نقطہ نظر

کورونا وائرس کے پیچھے اصل سازش کس کی ہے؟

'اگر آپ ان چند بدقسمت افراد میں شامل ہیں جو کورونا کو ایک حقیقی خطرہ سمجھتے ہیں تو پھر میرے پاس ایک ہی مشورہ ہے'

اگر آپ کو کسی بھی ایسے فرد سے گفتگو کرنے کا موقع ملا ہو جو کورونا وائرس کے سازشی نظریہ سے تعلق رکھتا ہو تو آپ کو یہ بخوبی اندازہ ہو چلا ہوگا کہ آپ ان سے کسی صورت جیت نہیں پائیں گے۔

اب اسی سازشی تھیوری کو لے لیجیے جس کے مطابق ہسپتال ان تمام لوگوں کو 5، 5 لاکھ روپے دے رہے ہیں جو اپنے پیاروں کی موت کو کورونا کی موت قرار دینے کے لیے ہاں کررہے ہیں۔

اب اگر منطق کی بات کی جائے تو ان سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھائی اگر ایسا ہی ہے تو آپ اس سے کہیں سستا ٹارگٹ کلر کرائے پر رکھ سکتے ہیں۔ ایک ایسا پروفیشنل قاتل آپ کو باآسانی ایک لاکھ روپے تک مل جائے گا۔ لیکن پھر یہ ہسپتالوں کے لیے کوئی اچھا سودا نہیں ہوگا کیونکہ اگر یہ سچ ہے تو یقین جانیے لوگ لاشوں سے بھرے ٹرک بھر بھر کے ہسپتال پہنچانا شروع کردیں گے.

اب آپ یہ سوچنے بیٹھ جائیں گے کہ ہسپتال یہ سب کیوں کرنا چاہیں گے، تو جناب یہاں آکر معاملہ اور بھی دلچسپ بن جاتا ہے کیونکہ بات صرف پیسوں کی ادائیگی تک ہی محدود نہیں ہے۔ بھئی یہ تو سرمایہ کاری ہے!

اب یہ سوال ستائے گا کہ کس چیز میں سرمایہ کاری؟ قرض میں ریلیف اور امدادی رقم کے لیے سرمایہ کاری جناب! یہاں پر سازش کرنے والے بڑی دُور کی کوڑی لائے ہیں کیونکہ معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ حکومت مریضوں کی تعداد بڑھانا چاہتی تاکہ جو کوئی بھی پیسے بانٹ رہا ہے، اس سے کروڑوں (یا شاید اربوں) ڈالر مفت میں وصول کرسکے۔

نبیل گبول کے مطابق عالمی ادارہ صحت ہی وہ ذریعہ ہے جو کورونا متاثرین کے اہلِ خانہ کو 3، 3 ہزار ڈالر فراہم کر رہا ہے، اور یہ ادارہ خود مالی مسائل کا شکار ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طرح یہ رقم دے رہا ہے۔

تو جناب معاملہ کچھ یوں ہے کہ عالمی ادارہ صحت حکومت کو پیسہ دیتا ہے پھر حکومت ہسپتالوں کو پیسے دیتی ہے اور پھر یہ رقم ان مرنے والوں کے لواحقین تک پہنچائی جاتی ہے جو اپنے پیاروں کی موت کی وجہ کورونا وائرس قرار دیتے ہیں۔ اور یہ سب جڑا ہے وزیراعظم کے اس پلان سے جس کا مقصد پاکستان پر چڑھے قرض کا بوجھ ہلکا کرنا ہے۔

بھئی اب چونکہ انہوں نے عالمی اقتصادی فورم پر اس کا مطالبہ کیا تھا سو اس بات کی سچائی ثابت کرنے کے لیے اور کیا چاہیے۔ ایک واضح، کڑا اور غیر متنازع سچ۔ شاید اسی وجہ سے وزیراعظم اکثر اوقات ماسک پہننے سے انکار کردیتے ہیں، ظاہر ہے کہ اس وائرس کی زد میں آنے والے وزیرِاعظم سے زیادہ اور ایسی کیا چیز اپنے مؤقف کی تائید کروا سکتی ہے؟ میرا مطلب ہے کہ اگر ایسا ہوا تو آئی ایم ایف تو یقیناً مفت میں آپ پر پیسے نچھاور کرنا شروع ہوجائے گا۔ ہے ناں؟

لیکن ہم اس بارے میں بعد میں بات کریں گے، لیکن اس بات کو تسلیم کیجیے کہ کورونا وائرس جیسی کوئی چیز حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتی ہے، یہ تو عالمی اشرافیہ، الیومناٹی، فری میسنز (یہ تنظیم اب بھی وجود رکھتی ہے؟) کی سازش ہے جس میں معاون کردار زائن کے قابل بزرگان ادا کر رہے ہیں، اور ان سب کی سربراہی خفیہ طور پر ویکسین! ویکسین! کا شور مچانے والے بل گیٹس کر رہے ہیں جو ہر جگہ پر 5 جی ٹاور کھڑے کرکے ہمیں جھوٹ موٹ کا مریض بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ہم وہ ٹیکا لیں جس میں ایسے نینو پارٹیکلز کو جسم کے اندر داخل کرلیں گے جو ہم سب کو کنٹرول میں رکھیں گے، یوں پوری انسانیت مسیح دجال، فری مینسن کے پیروکاروں اور ممکنہ طور پر ٹیلی ٹیوبیز جیسے کرداروں میں تبدیل کردیں گے۔ ٹیلی ٹیوبیز سے بذریعہ یوٹیوب واقفیت ہوئی تھی۔

اچھا اب مباحثے کی غرض سے یہ فرض کیجیے کہ یہ سچ میں وجود رکھتا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک اوسط پاکستانی کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے؟ نہیں بالکل بھی نہیں۔ ہم دراصل ان دیگر کئی ممالک سے زیادہ نوازے ہوئے ہیں جو اس وائرس کے خلاف جادوئی مزاحمت کی صلاحیت رکھتے ہیں (اگریہ سچ ثابت ہوا تو میں اپنے الفاظ کو یوں واپس لوں گا جیسے میں نے کبھی ایسا بولا ہی نہیں تھا) اور یوں ہم احتیاطی تدابیر کو یوں ہوا میں اڑا سکتے ہیں جیسے ناک اور منہ سے ننھے ذرات خارج کرتے ہیں۔

اگر ہم ناکام ہوجائیں تو وہی کام کرسکتے جس میں ہم ماہر ہیں (بلکہ اس وقت بھی کر رہے ہیں)، یعنی انکار کی راہ پکڑنا۔ یہ ٹھیک ایک ایسے 4 سالہ بچے کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلنے جیسا ہے جو بند آنکھیں کیے خالی جگہ پر کھڑا ہوتا ہے۔ اور وہ یہ سمجھ کر خوش ہو رہا ہوتا ہے کہ چونکہ وہ آپ کو دیکھ نہیں پا رہا ہے اس لیے آپ بھی اسے نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔

آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ ہم نے یہی طرزِ عمل دہشتگردی کے ان طویل سیاہ برسوں کے دوران بھی اپنایا تھا کہ جب ہر دن ایک نئے ظلم کی داستان رقم کی جاتی تھی۔ ذرا غور تو کیجیے کہ اس سچ کے ہم پر اجاگر ہونے تک کتنے ہزار لوگ اپنی جانوں سے جا چکے تھے کہ پاکستان میں دہشتگردی ایک حقیقت ہے اور اس کے پیچھے بڑی حد تک ہمارے 'اپنے' ہی لوگ شامل ہیں۔

اب اس کا موازنہ کورونا وائرس سے مرنے والوں کی اب تک کی چھوٹی سی تعداد سے کیا جائے تو آپ پائیں گے کہ صورتحال تو ابھی انکار کے معاملے تک بھی نہیں پہنچی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایس او پیز کے منہ پر کھانستے اور سماجی دُوری کے منہ پر تھوکتے ہیں۔

تاہم اگر آپ اب بھی ان چند بدقسمت افراد میں شامل ہیں جو سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس ایک حقیقی خطرہ ہے تو پھر آپ کے لیے میرے پاس ایک ہی مشورہ ہے، وہ یہ کہ جناب ماسک پہنیں۔ ضروری نہیں مہنگا اور اعلیٰ معیار کا ہی ماسک پہنا جائے، کوئی بھی ماسک چلے گا بس یہ آپ کے منہ اور ناک کو لازمی ڈھانپتا ہو۔ ضروری نہیں کہ آپ ہر وقت اسے پہنے رکھیں لیکن جب کبھی بھی بند اور پرہجوم مقامات پر جائیں یا دیگر افراد سے میل جول کریں تو اس وقت ماسک کا استعمال لازمی کریں۔

براہ مہربانی یہ بھی یاد رکھیں کہ ماسک چہرے پر پہنا جاتا ہے ناکہ ٹھوڑی پر لیکن لگتا ہے کہ پریس کانفرنس کے شوقین ہمارے سیاستدان اس بات پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ یہ بھی مت سمجھ لیجیے گا کہ ماسک لگانا آپ کی دہری ٹھوڑی کو چھپانے کا کوئی جدید طریقہ ہے۔ ماسک کان پر ڈھیلے انداز میں سلوٹ زدہ میڈیکل بالی کی طرح لٹکانے کے لیے بھی نہیں ہیں۔ ماسک آپ کے چہرے پرجاتے ہی اپنا کام شروع کردیتے ہیں چاہے آپ ان پر یقین رکھیں یا نہ رکھیں۔ ویسے ماسک کی افادیت کا اندازہ ایشیا کے باسیوں کو دیکھ کر بھی لگایا جاسکتا ہے۔


یہ مضمون 8 جون 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرار کھوڑو

ضرار کھوڑو ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ وہ ڈان نیوز ٹی وی پر پروگرام 'ذرا ہٹ کے' کے میزبان بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ZarrarKhuhro@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔