امریکا اس وقت احتجاج کے سخت دور سے گزر رہا ہے لیکن یہ اس کے لیے نیا نہیں ہے۔ مساوی انسانی حقوق اور انصاف کے حصول کے لیے سیاہ فام امریکی عوام کئی مرتبہ سڑکوں پر آئے ہیں اور اس وقت تک پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا جب تک اپنے جائز مطالبات منوا نہیں لیے۔
یہ ان کی آواز کی پختگی اور مطالبات کی سچائی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج سفید فام امریکی پولیس گھٹنوں پر بیٹھ کر سرنگوں ہیں اور سیاہ فام عوام سے معافی مانگ رہے ہیں
امریکا کی اس سرزمین نے ایسا وقت بھی دیکھا ہے کہ جب سیاہ فاموں کو افریقہ سے بحری جہازوں میں لاد کر امریکا کی سرزمین پر غلام بنا کر لایا جاتا تھا۔ اس حوالے سے میلکم ایکس کو پڑھنا ہوگا۔
میلکم ایکس امریکی تاریخ کا سربستہ راز ہے۔ اس کی خود نوشت سوانح عمری ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو ظلم سے نفرت کرتا ہے اور اچھے سماج کے خواب دیکھتا ہے۔ یہ کتاب روٹس نامی کتاب کے مشہور مصنف ایلکس ہیلی کی مدد سے لکھی گئی۔ اس کتاب کا ایک ایک لفظ بغاوت کے علاوہ درد اور غم کی تصویر بھی ہے۔
میلکم ایکس کہتا ہے کہ ’کروڑوں سیاہ فام افراد افریقہ سے غلام بنا کر امریکا لائے گئے۔ کاش میرے اختیار میں ہوتا کہ سمندروں کی گہرائی میں بکھرا ہوا خون، انسانی گوشت کے لوتھڑے، ٹوٹی ہوئی ہڈیاں اور کچلی ہوئی کھوپڑیاں دکھا سکتا۔ یورپی تاجروں کے بحری جہاز افریقہ جاتے اور غلاموں سے بھر کر آتے۔ شارک مچھلیاں ان جہازوں کا پیچھا کرتیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا تھا کہ ان جہازوں سے انسانی گوشت کھانے کو ملتا ہے۔ ایک صدی کے عرصے میں 11 کروڑ سیاہ فام یا تو غلام بنا لیے گئے یا پھر قتل کردیے گئے'۔
اگر ہم پچھلی صدی کی بات کریں تو امریکی سیاہ فام خاتون روزا پارکس کی مساوی حقوق کی جدوجہد ناقابلِ فراموش ہے۔ روزا پارکس امریکا کی مشہور شخصیات کی فہرست میں شامل ہیں۔ یہ دسمبر 1955ء کا واقعہ ہے، امریکی ریاست جارجیا کی رہنے والی اس سیاہ فام عورت کو رنگ ونسل کی بنیاد پر ہر روز توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس روز بھی وہ دفتر سے فارغ ہوکر گھر جانے کے لیے ایک بس پر سوار ہوئی تو راستے میں خشمگیں نگاہیں اس کا پیچھا کرتی رہیں۔ اس بس کے 2 حصے تھے۔ ایک سفید فام افراد کے لیے اور ایک سیاہ فاموں کے لیے۔
ان دونوں کے درمیان ایک لکیر حائل تھی۔ روزا پارکس چُپ چاپ اپنے حصے میں جاکر بیٹھ گئی۔ اس وقت کے قانون کے مطابق مسافروں کی تعداد بڑھ جانے کی صورت میں سیاہ فاموں کو اپنی نشست چھوڑ کر کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ جب بس میں سفید فام افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا تو کنڈیکٹر کے حکم پر 3 سیاہ فاموں کو اپنی نشست سے اٹھنا پڑا اور ان کی نشستوں پر سفید فام بیٹھ گئے۔ اگلی باری روزا پارکس کی تھی۔ کنڈیکٹر نے اس کی طرف دیکھا لیکن اس نے یہ حکم ملنے کے باوجود اپنی نشست چھوڑنے سے انکار کردیا۔
روز روز کے توہین آمیز سلوک نے اسے دیوانا بنا دیا تھا۔ اس نے غصے سے پوچھا 'کیا میں اپنی نشست کسی اور کے لیے صرف اس لیے چھوڑ دوں کہ اس کی رنگت سفید ہے؟'
کنڈیکٹر نے روزا کو بتایا کہ یہ انکار قانون کی نظر میں جرم ہے اور اس جرم پر وہ گرفتار ہوسکتی ہے۔ روزا نے کہا 'میں جیل جانے کے لیے تیار ہوں لیکن ظلم کے روبرو جھکنے سے انکار کرتی ہوں'۔ بس پھر کیا تھا پولیس کو بلایا گیا، روزا گرفتار ہوئیں اور یوں چند دنوں کی جیل اور 14 ڈالر جرمانے کی سزا ہوئی۔ اس سزا کے بعد امریکا میں ہر طرف ایک سناٹا طاری ہوگیا۔ اسی سناٹے کی کوکھ سے ایک مزاحمت نے جنم لیا، ایک ایسی مزاحمت جو انسانی برابری کی تحریک کا ایک اہم سنگِ میل بن گئی۔
مارٹن لوتھر کنگ اس تحریک کے روح رواں تھے۔ یہ مزاحمت 382 دنوں پر محیط رہی۔ اس دوران شہر کا ایک سیاہ فام بھی بس پر سوار نہیں ہوا۔ یہ لوگ نسلی امتیاز کی تحریک کا ہر اوّل دستہ بن چکے تھےٰ۔ ایک طویل آئینی جنگ، مظاہروں، مزاحمت، ہنگاموں جیسے کئی صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد بلآخر یہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
بس کے اندر کھینچی ہوئی لکیر مٹ گئی۔ اب کوئی بھی سیاہ فام اپنی نشست چھوڑنے کا پابند نہیں تھا اور یوں ظالمانہ قانون ایک عورت کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرسکا۔
'ظلم اسی وقت تک ظلم ہے جب تک اسے للکارا نہ جائے'، روزا پارکس نے یہ کہہ کر ظلم کی ساری نفسیات کو آشکار کردیا۔ روزا پارکس کو امریکا کے بلند ترین سول ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 2 درجن سے زائد یونیورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی۔ ان کی مزاحمت اور ان کے انکار نے کمزوروں کو ایک نیا حوصلہ بخشا۔ انکار کا وہ لمحہ ان کی زندگی کا روشن ترین لمحہ بن گیا۔