نقطہ نظر

ٹیم تو کھیل کے میدان میں بھی کپتان کی اچھی نہیں تھی، بس نصیب اچھا تھا

ٹیم بنانے کی اپنی صلاحیت پر فخر کرنے والے ہمارے وزیرِاعظم عمران خان کی کابینہ بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے

پاکستان کے موجودہ وزیرِاعظم 20 سال سے زائد عرصہ کرکٹ کے میدان میں ڈھیروں تاریخ ساز کامیابیاں سمیٹنے کے بعد جب سیاست کے میدان میں وارد ہوئے تو یہ ان کے چاہنے والوں کے لیے باعثِ حیرت اور حوصلہ افزا خبر ثابت ہوئی۔

بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان نے جس طرح کھیل کے میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں، اسی طرح اگر ان کو ملک پر حکمرانی کا موقع میسر آجائے تو وہ پاکستان کو بھی مصائب کے دلدل سے نکال کر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کروا دیں گے۔

پھر 18 اگست 2018ء کا دن اس طرح کی خواہشات اور امیدیں لگانے والوں کے لیے ایک یادگار دن بن کر ابھرا کہ اسی دن سیاست کے میدان میں 2 عشروں سے زیادہ عرصے تک جدوجہد کرنے اور مصائب کا سامنا کرنے کے بعد عمران خان نے ملک کے 22ویں وزیرِاعظم کے طور پر حلف اُٹھایا۔

قوم سے اپنے پہلے ہی خطاب میں عمران خان نے جب غذائی قلت کے شکار بچوں کی کمزور ذہنی نشو و نما کے بارے میں بات کی تو اپنے مداحوں کے ساتھ ساتھ اپنے مخالفین کو بھی یہ رائے قائم کرنے پر مجبور کردیا کہ ان کی سوچ و فکر کا زاویہ منفرد ہے اور وہ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اپنی حکومت کے تقریباً 2 سال گزرنے کے باوجود عمران خان اور ان کی حکومت ملک کو اس سوچ اور ترقی کا عشرِ عشیر بھی نہیں دے سکی جس کے خواب انہوں نے قوم کو دکھائے تھے۔

سال 2018ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے پاس حکومت تشکیل دینے کے لیے مطلوبہ اکثریت نہیں تھی لہٰذا انہیں دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ اشتراک کرنا پڑا۔ اس سیاسی اشتراک کی وجہ سے عمران خان کو وفاقی کابینہ میں اپنی جماعت کے افراد کے ساتھ ساتھ اتحادی جماعتوں کے نامزد ممبران کو بھی شامل کرنا پڑگیا۔ اس سانجھے کی ہانڈی کا ایک نقصان یہ ہوا کہ ایک طرف کابینہ کے ممبران کی تعداد بڑھ گئی اور دوسری طرف کابینہ میں کچھ ایسے ممبران بھی شامل ہوگئے جن کو عمران خان کی زبان میں ہم ’ریلو کٹے‘ کہہ سکتے ہیں۔

عمران خان کرکٹ کھیلنے والے ان کھلاڑیوں کو ریلو کٹے کہتے ہیں جو تھوڑی سی باؤلنگ اور تھوڑی سی بیٹنگ کرنا جانتے ہیں لیکن کسی بھی شعبے کے ماہر نہیں ہوتے۔ اس طرح کے کھلاڑی زیادہ تر انگلینڈ میں پائے جاتے ہیں اور وہاں کے مخصوص موسمی حالات اور پچ کی وجہ سے وہیں کامیابیاں حاصل کرتے ہیں لیکن انگلینڈ سے باہر جاتے ہی وہ ناکامی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ٹیم بنانے کی اپنی صلاحیت پر فخر کرنے والے ہمارے وزیرِاعظم عمران خان کی کابینہ بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے جہاں ایک زمیندار ہوا بازی کی وفاقی وزارت کی ذمہ داری اُٹھائے ہوئے ہے تو ایک کاروباری شخصیت نے آبی وسائل کی وزارت کا قلمدان سنبھالا ہوا ہے۔ وفاقی کابینہ میں ایسے بہت سے نگینے ہیں جن کا اپنی وزارت سے کوئی تال میل ہی نہیں بیٹھتا، مگر پھر بھی وہ مزے کررہے ہیں۔

بظاہر تو یہ کابینہ نااہل لوگوں کا ایک مجموعہ ہے اور اس ٹیم کی موجودگی میں عمران خان کی کشتی ڈوبتی ہی ہوئی نظر آتی ہے لیکن، ایک وجہ ایسی ہے جس نے مجھے اب بھی پُرامید رکھا ہوا ہے۔

یہ درست ہے کہ ملک کا نظام چلانا اور کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کو ہمیشہ ہی ایسے لیڈر میسر آئے جو صلاحیت میں کم تر ہونے کے باوجود ملک میں رائج سیاسی نظام میں رچ بس گئے اور ملک کی حکمرانی کرنے میں کامیاب رہے۔

عمران خان کی طرف واپس آتے ہوئے میں اس بات کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ کرکٹ کے میدانوں میں انہوں نے متعدد ناقابلِ یقین کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کی کامیابیوں کی فہرست میں میری نظر میں جو 2 اہم ترین کامیابیاں ہیں، پہلی 1987ء کے بنگلور ٹیسٹ کی فتح اور دوسری 1992ء کے ورلڈ کپ کی جیت۔

بظاہر یہ بات کہی جاتی ہے کہ عمران خان کھلاڑیوں کی سلیکشن میں کچھ خاص مہارت رکھتے تھے، لیکن ان دونوں ہی فتوحات میں ٹیم سلیکشن سے متعلق عمران خان نے کچھ ایسے کام کیے جو آج تک سمجھ سے بالکل باہر ہیں۔

جیسے بنگلور ٹیسٹ میں جن کھلاڑیوں نے پاکستان کی نمائندگی کی، ان میں منظور الہٰی اور سلیم جعفر کی شمولیت سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسپنروں کے لیے سازگار پچ پر پاکستان 4 فاسٹ باؤلرز پر مشتمل ٹیم کے ساتھ میدان میں اترا۔ اگر پاکستان یہ میچ ہار جاتا تو ٹیم سلیکشن کی یہ خامیاں ضرور نمایاں کی جاتیں لیکن جیت نے ان پر پردہ ڈال دیا، اور یہی اس کھیل کا دستور بھی ہے۔

اسی طرح عالمی کپ 1992ء کے لیے ٹیم میں وسیم حیدر اور اقبال سکندر کی شمولیت بھی کسی معمے سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ یہ دونوں وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے نہ اس میگا ایونٹ سے پہلے قومی ٹیم کی نمائندگی کی تھی اور نہ پھر بعد میں کبھی انہیں موقع میسر آسکے۔ اب کس میرٹ اور کس اصول کے تحت ان دونوں کو اتنے بڑے ایونٹ کے لیے منتخب کیا گیا تھا، یہ تو عمران خان صاحب ہی بتاسکیں گے۔

اگر ان دونوں کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو وسیم حیدر نے کُل 3 میچ کھیلے اور 13 کی اوسط سے 26 رنز بنائے جبکہ ایک وکٹ بھی حاصل کی۔ اسی طرح اگر اقبال سکندر کی بات کریں تو انہوں نے 4 میچ میں قومی ٹیم کی نمائندگی کی اور ایک اننگ میں ایک رن بنا کر آؤٹ ہوگئے، جبکہ 3 وکٹیں ان کے حصے میں آئیں۔

لہٰذا ان کھلاڑیوں نے عالمی کپ کے دوران میدان میں تو خاطر خواہ کارکردگی پیش نہیں کی لیکن ٹورنامنٹ جیتنے کی وجہ سے انعام و اکرام کے بہتے ہوئے سمندر سے خود کو خوب سیراب کیا۔

1982ء کے دورہ انگلینڈ کے دوران بھی عمران خان نے ٹیسٹ میچوں میں ڈھلتی عمر والے احتشام الدین کو نوجوان کھلاڑی جلال الدین پر ترجیح دی حالانکہ ابھی چند ماہ پہلے ہی جلال الدین نے حیدر آباد کے مقام پر آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ کرکٹ کی سب سے پہلی ہیٹ ٹرک کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔

جس زمانے میں عمران خان کرکٹ کھیلتے تھے، تب جاوید میانداد ہر قدم پر ان کی معاونت کرتے تھے۔ جاوید میانداد اور عمران خان کے اختلافات کی خبریں میڈیا میں ضرور گردش کرتی تھیں لیکن جاوید میانداد ہمیشہ ان کی تردید کرتے تھے۔

1992ء کے عالمی کپ کے لیے جب ٹیم کا اعلان ہوا تو جاوید میانداد کو ڈراپ کردیا گیا لیکن جاوید میانداد نے نہ تو کوئی احتجاج کیا اور نہ اس فیصلے کے خلاف کوئی بات کی۔ ان کے صبر کا صلہ یہ ملا کہ آسٹریلیا پہنچ کر جب قومی ٹیم کو ابتدائی پریکٹس میچوں میں شکست ہوئی تو کپتان کو جاوید کی یاد آئی اور جاوید میانداد نے بھی کپتان کی لاج رکھی اور ٹورنامنٹ کے 8 میچوں میں 62.42 کی اوسط سے 437 رنز بناکر پاکستان کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

عمران خان کی سیاسی اننگ میں اسد عمر دراصل جاوید میانداد جیسا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسد عمر کپتان سے اتنے مخلص ہیں کہ جب ان کو وفاقی کابینہ سے اچانک فارغ کیا گیا تو اس وقت بھی انہوں نے کپتان یا اپنی پارٹی کے خلاف ہرزہ سرائی نہیں کی۔

اپنی کپتانی کے زمانے کی ان غلطیوں کے باوجود کوئی چیز ایسی ضرور ہے جو عمران خان کو کامیابی دلواتی ہے، میرے نزدیک یہ چیز ان کی نیت ہے۔ کپتان کو ہمیشہ سے پاکستان کی بقا، ترقی اور وقار کی بلندی کی فکر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کبھی پاکستان میں کینسر ہسپتال بنانے کا خواب پورا کیا تو کبھی نمل یونیورسٹی کے قیام کی جدوجہد میں مصروف ہوئے۔

عمران خان اپنے مقصد کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں۔ گزشتہ 20 ماہ کے عرصے میں عمران خان کی حکومت کے بارے میں متعدد بار یہ کہاوت ’سانجھے کی ہانڈی بیچ چوراہے پر پھوٹے‘ سچ ہوتی ہوئی دکھائی دی لیکن ہر بار یہ حکومت مصائب سے کنی کترا کر نکل جانے میں کامیاب رہی ہے۔

ایک معروف کاروباری شخصیت نے بھی ایک نجی محفل میں اس بات کا اظہار کیا کہ حکومت کے پاس انسانی اور مالی وسائل کی قلت ہے لیکن عمران خان کی نیت صاف ہے اور وہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں۔

بہت سے قارئین میری اس بات سے اختلاف کریں گے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ کورونا وائرس عمران خان کے لیے Blessing In disguise یا باپردہ رحمت ثابت ہوسکتی ہے۔ شاید ان کی نیک نیتی کی وجہ سے قدرت نے اس مرض کی صورت میں انہیں ملک کے نظام کو درست کرنے کا موقع دیا ہے۔

اس وبا کے پھوٹنے سے پہلے ملک کی معیشت مکمل طور پر آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑی ہوئی تھی۔ آئی ایم ایف تو ابھی بھی موجود ہے لیکن اس نے دباؤ کم کیا ہے اور اس کم دباؤ کا فائدہ اُٹھا کر کپتان نے ٹیکس کی ریکوری توقعات سے بہت کم ہونے کے باوجود پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی ہے اور تعمیراتی صنعت کے لیے ایک پُرکشش پیکیج پیش کیا ہے۔

اپنی ایک تقریر کے دوران عمران خان اس بات کا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ تعمیراتی صنعت کے لیے پیش کیا جانے والا پیکیج ان کا ایک خواب تھا جو پورا ہوگیا۔ احساس پروگرام کے تحت ملک بھر میں غریب اور نادار لوگوں میں جو رقم تقسیم کی گئی وہ بھی ایک قابلِ تعریف عمل ہے۔

وفاقی بجٹ 2020ء پیش کیے جانے کی تاریخ قریب آتی جا رہی ہے۔ یہ بجٹ عمران خان اور ان کی حکومت کے لیے اپنی سمت کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کا ایک بہترین موقع ثابت ہوسکتا ہے۔

عمران خان کی حکومت چند مہینے بعد اپنے دورِ اقتدار کا آدھا عرصہ مکمل کرلے گی۔ عمران خان نے قوم سے بڑے بڑے وعدے کیے ہیں۔ لہٰذا یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی تکمیل کے لیے مطلوبہ تمام اقدامات کریں۔ اپنی کرکٹ کی کپتانی میں تو عمران خان ریلو کٹوں کے ساتھ کامیاب ہوگئے تھے لیکن آنے والا وقت اس بات کا تعین کرے گا کہ کیا وزیرِاعظم کی حیثیت سے وہ ریلو کٹوں کے ساتھ کامیاب ہوں گے یا نہیں۔

خرم ضیاء خان

خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔