہندوؤں کے مذہبی آستان 'لکی تیرتھ' کے لیے آنے جانے والوں کے لیے ایک جنکشن کا کام دیتا تھا اس لیے یہاں مسلسل آمد و رفت کی وجہ سے ہر وقت میلہ سا لگا رہتا'۔
'لکی مطلب؟' میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا۔
'پہاڑ میں اگر کوئی ایسی دراڑ یا خلا ہے جس میں سے انسان گزر سکتے ہیں تو ایسے راستے کو 'لک' کہتے ہیں۔ اب چونکہ بات کرنے کے لیے الفاظ کو ایک روانی چاہیے ہوتی ہے تو پھر یہ لک سے 'لکی' بن گیا۔ جس طرح 'روحیل لک'، 'بولان لک' کچھ اسی طرح بڑا معنیٰ خیز جواب آیا۔
لکی شاہ صدر کے چھوٹے سے خستہ حال بازار اور لوگوں کی آبادی سے نکلنے کے بعد ہم مغرب کی طرف چل پڑے جہاں 'بھگو ٹھوڑھو' کی پہاڑی تھی، جس میں لک تھا اور وہاں ماضی کے دنوں سے متعلق بہت ساری لوک کتھاؤں کا گھنا جنگل اگتا تھا۔ ہر کسی نے ان پہاڑیوں کی دہشت اور سحر میں گندھی اپنی کہانی تخلیق کرلی ہے۔ چاہے ان کہانیوں کا حقیقت سے کوئی واسطہ ہو یا نہ ہو۔ تاریخ کے صفحات ان کتھاؤں کی کوئی مدد نہیں کرتے۔ مگر کتھائیں اپنا وجود رکھتی ہیں جو صدیوں سے انسانی تمناؤں کی زمین پر اگتی آئی ہیں کہ لوگ تو محبوب کے تصور میں عمریں گزار دیتے ہیں اور یہ تو تمنائیں ہیں۔ کتھاؤں میں ان کے اظہار پر تو ان کا بھی حق بنتا ہے۔
راستہ سیدھا مغرب کی طرف جاتا ہے۔ پہاڑوں کی اپنی خوبصورتی ہے۔ ہم جب 3 کلومیٹر کے سفر کے بعد وہاں پہنچے تو وہاں ویرانی نہیں تھی۔ کچھ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ایک کولڈ کارنر بھی تھا اور لک کہ دہانے پر شِیو کا ایک پرانا مندر تھا۔ ساتھ مشرق میں ایک نیا شِیو کا مندر بھی تھا۔
میں نے دروازہ کھول کر دیکھا۔ باہر گرمی تھی اور مندر کا چھوٹا سا کمرہ ٹھنڈہ تھا۔ مندروں کی اس قسم کی بناوٹ صدیوں کے تجربے کے بعد ہی وجود میں آئی ہوگی کہ دیواریں ختم ہونے کہ بعد اوپر کا جو گنبدی حصہ ہے، تعمیر کے وقت اس کا سائز دھیرے دھیرے کم کیا جاتا ہے۔ چنائی کرتے وقت اوپر اٹھتی دیواروں کو نزدیک کرتے جاتے ہیں اور اس طرح آخر میں وہ دیواریں آکر آپس میں مل جاتی ہیں۔ گنبدی دیواروں پر جو دھوپ پڑتی ہے اس کو ہوا ٹھہرنے نہیں دیتی اس لیے سارے گنبد ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ تو اس ٹھنڈے کمرے میں شِیو بیٹھے تھے۔ ترشول ہاتھ میں تھا اور سانپ گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ ایک طرف شِیو لنگ بھی موجود تھا۔ کچھ اگر بتیاں تھیں جو بجھی ہوئی تھیں۔ مندر سے باہر آنگن میں مقدس آگ جلانے کا چھوٹا سا چولہا بنا ہوا تھا۔ ہندومت میں اگنی پوجا کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے کیونکہ وہ جلا دینے والی طاقت ہے، جو سب کچھ بھسم کردیتی ہے۔ شِیو راتری یا دیگر اہم مواقع پر جب یہاں شِیو کے ماننے والے آتے ہوں گے تو ضرور یہاں آگ جلتی ہوگی کہ پانی کی طرح اگنی بھی پاک ہے۔
آج سے ہزاروں برس پہلے یہ شاندار پہاڑ بالکل اسی طرح کھڑا ہوگا۔ براہمنوں کی بادشاہی کے زمانے میں یہاں بڑی چہل پہل رہتی ہوگی۔ ہم اس جھگڑے میں نہیں پڑتے کہ، 'شو' اور 'رودر' ایک ہیں یا الگ الگ ہیں۔ یہ جھگڑا ہم ویدوں کے اشلوکوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم فقط یہاں یہ ذکر کر رہے ہیں کہ سناتن دھرم کا یہ اہم مقام رہا ہے۔
'آپ کو پتا ہے؟'
'نہیں مجھے نہیں پتہ؟' میرے ساتھی کے سوال پر میں نے جواب دیا۔
ایک کتاب ہے 'رامچند کھتری' کی، اس میں لکھا ہے کہ 'یہ تیرتھ دھارا وہ جگہ ہے، جہاں شیِو مہادیو اور دکشا پرجا پتی کے بیچ میں جنگ لڑی گئی تھی۔ اس جنگ میں شیِو کی بیوی 'اما' جان گنوا بیٹھی، بیوی کے مرجانے کا اسے بہت صدمہ پہنچا اور اپنی بیوی کی لاش اٹھا کر وہ اس دنیا میں چلا آیا جس کی وجہ سے بڑا بھونچال آنے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ آخر میں اما دیوی کی لاش 52 حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ جہاں جہاں اس کے جسم کا حصہ گرا، وہاں شکتی پوجا کی ابتدا ہوئی۔ کتھا کے مطابق اما دیوی کا سر ہنگلاج میں گرا، جسم کا ایک حصہ کھٹمنڈو میں گرا، اور اسی طرح 52 جگہوں پر کالی ماتا کی صورت میں شکتی پوجا ہوتی ہے'۔
مگر چونکہ یہاں کوئی حصہ نہیں گرا تو یہاں کالی کی پوجا نہیں ہوتی ہے۔ مگر قدیم زمانے سے یہ ہندوؤں کا ایک اہم مذہبی مقام رہا ہے۔ بٹوارے سے پہلے یہاں روز سیکڑوں معتقدین سندھ اور ہند سے آتے تھے۔ جب شِیو راتری کا تہوار ہوتا تھا تو یہاں ایک بڑا میلہ لگتا تھا جس میں ہزاروں لوگ آتے تھے اور 7 دن تک یہاں رہتے تھے۔ ایک میلے کا سماں لگا رہتا ہوگا یہاں۔ ان دنوں میں بھی گندرف کے چشمے موجود تھے جو جلد کی بیماری میں مبتلا لوگوں کے لیے شفا بخش تھے۔
'سندھ گزیٹیئر' (1874ء) کے مطابق 'یہاں سیہون کے شمال میں گندرف کے چشمے ہیں۔ 600 فٹ اونچی کیلشیم کاربونیٹ کی پہاڑی سے پھوٹا یہ چشمہ ایک دھارا کی شکل میں بہتا نیچے آتا ہے۔ یہاں جلد اور جوڑوں کے درد کی بیماری میں مبتلا لوگ آتے ہیں۔ سرکار کی طرف سے وہاں نہانے کے لیے کچھ پتھر گاڑے گئے ہیں کہ لوگ اس پر بیٹھ کر نہائیں اور چار دیواری بھی تعمیر کروائی گئی ہے'۔
کولڈ کارنر والے کے پاس اور بہت کچھ تھا البتہ کولڈ کچھ بھی نہیں تھا اس لیے ہم نے بھی کچھ نہیں خریدا۔ جنوب سے آنے والے چشمے سے فیروزی رنگ کے پانی کی ایک دھار بہتی ہوئی آتی ہے جس کو پار کرنے کے لیے برٹش دور میں ایک چھوٹا سا پل بنایا گیا تھا۔ چونکہ وہ خستہ ہوگیا تھا اس لیے ہم نے اس کی مرمت کے لیے اس پرانی خوبصورت سیڑھی پر سیمنٹ، پتھر اور لوہے کی ایک تہہ بچھادی ہے۔
کبھی کبھی تو مجھے یہ لگتا ہے کہ چیزوں کو خوبصورت بنا کر رکھنے کے تصور کا پودا ہمارے ذہن کی زمین پر لگا ہی نہیں۔ اب جب لگا ہی نہیں تو اُگے گا کہاں سے؟ کچھ بھی کرتے بس پرانے اسٹرکچر کی ہئیت کو تبدیل نہ کرتے، کچھ محنت ضرور کرنی پڑتی مگر اتنی بدصورتی تو نہ آتی اس خوبصورت منظرنامے میں۔
میں تصور میں اس لوہے سیمنٹ کے بدصورت اسٹرکچر کو نکالنے کے بعد اس لینڈ اسکیپ کی جو تصویر ذہن میں بناتا ہوں وہ بڑی خوبصورت ہے۔ بس دل خوش ہوجاتا ہے مگر کیا کیجیے کہ حقیقت تو وہی ہے جو سامنے ہے۔ اس جگہ سے مغرب میں بھی ایک گندرفی چشمہ ہے جس سے کم مقدار میں پانی آتا ہے مگر آتا ضرور ہے۔ 2 چشموں کی وجہ سے ایک مردوں اور دوسرا عورتوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
آپ بہتے دھارا پر بنے پل سے آگے جاتے ہیں تو پیلے پتھر سے ایک شاندار سیڑھی بنی ہے، جس کو وقت نے خستگی بخشی ہے مگر پھر بھی وہ آپ کی منتظر ہوتی ہے۔ میں نے سیڑھی پر قدم رکھنے سے پہلے سوچا کہ اس سیڑھی پر کتنے لوگ چڑھے اور اترے ہوں گے۔ ہر وجود کے اندر ایک کائنات ہوتی ہے۔ تو یہاں سے کتنی کائناتوں نے کن کن کیفیتوں میں سفر کیا ہوگا؟
آپ جب سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آتے ہیں تو دیوی کا ایک کمزور سا درخت اپنی کمزوری کے باوجود آپ کو چھاؤں دینے کی کوشش کرتا ہے اور اتنی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد یہ چھاؤں کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ سیڑھیوں کے بعد جب آپ آگے چلتے ہیں تو آپ کو کچھ کمرے نظر آتے ہیں جو لوگوں کے قیام کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان کمروں کی ویرانی دیکھ کر مجھے نہیں لگتا کہ وہاں کوئی رہنے آتا ہوگا کیونکہ یہاں نہ پینے کے پانی کا بندوبست ہے اور نہ نزدیک میں کوئی ہوٹل۔ اب کوئی یہاں اگر جلد کی بیماری سے ٹھیک ہونے کے لیے 7 دن رہنا چاہے تو کیسے رہ سکتا ہے؟ چنانچہ لوگ یہاں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ پھر دوسرے یا تیسرے دن آتے ہیں۔ ایک بیماری کا عذاب اس پر روز آنے جانے کا عذاب۔ ان ویران پڑے کمروں سے جنوب کی طرف پہاڑی کے دامن میں سے ایک پگڈنڈی نکلتی ہے۔ پگڈنڈی کے ساتھ ساتھ مغرب میں قدرتی خوبصورتی سے تراشی ہوئی پہاڑیاں ہیں اور پگڈنڈی کے مشرق میں وہ دھارا بہتی ہے۔ نہ جانے کب سے کہ اس گندرفی دھارا میں فطرت نے شفا رکھی ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ تکلیف دینے والی جلد کی بیماریاں ہیں۔ وہ لوگ جو شہروں میں ہیں یا ان میں اتنی سکت ہے کہ چمڑی کی بیماریوں کے علاج کے لیے ڈاکٹر تک پہنچ سکیں، ایسے فقط 100 میں سے 10 خوش نصیب لوگ ہوسکتے ہیں (یا شاید اس سے بھی کم) مگر ان 90 فیصد سے متعلق کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ان کا کیا؟ یہاں پہنچ کر مجھے اندازہ ہوا کہ درد کے جہانوں کی بھی ایک الگ کائنات بستی ہے۔ مجھے وہاں 'جمن' ملا۔ وہ اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ آیا تھا۔ وہ 45 برس کا تھا مگر وقت نے ایسا نچوڑا تھا کہ شگفتگی کے سارے رنگ نچڑ گئے تھے۔ جمن کے ساتھ اس کی 12 سالہ بیٹی بھی تھی۔ وہ 5ویں بار اپنی بیوی اور بیٹی کو یہاں اس گندرفی چشمے پر لے کر آیا تھا۔ اس کے کہنے کے مطابق دونوں کو جلد کی بیماری ہے۔ جلد پر ہلکے گول بڑے دانے نکلتے ہیں اور ان میں بہت خارش ہوتی ہے۔
'تو 5ویں بار جب آپ یہاں آئے ہیں تو کتنا افاقہ ہوا ہے؟'
'فرق تو پڑا ہے۔ پہلے خارش بہت پریشان کرتی تھی، اب آٹھ آنے کم ہوگئی ہے'۔
'کہاں سے آتے ہو؟'
اس نے سن کے کسی قریبی گاؤں کا نام لیا۔
'ڈاکٹر کو دکھایا تھا؟' میں نے سوال کیا۔ اب دن گرم ہونے لگا تھا بلکہ نیچے سے یہاں گرمی کچھ زیادہ ہی تھی۔ شاید ہوا کو پہاڑی نے روک رکھا تھا۔ ہم دیوی کے درخت کے نیچے کھڑے تھے۔
'وہاں سے حیدرآباد بہت دُور پڑتا ہے۔ اگر نزدیک بھی پڑتا تب بھی وہاں نہیں جا پاتے' یہ جملہ ادا کرتے ہوئے اس نے بے خیالی میں دیوی کا پتہ توڑ لیا۔ جس کے پتے کی ٹہنی پر بہت سارے پتے ہوتے ہیں۔ وہ الفاظ کی ادائیگی بھی کرتا جاتا اور ایک ایک پتے کو اس ڈنڈی سے توڑ کر زمین پر گراتا جاتا۔ جیسے لاشعوری طور پر وہ اپنے دکھوں اور پریشانیوں سے پیچھا چھڑا رہا ہو۔
'ایسی اچھی حالت نہیں ہے کہ ڈاکٹروں کی مہنگی فیس اور دوائیں لے سکیں۔ ہم مسکینوں کے لیے یہ ہسپتال نہیں ہوتے۔ شفا دینے والا اگر چاہے تو کہیں سے بھی شفا دے دے گا۔‘
جب آپ کو یہ احساس ہوجائے کہ اپنے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ تب قسمت، بھاگ، ابھاگ اپنی لاٹھیاں ٹیکتے آپ کے خیالوں میں آ بیٹھتے ہیں کیونکہ انسان کو ذہنی دباؤ سے کسی نہ کسی روپ میں چھٹکارہ چاہیے ہوتا ہے۔
آپ اگر تھوڑا دھیان دیں، غور کریں اور بے بسی اور بچارگی کی زمین سے اگنے والے ان الفاظ کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اپنے آپ سے شرمندگی ہونے لگتی ہے۔ کس زمانے میں جیتے ہیں ہم کہ عام حالات میں تو نہیں لیکن بیماریوں کی کیفیتوں میں بھی ہم ایسے خاندانوں کے پرسان حال نہیں بن سکتے۔
میں کوئی جلد کی بیماریوں کا ڈاکٹر نہیں ہوں کہ بتا سکوں کہ لوگوں کو کس قسم کی جلد کی بیماریاں ہوتی ہیں یا جلد کی کس کس بیماری کا علاج ان گندرف سے بھرے چشموں میں ہوسکتا ہے یا نہیں ہوسکتا۔ مگر یہاں تک جو لوگ پہنچتے ہیں وہ معاشی لحاظ سے انتہائی کمزور اور بے بس انسان ہوتے ہیں۔ آپ اگر اس طرف یا ایسے مقامات پر جائیں گے تو آپ کو ہر جگہ دھاگے بندھے نظر آئیں گے، کہیں درختوں پر تو کہیں زمین پر پڑی ہوئی لکڑیوں اور چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں پر۔ یہ ذہنی دباؤ سے چھٹکارہ پانے کا انسان کا ایجاد کیا ہوا علاج ہے کہ طبقوں میں بٹا ہوا معاشرہ ان کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ یہ لوگ اس معاشرے میں رہتے ہوئے بھی اس معاشرے سے دھکے دے کر نکالے ہوئے لوگ ہیں۔
میں نے اس پگڈنڈی پر چلتے بہت سارے درختوں اور جھاڑیوں پر بندھے امیدیں پوری ہونے کے دھاگے دیکھے۔ وہ دیکھنے میں سرخ، سیاہ، ہرے لگتے ہوں، مگر باندھنے والے نے جب ان کی گرہیں دی ہوں گی تو اس امید سے کہ وہ جس بیماری سے چھٹکارے کے لیے یہاں تک آیا ہے اس سے چھٹکارا ملے۔ اس امید اور دھاگے باندھنے سے اس کے ذہنی دباؤ میں ضرور کمی آئی ہوگی۔ مگر ہم کو جاننا چاہیے کہ دکھوں کی بستیوں میں جینے والوں کے درد کا حل ان دھاگوں میں نہیں ان ہسپتالوں میں ہے جہاں ان کا باعزت طریقے سے علاج ہونا چاہیے اور یہ ہسپتال ان کے جتنا ممکن ہوسکے نزدیک تر بنائے جائیں کہ یہ خیرات نہیں ان کا حق ہے۔
ہم ابھی زمانے کی باتیں ہی کر رہے تھے کہ جمن کو چشمے کی طرف سے کسی نے پکارا۔ جمن اس طرف گیا۔ کچھ دیر کے بعد جب دن تپتا تھا تو جمن اپنی بیوی اور بچی کے ساتھ واپس اپنے گاؤں جا رہا تھا۔ یہاں بنے ہوئے کمرے اس کے کسی کام کے نہیں تھے۔ دونوں عورتوں کے پاؤں میں سیاہ ریگزین کے سادے سے چپل تھے جو تیز دھوپ میں اور بھی زیادہ گرم ہوجاتے ہیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ باہر کوئی سواری تو نہیں تھی۔ اگر اس دھوپ میں یہ یہاں سے پیدل ایک ڈیڑھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کریں گے تب کہیں جاکر ان کو یہاں سے چنگچی ملے گی، اس پر سوار ہوکر بس اسٹاپ پہنچیں گے اور پھر گاؤں کی طرف بڑھیں گے۔ میں ابھی سوچ رہا تھا اتنے میں کچھ اور عورتیں دکھائی دیں۔ وہی سلسلہ تھا جو یہاں مسلسل چلتا رہتا ہے۔ سچ ہے کہ اس دنیا میں دکھوں کی زمینیں کبھی غیر آباد نہیں رہتیں۔
تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں ننگر ٹھٹہ اور کینجھر جھیل کے قریب سے جو راستہ حیدرآباد کے لیے نکلتا ہے وہی راستہ اس لک سے آ نکلتا تھا۔ قدیم زمانے میں جو قافلے ٹھٹہ سے سفر کرتے یہاں تک پہنچتے اور پھر لکی شاہ صدر سے ہوکر سیہون جاتے تھے۔ تاریخ کے اوراق یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس پہاڑی کے دامن میں 1590ء میں، مرزا جانی بیگ کا اپنی 35 ہزار فوج کے ساتھ، اکبر بادشاہ کے بھیجے ہوئے، عبدالرحیم خان خاناں کے ساتھ مقابلہ ہوا تھا۔ واضح رہے کہ اسی برس خان خاناں کو ملتان اور بکھر کی حکومت مرکز سے سنبھالنے کے لیے ملی تھی۔ انہیں مرکز کی طرف سے جنوبی سندھ پر قبضہ کرنے کے احکامات جاری ہوئے۔ جس کو پورا کرنے کے لیے عبدالرحیم خان خاناں اپنے جنگی بیڑوں سمیت نکل پڑے اور قبضہ کی ابتدا سیہون سے ہوئی۔ اس جنگ میں جیت تو خان خاناں کی ہونی تھی اور ہوئی بھی لیکن اس جنگ میں، اکبر بادشاہ کے خاص رتن 'راجا توڈر مل' جو ایک ذہین ماہر ارضیات بھی تھا اس کا بیٹا 'دھارو' اس جنگ میں مارا گیا۔
جنوبی چشمہ دیکھنے کے بعد آپ جب واپس ہوتے ہیں تو ایک کلومیٹر کے فاصلے پر دیویوں کے جھنڈ میں دوسرا شمال کی طرف والا چشمہ آپ کے سامنے ہوتا ہے۔ برٹش دور میں یہاں جو لوگوں کے لیے 4 دیواری بنائی گئی تھی، جس کا ذکر ہم گزیٹیئر میں پڑھ چکے ہیں، اس کی اب خستہ سی ڈیڑھ دیوار رہ گئی ہے۔ یہاں مرد جلد کی بیماریوں سے چھٹکارے کے لیے غسل کرتے ہیں۔
میں واپس اسی سیڑھی پر آکر بیٹھ گیا جہاں سے ہم اوپر آئے تھے۔ میں اترنے والی پہلی سیڑھی اور دیوی کی چھاؤں میں سے شمال کی طرف دیکھتا ہوں۔ میرے مشرق میں وہ گندرفی دھارا ہے جو خوبصورت گول پتھروں کے بیچ میں سے فیروزی رنگ کو اپنے ساتھ لیے بڑی سست روی کے ساتھ بہتا ہے۔ میرے مغرب میں، بھگو ٹھوڑھو کی پہاڑی کی بلندی ہے جس کے نیچے پہاڑیوں پر ایک کنڈی کا درخت ہے جس پر بس اب ہریالی نام کی ہی رہ گئی ہے اور وہاں پر اس پرانے چشمے کے بہاؤ کے آثار رہ گئے ہیں جو اب خشک ہوگیا ہے۔ شمال میں ایک اونچی پہاڑی ہے جس پر بھی بہاؤ کے نشان ہیں۔ یہ آثار بتاتے ہیں کہ یہاں آبشار تھا اور ایک بڑے زمانے تک بہتا رہا ہوگا۔ مگر یہ شاید بہت پہلے خشک ہوچکا ہوگا۔ اس آبشار کے نیچے ایک چھوٹی سی غار ہے۔
جب گرمیوں کے دنوں میں یہ چشمہ اوپر سے نیچے گرتا ہوگا تو غار میں بیٹھے ہوئے لوگ یقیناً گرمیوں کے موسم میں بڑے لطف اندوز ہوتے ہوں گے۔ یہ بڑا شاندار منظر ہے۔ میں دیر تک اس دیوی کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھا رہا اور تصور کی دنیا میں اس منظرنامے پر جاڑے بھی آئے، تیز دھوپ کے دن بھی آئے، بارشیں بھی آئیں، لوگوں کے میلے بھی لگے۔
گزرے دنوں میں یہ سارے نظارے حقیقی جہان کا حصہ رہے ہوں گے مگر ان دنوں حقیقت میرے سامنے ہے کہ کچھ چشمے خشک ہوچکے ہیں۔ جو بھی ہو، یہاں سے متعلق جو لوک کہانیاں ہیں ان کی زمین ابھی بھی ذرخیز ہے۔ بلاشبہ لوک ادب صدیوں تک آپ کے ساتھ چلتا ہے۔ یہ ساری لوک کتھائیں ان تمناؤں سے بنی جاتی ہیں جو حقیقی زندگی میں کبھی پوری نہیں ہوتیں۔ شاید اسی لیے لوگوں کا ذہن اتنی زبردست کہانیاں بنتا ہے جو صدیوں بعد بھی زندہ رہتی ہیں۔
حوالہ جات
۔ 'سندھ گزیٹیئر'۔ ای ڈبلیو ہیوز۔ روشنی پبلیکیشن، حیدرآباد
۔ 'تاریخ کے مسافر'۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
۔ 'تاریخ مظہر شاہجہانی'۔ یوسف میرک۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔