اس شخص کے ساتھ 4 دیگر افراد کو بھی تجرباتی طریقہ علاج کا حصہ بنایا گیا تھا مگر صرف وہی شفا پانے میں کامیاب ہوا۔
محققین کی جانب سے اس کے نتائج انٹرنیشنل ایڈز سوسائٹی کانفرنس میں پیش کیے جائیں گے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تجزیے کی ضرورت ہے۔
برازیل سے تعلق رکھنے والا دنیا کے ان 3 افراد میں سے ایک ہے جو اس بیماری سے نجات پانے میں کامیاب ہوئے۔
اس مریض کو پہلے 2 ماہ تک روایتی اے وی آر طریقہ علاج سے گزارا گیا اور پھر ایک کلینیکل ٹرائل کا حصہ بنایا گیا جس میں اسے اے آر ٹی کے ساتھ ساتھ ایچ آئی وی ادویات dolutegravir اور marivoc استعمال کرائی گئیں جبکہ وٹامن بی کی ایک قسم نکوٹینمائیڈ بھی دی گئی۔
نکوٹینمائیڈ متاثرہ خلیات میں وائرس سے لڑنے میں کردار ادا کرنے کے ساتھ انہیں تباہ کرنے پر مجبور کرتی ہے جبکہ مدافعتی نظام کو متحرک کرتی ہے۔
یہ مریض اس طریقہ علاج سے ایک سال تک گزرا اور مارچ 2019 میں ٹرائل سے نکال لیا گیا۔
ا کے بعد سے ہر 3 ہفتے بعد اس کے ٹیسٹ ہوئے اور ایک سال بعد بھی کسی قسم کا وائرل لوڈ یا اینٹی باڈیز کو دیکھا نہیں جاسکا۔
میلبورن یونیورسٹی کے ایچ آئی وی اور وبائی امراض کی ماہر پروفیسر شیرون لیون، جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے، کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت کہ مریض میں کوئی اینٹی باڈیز نہیں، بہت اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب کوئی کسی وائرس سے متاثر ہوتا ہے تو اینٹی باڈیز بنتی ہیں اور اس مریض میں کسی قسم کی اینٹی باڈیز کی عدم موجودگی سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ وہ صحتیاب ہوچکا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ یہ ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ صرف ایک مریض ہے اور شائع ہونے والے نتائج ایک تدریسی مقالے کی بجائے ایک کیس رپورٹ کے طور پر شائع ہوئے۔
اس تحقیق کی سربراہی کرنے والے ساؤ پاؤلو یونیورسٹی کے ڈاکٹر ریکارڈو ڈیاز نے بتایا کہ انہوں نے وائرس کو جگانے اور مدافعتی نظام کو بڑھانے کی کوشش کی تھی تاکہ وہ ایک بار میں چھپے ہوئے وائرس کا خاتمہ کردے۔
انہوں نے بتایا 'ہم پورے جسم کی جانچ پڑتال نہیں کرتے، مگر بہترین نتائج میں ہم متاثرہ خلیات دریافت نہیں کرسکے، میرے خیال میں یہ بہت حوصلہ افزا ہے، یہ مریض ممکنہ طور پر صحتیاب ہوچکا ہے، مگر اس کا حتمی فیصلہ کچھ وقت کے بعد ہوگا'۔
اگر یہ نیا تجرباتی طریقہ علاج دیگر مریضوں میں کام کرا تو یہ ایک بہت بڑی پیشرفت ہوگی۔
اس وقت ایچ آئی وی کے مریضوں کو زندگی بھر وائرل لوڈ کو دبانے کے لیے ادویات کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں جب سائنسدانوں نے ایچ آئی وی وائرس کے خاتمے کا ذریعہ تلاش کیا ہے۔
اس سے پہلے 2007 میں ٹموتھی براؤن نامی ایک مریض کو صحتیاب قرار دیا گیا تھا جو خون کے کینسر کے علاج کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ سے گزارا اور ایک دہائی کے بعد بھی وہ اس بیماری سے محفوظ ہے۔
اسی طرح گزشتہ سال ایک اور مریض ایڈ کاسٹیلجو کو شہہ سرخیوں میں اس وقت جگہ ملی جب اسے ایچ آئی وی سے پاک قرار دیا گیا، جس کا اس بیماری کے خلاف جینیاتی مزاحمت رکھنے والے ایک ڈونر کے اسٹیم سیلز کے ذریعے کیا گیا تھا۔