اس بیماری کی دیگر عام علامات میں تھکاوٹ، سونگھنے کی حس سے محرومی اور سانس لینے میں مشکلات ہیں۔
برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی سمیت 5 یونیورسٹیوں کی اس تحقیق میں اس وبا کے آغاز پر عالمی ادارہ صحت کی مرتب کردہ علامات کی فہرست کی توثیق کی گئی۔
تحقیق کے دوران 148 مختلف تحقیقی رپورٹس کے ڈیٹا کو اکٹھا کیا گیا جن میں برطانیہ، چین اور روس سمیت 9 ممالک کے 24 ہزاار سے زائد مریضوں کی مدد سے عام علامات کی شناخت کی گئی تھی۔
طبی جریدے پلوس ون میں شائع یہ تحقیق کووڈ 19 کی علامات کے حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی تحقیق قرار دی جارہی ہے۔
محققین نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بڑی تعداد میں وائرس کے شکار افراد ایسے ہوسکتے ہیں جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔
24 ہزار 410 کیسز کا تجزیہ کرنے کے بعد تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 78 فیصد مریضوں کو بخار کا سامنا ہوا، مگر مختلف ممالک میں یہ شرح بھی مختلف تھی، جیسے سنگاپور کے 72 فیصد مریضوں نے اسے رپورٹ کای جبکہ جنوبی کوریا میں یہ شرح 32 فیصد تھی۔
مجموعی طور پر 57 فیصد مریضوں میں کھانسی کی شکایت سامنے آئی مگر یہ شرح بھی مختلف ممالک میں مختلف تھی، جیسے نیدرلینڈ میں 76 فیصد جبکہ جنوبی کوریا میں 18 فیصد۔
31 فیصد کو تھکاوٹ کا سامنا ہوا، 25 فیصد سونگھنے کی حس سے محروم ہوگئے، 23 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کو رپورٹ کیا۔
محققین کا ماننا تھا کہ مختلف ممالک میں عام علامات کی شرح میں فرق کی وجہ ڈیٹا کو اکٹھا کرنے کا طریقہ کار ہے۔
24 ہزار سے زائد مریضوں میں سے 17 فیصد کو سانس لینے کے حوالے سے کسی مشین کی ضرورت نہیں پڑی، 19 فیصسد کو آئی سی یو میں لے جانا پڑا، 9 فیصد کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی جبکہ 2 فیصد اضافی آکسیجن یا مصنوعی پھیپھڑے کی ضرورت پڑی۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس تجزیے سے تصدیق ہوتی ہے کہ کھانسی اور بخار کووڈ 19 کے شکار افراد میں سب سے عام علامات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تحقیق سے اس حقیقت کو تقویت ملتی ہے کہ ہم بنیادی علالمات کی تشخیص کے حوالے سے درست ہیں اور اس سے ایسے افراد کا تعین کرنے میں مدد مل سکے گی جن کا ٹیسٹ ہونا چاہیے۔