میکماسٹر یونیورسٹی کی تحقیق میں ایسے شواہد پیش کیے گئے جن میں کپڑے سے بنے عام فیس ماسکس کو کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے موثر قرار دیا گیا، خصوصاً ایسے ماسک جن میں سوتی کپڑے کی کئی تہیں استعمال کی گئی ہوں، جو وائرل ذرات کو ماحول میں پھیلنے سے روکنے میں مدد دیتی ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ اہم نکتہ یہ نہیں کہ کچھ ذرات ماسک میں داخل ہوجاتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ کچھ ذرات رک جاتے ہیں، خاص طور پر وہ جو ماسک پہننے والا کھانسی اور چھینک کے ذریعے خارج کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مثالی صورتحال میں تو ہم ایسے ماسک کا استعمال چاہتے ہیں جو دونوں اطراف کام کرتا ہوں، یعنی پہننے والے کو ماحول سے بچا کر وائرل ذرات کو ہوا اور سفطح پر پھیلنے سے روکتا ہو۔
اس تحقیق میں دہائیوں پرانے شواہد سمیت نئے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا اور ایسسے ٹھوس ثبوت دریافت کیے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کپڑے اور کپڑے سے بنے ماسک ہوا اور سطح میں جراثیموں کی آلودگی کی شرح کم کرتا ہو۔
سائنسدانوں نے کہا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ کپڑا وائرل ذرات کو بلاک کرسکتا ہے یہاں تک کہ کچھ بڑے ذرات کو بھی۔
تحقیق کے نتائج جریدے اینالز آف انٹرنل میڈیسین میں شائع ہوئے۔
1960 اور 70 کی دہائیوں یں سائنسدانوں نے جائزہ لیا تھا کہ کیا کپڑے سے بنے ماسک پہننے والے سے ہٹ ککر دیگر کو تحفظ فراہم کرتا ہے یا نہیں، تو اس وقت دریافت کیا گیا تھا کہ 3 تہہ والا ماسک 99 فیصد تک جراثیم کی آلودگی کو کم کرتا ہے۔
ایک کمرشل ماسک عموماً سوتی کپڑے کی 4 تہوں سے بنا ہاتا ہے جو 99 فیصد تک ذرات کو بلاک کردیتا ہے بلکہ یہ میڈٰکل ماسک جتنا ہی موثر ہوتا ہے۔
کینیڈین سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ہماارا کام تو ایک پیچیدہ معمے کا ایک ٹکڑا ہے، اہم بات یہ ہے کہ ماسک بناتے ہوئے اس میں جتنی تہوں کا اضافہ کیا جائے گا، اندر اور باہر تحفظ اتنا زیادہ ہوگا، مگر اس سے سانس لینا مشکل ہوجائے گا، یہی وجہ ہے کہ 2 سال سے کم عمر بچوں اور سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کرنے والے افراد کو ماسک نہ پہننے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ کپڑے کے ماسکس کے لیے کونسا میٹریل اور ڈیزائن بہترین ثابت ہوسکتا ہے، جس سے بیشتر افراد کو خود ماسک تیار کرکے اپنے پیاروں کو محفوظ رکھنے میں مدد مل سکے گی۔
فیس ماسک کیوں ضروری ہے؟ اگر آپ کو معلوم نہ ہو تو جان لیں کہ کورونا وائرس کے بیشتر کیسز ایسے ہوتے ہیں جن میں متاثرہ افراد میں علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں یا کئی دن بعد نظر آتی ہیں۔
مگر سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس کے مریض علامات ظاہر ہونے سے پہلے بھی اس بیماری کو دیگر صحت مند افراد میں منتقل کرسکتے ہیں، اب وہ کھانسی، چھینک کے ذرات سے براہ راست ہو یا ان ذرات سے آلودہ کسی ٹھوس چیز کو چھونے کے بعد ہاتھ کو ناک، منہ یا آنکھوں پر لگانے سے۔