نقطہ نظر

کورونا ڈائری: 28 دن کورونا وائرس سے لڑنے والے مریض کی کہانی

حاصل کہانی یہ ہے کہ ہم 2 انتہاؤں کو چُھو رہے ہیں۔ ایک جانب کورونا کی موجودگی سے انکار اور دوسری جانب ایسا سوشل بائیکاٹ جیسے کورونا شعاعوں سے پھیل رہا ہو۔

اگر آپ کورونا سے صحتیاب ہوجائیں تو اس میں آپ کا کمال نہیں بلکہ یہ اللہ کی مرضی تھی، اس نے آپ کی زندگی اتنی مختصر نہیں لکھی تھی۔ کورونا سےصحتیابی کے بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ نہ عمر اور نہ صحت بلکہ صرف آپ کا مقدر آپ کو موت کے منہ سے نکال لاتا ہے۔

پہلا منظر

28 دن بعد داڑھی اور سر کے بال اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ حجامت کے لیے جانا پہلی ترجیح ٹھہرا اور اس اہم کام کے لیے نکلنے کا قصد کیا۔ گاڑی میں بیٹھنے سے قبل فیس بک پر دوستوں کو صحتیابی کی اطلاع دی۔

پہلا فون جن صاحب کا آیا وہ ایک نجی ادارے میں میڈیا اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے طبعیت پوچھتے ہی پہلا سوال یہ پوچھا کہ کیا واقعی کورونا ہوتا ہے؟ دوسرا سوال یار آپ پہلے جاننے والے ہیں جسے کورونا ہوا ہے۔ تیسرا سوال کتنے ٹیسٹ کرائے؟ یار یہ لیب والے لوٹنے کے چکر میں ہیں اور سندھ حکومت کا تو کوئی بھروسہ ہی نہیں۔

پہلے اور دوسرے سوال کا جواب تو تحمل سے دے دیا اور حوالہ بھی بتا دیا کہ مشترکہ دوستوں میں کون کون اور کس کس کے گھر والے کیسے کیسے متاثر ہیں۔

تیسرے سوال کے جواب میں نا چاہتے ہوئے بھی تلخی آ ہی گئی، ناگواری سے کہنا پڑا کہ بھائی جان 5 ٹیسٹ میرے اور 2 میرے اہل خانہ کے ہوئے اور سب مختلف لیبارٹریز سے، جس میں میرے ہی صرف مثبت آئے ہیں باقی اہلِ خانہ الحمداللہ محفوظ رہے ہیں۔ اس کے بعد گفتگو اسی گرد گھومتی رہی کہ کیا کیا اور کیسے علامات ظاہر ہوتی رہی ہیں۔ حاصل کہانی یہ کہ کورونا پر یقین رکھنے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کم پڑھے لکھے ہوں۔

دوسرا منظر

کورونا آئیسولیشن کا نفسیاتی اثر یہ ہوا کہ صحتیابی کے بعد بھی حد سے زیادہ احتیاط کا دل چاہتا ہے۔ اپنے ایک دوست کے ذریعے کراچی کے پوش علاقے زم زما اسٹریٹ پر ایک حجام سے باقاعدہ وقت لیا۔ وجہ یہی تھی کہ پوش علاقے کا سیلون ہے صفائی تو رکھتا ہوگا۔ پھر وہاں دوست بھی ملنے آگئے۔ جناب کی اپنی کیفیت یہ ہے کہ کم از کم کورونا کی موجودگی کا یقین رکھتے ہیں اور احتیاط بھی خوب کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی سازشی تھیوری سے بھی شدید متاثر ہیں۔

کہنے لگے کورونا ہے تو حقیقت لیکن سندھ حکومت جان کر تعداد بڑھا رہی ہے۔ جب جہاز حادثے میں کہیں نا کہیں ایسے لوگ مل رہے ہیں جن کے جاننے والے شہید ہوئے ہیں تو آخر اب تک سندھ کے 30 ہزار مریض کیوں دکھائی نہیں دے رہے۔

آفرین ہے بھائی، سامنے کھڑا ہوں، اور صرف یہی نہیں بلکہ جناب کے جاننے والے کم از کم مزید 2 افراد جن میں سے ایک 70 سال سے اوپر کے بزرگ بھی ہیں جو نازک کیفیت سے گزرے لیکن مجال ہے جو یقین آیا ہو۔ اس کہانی کا حاصل یہ ہے کہ ہمیں رہنا خوابوں کے محل میں ہی ہے جب تک سیلاب اپنا گھروندہ نہ ڈبو دے۔

تیسرا منظر

آئیسولیشن سے باہر نکلے تو بیگم صاحبہ سے بھی تفصیلی گفتگو کا موقع ملا۔ بتایا کہ محلہ دار تو دُور کی بات قریبی جاننے والے بھی ملنے سے اس لیے اجتناب کر رہے کہ ان کے گھر کورونا کا مریض تھا۔ امریکا میں مقیم ایک دوست نے تو میسج تک کردیا کہ اللہ کے بندے کیوں بتا رہے ہیں لوگوں کو کورونا کا، لوگ ملنا چھوڑ دیں گے۔

حاصل کہانی یہ ہے کہ ہم 2 انتہاؤں کو چُھو رہے ہیں۔ ایک جانب کورونا کی موجودگی سے انکار اور دوسری جانب ایسا سوشل بائیکاٹ جیسے کورونا شعاعوں سے پھیل رہا ہو۔

بار بار پوچھے جانے والا ایک سوال یہ بھی تھا کہ گھر کے دیگر لوگ کیسے ہیں۔ بتایا کہ 2 مرتبہ ٹیسٹ کروایا اور محفوظ ہیں۔ اس کی جو وجہ مجھے سمجھ میں آئی وہی سب کے لیے تجویز ہے کہ علامات سے آگاہ رہیں۔ لازمی نہیں کہ جو تمام علامات اب تک آپ کے علم میں ہیں وہ ساری ہی آپ میں نمودار ہوں بلکہ یاد رکھیں کہ ہر فرد مختلف علامات ظاہر کر رہا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ آپ کا پیٹ شدید خراب ہو اور گلا خراب نہ ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ صرف ایک یا 2 علامات ظاہر کریں۔ بہرحال اگر آپ کو صرف شک بھی ہے تو اپنے آپ کو علیحدہ کرلیں۔ اپنا ٹیسٹ کرائیں اور پھر اس پر بھروسہ کریں۔ میرے گھر والے شاید اس لیے محفوظ رہے کہ میں نے علامت ظاہر ہونے کے فوری بعد اپنے آپ کو بالکل الگ کرلیا تھا اور دوسرے دن ٹیسٹ کے ذریعے کورونا کی تشخیص ہوگئی تھی، جبکہ بہت سے دوستوں کے گھر کے کم از کم ایک یا اس سے زیادہ فیملی ممبر متاثر ہوئے۔

میرے کمرے میں پانی کی 10 لیٹر کی بوتلیں تھیں جو خالی ہوتی گئیں اور کمرے میں ایک جانب لائن سے رکھی جاتی رہیں۔ کھانے میں کوئی خاص پرہیز ڈاکٹر نے تجویز نہیں کی تھی لہٰذا کھانا معمول کے مطابق تھا۔ ابتدا میں کچھ برتن کمرے میں آئے جو خود دھو کر رکھ لیے تھے کیونکہ اس کے بعد کھانا ڈسپوزیبل برتنوں میں آتا رہا۔ کچرے کے بڑے شاپر میں استعمال شدہ سامان جمع ہوتا رہا۔ اب چونکہ صفائی مجھے خود ہی کرنی تھی اس لیے زیادہ گند کرنے سے پرہیز کیا۔

کپڑے، تولیہ اور بیڈ کی چادر ضرورت کے تحت تبدیل ہوتی رہیں۔ استعمال شدہ کپڑوں کو چادر میں باندھ کر ایک جانب ڈھیر لگتا رہا جو 28 دن بعد خود جراثیم کش ادویات کے ساتھ واشنگ مشین میں ڈال دیے۔

جوشاندہ، دوائیاں، تھرما میٹر اور دیسی ٹوٹکوں کے لیے جڑی بوٹیاں بھی موجود تھیں جن کے ساتھ بجلی سے چلنے والی کیتلی بھی موجود تھی۔ ٹی وی اور کتابیں کمرے میں موجود تھی لیکن مجال ہے جو ہمت ہوئی ہو۔ فون کا چارجر ظاہر ہے آپ کو بھولنا نہیں ہے۔ نہانے کے لیے میرے پاس بالٹی تھی تاکہ ڈیٹول ملے پانی سے نہایا جائے جو ظاہر ہے شاور سے ممکن نہیں تھا۔ اسپرے کی ایک بوتل تھی جس میں جراثیم کش اسپرے (ڈیٹول اور بلیچ کا مکسچر) تین چار دن بعد کمرے میں خود کرلیا کرتا تھا۔

طویل بیماری کے مریض کو ڈپریشن سے بچانے کے لیے کہا جاتا ہے کہ اسے جتنا جلدی ہوسکے اپنی زندگی معمول کے مطابق گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس لیے روزانہ نہا دھو کر معمول کے مطابق تیار ہونے کی عادت بنائے رکھی۔ کھانے اور سونے کے معمول کو بھی کسی حد تک درست رکھنے کی کوشش کی۔ ایک اور ضروری چیز یہ کہ الٹے سیدھے وقت کی بھوک مارنے کے لیے خشک میوے اور خراب نہ ہونے والی اشیاء ضرور رکھ لیے، اس سے کافی فائدہ ہوا۔

دورانِ علالت کوشش کی کہ روزانہ تاثرات قلم بند کرتا رہوں جو کچھ اس طرح ہیں:

کورونا کے ابتدائی ایام میں اس یاداشت کا عنوان 'کورونا کے 10 دن' تھا لیکن اختتام 28 دن پر ہوا۔

علامات

  • جسم میں گھومنے والا درد جو کبھی کمر، کبھی پنڈلی اور کبھی گردن میں محسوس ہوتا۔

  • ہلکا بخار، ابتدا میں پورا دن اور بعد میں شام 4 بجے سے رات 12 بجے کے درمیان محسوس ہوتا۔

  • نزلہ معہ بلغم، کھانسی نہیں ہوئی۔

  • علامات شروع ہونے کے 48 گھنٹے بعد ذائقہ اور سونگھنے کی صلاحیت ختم ہوگئی تھی جو 8 روز بعد بحال ہوئی۔

پہلا دن (یکم مئی بروز جمعہ)

ایک ہفتے سے شک تھا کہ ایک پروگرام ریکارڈنگ کے دوران ایسی جگہ جانا ہوا تھا جہاں سے بعد میں معلوم ہوا کہ کورونا کے مریض نکلے ہیں۔ دعا اور خواہش تھی کہ اللہ محفوظ رکھے۔ غلطی یہ ہوئی کہ اہلِ خانہ کو گھر میں دُور نہیں رکھا۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ علامات واضح نہ ہونے تک خاموش رہیں۔

جمعے کو کافی دنوں سے جاری زکام نے ایک مرتبہ پھر شدت دکھائی۔ بخار نہ ہونے کی وجہ سے زکام کو معمول کے مطابق ہی برتنا شروع کیا۔ جسم ٹوٹنے لگا تو فوری کمرہ علیحدہ کرلیا۔ کھانسی خشک نہیں ہے بلکہ بلغم کے ساتھ ہے۔ شام تک بخار 99 ڈگری ہوگیا۔ پیناڈول سی ایف لی اور سو گیا۔ صبح یعنی ہفتے کو کورونا کا ٹیسٹ کرانے کے لیے ایک صحافی دوست کے ذریعے انتظام مکمل کرلیا ہے۔ آج روزہ ہے۔

پہلے دن کی علامات: نزلہ، بلغم، ہلکا بخار جو پیناڈول کو خاطر میں نہیں لا رہا تھا۔ ساتھ کمر درد بھی ہے۔

دوائی: پیناڈول سی ایف

دوسرا دن (2 مئی بروز ہفتہ)

نچلے درجے کا بخار اپنی جگہ برقرار تھا۔ خود گاڑی چلا کر گلشنِ اقبال کے نجی اسپتال پہنچا۔ تقریباً 7 ہزار روپے کا ٹیسٹ تھا۔

ٹیسٹ کے دوران کان صاف کرنے جیسے 'بڈ' نما سواب ناک میں داخل کی گئی، گھمایا گیا اور پھر اس کو شیشے کی چھوٹی سی بوتل میں پہلے سے موجود مواد کے اندر ڈال کر بند کردیا گیا۔ نمونہ لینے والے نے منہ پر پلاسٹک کی شیلڈ اور جسم پر نیلے رنگ کا فائبر کا لباس پہن رکھا تھا۔ خون کا نمونہ بھی لیا گیا اور کہا گیا کہ یہ ریسرچ کے لیے لیا جا رہا ہے تاکہ اگر آپ کو کورونا ہوکر ختم ہوچکا ہو تو اس کی مدد سے اینٹی باڈیر کی موجودگی کے ذریعے معلوم ہوجائے گا۔

گھر واپس آیا۔ اہلِ خانہ اب بھی سنجیدہ نہیں لے رہے تھے اور مجھے بھی یہ لگتا تھا کہ مجھے کورونا نہیں ہوگا۔ بہرحال آج پیناڈول کے ساتھ اینٹی الرجی بھی لی۔ ڈاکٹروں کے مشورے سے ہی کورونا کا ٹیسٹ کروایا تھا اور انہی سے مزید بات چیت بھی شروع کردی تھی۔

علامات: نزلہ، زکام، نچلے درجے کا بخار، کمر میں درد اور پاؤں جلنے کا احساس

دوائی: اینٹی الرجی، پیناڈول

تیسرا دن (3 مئی بروز اتوار)

ٹیسٹ کے نتائج دن 12 بجے تک ملنا تھے لیکن معلوم ہوا کہ 3 بجے دوپہر ملیں گے۔ اس دوران اینٹی الرجی اور پیناڈول سے کام چلایا۔ آج روزہ نہیں ہے۔ ناشتہ بھی کیا۔ دوپہر نتیجہ آیا تو خلافِ توقع مثبت تھا۔ یعنی کورونا ہوچکا ہے۔ اطلاع کے بعد گھر میں ایک دم خاموشی چھا چکی ہے۔ اپنے اوپر جو اعتبار تھا وہ تھوڑا چٹخ سا گیا لیکن بہرحال اب تیر کمان سے نکل کر لگ چکا ہے۔

فوری طور پر احتیاطی تدابیر یعنی کمرے میں بند رہنے کو مزید سخت کردیا ہے۔ ڈاکٹر نے سربیکس زی، ایزومیکس اینٹی بائیوٹک، وٹامن سی، پیناڈول شروع کرا دی ہیں۔ اینٹی بائیوٹک سے متعلق ذہن میں الٹے سیدھے خیالات ہیں اس لیے منگوا تو لی لیکن شروع نہیں کی۔

اگرچہ روزہ نہیں ہے لیکن افطار میں پھل کھانے کو دیے گئے۔ بخار سارا دن رہا لیکن جسم سے پسینہ بھی جاری رہا۔ ہاتھ رکھنے سے ماتھا گرم محسوس نہیں ہوتا۔ یخنی اور مٹر کا سوپ آج غذا میں شامل ہوچکا ہے۔ شام 7 بجے سے ہی جو نیند کا غلبہ تھا اس نے فون بند کرکے سونے پر مجبور کیا۔ رات خوفناک تھی، ساری رات لڑائی جھگڑے کے خواب آتے رہے۔ ایک موقع ایسا بھی تھا جب محسوس ہوا کہ بلغم کے ساتھ خون آ رہا ہے لیکن ایسا تھا نہیں۔ چائے پینے کے بعد بلغم تھا جو زنگ زدہ محسوس ہو رہا تھا۔

دوائیاں: سربیکس زی، سی اے سی، پیناڈول

علامات: نچلے درجے کا بخار، کمر درد، نزلہ

چوتھا دن (4 مئی بروز پیر)

ساری رات خوفناک خواب کے بعد صبح ساڑھے 11 بجے آنکھ کھلی نہیں بلکہ زبردستی اٹھنے کا فیصلہ کیا۔ فون بند کردیا تھا اس لیے نیند پُرسکون تھی۔ بخار محسوس نہیں ہو رہا لیکن بُری خبر یہ ہے کہ اہلیہ نے گلے میں درد اور معمولی کھانسی کی شکایت کردی ہے۔

تھرمامیٹر کے مطابق بخار 100 کے قریب ہے۔ آج سونگھنے اور چکھنے کی حس کافی حد تک کام نہیں کر رہی۔ عجب غنودگی طاری ہے۔ صبح پیناڈول لی اور ناشتہ کیا۔ بمشکل آدھا ہی پراٹھا کھایا۔ کمر درد کم یا کسی حد تک ختم ہوچکا ہے۔ سر میں جیسے نزلہ جم گیا ہے کیونکہ آج نزلہ بہہ نہیں رہا ہے۔ بلغم تھوڑا بہت تھوکنا پڑ رہا ہے۔

آج اینٹی بائیوٹک استعمال کرنا شروع کردی ہے جس سے شاید پیٹ معمولی سا خراب ہورہا ہے۔ جوشاندہ اور چائے پی گئی۔ دوپہر کے کھانے میں شوربے والا سالن اور ایک روٹی کھائی گئی۔ آج کی اصل پریشانی بیگم کی خرابی کی جانب گامزن صورتحال ہے۔ بہرحال دعا ہے کہ اللہ خیر کرے۔

آج نہانے کے بعد بھی پسینہ پسینہ جسم ہے۔ شاید کراچی کا موسم ہے یا کورونا کی علامت۔ کینوں کا جوس بھی منگوا کر پیا گیا۔ وٹامن ڈی کا انجیکشن منگوایا ہے جو ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق لگوانا نہیں بلکہ چمچ میں ڈال کر پینا ہے۔ ابھی ٹیبل پر رکھا ہے۔ کلوروکوئین بھی منگوائی ہے (یاد رہے کہ کلوروکوئین کا استعمال اب خطرناک قرار دیا جا رہا ہے۔ براہِ کرم ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر کوئی دوائی استعمال مت کریں۔)

دوائی: سربیکس زی، سی اے سی، ایزومیکس، ہائڈرو کلوروکوئین

پانچواں دن (5 مئی بروز منگل)

رات بہت بہتر گزری، گزشتہ روز چونکہ اینٹی الرجی نہیں لی تھی اس لیے نیند بالکل ویسی ہی تھی جیسی کورونا سے پہلے تھی۔ خوفناک خوابوں سے بھی جان چھوٹی رہی۔ آنکھ صبح 9 بجے خود ہی کھل گئی۔ کمر میں درد اور جسم ٹوٹتا محسوس ہورہا ہے لیکن بخار اٹھنے کے فوری بعد چیک کیا جو 5 روز میں پہلی مرتبہ نہیں ہے۔

آج گزشتہ روز کی طرح غنودگی نہیں ہے لیکن چستی بھی نہیں ہے۔ خوشبو اور ذائقے کا احساس ندارد۔ 12 بجے کے قریب بخار دوبارہ ہوچکا تھا لیکن نچلے درجے کا، جسم پسینہ پسینہ ہوتا رہا اور غنودگی کی کیفیت بھی رہی۔ آج عجب ہی دن تھا۔ آدھا گھنٹہ بہتر اور آدھا گھنٹہ ڈاؤن۔ آج کے دن سے یہ بھی سیکھا کہ آئیسولیشن میں کچھ ہلکا پھلکا کھانے کو اپنے ساتھ رکھیں۔ اگر گزشتہ 5 دنوں کا موازنہ کریں تو آج کا دن اب تک کا سب سے مشکل دن تھا۔ طبعیت ایسے جیسے کلیجہ منہ کو آئے گا، بخار نچلے درجے کا ہی ہے۔

دوائی: کلوروکوئین، ایزومیکس، سربیکس زی، سی اے سی، زرٹیک

چھٹا دن (6 مئی بروز بدھ)

رات 12 بجے جو سویا تو صبح 12 آنکھ کھلی، نیند گہری ضرور تھی لیکن رات اور صبح متعدد مرتبہ آنکھ کھلی تھی، رات اینٹی الرجی لی تھی۔ خوفناک خواب بھی تمام رات ساتھ ہی تھے۔ 12 سے 3 بجے تک بخار نہیں تھا۔ کمر میں درد ہے۔ طبعیت میں بظاہر کوئی خرابی نہیں بس چستی نہیں ہے۔ پنکھا بند کرنے کا دل چاہ رہا ہے۔ شام 6 بجے کے قریب نچلے درجے کا بخار دوبارہ آچکا ہے۔ نیند کی کیفیت ہے۔ کوئی کام بھی نہیں ہوسکتا چاہے ٹی وی دیکھنا ہو یا کتاب پڑھنا، کیونکہ کچھ دیر میں ہی طبعیت مچلنے لگتی ہے۔

ساتواں دن (7 مئی بروز جمعرات)

صبح کا آغاز دیر سے ہوا لیکن طبعیت ایسی بوجھل کے اللہ معافی۔ آج طبعیت میں مزا نہیں تھا۔ نچلے درجے کا بخار آتا جاتا رہا۔ پچھلے دنوں کی مانند ایسا کم از کم نہیں تھا کہ بخار اترا ہی نہ ہو۔ کھانا کھانے کے بعد آج شدید بدہضمی نما صورتحال رہی۔ طبعیت اس قدر بوجھل کہ ٹوٹکے، گرم چیزیں سب کی سب دھری رہ گئیں۔ بہرحال دن کسی نا کسی طرح گزر ہی گیا۔

آٹھواں دن (8 مئی بروز جمعہ)

پچھلے ہفتے اسی دن علامات ظاہر ہونا شروع ہوئی تھیں، آخری مرتبہ دفتر بھی جمعہ کو ہی گیا تھا۔ آج ایک خاص بات یہ تھی کہ رات کو بچپن کے اچھے خواب ہمراہی تھے۔ ناشتہ وغیرہ کیا اور آج طبعیت گزشتہ روز کے مقابلے میں کافی بہتر ہے۔ بخار بھی صبح نہیں تھا۔ آج کی بُری خبر یہ ہے کہ بالکل ویسی ہی علامات اہلیہ میں بھی ظاہر ہونا شروع ہوچکی ہیں جو آج سے ہفتہ قبل میرے ساتھ تھیں۔ بہرحال جو اللہ کی رضا۔ سوچ یہی ہے کہ اگر اہلیہ بھی کورونا کی گرفت میں آگئیں تو بچوں کا کیا ہوگا۔

نواں دن (9 مئی بروز ہفتہ)

آج کا دن پچھلے تمام دنوں سے بہتر ہے۔ پہلی مرتبہ صبح اٹھنے کے ساتھ محسوس ہوا کہ گرمی ہو رہی ہے، حقیقی گرمی۔ بخار گزشتہ روز سے نہیں ہے۔ کل ایزومیکس کی خوراک مکمل ہوگئی تھی۔ اہلیہ کو بھی ڈاکٹر کے مشورے سے ایزومیکس شروع کردی ہے۔ لیکن ہائیڈرو کلوروکوئیں سے اجتناب کا کہا گیا ہے کیونکہ شاید اس سے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

آج سارا دن بخار نہ ہونے کے ساتھ ساتھ سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت واپس آچکی ہے جو عجب خوشی فراہم کر رہی ہے۔ مجموعی دن کو سب سے بہتر قرار دیا جا سکتا ہے۔ سندھ حکومت کی مہربانی ہے کہ گھر پر ٹیسٹ سیمپل کے لیے ٹیم بھیج دی ہے جس نے تمام افراد کا سیمپل لے لیا ہے۔

10واں دن (10 مئی بروز اتوار)

سارا دن بخار نہیں تھا لیکن دوپہر 4 بجے سے رات 11 تک نچلے درجے کے بخار نے سیشن لگایا۔ باقی تمام چیزیں معمول کے مطابق رہیں۔ خوشبو اور ذائقے کی حس واپس آچکی ہے۔ دوائیاں صرف وٹامن وغیرہ کی لے رہا ہوں۔ آج بچوں کی ٹیسٹ رپورٹ کا انتظار رہا لیکن شاید کچھ دیر لگے لگی اور آج اتوار بھی ہے۔

11واں دن (11 مئی بروز پیر)

رات نیند میں کافی خلل رہا۔ اس کی وجہ عدالت میں لگے دفتر کے ایک کیس کے فیصلے کا انتظار بھی تھا۔ صبح بخار نہیں تھا جو آج بھی 4 بجے شروع ہوا ہے۔ مجھے آج ڈپٹی کمشنر جنوبی کے دفتر سے کال آئی جس میں بتایا گیا کہ آپ کا ٹیسٹ مثبت ہے۔ مجھے یہی توقع تھی کیونکہ سیمپل 9 دن بعد لیا گیا تھا جو بہرحال جلدی تھا۔ بچوں اور اہلیہ کی رپورٹس کا انتظار تھا لیکن وہ تیار نہیں ہوئیں تھی۔

12واں دن (12 مئی بروز منگل)

رات نیند دیر سے آئی اور ساری رات ڈراؤنے خواب آتے رہے۔ جیسے کوئی خوف کی کہانیاں زیرِ گردش ہوں اور میں اس کا ولن۔ آج کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ سندھ حکومت نے تمام گھر کے ممبران کے ٹیسٹ کی رپورٹ جاری کردی۔ میرے علاوہ سب لوگ کورونا منفی ہیں۔ عجب اطمینان اور سرشاری کا احساس تھا۔

بہرحال آج کا دن جسمانی صحت کے حوالے سے بہتر تھا، دن کے کسی حصے میں ہلکا بخار ضرور ہوتا ہے لیکن کیفیت بہتر کہہ سکتے ہیں۔ ذائقہ اور سونگھنے کی حس مکمل طور پر بیدار ہے۔ کچھ ڈپریشن بہرحال گھیرا ڈالے ہوئے ہے۔ اب اصل جنگ کورونا سے نہیں بلکہ ذہنی کیفیت سے ہے جو 12 روزہ محاصرے کے بعد دگرگوں ہے۔

13واں، 14واں، 15واں اور 16واں دن (13، 14، 15 اور 16 مئی بروز بدھ، جمعرات، جمعہ اور ہفتہ)

4 دن کی کہانی ایک ساتھ اس لیے کہ روزانہ ایک جیسی باتیں لکھنا بے مقصد ہے۔ اب یہ ڈپریشن ہے، انزائٹی ہے یا حقیقت۔ رات ایسے گزرتی ہے کہ سینے پر شدید دباؤ، سانس لینے کی نالی کو پکڑ کر کوئی مروڑ رہا ہو۔

دن اچھے گزرتے ہیں اس لیے کہ آدھا وقت تو رات ضائع ہونے والی نیند کو پورا کرنے میں گزرتا ہے۔ ہلکے بخار نے دورانیہ کم کردیا ہے، جو ابتدائی ایام میں سارا دن، پھر دوسرے ہفتے کے دوران دوپہر 4 بجے سے رات 11 بجے تک اور اب رات 9 بجے سے 12 بجے کے بیچ ہوتا ہے۔ بخار چیک کرنے کی ضرورت ہی اس لیے پیش آتی ہے کیونکہ جسم تکلیف کا احساس دلواتا ہے۔

تیسرے ٹیسٹ کا سیمپل 16 مئی کی شام سندھ حکومت کی ٹیم لے گئی تھی، رپورٹ کا انتظار ہے۔ پہلے لگتا تھا کہ بخار نہ اترا تو رپورٹ پہلی 2 مرتبہ کی طرح مثبت ہی آئے گی، پھر صحافی جواد شعیب سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ 20 دن ہوچکے ہیں، آخری 2 ٹیسٹ منفی آچکے ہیں اور اب بھی بخار ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹر عمر سلطان نے بھی کہا کہ بخار صرف انفکیشن کی علامت نہیں بلکہ بعض مرتبہ مدافعتی نظام کی سمجھیں جیسے ٹیوننگ ہو۔ اگر خدا نہ کرے یہ نہیں اترتا تو بلڈ کلچر کرانا ہوگا۔ ٹیسٹ کا سیمپل لیا جاچکا ہے۔ ٹیسٹ منفی آئے گا اس امید اور خوشی میں کمرے کی خوب جم کر صفائی کی ہے، ہر چیز کو ڈیٹول کے اسپرے سے صاف کیا ہے۔ اب دیکھیں رائیگاں جاتی ہے یا؟

17واں دن (17 مئی بروز اتوار)

دن کا آغاز دیر سے ہی ہو رہا ہے کیونکہ رات بے چین گزرتی ہے۔ کبھی سانس رکتا اور کبھی ڈراؤنے خیال ستاتے ہیں۔ دن کی نیند بھی ظاہر ہے کوئی اچھے معیار کی نہیں ہوتی، آج کا دن اچھا تو کم از کم نہیں کہہ سکتے۔ صبح سے ہی بوجھل پن طاری ہے۔ طبعیت بھاری بھاری سی ہے۔ بخار بھی آج دوپہر سے ہی ہوگیا جو رات تک تھا اور پھر خود ہی اتر گیا۔

اب معلوم نہیں آج دوپہر سے بخار تھا یا روز ہی ہورہا ہے اور احساس نہیں تھا۔ بہرحال رات 10 بجے تیسرے ٹیسٹ کی رپورٹ ملی جو خلافِ توقع پھر مثبت ہے۔ ہونی نہیں چاہیے تھی بہرحال کوئی ایسی خطرناک صورتحال نہیں ہے۔ اب ٹیسٹ جمعے کو علامات ظاہر ہونے کے 22 دن بعد ہوگا۔ اس کا منفی آنا زیادہ متوقع ہے۔ دوائیاں صرف سربیکس اور سی اے سی ہے۔ الٹے سیدھے ٹوٹکے والے مشروبات نہیں پیے جا رہے اب، صرف چائے پر گزارا ہے۔

18واں اور 19واں دن (18 اور 19 مئی بروز پیر اور منگل)

وہی دن وہی رات۔ آج دن تو اچھا گزرا۔ شام بخار نے پھر گھیرا اور رات کو اتر گیا۔ رات جلدی سو گیا تھا، مجموعی صورتحال یہ ہے کہ شام سے پہلے تک کا دن اچھا گزرا، دفتر کی آن لائن میٹنگ میں بھی شرکت کی۔

19 مئی کا دن کسی طور پر اچھا نہیں گزرا، سارا دن غنودگی کی کیفیت رہی اور پھر دوپہر کو بخار نے اپنا شکار بنایا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دوبارہ سے وہ ابتدائی دن لوٹ آئے ہیں جب کورونا کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوئی تھیں، وہی کیفیت، وہی بدن میں تکلیف۔ دائیں پاؤں اور ٹانگ میں تکلیف تھی ایسا لگتا تھا سوجن ہے لیکن واضح آثار نہیں محسوس ہوئے، ہوسکتا ہے کوئی کھنچاؤ ہو۔ بہرحال جو بھی ہے معاملہ کچھ بدمزہ سا بھی ہے۔ جیسے جیسے دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے ضبط کمزور اور جھنجھلاہٹ حاوی ہو رہی ہے۔ پھر بھی کوشش یہی ہے کہ جذبہ سلامت رہے۔

20واں دن (20 مئی بروز بدھ)

صبح کا آغاز اس لیے دیر سے ہوا کہ رات بھر بجلی کی آنکھ مچولی جاری رہی۔ کوئی ایسا نہیں تھا جو جنریٹر چلا سکتا کیونکہ یہ کام مجھے ہی کرنا ہوتا ہے۔ آج دن کا آغاز تو اچھا ہوا ہے، آگے کیا ہوتا ہے دیکھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ایک دن اچھا گزرنے کے بعد اب ایک دن قدرے بُرا گزرنے کی باری ہے۔ دن کا اختتام بس ہو ہی گیا لیکن مزیدار نہیں کہا جائے گا۔ سرِشام ہی بخار نے آ لیا تھا جو رات 12 بجے اپنی روزانہ کی عادت کے مطابق رخصت ہوا۔ اس قید کو 20 دن بیت گئے۔ یقین نہیں آتا۔

21واں دن (21 مئی بروز جمعرات)

ٹیسٹ کے نمونے لینے کے لیے ٹیم کو شیڈول کے مطابق جمعہ کو آنا تھا، صبح فون آیا کہ ڈپٹی کمشنر جنوبی کے دفتر سے آپ کا سیمپل لینے کا ارادہ ہے۔ راستہ سمجھایا اور انتظار جلد ہی ختم ہوا۔ سیمپل کے ساتھ اس مرتبہ حوصلہ بھی دے کر گئے۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بہت کے مصداق کسی کے دو بول بھی کافی ہیں۔

عید کی تعطیلات سے قبل بینک کے دفتری کام کا آج آخری دن تھا اس لیے صبح جلدی اٹھا، دفتر کے بھی دو تین معملات نمٹانے تھے۔ دفتر میں میری وجہ سے بہت سے لوگوں کے معملات پھنسے ہوئے ہیں۔ آج دن کا آغاز توانائی بھرا تھا جیسے بالکل ٹھیک ہوچکا ہو سب۔ شام میں بخار اسی درجے کا تھا جو روزانہ ہوتا ہے لیکن آج بخار کے ساتھ جسم ٹوٹنے اور پاؤں جلنے والا معاملہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سندھ حکومت کا ایک نوٹیفکیشن بھی نظر سے گزرا کہ بغیر علامات والا شخص اور علامات ختم ہونے کے 3 دن بعد والا شخص آئیسولیشن ختم کرسکتا ہے۔ ٹیسٹ ضروری نہیں۔ اب اللہ جانے!

22واں اور 23واں دن (22، 23 مئی بروز جمعہ اور ہفتہ)

22 مئی کو بس دوپہر کے بعد سے بخار محسوس ہو رہا تھا اس کے علاوہ دن بھر کچھ ایسا خاص قابل ذکر نہیں ہوا۔ اگلے دن کا آغار قدرے تاخیر سے ہوا۔ دوپہر تک ملنے والی سب سے اچھی خبر یہ تھی کہ 21 مئی کو لیے جانے والے سیمپل کے ٹیسٹ کا نتیجہ منفی آیا ہے یعنی اب کورونا نہیں ہے۔ اب کشمکش یہ ہے کہ دوسرا ٹیسٹ کرایا جائے یا نہیں کیونکہ ڈاکٹرز کی رائے متضاد ہے۔ سندھ حکومت کا نوٹیفیکشن اور ان کے ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ بس اب گھومو پھرو۔ ذاتی معالج کا مشورہ ہے کہ چونکہ بخار اترا نہیں اس لیے ایک مرتبہ پھر ٹیسٹ کروایا جائے۔

24واں، 25واں اور 26واں دن (24، 25 اور 26 مئی بروز اتوار، پیر اور منگل)

اب روزانہ اس لیے نہیں لکھا جاتا کیونکہ کوئی نئی بات رونما نہیں ہو رہی۔ نئی بات یہ ہے کہ سرِشام ہی بخار ہوتا ہے لیکن اب جسم پہلے کی طرح اشارہ نہیں کرتا، کمر درد ہوتا ہے بار بار ہوتا ہے، گردن میں بھی درد ہوتا ہے، کمزوری بھی غالب آتی ہے لیکن بہرحال اب حالات پہلے سے زیادہ اچھے ہیں۔ مجموعی دن بغیر کسی احساسِ بیماری کے گزرتا ہے یعنی فِٹ۔

عید کے دن تھے۔ بچے دروازے پر انتظار کرتے ہیں، بہانے بہانے سے دیدار کے لیے دروازہ بجاتے ہیں، لیکن اب بھی احتیاط برتی جارہی ہے کہ وہ محفوظ رہیں، ڈاکٹر کے مشورے سے خون کے مکمل تجزیے اور ملیریا کا ٹیسٹ کرایا جو الحمداللہ بالکل ٹھیک ہے۔

بلڈ کلچر کی رپورٹ کا انتظار ہے۔ ڈاکٹر کو شک ہے کہ بخار کی کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے جیسے ٹائیفائڈ، سڑک پر چہل قدمی بھی کر رہا ہوں، عید کی وجہ سے ٹیسٹ نہیں ہوسکا ہے۔ دیر سویر بھی اللہ کی مصلحت کا حصہ ہے۔ جہاں اتنے دن وہاں کچھ اور سہی۔ ٹیسٹ کے لیے ایک اور سیمپل عید کے تیسرے روز لیا جاچکا ہے اور ایک مرتبہ پھر میری خصوصی درخواست پر سارے گھر والوں کے ٹیسٹ سیمپل لیے گئے تاکہ ایک مرتبہ میں ہی مکمل اطمینان ہوسکے۔

27واں دن (27 مئی بروز بدھ)

دن کا آغار پہلے کی طرح بڑے آرام سے ہوا۔ چہل قدمی بھی کی اور سڑک کے کنارے بیٹھ کر کافی دیر تک گرم ہوا سے لطف اندوز ہوئے اور آتی جاتی گاڑیوں کا نظارہ کیا۔ اس کے بعد رات 8 سے 12 بجے بخار کا مزہ بھی چکھا۔ آج بلڈ کی ابتدائی کلچر رپورٹ آئی ہے جس میں معمولی درجے کا انفیکشن تشخیص ہوا ہے جس کے لیے اینٹی بائیوٹک شروع کردی ہے۔ ہوسکتا ہے بخار کی وجہ بھی یہی ہو۔

28واں دن (28 مئی بروز جمعرات)

دن کا آغار فون کال کے ساتھ ہوا۔ سرکاری نمبر تھا، اطلاع دی گئی کہ آپ سمیت تمام اہل خانہ کے ٹیسٹوں کا نتیجہ منفی آیا ہے، یعنی آزادی کی نوید۔

فوری طور پر کمرے کی صفائی شروع کردی، ڈیٹول اور بلیچ ملے پانی کا اچھی طرح اسپرے کیا۔ کچرہ ٹھکانے لگایا، پانی کی بڑی بوتلوں کے اوپر سے اسپرے کر کے باہر رکھ دیا، ٹوتھ برش بھی کوڑے دان کی نذر ہوا، کپڑے واشنگ مشین میں ڈال کر ڈیٹول اور بلیچ سے دھلنے لگے ہیں، کم از کم چادر اور تولیے سمیت 3 شفٹیں لگیں گی۔

کمرہ اسپرے کے بعد بند کردیا ہے۔ تکیے اور چادریں دھوئی جائیں گی، فرش پر بھی اچھی طرح اسپرے کردیا ہے، دروازے اور الماریوں بالخصوص ان کے ہینڈلوں پر اچھی طرح اسپرے کیا گیا ہے۔ کمرے کو دیر رات کو یا کل کھولنے کا ارادہ ہے۔ اینٹی بائیوٹک ابھی کچھ دن چلے گی، سی اے سی اور سربیکس بھی ایک ہفتہ اور چلانے کا ارادہ ہے۔

حجامت سمیت گھر کے لیے ضروری خریداری کے بعد شدید تھکاوٹ نے یکدم احساس دلایا کہ کورونا نام کی کوئی بیماری ہو چلی ہے۔ رات 8 بجے معمول کے مطابق بخار تھا۔ پسینہ اور پاؤں جب بھی جلیں تو تھرمامیٹر نچلے درجے کا بخار ہی ریکارڈ پر لاتا ہے۔ بس اب کورونا کی کہانی کا سفر ختم ہوا جس نے رمضان، عید اور خوشی غمی سب کا احساس برابر کردیا تھا۔ اب کچھ دن اضافی اور پھر معمول کی احتیاط برتنی ہوگی۔

فواد احمد

نیو ٹی وی میں کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی کرتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔