وہ پچھلے 15 سال سے بغرضِ مجبوری ایک سرکس میں بطور جوکر ملازمت کررہا تھا اور پچھلے 15 ہی سال سے اس نے شیشے میں اپنا چہرہ نہیں دیکھا تھا سو اسے بھول گیا تھا کہ اس کا اپنا چہرہ کون سا ہے اور جوکر کا چہرہ کون سا۔
لوگوں کے بچے اس کے ساتھ تصویریں بنواتے اور وہ اپنے بچوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرتا۔ اس نے کبھی اپنے بچوں کو نہ بتایا کہ وہ ایک جوکر ہے۔ اسے ڈر تھا کہ اس کے بچے یہ جاننے کے بعد اس سے نفرت کرنے لگیں گے کیونکہ وہ خود بھی اس کام کو ناپسند کرتا تھا لیکن اس کے پاس روزگار کا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ وہ خوف کے ایک عجیب سے خول میں بند تھا جس کے بارے میں وہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتا تھا۔
ایک روز اس کا بیٹا اسکول کے دوسرے بچوں کے ساتھ سرکس دیکھنے آیا۔ جب تک جوکر کی نظر اپنے بچے پر نہ پڑی تھی، وہ اِدھر سے اُدھر اچھل کود کرکے بچوں کو ہنساتا رہا، پھر اچانک سیڑھیوں سے گزرتے ہوئے، اسے اپنا بیٹا نظر آیا تو اس نے فوراً چہرے پر ہاتھ رکھ لیا اور چیخ کر کہا۔
‘تم یہاں کیا کررہے ہو؟’
بچے نے کہا ‘پیارے جوکر! میں تمہارے ساتھ تصویر بنوانے آیا ہوں۔‘