نیٹ فلیکس کی اس درجہ بندی سے میں پوری طرح متفق بھی نہیں ہوں لیکن سب جھوٹ بھی نہیں ہے۔ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نیٹ فلیکس والے جس فلم یا ویب سیریز کو چاہتے ہیں کہ دیکھی جائے، اس کو اس طرح کی ٹاپ ٹرینڈ فہرستوں میں شامل کر دیتے ہیں، یہ بھی ایک نفسیاتی حربہ ہے تاکہ اپنا من پسند مواد بیچا جائے۔
مثال کے طور پر جب سے نیٹ فلیکس نے اسپین میں اپنا مرکزی دفتر بنایا اور پروڈکشن شروع کی ہے، اس وقت سے ان کے ویب پورٹل پر اسپین کی فلمیں اور ویب سیریز ٹاپ ٹرینڈ بننے لگی ہیں جبکہ نیٹ فلیکس نے اسپین میں جب اپنا مرکزی دفتر نہیں کھولا تھا تو کیا تب تک اسپین میں اچھی فلمیں یا ڈرامے نہیں بنتے تھے۔
میں اپنی بات کو مزید مثالوں کے ذریعے سمجھاتا ہوں کہ نیٹ فلیکس ہمارے ساتھ کر کیا رہا ہے۔ بظاہر تو وہ اپنے مواد کے بارے میں درجہ بندی کر کے فہرستیں مرتب کرتا ہے، پھر جب آپ کسی خاص موضوع کے تحت کچھ دیکھنا شروع کرتے ہیں تو وہ بالترتیب اسی سے متعلق آپ کو اور اسی طرح کی چیزیں دکھاتا ہے، اس لیے سارا ملبہ نیٹ فلکیس پر بھی نہیں ڈالا جاسکتا، اس میں دیکھنے والے کی دلچسپی کا پہلو بھی شامل ہے۔ البتہ نیٹ فلیکس نے اپنے پورٹل کو اس قدر شاندار اور رنگارنگی سے مزین کیا ہوا ہے کہ ناظرین کو دن میں بھی تارے نظر آئیں۔
بالغ عمر میں تو اس طرح کی چیزیں آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں لیکن کم عمر اور کچے ذہنوں کے لیے اس طرح کے ویب پورٹل زہر آلود ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ اس طرح کے پورٹل تک اب انٹرنیٹ کے ذریعے رسائی حاصل کرنا کوئی دشوار عمل نہیں رہا ہے۔
نیٹ فلیکس نے تو اپنے صارفین کو کئی ایسی سہولتیں بھی دے رکھی ہیں جن کی وجہ سے وہ یہ سروس خریدنے میں بالکل بھی نہیں ہچکچائیں گے۔
مثال کے طور پر پہلا مہینہ مفت سبسکرائب کرنا، ایک اکاؤنٹ کا 4 لوگوں کے درمیان مشترکہ استعمال ہونا اور ڈاؤن لوڈنگ کے ذریعے انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے باوجود بھی ڈاؤن لوڈ کی ہوئی فلمیں دیکھنا، اس طرح کی سہولتوں نے ناظرین کو صارفین بنے رہنے پر مائل کیا ہوا ہے، جس طرح کبھی برِصغیر میں انگریزوں نے چائے کی پتی مفت تقسیم کی تھی، نیٹ فلیکس بھی اسی سرمایہ دارانہ مصنوعی شفقت کا مظاہرہ کر رہا ہے تاکہ آپ اس کو دیکھنے کے اتنے عادی ہوجائیں کہ اس کے بغیر آپ کا گزارا نہ ہوسکے۔
نیٹ فلیکس نے ویسے اپنے ویب پورٹل پر اخلاقی تقاضا پورا کرنے کی خاطر بچوں کے لیے بھی درجہ بندی کا ایک بٹن دیا ہوا ہے جس پر کلک کرنے کے بعد صرف بچوں کے لیے مختص مواد تک رسائی ہوسکتی ہے لیکن یہ سہولت صرف کاغذی کارروائی پوری کرنے کی حد تک محسوس ہو رہی ہے کیونکہ جب ایک پاس ورڈ پر براہ راست رسائی کا حق دیا جا رہا ہے تو ہم یہ توقع کیسے رکھیں کہ ہمارا بچہ ناک کی سیدھ میں صرف اپنے لیے مختص کردہ گوشے کی طرف ہی جائے گا۔ ایسا سوچنا خام خیالی ہوگی کیونکہ آج کا بچہ جدید ٹیکنالوجی کی سمجھ ہم سے زیادہ رکھتا ہے۔
اس وقت جون کے مہینے میں نیٹ فلیکس پر کیا مواد موجود ہے اس کو بھی یہاں بطور حوالہ شامل کر لیتے ہیں۔ اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو پاکستان میں نیٹ فلیکس کے ویب پورٹل پر ٹاپ ٹین میں سب سے اول نمبر پر جو فلم موجود ہے، اس کا نام '365 دن' ہے، جس کی کہانی ایک شہوت زدہ گینگسٹر کی ہے۔ اس فیچر فلم اور پورن فلم میں صرف ایک آدھ آنچ کی کسر ہے، اس وقت یہ پاکستان میں نیٹ فلیکس کے ویب پورٹل پر سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلم ہے اور یہ نیٹ فلیکس کی پروڈکشن ہے۔ نیٹ فلیکس کے ویب پورٹل کا اسکرین شاٹ بھی بطور ثبوت دیکھ سکتے ہیں۔
نیٹ فلیکس کی اپنی پروڈکشن میں بنی ہوئی ویب سیریز اور دستاویزی فلموں کے موضوعات بھی بہت فکر انگیز ہیں۔ ایک طرف جرائم اور شہوت پر مبنی کہانیاں ہیں تو دوسری طرف تاریخی واقعات میں غیر محسوس طریقے سے خاص پروپیگنڈہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اب چاہے جنگِ عظیم اول اور دوم کی بات ہو یا پورن انڈسٹری میں کام کرنے والی لڑکیوں کے ذاتی حالات، ان پر بنائی گئی دستاویزی فلمیں، جن کو دیکھنے کے بعد آپ یہ کہنا چاہیں گے کہ اس کام کو کرنے میں بھی کوئی برائی نہیں ہے، آپ کے خیالات کو جس طرح غیر محسوس طریقے سے فلم سازی کے ذریعے تبدیل کرنے کا کام، چابک دستی سے کیا جا رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
میں بطور فلم ناقد دنیا بھر کے سنیما سے استفادہ کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود نیٹ فلیکس سے شعوری طور پر دُوری اختیار کیے رکھی ہے۔ ہم سب زندگی سے اچھے بُرے سبق سیکھتے ہیں اور خاص طور پر جب زندگی سے مثبت خیالی کا سبق حاصل کر لیا جائے تو پھر کم خطرہ ہوتا ہے۔ مجھے چونکہ نیٹ فلیکس کی تاجرانہ اور سطحی سوچ کا اندازہ تھا، اس لیے اس سے دُور رہا لیکن میرے حلقہ احباب نے کہا کہ آپ کا یہ شعبہ ہے آپ کو اس سے اپ ڈیٹ رہنا چاہیے، آخرکار ہم نے بھی نیٹ فلیکس تک رسائی حاصل کی اور دیکھنا شروع کیا جو ہماری عین توقع کے مطابق ہی نکلا۔
اب تازہ ترین حالات یہ ہیں کہ میرے موبائل فون کا پاس ورڈ تو میرے بیوی بچوں حتیٰ کہ قریبی دوستوں کو بھی پتا ہے لیکن میرے نیٹ فلیکس کا پاس ورڈ صرف مجھے ہی پتا ہے۔ اسے میری روایتی بزدلی کہہ لیں یا مشرقی شرم و لحاظ، اب بھی بچا کچھا ہی سہی، لیکن کچھ باقی ہے۔
میں فکری طور پر ایک روشن خیال اور ترقی پسند فکر کا حامل شخص ہوں اس لیے جمالیات کا بھی دلدادہ ہوں مگر جس بے باکی اور غلاظت سے لتھڑی ان فلموں اور ویب سیریز کے نام پر جو کچھ نیٹ فلیکس مہیا کر رہا ہے وہ کسی روشن خیال انسان کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں، پیسہ پھینک تماشا دیکھ کا عملی مظاہرہ نیٹ فلیکس ہے۔
اس بات کو ذرا علمی اور فنی پہلو سے بھی سمجھ لیتے ہیں۔ اردو زبان میں عریاں، برہنہ اور ننگے وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ انگریزی میں ان کے لیے نیوڈ (Nude) کا لفظ ہے جبکہ اردو میں عریاں کا لفظ عربی سے آیا ہے اور برہنہ کا لفظ فارسی سے مستعار ہے، جبکہ ننگے ہندی سے لیا گیا ہے۔ پاکستانی و ہندوستانی فنونِ لطیفہ ہو یا مغربی فائن آرٹس، جہاں جہاں صرف جمالیات کی غرض سے کسی فن میں انسانی جسم کو متشکل بیان کیا، اس کو آرٹ مانا گیا، فن کے طور پر تسلیم کیا گیا، چاہے وہ برہنہ اور عریاں ہی کیوں نہیں تھا، لیکن جہاں بھی یہ جمالیاتی حس، شہوانی و جنسی کیفیت میں بدلی، فن کا پہلو اس میں سے نکل گیا تو پھر صرف جسم اور نفسانی حرکات باقی رہ گئیں۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا میں پورنو گرافی اور آرٹ کے مابین فرق پر جو بحثیں ہوئی ہیں ان کے مطابق وہ فلم، فن پارہ یا کتاب جس کو دیکھتے ہوئے اور پڑھتے ہوئے حجاب نہ آئے، اس کو چھپانا نہ پڑے وہ آرٹ کے زمرے میں آئے گا اور ہر وہ چیز جس کودیکھنے یا پڑھنے کے لیے چھپانا پڑے یا اس سے حجاب آئے، وہ پورنوگرافی یا شہوت ہے۔ اس پیمانے پر کوئی بھی کسی بھی مواد کی جانچ خود کرسکتا ہے۔
حتیٰ کہ پاکستانی ادب میں بھی یہ تفریق واضح طور پر موجود ہے. سعادت حسن منٹو نے معاشرے کے ننگے پن کو بیان کیا، جنس کے نام پر ہونے والے مظالم لکھے، مظلوم طبقے کے دُکھوں کی تشریح کی، لیکن منٹو کے ہی ہم عصر اور شہوانی ادب کے معروف ناول نگار 'وہی وہانوی' بھی تھے، جن کے ناولوں نے صرف جنسی تلذذ کو بڑھاوا دیا۔ ان کے ناول اپنے زمانے کا نیٹ فلیکس تھے۔ میر تقی میر کے کئی اشعار ایسے ہیں جنہیں پڑھ کر چودہ طبق روشن ہوجائیں، وہ توشکر ہے کہ کلاسیکی اردو میں ہمارے ہاں کچھ خاص دلچسپی نہیں ہے ورنہ ایک ہنگامہ برپا ہوتا۔ عالمی ادب میں بھی ایسی مثالیں بکھری پڑی ہیں۔
جنسیت اور انسانیت کے تناظر میں ہولی وڈ سے ایک مثبت مثال دینا چاہوں گا۔ ہولی وڈ کی 2 معروف اداکاراؤں 'اسکارلٹ جوہانسن' اور 'کیرا نائٹلی' نے امریکی فیشن ڈیزائنر اور فلم ساز 'ٹام فورڈ' کے ساتھ مل کر عورتوں کے حقوق کے تناظر میں مکمل برہنہ فوٹو شوٹ کروایا جو ایک شوبز رسالے کا سرورق بھی بنا۔
اس فوٹو شوٹ کا مقصد جنسی لذت یا شہوت کشید کرنا نہیں تھا بلکہ عورتوں کے حقوق کے لیے اپنی آواز کی طرف زیادہ لوگوں کو متوجہ کرنا تھا اور دنیا بھر میں ان کو اس وجہ سے توجہ بھی ملی۔ اب پورن اسٹار کے فوٹو شوٹ اور ان دونوں اداکاروں کے فوٹو شوٹ میں فعل تو ایک جیسا ہے لیکن نیت اور پہلو متضاد ہیں۔
ایسا ہی معاملہ تفریح حاصل کرنے کا ہے، اگر تفریح کے نام پر نفسیاتی محاصرہ کیا جا رہا ہے تو وہ تفریح نہیں استحصال ہے۔ کسی بھی چیز کا ایک حد تک ہونا ہی نارمل کہلاتا ہے، اس میں شدت اور زیادتی اسے پھر نارمل کے دائرے سے باہر کر دے گی۔
مزید سہل انداز میں یہ نکتہ کچھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی چیز پڑھ کر یا دیکھ کر سکون مل رہا ہے اور آپ کا کتھارسز ہو رہا ہے تو تب تک یہ تفریح نارمل ہے لیکن اگر اس تفریح سے بے چینی بڑھنے لگے، ٹھہراؤ کے بجائے شدت آنے لگے تو پھر یہ نارمل تفریح نہیں رہے گی بلکہ یہ نفسیاتی ہیر پھیر ہے۔
اسی کا استعمال نیٹ فلیکس کر رہا ہے، وہ تفریح فراہم نہیں کر رہا بلکہ ایک خاص طرح کی تفریح کا دیکھنے والوں کو عادی بنا رہا ہے۔ لوگ کئی کئی دن موبائل اور لیپ ٹاپ پر ویب سیریز کے پورے پورے سیزن دیکھ رہے ہیں اور صرف دیکھتے ہی نہیں اپنی ذاتی اور معاشرتی زندگی میں اس سیریز سے متعلق بات چیت بھی کر رہے ہوتے ہیں۔
کورونا کی وبا سے جبری فرصت (لاک ڈاؤن) کے مارے ہوئے ناظرین نے خوب جی بھر کر اس ویب پورٹل کو ان دنوں میں دیکھا اور نیٹ فلیکس کی آمدن نے نئے ریکارڈ قائم کردیے۔
گزشتہ دنوں میں نے ویب سیریز 'منی ہائٹس' پر تبصرہ لکھا، وجہ یہ تھی کہ سوشل میڈیا پر خواتین کی ایک بڑی تعداد اس ویب سیریز کے خواتین کرداروں کو موضوع بحث بنائے ہوئے تھی۔ وہ کردار کوئی نیک پروین نہیں تھے اور مرد حضرات بھی کسی سے کم نہیں ہیں مگر ایسی تفریح کی خبر نہیں ہونے دیتے۔ تو یہ نیٹ فلیکس کے کامیاب نفسیاتی محاصرے کی ایک واضح جھلک ہے۔
اب پوری بات کا حاصل یہ ہے کہ ہمارے فنکاروں نے یہ طے کرنا ہوگا کہ اس نام نہاد ثقافتی یلغار سے کس طرح خود کو محفوظ رکھیں تاکہ ہماری مقامی فلمی صنعت اپنے پیروں پر اپنے تقاضوں کے مطابق کھڑی ہوسکے ورنہ جس طرح اسٹار پلس ڈراموں کے چکر میں پاکستانی ڈراما راندہ درگاہ ہوا ہے تو کہیں ہماری فلمی صنعت کے ساتھ بھی ایسا ہی نہ ہوکہ وہ نیٹ فلیکس کی پیروری میں اپنے تہذیب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
ہولی ووڈ سے میرے پسندیدہ فلم ساز 'اسٹیون اسپیل برگ' نے تو اپنا احتجاج ریکارڈ کروا دیا ہے۔ ان کے مطابق 'نئی فلموں کی نمائش سینما تھیٹروں میں ہونی چاہیے نہ کہ نیٹ فلیکس جیسے کسی ویب پورٹل پر جہاں صرف اسٹریمنگ کے ذریعے نئی فلم ریلیز کردی جائے۔' نیٹ فلیکس نے بھی اس اعتراض کا جواب دیا اور کہا کہ انہیں بھی سینما کے تھیٹر کلچر سے محبت ہے، وہ اسے ختم کرنے کے درپے نہیں ہیں۔
اب یہ ایک نئی بحث بھی چل نکلی ہے کہ پورٹل کی اسٹریمنگ سے سینما تھیٹر کا کلچر بھی ختم ہوجائے گا اور مقابلے کی فضا بھی ختم ہوجائے گی کیونکہ فلم بین سینما آنا ترک کردیں گے اور اپنی خود ساختہ تنہائی میں خود کو غرق کرلیں گے۔
باقی رہ گئے ناظرین اور قارئین، تو یہ فیصلہ آپ کو خود کرنا ہے کہ آپ اس زہر آلود متن سے کیسے خود کو محفوظ رکھیں، نیٹ فلیکس چاہے دیکھیں لیکن مجھے فلم دیکھنی ہو یا پینٹنگ خریدنی ہو اور میرے سامنے لطافت و شہوت کے دونوں آپشن ہوں تو میں حتمی طور پر لطافت کے حق میں فیصلہ کروں گا۔ جمالیات کا بنیادی اصول یہی ہے اور پھر پروپیگنڈے کی مشین کا پرزہ بننے سے بھی خود کو محفوظ رکھیں ورنہ اس تماش بینی کی نفسیات کا اگلا شکار آپ بھی ہوسکتے ہیں۔