من موہ لینے والا میڈرڈ
من موہ لینے والا میڈرڈ
تحریر و تصاویر: رمضان رفیق
شاید مسافروں کو کہیں ایک جگہ ٹھہرے رہنے سے خوف آتا ہے۔ بس دل یونہی کسی سفر کا متمنی تھا، سو چند دوستوں کے ہمراہ ہم نے بھی سفر کی راہ لی اور اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ چلے آئے۔
جب فروری اپنے آخری ہفتے میں داخل ہوا تب کورونا وائرس کا خوف اٹلی میں اپنے ہونے کا پتا دے رہا تھا۔ اسپین میں بھی کچھ ایک آدھ کیس کی بازگشت سنائی دے رہی تھی، لیکن وعدوں کے بندھن میں بندھے دوست ایک دوسرے کی ڈھارس بنے سفر کے لیے نکل کھڑے ہوئے، اور 2 ہفتے کے بعد یورپ کے جو حالات ہیں وہ ناصر کاظمی کے اس شعر کے مصداق ہیں:
اتفاقات زمانہ بھی عجب ہیں ناصر
وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے
انسانی تاریخ کا ایک المیہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ کورونا وائرس نے دنیا کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اب جب یہ بلاگ لکھ رہا ہوں تو ڈنمارک 2 ہفتوں کے لیے بند کردیا گیا ہے، اس سے دگرگوں صورتحال اسپین کی ہے، لیکن کبھی کبھار پیچھے دیکھنے میں ہی عافیت لگتی ہے سو 2 ہفتے پہلے سیرِ میڈرڈ کی کچھ باتیں کرتے ہیں۔
ہوائی اڈے پر اس دن بھی قدرے کم مسافر تھے، ہمارا قیام سینٹرل میڈرڈ کے قریب ہی ایک اپارٹمنٹ میں تھا۔ یہ جگہ میڈرڈ کے مشہورِ زمانہ پارک الریٹریو پارک کے بالکل پاس واقع ہے۔ ہمارے ہمسفر دوست اطہر نواز اور امجد خان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ جس بھی شہر کو جائیں وہاں جاکر بھی اپنی جاگنگ کی عادت کو ترک نہیں کرتے اس لیے رات کو ہی انہوں نے یہ منصوبہ بنالیا تھا کہ صبح اس پارک کا ایک پورا چکر لگایا جائے گا۔
رات کو ہی انہوں نے الارم سیٹ کرلیے، میرے ذہن میں یہ خفیہ منصوبہ پہلے سے بن چکا تھا کہ دوست اگر صبح کی سیر کو نہ بھی گئے تب بھی میڈرڈ کی صبح کا منظر دیکھنے میں تو ضرور نکلوں گا۔ اب اس سے پہلے جاگنگ والوں کا الارم بجتا شیراز بھائی کا الارم ان کی روٹین کے مطابق بج اٹھا اور وہ بھی جاگ گئے، ایسے میں ذیشان جعفری صاحب کی بھی آنکھ کھل گئی اور ہم 5 دوست پارک کی سیر کے لیے تیار ہوگئے۔
خوابِ خرگوش کی نیند سو رہے عامر سہیل صاحب کو گھر اور سامان کی حفاظت کے پیش نظر وہیں سوتے رہنے دیا۔ ویسے انہوں نے اس سفر میں اس بات کو یقینی بنالیا ہے کہ وہ آنے والے سفر میں ہمارے ساتھ رہیں گے، اس کی بڑی وجہ یہ رہی کہ وہ اپنے ساتھ دیسی چائے کی پتی رکھتے ہیں، اور سفر میں بھی پاکستانی اسٹائل کی کڑک چائے نہ صرف خود پیتے ہیں بلکہ دوستوں کو بھی پلاتے ہیں۔
اپارٹمنٹ سے پارک تک کوئی 2 منٹ کی ہی واک بنتی ہوگی۔ اب یہ پارک کیا ہے گویا میڈرڈ کا دل ہے۔ کھلے راستے، گھنے پیڑ، نفاست سے تراشی ہوئی جھاڑیاں، قطاروں میں لگے پودے، درمیان میں ایک ویسع جھیل، اس کے پاس تاریخ کی کہانیاں کہتے ہوئے گھوڑوں، شیروں اور سورماؤں کے مجسمے تھے اور ان تمام مناظر میں رنگ بھرتی ہوئی مقامی آبادی اور حیران نظروں سے نظاروں کو ٹٹولتے ہوئے سیاح تھے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس باغ پر ایک الگ سے مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ صبح ساڑھے 6 بجے اور شام 5 یا 6 بجے کے 2 مناظر اور سیر کرنے والوں کی آمد و رفت اور موجودگی اس باغ کی اہمیت کو ایک الگ انداز میں پیش کرتی ہے۔
صبح کی لمبی دوڑ کے بعد ہم سب دوست پارک میں موجود جھیل کے کنارے ایک بینچ کے پاس اکٹھے ہوگئے۔ کچھ فاصلے پر ایک بینچ پر گہری سوچوں میں گم ایک مقامی لڑکی کسی رومانوی کہانی کا کھویا ہوا کردار لگ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں ایک لمحے کے لیے ہم اجنبیوں کے لیے اٹھیں اور پھر وہ اپنے خیالات کی دنیا میں اس طرح واپس چلی گئی جیسے کبھی اس جھیل کنارے پر موجود ہی نہ ہو۔
اس کہانی کا دوسرا سرا مجھے اس شام انہی بینچوں کے آس پاس ملا۔ دراصل جھیل کے اس طرف شام کو ایک واکنگ اسٹریٹ کا سا سماں ہوتا ہے جس میں فنکار اپنے اپنے فن کے ذریعے لوگوں سے داد سمیٹتے نظر آتے ہیں۔
صبح کے منظر میں یہاں ادھیٹر اور بوڑھی عمر کے مقامی افراد اپنے کتوں کے ہمراہ سیر کی نظر سے اس باغ میں چہل قدمی کرتے محسوس ہوتے ہیں، اور اس جگہ پر بنچوں کی قطاریں تنہا اور اداس کہانی کا کردار لگتیں ہیں، جبکہ شام ڈھلے اس جھیل کے اندر کشتی رانی کرنے والے جوڑے، اور جھیل کے اس کنارے پر موسیقی کے آلات سے رومانوی دھنیں بکھیرنے والے فری لانسر، کرتب دکھانے والے، چوغہ بیچنے والے، اور کسی کردار میں ڈھل کر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے والے لوگوں کا ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ میڈرڈ کی کئی شامیں، کافی کے ایک کپ کے ساتھ اس منظر کو دیکھتے ہوئے گزاری جاسکتی ہیں۔
ایک لمبی مارننگ واک کے بعد گھر واپس آئے، عامر بھائی کے ہاتھوں سے دیسی چائے پی اور کیک اڑائے اور شہر کو ناپنے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ ناشتے کے بعد پھر اسی باغ سے گزر کر ہم شہر کے مرکز کی طرف چل پڑے۔
کورونا کی دہشت ابھی نئی نئی تھی، مگر لوگ واضح طور پر ایک دوسرے سے ہٹ کر چلتے دکھائی دے رہے تھے لیکن پھر بھی شہر کی رونق ماند نہیں پڑی تھی۔ سیاح اور مقامی لوگ زندگی کی رنگا رنگی میں کھوئے، ایک دوسرے سے گپ شپ لگاتے ٹولیوں کی صورت میں اندر جاتے اور باہر نکلتے دکھائی دیے، باغ سے باہر نکلے تو ایک چوراہے کے مرکز میں دروازے کی طرز کے ایک یادگار پر نظر پڑی جسے puerta de alcala کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
یورپ میں اس طرز کے بنے ہوئے دروازوں میں یہ سب سے پہلا بننے والا اسٹرکچر ہے، گوکہ سڑک اس کے اندر سے نہیں گزرتی پھر بھی یہ بڑی شان سے راستہ روکے کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے 2 اطراف سے ہوتے ہوئے ہم سینٹرل شہر کی طرف چل دیے۔
ہماری اگلی منزل یہاں کا ٹاؤن ہال ہے۔ کچھ ہی دیر میں ہم ٹاؤن ہال اسکوائر کے بالکل سامنے تھے، یہ خوبصورت عمارت اس سے پہلے مرکزی پوسٹ آفس اور ٹیلی گراف کا مرکز رہ چکی ہے۔
یہ چوراہا بڑے شاندار انداز میں ایک جدید اور تاریخی شہر کے تصور کو اجاگر کرتا ہے۔ کونے پر ایک تھیٹر، سامنے بالکل سڑک کے درمیان شیروں کے ساتھ جڑی رتھ پر بیٹھی کوئی شہزادی اور گردا گرد اسپین کے پرچم، سامنے درختوں سے گھرا ہوا بلیو وارڈ، ایک کونے میں ملٹی نیشنل برانڈ کی کافی کی دکانیں، اور ایک طرف جاتی ہوئی کھلی سڑک پر نیشنل بینک کی ایک بڑی عمارت اور بالکل سامنے براڈ وے آف اسپین ہے جو خریداری کے مراکز سے بھری ہوئی گلیوں کے ساتھ ساتھ شہر کے مرکز تک چلی جاتی ہے۔
اب ہمارا ارادہ تھا سمبل آف میڈرڈ کے مجسمے کے دیدار کا۔ دوستوں نے کافی کی ایک بریک لینا چاہی اور میں نے ان چند گلیوں کو دیکھنے کا سوچا جن میں شاید پھر جانا نہ ہو۔ یہاں پر ایک چیز جس نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا وہ ان چھوٹی پختہ گلیوں میں درمیانے سائز کے درختوں کی قطاریں تھیں۔
اسپین اور برتگال کا یہ انداز مجھے ہمیشہ ہی بھلا لگا ہے کہ عمارتوں کے جنگل میں سبزے کا یہ نشان زندگی کا پتا دیتا ہے۔ اس چھوٹے سے سفر میں امجد خان صاحب کی رفاقت مجھے میسر آئی کیونکہ انہیں بھی کافی سے زیادہ اس بات میں دلچسپی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس جگہ کو اپنے اندر سمیٹ لیں۔ کئی ایک جیسی گلیوں سے گزرتے ہوتے ہم اس مرکزی اسکوائر تک آ پہنچے جہاں پر سمبل آف میڈرڈ نامی یہ مجسمہ ہے۔ اس اسکوائر کو دنیا کے کسی بھی گنجان آباد دارالحکومت کے کسی اسکوائر کے برابر رکھا جاسکتا ہے۔
لوگ اتنے تھے کہ میلے کا گماں ہوتا تھا، رش اتنا تھا کہ اس سمبل کی الگ سے تصویر لینا ناممکن تھا۔ اتنے سیاحوں کو لبھانے کے پُرکشش پہناوے میں تصاویر بنانے والے مقامی خاصی تعداد میں موجود تھے۔
ویسے بھی ہر سیاحتی شہر میں کچھ چیزیں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں، جیسے موسیقی اور کرتبوں سے آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا کے داد سمیٹنے والے فری لانس فنکار، لائیو پنسل اسکیچ بنانے والے مصور، بہروپ بھرے اپنے ساتھ یادرگار تصاویر بنوانے والے کردار، مجسموں جیسے نظر آنے والے بہروپیے، سیاحوں کو کسی کھیل تماشے میں لگا کر نوسربازی کرنے والے ٹھگ، بچوں کے نام پر چندہ اکٹھا کرتی ہوئی تنظیموں کے نمائندے، سیاحتی بسوں کی سیر کروانے والی کمپنیوں کے نمائندے وغیرہ۔
یہاں پر بھی یہی سب کچھ تھا، بس پس منظر کی عمارتوں کا فرق تھا۔ اس اسکوائر میں مرکزی فوارے کے کونے پر بیٹھ کر کافی سے تازہ دم ہوئے، اور بچھڑے دوستوں کا کچھ دیر انتظار کیا گیا اور پھر واکنگ اسٹریٹ کا ایک بھرپور چکر لگایا گیا۔
اب یہ سوچا گیا کہ کوئی ہسپانوی طرز کا کھانا کھایا جائے، کئی ایک منصوبے بنے بالآخر ایک ایرانی ریسٹورینٹ کا انتخاب کیا گیا، وہاں کباب تو بس مناسب سا تھا لیکن ترک قہوہ اور مٹھائی بہت شاندار تھی۔
کھانا کھانے کے بعد طے یہ ہوا کہ اب گھر واپس جایا جائے اور کچھ دیر آرام کے بعد پھر شہر کے مرکز آیا جائے۔ تقریباً اسی راستے سے واپس آتے ہم الریٹریو باغ کے پاس چلے آئے، کچھ مزید تصاویر اور تجربات کی لالچ میں دوستوں سے بچھڑ کر پھر اس جھیل کنارے چلا آیا جس کی صبح کا منظر مجھے ابھی تک بھولا نہیں۔
میری نگاہیں اس اداس کردار کو تلاش کر رہی تھیں جسے صبح میں نے ایک بینچ پر بیٹھا پایا تھا، وہاں آس پاس مجسموں کا سا بہروپ بھرے کچھ لوگ موجود تو تھے لیکن وہ اداس آنکھیں کہیں دکھائی نہیں دیں۔
کافی دیر تک یہاں بیٹھا لوگوں کو دیکھتا رہا اور پھر واپس گھر کو چلا آیا۔ دوست اب واپس شہر کو جانے کے لیے تازہ دم ہوچکے تھے، کسی روایتی ہسپانوی طرز کے ریسٹورینٹ جانے کا فیصلہ ہوا۔ سبزی کے پکوانوں اور سمندری کھانوں کے انتخاب کی مجبوری سے ہم نے ایسا مینو نکال ہی لیا جس سے پیٹ بھرا جاسکتا تھا۔
گھر آنے جانے کے 3 چکروں نے فاصلوں کو کچھ اور لمبا کردیا تھا۔ اگلی صبح جلدی اٹھنے کے خیال سے تھکاوٹ کا احساس ابھی سے ہونے لگا تھا، سوچا کہ کیوں نہ دیکھا جائے کہ یہاں پر اوبر کام کرتی ہے کہ نہیں، اور معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہ اسکینڈے نیویا کے برعکس یہاں کام کر رہی تھی اس لیے گھر کچھ جلدی آ پہنچے۔
گھر کے دروازے تک آئے تو ذیشان جعفری صاحب نے کہا کہ 30 ہزار قدم ہونے میں بس چند سو قدم ہی باقی ہیں اس لیے وہ یہ ہندسہ پورا کرکے ہی گھر آئیں گے، اب چونکہ میں ان سب سے الگ کافی دیر تک چل چکا تھا اس لیے دل کو تسلی دی کہ میرے 30 ہزار تو کب کے پورے ہوچکے ہوں گے۔
ایک ڈیڑھ دن کے قیام میں کسی بھرے پرے شہر کے بارے میں ایک راہ گیر کیا رائے قائم کرسکتا ہے؟ بس یہ کہ شہر کے خوبصورت ہونے میں کوئی شک نہیں، معتدل موسم، خوبصورت باغ اور تاریخی کہانیاں سناتی عمارتیں، اور ان سب پس منظروں پر حاوی لوگوں سے بھرا پرا میڈرڈ مزید کئی ہزار قدموں کا متمنی ہے، سفر ابھی باقی ہے میرے دوست!
رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل کوپن ہیگن میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پاکستان میں شجر کاری اور مفت تعلیم کے ایک منصوبے سے منسلک ہیں۔ انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں اور ان کا یوٹیوب چینل یہاں سبسکرائب کریں۔
رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔