’ان کے رب کی ہیں ان پر عنایتیں کیا کیا‘
(یہ غیر مطبوعہ مضمون 29 دسمبر 2005ء کو ہوٹل ریجنٹ پلازہ (کراچی) میں منعقدہ پروفیسر عنایت علی خان کے انتخاب کلام ’نہایت‘ کی رسمِ اجرا میں پڑھا گیا تھا۔ تقریب کی صدارت محمد علی جناح یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالوہاب نے کی تھی جب کہ سابق گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر اس میں بطور مہمانِ خصوصی شریک تھے۔)
ہمیں جب تک جناب عنایت علی خان سے ذاتی نیاز حاصل نہیں تھا، ہم انہیں گوگیا پاشا قسم کا پروفیسر سمجھتے تھے۔ اس کی وجہ ان کی نظم کا ایک شعر تھا جو بہت عرصے قبل سنا تھا۔ اس شعر میں پروفیسر صاحب نے دعویٰ کیا تھا
جو کھوٹے سکّے تھے وہ بھی چلا دیے میں نے
جو اے ایس ایس تھے، سی ایس ایس بنا دیے میں نے
آپ جانتے ہیں کہ ایمپریس مارکیٹ (کراچی) کی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں بیٹھے ہوئے ’پروفیسر صاحبان‘ اسی قسم کے دعوے کیا کرتے ہیں۔ ہماری یہ غلط فہمی اس وقت دُور ہوئی جب ہم نے پروفیسر عنایت علی خان کی ایک غزل کادرجِ ذیل شعر کہیں پڑھا۔ اس شعر میں ایک اہم موقع پر جس بے سروسامانی کا ذکر کیا گیا تھا وہ صرف ایک اصلی پروفیسر ہی کے حصے میں آسکتی ہے۔ فرماتے ہیں
بردکھوّے کے لیے پہنچے تھے ہم اس شان سے
شرٹ تو مانگے کی تھی اور سوٹ تھا نیلام کا
جس طرح بعض لوگ مراعات یافتہ ہوتے ہیں اسی طرح ہمارے پروفیسر صاحب ’عنایات یافتہ‘ ہیں۔ ماشاء اللہ شاعر ہیں، ادیب ہیں، خطیب ہیں، معلّم ہیں، محدّث ہیں اور مفسّر ہیں۔ پھر ہم کیوں نہ کہیں
کہ ان کے رب کی ہیں ان پر عنایتیں کیا کیا
ان کی ایک کتاب کی پشت پر جو حالاتِ زندگی درج ہیں ان سے معلوم ہوا کہ موصوف نکاح خواں بھی ہیں۔ شاید نام کے ساتھ قاضی اس لیے نہیں لکھتے کہ ایک جماعت میں ایک ہی قاضی کافی ہے، باقی ذکر اضافی ہے۔
ہم نے عنایت کی ’نہایت‘ کو نہایت احتیاط کے ساتھ پڑھا اور یہ نتیجہ کشید کیا ہے کہ آج اگر کوئی صحیح معنوں میں اکبر ثانی ہے تو وہ عنایت علی خان ہیں۔ شکلاً بھی اور شعراً بھی۔
اگر ہم نظریہ آواگون کے قائل ہوتے تو ضرور یہ کہتے کہ اکبر کی روح عنایت میں حلول کر آئی ہے۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ اکبر کی زبان میں الٰہ آباد کے امرودوں کی مہک ہے جب کہ عنایت کی زبان میں راجستھان کے ہتھیاروں کی کھڑک! اور یہ کہ اکبر الٰہ آبادی تو کبھی کبھار کسی چھوٹی موٹی خباثت سے صرفِ نظر کرلیتے تھے عنایت علی خان پہلے رائی کا پہاڑ بناتے ہیں اور پھر اس پہاڑ سے خود ٹکرا جاتے ہیں محض یہ ثابت کرنے کے لیے کہ پٹھان ہوں۔ یہ ٹونک میں پیدا ہوئے اور لگتا ہے ہر وقت ٹینک پر بیٹھے رہتے ہیں۔ جہاں کوئی خرابی دیکھی، فوراً فیر کھول دیا۔ ’طریقہ واردات‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم نے اکبر اور عنایت کی شاعری کے مشن، ڈکشن، پیغام اور موضوعات میں حیرت انگیز مماثلت کا سراغ لگایا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ تھوڑی سی حاشیہ آرائی کی رعایت کے ساتھ آپ ہم سے اس ضمن میں ضرور اتفاق کریں گے۔
بات کا آغاز مذہب سے کرتے ہیں جو ان دونوں مشاہیر کا پسندیدہ موضوع ہے۔ 1907ء میں اکبر الٰہ آبادی نے ’برقِ کلیسا‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی جس میں ان کا ایک ماڈرن حسینہ کے ساتھ مکالمہ درج ہے۔ شاعر اسے اپنی طرف راغب کرنا چاہتا ہے، مسلسل اپنے آپ کو enlightened moderate ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ اسلام کو ایک سخت گیر اور جہادی مذہب قرار دیتے ہوئے اس سے پہلو تہی کرتی ہے۔ آخری حربے کے طور پر شاعر اسے یقین دلاتا ہے
میرے اسلام کو اِک قصہ ماضی سمجھو
ہنس کے بولی تو پھر مجھ کو بھی راضی سمجھو
معلوم ہوتا ہے ہمارے پروفیسر صاحب کی گوٹ بھی اسی طرح کہیں پھنس گئی تھی۔ ان کی مذہب بے زار قتالہ بھی کوئی بات سننے کو تیار نہ تھی اور یہ اسے چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ بالآخر انہوں نے اکبر الٰہ آبادی والا گُر آزمایا اور رائج الوقت اصطلاحات کا سہارا لیتے ہوئے اسے یوں تسلّی دی کہ بی بی خاطر جمع رکھ
تُو جو لبرل ہے تو میں بھی نہیں بنیاد پرست
ایک ہی جیسے ہیں ہم دونوں مسلماں جاناں
(اور کام بن گیا)۔ اکبر نے جُبّہ و دستار کی نمائش پر یہ تبصرہ کیا تھا
کیجیے ثابت خوش اخلاقی سے اپنی خوبیاں
یہ نمودِ جُبّہ و دستار رہنے دیجیے
عنایت صاحب جُبّہ و دستار کی قلعی اس طرح کھولتے ہیں
اچھی طرح سے جُبّہ و دستار دیکھنا
زیرِ قبا نہ ہو کہیں زنّار دیکھنا
یعنی اس بے چارے کے کپڑے اُتروا دیے۔
انگلستان کے بارے میں ان دونوں شاعروں نے خوب خوب لکھا۔ اکبر کا شعر ہے
سدھاریں شیخ کعبے کو ہم انگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے
اکبر کے دور کا شیخ بھولا بھالا انسان تھا۔ وہ واقعی کعبے کو سدھار جاتا تھا۔ عنایت صاحب اپنے دور کے شیخ کی نفسیات اور فنکاری سے بخوبی آگاہ ہیں اور اسی کی مناسبت سے اسے ایک ایسا مشورہ دیتے ہیں جس پر شاید یہ خود عمل کرچکے ہیں
ہے خدا کی شان بھی تبلیغ کا میدان بھی
شیخ جاکر اور ایک چلّہ لگا انگلینڈ میں
شاعر نہ صرف اپنے دور کا نبّاض ہوتا ہے بلکہ مستقبل پر بھی اس کی گہری نظر ہوتی ہے۔ فیشن اور میک اَپ کے باب میں حسینانِ وقت کے تیور دیکھتے ہوئے اکبر نے پیش گوئی کی تھی
نئے عنوان سے زینت دکھائیں گے حسیں اپنی
نہ ایسا پیچ زلفوں میں نہ گیسو میں یہ خم ہوں گے
یہ پیش گوئی سو فیصد درست ثابت ہوئی۔ عنایت صاحب کا بیان کردہ فیشن کا ایک رنگ پیش خدمت ہے۔ دیکھیے میک اَپ ایک مولوی کو کس طرح ’ویک اَپ‘ کرتا ہے
وہ مصنوعی بھنویں آنکھوں پہ جیسے
کمانیں ہوں کڑی تیروں کو تولے
لبوں پہ تہ بہ تہ سرخی جمائے
برہنہ بازوؤں پر بال کھولے
اور جب یہ حال ہو تو خان صاحب اپنے مخاطب کو بجا طور پر سرزنش کرتے ہیں
بِلا میک اَپ اسے دیکھا ہی کیوں تھا
تمنّاؤں کا کُونڈا ہو گیا نا!
اکبر اور عنایت دونوں کا ذاتی کردار ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ دونوں کے چہرے بھی ماشاء اللہ نورانی ہیں۔ لیکن پاپی دل پر کسی کا زور نہیں۔ اکبر نے شریعت کی پابندی کی اور عنایت صاحب نے حدود آرڈیننس کی۔ پھر بھی دونوں اپنے کلام میں دل کے ہاتھوں مجبور نظر آتے ہیں۔ چنانچہ اکبر نے حسینوں کی اداؤں سے گھائل ہوکر کہا
یہ ادائیں، یہ لگاوٹ، یہ بلا کی چتون
میں تو کیا، ضبط فرشتوں سے بھی واللہ نہ ہو
اب عنایت صاحب کی بے صبری کا ذکر ہوجائے۔ وہ غریب ابھی سن بلوغت کو بھی نہیں پہنچی ہے لیکن ان کے مشاہدے کی وسعت دیکھیے
ادائیں اس کی چغلی کھا رہی ہیں
کہ یہ چھپّن چھری تلوار ہوگی
قلب و نظر کے واقعات رقم کرنے کے ساتھ ان دونوں شاعروں نے سیاسی حالات کا بھی احاطہ کیا ہے۔ عنایت صاحب مارشل لا کا ذکر اس طرح کرتے ہیں
سیاسی کم نگاہی رنگ لائی
ہمیں پھر مارشل لا ہوگیا نا!
اکبر کے زمانے میں سیاسی استحکام تھا جس کا ثبوت ان کے اس شعر سے ملتا ہے
کوئی شورش نہیں ہے ہر طرح سے خیر سلّا ہے
نہ سرگرمی پولیس کی ہے نہ جاری مارشل لا ہے
سیاسی استحکام سے قطع نظر معلوم ہوتا ہے کہ مقامی طور پر امن عامّہ کا مسئلہ اس زمانے میں بھی آج جیسا ہی تھا۔ اکبر نے کہا
ہمارے شہر پہ یا رب یہ کیا پڑی آفت
نہ خوب رُو رہے باقی نہ خوش گلو باقی
اور اپنے شہر کے حالات عنایت صاحب اس طرح بیان کرتے ہیں
اندھیری رات میں لُوٹو کہ روزِ روشن میں
ہمارے شہر میں سب کچھ روا ہے کیا سمجھے
(ہم تو یہ سمجھے کہ ’وردی‘ کا قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔)
اپنے دور کے نام نہاد رہنماؤں کے کردار کو اکبر نے ان الفاظ میں بے نقاب کیا تھا
خوب وہ دکھلا رہے ہیں سبز باغ
ہم کو بھی کچھ گُل کھلانا چاہیے
آج کے رہنما ’کالا باغ‘ دکھاتے ہیں۔ اکبر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عنایت صاحب کہتے ہیں
پھر وہی راہ نما ہیں، وہی رستہ وہی رات
پھر بھٹکنے کو ہو تیار، ذرا سوچو تو!
سیاسی رہنماؤں کی بے معنی تقریروں پر دونوں نے ایک ہی انداز سے رائے زنی کی ہے۔ اکبر نے کہا
بعد مدّت کے جو تقریر بھی کی تم نے تو وہ
جس کا مطلب نہیں، معنی نہیں مفہوم نہیں
عنایت علی خان شاید شیخ رشید کی تقاریر کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہتے ہیں
حضور آپ کی تقریر دل پذیر کے بعد
ہر ایک شخص یہی پوچھتا ہے، کیا سمجھے
معاشرتی خرابیوں میں رشوت کے موضوع پر تمام ہی مزاح گو شعرا نے طبع آزمائی کی ہے لیکن رشوت جوں کی توں موجود ہے بلکہ جب سے پاکستانی روپیہ ہاتھ کا میل ہوا ہے، سوئٹزر لینڈ کے بنکوں کی خوشحالی بڑھتی جارہی ہے۔ اکبر نے بڑی شائستگی کے ساتھ رشوت خوروں کو تلقین کی
کیجیے رشوت ستانی سے ذرا پرہیز آپ
خیر خواہی کا یہ سب اظہار رہنے دیجیے
عنایت علی خان رشوت پر اپنی بھڑاس خالص راجستھانی انداز میں اس طرح نکالتے ہیں
ایک ڈکیتن نے کہ جس کا نام ہے رشوت جہاں
افسرانِ پاک کے ایماں کو اغوا کرلیا
ایمان تو کیا بعضے تو خود اپنے آپ کو اغوا کرکے بھاگ لیے۔ جو باقی رہ گئے ہیں وہ ECL سے اپنا نام نکلنے کے منتظر ہیں، اور وہ بھی نہ نکلا تو وزیر بن جائیں گے۔
اکبر نے بعد از مرگ دوستوں کی دعوت پلاؤ کا ذکر کرتے ہوئے کہا
بتائیں آپ کو مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا
عنایت صاحب نے بھی اپنی مفروضہ برسی کا پلاؤ کھایا ہے لیکن کنجوسی کے ساتھ۔ انہوں نے صرف اپنی جفا شعار محبوبہ کی ضیافت کی۔ یہ برسی کے قائل نہیں لیکن اس بے وفا کی خاطر یہ ’بدعت‘ بھی سہہ گئے
کھا رہی ہے مری پچیسویں برسی کا پلاؤ
روز دھمکی جو دیا کرتی تھی مر جانے کی
بِل کا بِلبلانے سے اگر کوئی تعلق بنتا ہے تو اس کا عکس بھی دونوں کے کلام میں ملتا ہے۔ اکبر نے کہا
قولِ بابُو ہے کہ جب بِل پیش ہو
پیشِ حاکم بلبلانا چاہیے
عنایت صاحب نے بِل پر بِلبلاہٹ کا اظہار اس طرح کیا
سنا ہے کہ بِل اب کے آئیں گے بڑھ کر
تو پھر بِلبلانے کے دن آرہے ہیں
اکبر کے زمانے میں شاعر کو صرف داد پر ٹرخا دیا جاتا تھا۔ ایک بار تو ان کے ساتھ دھوکا بھی ہوا
پرچہ رکھا جو اس نے میں یہ سمجھا
پاکٹ میں یہ بیس روپے کا نوٹ گیا
گھر پہ کھولا تو بس یہی لکھا تھا
کیا شعر تھے واہ واہ میں لوٹ گیا
عنایت صاحب کو جو لفافہ ملتا ہے وہ بھرا ہوا ہوتا ہے۔ پٹھان مفت میں نہ کدال چلاتا ہے، نہ قلم۔ کہتے ہیں
لفافہ بھی ملا ہے داد کے ساتھ
چلو کچھ دال دلیا ہو گیا نا!
اس قبیل کی مزید بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن ہم محسوس کر رہے ہیں کہ آپ کی کافی سمع خراشی ہوچکی ہے۔ بس اب آخری بات! ان دونوں شاعروں کے درمیان غالباً عالمِ ارواح ہی میں سیٹلائٹ پر کوئی رابطہ قائم ہوگیا تھا۔ چنانچہ دونوں نے ایک دوسرے کا نام اپنے کلام میں استعمال کیا ہے۔ اکبر نے کہا تھا
عنایت مجھ پر فرماتے ہیں شیخ و برہمن دونوں
موافق اپنے اپنے پاتے ہیں میرا چلن دونوں
اور خود عنایت صاحب فرماتے ہیں
ذوقِ تخلیق کو اکبر کی ڈگر پر ڈالا
مجھ پہ یہ طرفہ عنایت مرے مولا نے کی
آخر میں اپنے مزاح نگار دوستوں پر واضح کرتے ہیں کہ آج ہم نے حتمی طور پر پروفیسر عنایت علی خان کو اکبرثانی ثابت کردیا ہے۔ گزارش ہے کہ اب کوئی صاحب اکبر بننے کی کوشش نہ کریں نہ ہم سے ایسی کوئی فرمائش کریں کہ ہم ان کی کتاب پر پیش لفظ، تقریظ وغیرہ لکھ کر انہیں اکبر بنائیں۔ ہاں، عنایت علی خان بنانے پر غور کیا جاسکتا ہے۔
آپ جانے پہچانے مزاح نگار، ادیب اور کالم نویس ہیں۔ اردو کے ساتھ انگریزی میں بھی اپنے قلم کا جادو جگاتے ہیں اور ایک روزنامے میں باقاعدگی سے شاید ہوتے ہیں۔ بطور کالم نگار اے پی این ایس کا ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ ان تصانیف میں بالقرض محال، Crocodile Tears، پہاڑ تلے، اب میں لکھوں کہ نہ لکھوں، خود خوش حملہ،ہر شاخ پہ ، بقلم خود بخود، ہیڈلائٹ، East is East، West is West، اشتہاریات،اُردو زبان و ادب، سماجی تحفظ، حواس خستہ اور بہ نظر ِ غائر شامل ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔