اس کے مقابلے میں کووڈ 19 سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں بالغ افراد کی اموات کی شرح (ابتدائی ڈیٹا کے مطابق) 10 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
اس تحقیق میں 21 یورپی ممالک میں 600 کے قریب ایسے بچوں کو دیکھا گیا جن میں کووڈ 19 کی تصدیق ہوئی تھی۔
ان بچوں کی عمریں 3 دن سے لے کر 18 سال کے درمیان تھیں جبکہ 75 فیصد کے قریب بچوں میں پہلے سے کوئی بیماری نہیں تھی۔
محققین نے دریافت کیا کہ 50 فیصد سے زیادہ بچوں کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا مگر صرف 8 فیصد کو آئی سی یو کی ضرورت پڑی جبکہ صرف 4 اس بیماری کے نتیجے میں چل بسے، اموات کی شرح 0.69 فیصد رہی۔
تحقیق کے مطابق مجموعی طور پر بچوں میں کووڈ 19 سے اموات کی شرح اس سے بھی کم ہوسکتی ہے کیونکہ زیادہ تر بچوں کو طبی امداد کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر تحقیق میں شامل 16 فیصد بچوں میں کووڈ 19 کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں اور ان کے ٹیسٹ بھی کسی اور متاثرہ فرد کے قریب ہونے کی وجہ سے ہوئے۔
محققین نے دریافت کیا کہ ایک ماہ کے بچوں کو زیادہ عمر کے بچوں کے مقابلے میں آئی سی یو کی ضرورت زیادہ ہوسکتی ہے، تاہم جن 4 بچوں کا انتقال ہوا ان کی عمریں 10 سال سے زائد تھیں۔
ان میں سے بھی 2 بچے پہلے سے کسی بیماری میں مبتلا تھے جو پہلے ہی کووڈ 19 کی شدت بڑحانے والا عنصر قرار دیا جاتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ کسی اور وائرس کا انفیکشن جیسے انفلوائنزا یا کسی اور قسم کا کورونا وائرس بچوں میں اس بیماری کی شدت بڑھانے کا باعث نظر آتا ہے، ہوسکتا ہے کہ رواں سال یا اگلے سال موسم سرما میں اس نئے وائرس کا دیگر وائرسز سے امتزاج بچوں پر زیادہ اثرات مرتب کرے۔
اس تحقیق کے لیے ڈیٹا یکم اپریل سے 24 اپریل تک اکٹھا کیا گیا تھا جب تک کووڈ 19 کے شکار بچوں میں کاواساکی سے ملتی جلتی بیماری سامنے نہیں آئی تھی، اب بھی اس کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے، محققین یہ جاننے کے لیے پرعزم ہیں کہ کیا واقعی یہ پیچیدگی کورونا وائرس سے تعلق رکھتی ہے یا نہیں۔
اس سے قبل رواں ماہ برطانوی سائنسدانوں نے کہا تھا کہ بچوں کو ممکنہ طور پر کورونا وائرس سے تحفظ اس لیے مل رہا ہے کیونکہ وہ متعدد بار عام نزلہ زکام کا شکار ہوتے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ بچوں میں اس وائرس کے خلاف مزاحمت اس لیے زیادہ ہے کیونکہ ان کا مدافعتی نظام پہلے ہی عام نزلہ زکام سے نمٹنے کے لیے تیار رہتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جان بیل نے برطانوی پارلیمانی کی سائنس و ٹیکنالوجی کمیٹی کو بتایا کہ اسی وجہ سے بچوں میں اس وائرس کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے جو بالغ افراد میں نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا 'یہ اس وقت حیران کن قیاس ہے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ بیشتر نوجوان یا درماینی عمر کے افراد میں ایسے حفاظت کرنے والے خلیات یا ٹی سیلز ہوسکتے ہیں جو پہلے ہی کورونا وائرس کا سامنا کرچکے ہوتے ہیں، جس سے انہیں وائرس سے کچھ تحفظ مل جاتا ہے'۔
ان کا کہنا تھا 'متعدد بچے سیزنل کورونا وائرسز سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ ہماری آبادیوں میں بہت عام ہے، جس کی وجہ سے بیشتر بچوں میں کورونا وائرسز کے خلاف مضبوط مدافعت پیدا ہوجاتی ہے، ابھی یہ ثابت شدہ نہیں، مگر ٹی سیلز کے شواہد موجود ہیں، جن سے نئے کورونا وائرس کے اثرات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے'۔
تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا کہ 4 سال کی عمر میں 70 فیصد بچوں میں سیزنل کورونا وائرسز کے خلاف اینٹی باڈیز بن چکی ہوتی ہیں، جو انہیں اہم تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
پروفیسر جان بیل نے بتایا 'اس سے سوال اٹھتا ہے کہ آبادی میں ہرڈ امیونٹی کتنی ہے، یہ بہت اہم نکتہ ہے اور اس پر کام کیا جانا چاہیے'۔
اس بارے میں کنگز کالج لندن کے امیونولوجی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر ایڈریان ہے ڈے نے کہا کہ نوجوانوں کا مدافعتی نظام نئے وائرس کے خلاف ممکنہ طور پر زیادہ بہتر طریقے سے کام کرتا ہے۔