پیٹرولیم مصنوعات کا بحران اور مجموعی صورتحال پر ایک نظر
جون کے آغاز سے جہاں ملک میں ایندھن کی قیمت میں کمی کا اعلان ہوا وہیں پیٹرولیم مصنوعات کی قلت پیدا ہوگئی۔ لوگوں کو ڈھونڈنے سے بھی پیٹرول اور ڈیزل نہیں مل رہا تھا۔ جس پر عمران خان کے ناقدین نے کہنا شروع کردیا کہ آٹے کی لائن، چینی کی لائن، کورونا ٹیسٹ کی لائن کے بعد حکومت نے پیٹرول کی لائن بھی متعارف کروادی ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا مختلف ویڈیوز سے بھرا پڑا ہے کہ لوگ پیٹرول اور ڈیزل کے لیے پمپس پر جمع ہیں لیکن ایندھن ہے کہ دستیاب نہیں۔
اس تحریر میں جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ ملک میں ایندھن کی کھپت کتنی ہے، حالیہ بحران کیوں پیدا ہوا اور حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ کس قدر جائز اور مؤثر ہیں۔
ملک میں ایندھن کی کھپت
پاکستان میں سال 2020ء کے دوران ایندھن کی مجموعی سالانہ طلب کا اندازہ 2 کروڑ ٹن لگایا گیا ہے۔ جس میں پیٹرول اور ڈیزل کی مجموعی کھپت ایک کروڑ 50 لاکھ ٹن کے قریب ہے، پیٹرول 70 لاکھ 50 ہزار ٹن اور تقریباً اسی مقدار میں ڈیزل کی کھپت ہوتی ہے۔
ایندھن کی طلب کے لحاظ سے ٹرانسپورٹ سیکٹر پہلے نمبر ہے اور تقریباً 75 فیصد ایندھن اس سیکٹر کے استعمال میں ہے۔ جبکہ زراعت ایک فیصد، صنعتیں 7 فیصد، بجلی کی پیداوار 14 فیصداور تقریباً 2 فیصد دیگر شعبوں میں کھپت ہوتی ہے۔
اگر ایندھن کی اقسام کے حوالے سے طلب کا جائزہ لیا جائے تو پیٹرول مجموعی کھپت کا 39 فیصد، ڈیزل 37 فیصد، فرنس آئل 18 فیصد، طیاروں کا ایندھن جے پی ون 4 فیصد، مٹی کا تیل، لائٹ اسپیڈ ڈیزل اور ایچ او بی سی کی کھپت ایک ایک فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
ویسے تو ملک میں 90 کے قریب آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اور ریفائنریز موجود ہیں۔ اہم مارکیٹنگ کمپنیوں کی بات کی جائے تو پاکستان اسٹیٹ آئل 37 لاکھ ٹن، ہیسکول 92 ہزار ٹن اور گیس اینڈ آئل (جی او) 88 ہزار ٹن ایندھن فروخت کرتی ہیں جبکہ دیگر کمپنیاں 13لاکھ ٹن ایندھن بیچتی ہیں۔
پاکستان میں 78 لاکھ ٹن ایندھن درآمد ہوتا ہے جبکہ 68 لاکھ ٹن ایندھن مقامی ریفائنریز فراہم کرتی ہیں۔ جبکہ پیداواری صلاحیت کے لحاظ سے پارکو 23 لاکھ 60 ہزار ٹن، بائیکو 11 لاکھ 80 ہزار ٹن، اے آر ایل 11 لاکھ 50 ہزار ٹن، نیشنل ریفائنری 10 لاکھ ٹن، پی آر ایل 8 لاکھ 10ہزار ٹن پیٹرو کیمیکلز کی صفائی کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
ایندھن زیادہ تر پمپس کے ذریعے فروخت کیا جاتا ہے، جن کی تعداد 8 ہزار 567 ہے۔ صوبوں میں پیٹرول پمپس، مجموعی کھپت اور کھپت میں صوبوں کے حصے سے متعلق درج ذیل گراف ملاحظہ کیجیے۔
.
ایندھن کی صنعت کا ریگولیٹری طریقہ کار
پاکستان میں ایندھن کی مارکیٹ ریگولیٹ کرنے کے لیے 2 اہم ادارے کام کررہے ہیں۔ ایک ہے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی یعنی اوگرا جو مارکیٹنگ کمپنیوں اور ریفائنریز کو لائسنس فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ کمپنیاں اور ریفائنریز لائسنس کی شرائط کے مطابق کام کررہی ہوں۔ اس کے علاوہ وزارتِ توانائی میں ڈائریکٹر جنرل آئل کا عہدیدار ملک میں ایندھن کے موجودہ ذخیرے، ایندھن کی طلب، مقامی ریفائنریز سے ایندھن کی دستیابی اور درآمد سے متعلق فیصلہ سازی کرتا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دور میں بھی ایندھن کا ایک بحران پیدا ہوا تھا۔ جس کے بعد اوگرا نے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو پابند کیا تھا کہ وہ اپنے پاس کم از کم 21 دن کا اسٹاک محفوظ رکھیں گی اور اگر اسٹاک میں نمایاں کمی ہوئی تو ان کمپنیوں پر جرمانے کے علاوہ لائسنس منسوخی بھی ہوسکتی ہے۔
اوگرا کے مطابق ہر مارکیٹنگ کمپنی کو ہر ایک پمپ کے لیے 40 ٹن ایندھن ذخیرہ کرنا لازمی ہے۔ اس طرح اگر ملک میں 8 ہزار 567 پمپس ہیں تو ملک میں ہر وقت 3 لاکھ 42 ہزار 680 ٹن ایندھن کا ذخیرہ موجود ہونا چاہیے۔
تمام مارکیٹنگ کمپنیاں یومیہ بنیادوں پر اپنے اپنے اسٹاکس کی صورتحال، ایندھن کی ترسیل اور فروخت کے بارے میں اعداد و شمار اوگرا، وزارتِ توانائی اور اپنی ایسوسی ایشن آئل مارکیٹنگ ایڈوائزری کمیٹی کو ارسال کرتی ہیں تاکہ کسی بھی غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ڈیٹا کی فوری دستیابی ممکن ہو اور اس حوالے سے جلد از جلد فیصلہ کیا جاسکے۔
ایندھن کی قیمتوں میں کمی
31 مئی بروز اتوار حکومت نے تمام پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا جس میں حکومت نے نہ صرف عوام کے لیے ایندھن کو سستا کیا بلکہ اس کے ساتھ ہی پیٹرولیم پر ٹیکس اور لیوی میں اضافہ بھی کردیا گیا۔
حکومتی اعلان کے مطابق پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 7 روپے 6 پیسے کمی کی گئی اور پیٹرول کی ایکس ڈیپو قیمت 74 روپے 52 پیسے کردی گئی۔ جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی ایکس ڈیپو قیمت میں کمی کے بجائے 5 پیسے کا اضافہ کیا گیا اور فی لیٹر قیمت 80 روپے 10پیسے مقرر کی گئی۔ اس کے علاوہ مٹی کے تیل یا کیروسین آئل کی قیمت میں 11روپے 88 پیسے کی کمی کردی گئی اور یوں نئی قیمت 47 روپے 44 پیسے مقرر کی گئی اور لائیٹ اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 9 روپے 37 پیسے کی کمی ہوئی اور نئی قیمت 38 روپے 14پیسے مقرر کی گئی۔
نئی قیمتوں کے اطلاق میں پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کو بڑھا کر 26 فیصد کردیا گیا۔ جس سے حکومت کو ساڑھے 6 ارب روپے کا اضافہ ریونیو حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ پیٹرولیم لیوی 23 روپے 76 پیسے سے بڑھا کر 30 روپے فی لیٹر کردی گئی ہے۔ اس طرح فی لیٹر پیٹرول پر لیوی اور جنرل سیلز ٹیکس کی وصولی 40 روپے 45 پیسے ہوگئی ہے۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل پر لیوی اور جی ایس ٹی 41 روپے 65 پیسے فی لیٹر ہوگئی ہے۔
قلت
جون کے ابتدائی دنوں میں ہی پیٹرولیم کی قلت نے سر اٹھانا شروع کردیا تھا، جس پر پیٹرولیم ڈویژن نے کمپنیوں کو ایندھن کی راشننگ کی ہدایت کی کہ کہیں تمام ذخائر مکمل طور پر ختم ہی نہ ہوجائیں۔ کمپنیوں کو کہا گیا کہ موٹر سائیکل پر 500 اور گاڑی کے لیے 1000روپے یومیہ خریداری کی حد مقرر کی جائے۔
اتھارٹیز نے الزام عائد کیا کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے ریفائنریز سے ایندھن کی خریداری کم کردی ہے جبکہ درآمد بھی نہیں کیا گیا کیونکہ متوقع قیمتوں میں کمی کی وجہ سے کہیں انہیں انوینٹری کا نقصان نہ ہو۔ حکام نے 10 دن قبل ہی کمپنیوں کو ایندھن کے ذخائر بڑھانے کی ہدایت کردی تھی۔
وزارتِ پیٹرولیم کے مطابق 2 جون کو پنجاب میں صرف 3 سے 4 دنوں کے استعمال کے لیے پیٹرول کے ذخائر رہ گئے تھے، اسی طرح سندھ میں 7 روز کے لیے پیٹرول اور 16روز کے لیے ڈیزل کے ذخائر موجود تھے۔ خیبر پختونخوا میں 4 دن، بلوچستان میں 7 دن، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں 6 دن کا اسٹاک موجودہ تھا۔ جبکہ ریفائنریز اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے پاس لازمی ذخیرے کے مطابق ایندھن کا اسٹاک موجود نہیں تھا۔
اس تمام تر صورتحال میں وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پیغام دیا کہ کچھ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ریٹیلرز نے پیٹرول اور ڈیزل کی مصنوعی قلت پیدا کی ہے تاکہ غیر قانونی منافع کما سکیں۔ انہوں نے پیغام میں ان مارکیٹنگ کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔
وزارتِ توانائی کے اقدامات اور قلت پر ان کے اثرات
ملک میں لاک ڈاؤن کی صورتحال پیدا ہونے کے بعد وزارتِ توانائی نے 25مارچ کو ایک مکتوب جاری کیا جس میں پیٹرول اور خام تیل کی درآمد پر پابندی عائد کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے پاس مناسب مقدار میں ذخیرہ موجود ہے لہٰذا آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپریل 2020ء اور آئندہ دنوں کے لیے اپنے ایندھن درآمدی معاہدے منسوخ کردیں اور مقامی ریفائنریز سے ایندھن خریدیں تاکہ مقامی ریفائنریز اپنے آپریشنز جاری رکھ سکیں۔
اچانک آنے والے اس حکم نامے کے بعد آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے عالمی منڈی میں ایندھن سستا ہونے پر بڑے پیمانے پر درآمدی آرڈرز دیے ہوئے تھے جن کو منسوخ کرنے پر مالی نتائج کا سامنا کرنا پڑتا، حتیٰ کہ اس حکم نامے کے جاری ہونے سے پہلے ہی کئی بحری جہاز ایندھن لے کر پاکستان کی طرف روانہ ہوچکے تھے۔
کمپنیوں نے ڈائریکٹر جنرل آئل پر صورتحال کی خرابی کا الزام عائد کیا اور یہ کہا گیا کہ اس حکم نامے سے کمپنیوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ جبکہ جو بحری جہاز ایندھن لے کر پاکستان پہنچے تھے انہیں برتھ پر لگنے نہیں دیا گیا اور کمپنیوں کو بھاری ڈیمرج (بندرگاہ میں جہاز کے زیادہ ٹھہرنے کا حرجہ) بھی ادا کرنا پڑا۔
آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا کیش فلو
ملک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایندھن کی طلب میں نمایاں کمی ہوئی جس سے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے کیش فلو پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے۔ کمپنیاں ایندھن درآمد کرتی ہیں پھر انہیں ریٹیل میں فروخت کرتی ہیں اور وہاں سے حاصل ہونے والی رقم سے ادائیگیاں کرتی ہیں۔ تاہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایندھن کی فروخت 25 فیصد رہ گئی تھی جس کو بتدریج فروخت کرکے ادائیگیاں کی گئیں مگر کیش فلو بُری طرح متاثر ہوا۔ کیش فلو کے متاثر ہونے کی وجہ سے آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ایندھن کی خریداری میں مشکلات کا سامنا کر رہی تھیں۔
پاکستان میں ایندھن کی فروخت کے معاملے میں عالمی منڈی سے ایک ماہ پیچھے ہے۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں فی لیٹر پیٹرول پاکستان کی قیمت سے تقریباً 15روپے مہنگا ہوچکا ہے۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اس نقصان جسے انوینٹری نقصان کہا جاتا ہے، کو اٹھانے کے لیے تیار نہیں تھیں۔
اس بحران سے قبل گزشتہ تقریباً 2 سال میں روپے کی قدر میں نمایاں کمی بھی ہوئی ہے۔ جون 2018ء میں ایک ڈالر 121روپے کا تھا جو اس وقت 164روپے تک پہنچ چکا ہے۔ روپے کی قدر میں اس کمی سے بھی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ عالمی منڈی سے مہنگے ڈالر میں ایندھن کی خریداری کرنے کے بعد انہیں سستا ایندھن فروخت کرنا پڑا۔
کمپنیوں کے خلاف کارروائی
وزارتِ توانائی کے مطابق ملک میں جون کے دوران ایندھن کی طلب 60 ہزار ٹن رہنے کی پیش گوئی کے تحت منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ جس میں سے ہر کمپنی کو اس کے شیئر کے مطابق ایندھن کا انتظام کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ مگر اس بحران کے سر اٹھانے کے بعد وزارتِ توانائی نے ڈائریکٹر جنرل پیٹرولیم ڈاکٹر شفیع الرحمٰن کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جس میں اوگرا، وفاقی تحقیقاتی ادارے، ضلعی انتظامیہ، ہائیڈرو کاربن ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ آف پاکستان (ایچ ڈی آئی پی) اور پاکستان اسٹیٹ آئل کو شامل کیا گیا۔
کمیٹی نے 9 جون کو کیماڑی پر قائم مختلف کمپنیوں کے ذخیرے کا جائزہ لیا اور اسی دن ایک مکتوب اسسٹنٹ کمشنر ہاربر کو جاری کیا جس میں ہیسکول اور گیس اینڈ آئل پیٹرولیم کے خلاف ذخیرہ اندوزی کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا گیا۔
یہ مقدمہ ذخیرہ اندوزی ایکٹ 1977ء کے تحت جیکسن تھانے میں درج کیا گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس قانون کے تحت 2 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے خلاف ذخیرہ اندوزی کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے اس میں ضروری اشیا کی دی گئی فہرست میں پیٹرول اور ڈیزل شامل ہی نہیں ہیں۔
اس کے بعد 10جون کو مزید کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کے عہدیداران کو نوٹس جاری کیے گئے جن میں جی او کے چیف ایگزیکٹو خالد ریاض، ہیسکول کے چیف ایگزیکٹو عقیل احمد خان، شیل پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ہارون الرشید شامل تھے۔
بعدازاں اوگرا نے 6 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر 4 کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا، جن میں اٹک پیٹرولیم، پوما، گیس اینڈ آئل پاکستان، ہیسکول پیٹرولیم، شیل پاکستان اور ٹوٹل پارکو شامل ہیں۔
آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے مطابق ان پر ذخیرہ اندوزی کا الزام لگایا ہی نہیں جاسکتا ہے کیونکہ اوگرا کے قانون کے تحت انہیں اپنے پاس کم از کم 21 دن کا ذخیرہ رکھنا لازمی ہے اور اگر یہ ذخیرہ نہیں رکھیں گے تو اوگرا جرمانہ لگانے کے ساتھ لائسنس بھی منسوخ کرسکتی ہے۔ اس مقدمے کا اندراج محض شعبدہ بازی ہے اور کچھ بھی نہیں۔
ان تمام کمپنیوں میں سے صرف گیس اینڈ آئل پاکستان نے میڈیا میں اپنا مؤقف پیش کیا جبکہ دیگر نے اپنا مؤقف دینے سے انکار کردیا۔ جی او کے مطابق جون میں ایندھن کی مجموعی کھپت کا تحمینہ 60 ہزار ٹن لگایا گیا۔ جس پر جی او نے اپنے مارکیٹ شیئر کے مطابق 6 ہزار ٹن ایندھن کی منصوبہ بندی کی۔ کمپنی کے 550 پمپس سے جون کے پہلے 8 دنوں میں 17ہزار ٹن ایندھن فروخت ہوا جو کہ مارکیٹ شیئر کا تقریباً 13فیصد بنتا ہے۔ کمپنی کے مطابق اس نے اپنے شیئر سے 3 فیصد زائد ایندھن فروخت کیا ہے۔
ذخیرہ اندوزی سے متعلق جی او کا کہنا ہے کہ اوگرا کے قانون کے تحت انہوں نے اپنا ذخیرہ جمع کیا تھا اور یہ ذخیرہ ان کی بروقت منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ جو ایندھن ذخیرہ تھا وہ صرف اور صرف جی او کے پمپس پر فروخت ہونے کے لیے تھا۔ اگر کمپنی اپنا ذخیرہ دیگر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو فراہم کردیتی تو پھر اس کے پاس ایندھن وقت سے پہلے ختم ہوجاتا اور وہ بھی دیگر کمپنیوں کی طرح پمپس بند کرنے پر مجبور ہوتے۔
ایندھن کی قیمت ڈی ریگولیٹ کردی جائے
اس صورتحال میں ماہرین مختلف مشورے دیتے نظر آتے ہیں اور وزارتِ توانائی میں بھی ایسے ہی مشوروں پر مختلف لابیاں کام کررہی ہیں۔ ایسی ہی تجاویز میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کو ڈی ریگولیٹ کرنا شامل ہے۔ اس وقت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت کا تعین پی ایس او کی درآمدی قیمت کے حساب سے کیا جاتا ہے جبکہ ڈی ریگولیٹڈ فارمولے کے مطابق platt's Oilgram پر موجود گزشتہ ماہ کی اوسط قیمت پر ملک بھر میں ڈیزل اور پیٹرول کو فروخت کیا جائے۔
ساتھ ہی حکومت ان لینڈ فریٹ ایکولائزیشن مارجن کے طریقہ کار کو بھی ختم کرنے پر غور کررہی ہے جس کا مقصد ملک بھر میں ایندھن کی قیمت کو یکساں رکھنا ہے۔ مگر اس طریقہ کار کو ختم کرنے سے بندرگاہ اور ریفائنریز کے قریب رہنے والے صارفین کو سستا ایندھن دستیاب ہوگا جبکہ ان تنصیبات سے دُور رہنے والوں کو مہنگا ایندھن خریدنا پڑے گا جس سے ایک ہی شہر میں مختلف کمپنیوں کے پمپس پر ایندھن کی قیمت مختلف ہوگی اور قیمتوں میں ایک سے 5 روپے تک کا فرق ہوسکتا ہے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا جارہا ہے جب آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے ڈی ریگولیٹڈ ایچ او بی سی کو قیمت کم ہونے کے باوجود زیادہ قیمت پر فروخت کیا اور پھر اوگرا کے نوٹس پر قیمتوں کو کم کیا گیا۔
وفاقی وزیر عمر ایوب آئل مافیا کا ذکر تو کرتے ہیں مگر انہی مافیاؤں کے مشورے پر ایندھن کی قیمت کا طریقہ کار ڈی ریگولیٹ کرنے پر بھی کام کررہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی مارکیٹ میں مسابقت کے مطابق قیمتوں کے تعین کی فضا بہت زیادہ اچھی نہیں ہے اور عام استعمال کی اشیا کی صورتحال چینی آٹے اور ادویات کی قیمت کے مسائل سے سامنے آچکی ہے۔ ایسے میں حکومت اپنی ریگولیٹری اور انتظامی صلاحیت کو بڑھائے بغیر ایندھن کی قیمت کا تعین ڈی ریگولیٹ کرے گی تو اس کے بہت ہی منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں یہ بات سامنے آرہی ہے کہ وزارتِ توانائی کی جانب سے اچانک ایندھن کی درآمد پر پابندی عائد کرنے اور پہلے سے دیے گئے آرڈرز کو منسوخ کیے جانے کی وجہ سے ملک میں ایندھن کی سپلائی لائن متاثر ہوئی جس کی بحالی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ جس وقت درآمد پر پابندی عائد کی گئی عالمی منڈی میں ایندھن کی قیمت تاریخ کی کم ترین سطح 10یا اس کے قریب موجود تھی اس لیے سستا ایندھن خریدنے کے بجائے مقامی ریفائنرز سے خریداری کو یقینی بنایا گیا۔
ساتھ ہی کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ ہوا جس کے باعث ایندھن کی طلب اچانک سے بہت ہی کم ہوگئی جس کے سبب آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے کیش فلو پر اثرات مرتب ہوئے۔ بعدازاں عید کے قریب اچانک سے لاک ڈاؤن میں نرمی نے نقل و حرکت میں اضافہ کردیا یوں ایندھن کی طلب اچانک بڑھ گئی۔ اب جو ایندھن لاک ڈاون میں 4 دن تک کے لیے کافی تھا وہ ایک دن میں ہی فروخت ہوگیا اور یوں قلت سنگین صورت اختیار کرگئی۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔