اس تحقیق کے دوران 2 ہسپتالوں میں آئی سی یو میں زیرعلاج کووڈ 19 کے 11 مریضوں کو دیکھا گیا جن میں ایسے دماغی امراض دیکھے گئے تھے جن کی وضاحت ممکن نہیں تھی۔
ان مسائل میں epileptic seizures، مسلز کا رعشہ، اعصابی مسائل، آنکھوں کو حرکت دینے کے مسائل، سرسام اور دیگر شامل تھے۔
تحقیق کے نتائج پری پرنٹ ویب سائٹ medRxiv پر شائع ہوئے اور ابھی کسی طبی جریدے کا حصہ نہیں بن سکے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ آئی سی یو میں زیرعلاج کووڈ 19 کے مریضوں میں اکثر اوقات دماغی امراض پیدا ہوجاتے ہیں، مگر کورونا وائرس دماغی سیال میں نہیں پایا گیا۔
جس کے بعد محققین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا وائرس نے مریضوں کو متاثر کیا یا اس کے نتیجے میں مدافعتی نظام کا غیرضروری ردعمل حرکت میں آیا۔
خاص طور پر وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ اینٹی باڈیز اس حوالے سے کیا کردار ادا کرتی ہیں۔
اینٹی باڈیز عموماً جسم پر حملہ کرنے والے جراثیموں کو نشانہ بناتی ہیں، تاہم جب وہ جسم کو ہی ہدف بنالیں تو اس عمل کو آٹو اینٹی باڈیز کہا جاتا ہے۔
محققین نے مریضوں کے خون اور دماغی سیال کے نمونے اکٹھے کیے اور کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ دماغ اور اعصاب پر اثرانداز ہونے والی اینٹی باڈیز کو دیکھا۔
کورونا وائرس کسی بھی مریض کے دماغی سیال میں دریافت نہیں ہوسکا بلکہ ان کے خون یا دماغی سیال میں آٹو اینٹی باڈیز کو دیکھا گیا۔
اس کے بعد چوہوں کے دماغ کے ٹکڑوں میں تجربات میں محققین نے دیکھا کہ اینٹی باڈیز ٹشوز سے جڑجاتی ہیں۔