نقطہ نظر

معذور طلبا کو آن لائن تدریس میں درپیش مسائل مت بھولیے

پاکستان میں فیکلٹی، عملہ، یونیورسٹی انتظامیہ اور معاشرے کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معذوری کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ایک حالت کا نام ہے۔

یہ کورونا وائرس ہی ہے جس نے بہت تیزی کے ساتھ پڑھائی کے حصول کے طریقوں کو بدل کر رکھا دیا ہے۔ جہاں پہلے طلبا اسکول جاکر آمنے سامنے بیٹھ کر تعلیم حاصل کیا کرتے تھے، مگر اب اس وبا نے آن لائن طریقہ درس و تدریس میں بدلنے پر مجبور کردیا ہے۔

اب جبکہ تدریسی عملہ اور طلبا ورچؤل کمرہ جماعتوں کو وجود میں لا رہے ہیں، نئی نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کررہے ہیں، انٹرنیٹ کی مدد سے ہی ہوم ورک دیا جارہا ہے اور اس کا جائزہ لیا جارہا ہے تو یہ ساری صورتحال اساتذہ، طلبا اور تمام عملے کے لیے خاصی مشکل کا سبب بن رہی ہے۔

یہ بھی عین ممکن ہے کہ کئی طلبا اور اساتذہ اس تبدیلی کو باہمی کوششوں سے پڑھائی کا عمل بہتر بنانے کا ذریعہ تصور کرتے ہوں لیکن طلبا کا ایک بڑا حصہ اب بھی اپنی پڑھائی کا عمل جاری رکھنے سے قاصر ہے، اور وہ حصہ مختلف معذوریوں سے نبردآزما طلبا پر مشتمل ہے۔

لاہور کی ایک یونیورسٹی میں خصوصی ضروریات رکھنے والے کمپیوٹر سائنس کے طالب علم اقبال نے بتایا کہ 'میرے دوست میرا مذاق اڑاتے ہیں کیونکہ میں آہستہ آہستہ لکھتا ہوں'۔ ان جیسے کئی ایسے طلبا ہیں جن کی خصوصی ضروریات کو 'خدا کی طرف سے سزا' تصور کیا جاتا ہے۔

یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ چند معذور طلبا کے لیے آن لائن تعلیم کا حصول کسی نعمت سے کم نہیں کیونکہ اس طرح وہ نقل و حمل، ٹرانسپورٹ اور باہر کی دنیا میں اکثر آڑے آنے والی رکاوٹوں سے بچ جاتے ہیں، لیکن کچھ طلبا ایسے بھی ہیں جن کے لیے آن لائن پڑھائی کے اس تجربے نے مشکلات کو بڑھا دیا ہے جنہیں صرف طالبِ علم، استاد اور یونیورسٹی کے آپسی تعاون کی مدد سے ہی دُور کیا جاسکتا ہے۔

پائیدار ترقی کے مقاصد کے حصول کی خاطر مشمولہ تدریسی عمل کا ماحول پہلی سیڑھی ہے، جو تمام افراد کے مختلف سماجی، معاشی اور سیاسی پس منظر کو ایک چھت کے نیچے لاتے ہوئے ان میں عدم مساوات کو کم کرنے پر زور دیتا ہے۔

یہاں معذور طلبا کے تناظر میں چند تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جن کے ذریعے ان طریقوں کو نقل کیا جاسکتا ہے جنہیں اپنا کر امریکی یونیورسٹیاں اس مشکل وقت میں اپنے طلبا کی مدد کر رہی ہیں۔ ویسے تو یہ تجاویز سبھی کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہیں لیکن خاص طور پر خصوصی ضروریات رکھنے والے طلبا کے لیے یہ زیادہ کارآمد ثابت ہوں گی۔

پاکستان کے ہر اعلیٰ تعلیمی ادارے میں ان طلبا کی مدد کے لیے ایک فوکل پرسن مقرر ہونا چاہیے جنہیں آن لائن کورس کے دوران ان کی معذوری کے باعث دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اس طرح آن لائن کلاسوں کے دوران ڈپریشن اور انزائٹی (گھبراہٹ) کو ختم کرنے یا کم کرنے میں مدد ملے گی۔

چند مطالعوں کے مطابق آن لائن تدریس میں طلبا اپنی پوری توجہ پڑھائی پر مرکوز نہیں کرپاتے، جبکہ معذور طلبا کو توجہ مرکوز کرنے میں تو اور بھی زیادہ مشکل کا سامنا رہتا ہے، لہٰذا ہر ایک کی ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے کلاس کا دورانیہ طے کیا جائے اور اس بیچ وقفے بھی لیے جاتے رہیں، اس مقصد کے لیے ٹائمر کی مدد لی جاسکتی ہے۔

اکثر طلبا کو اپنا کام منظم انداز میں انجام دینے میں مشکل پیش آتی ہے، بعض اوقات معذور طلبا اپنا کام منظم انداز میں کرنے اور کام کی جگہوں کو سنبھالنے کی صلاحیتوں سے محروم ہوتے ہیں اور بعض اوقات انہیں شیڈول کی پیروی کرنے میں بھی مشکل پیش آسکتی ہے۔ ایسے طلبا پلانرز سے مدد حاصل کرسکتے ہیں تاکہ وہ اساتذہ کا دیا ہوا کام مقررہ وقت کے اندر جمع کرواسکیں۔ ان کے شیڈول میں روزانہ کی کلاس کی تیاری، ہوم ورک اور پڑھائی کا وقت شامل رکھا جائے۔

وہ سارے طالب علم جو کمپیوٹر اسکرینوں پر دیر تک نظریں گاڑے بیٹھے ہوتے ہیں انہیں تھکاوٹ، دھندلی نظر، سر درد اور پٹھوں کے کچھاؤ کی شکایت ہوسکتی ہے۔ معذور طلبا کے لیے تو اس سے بھی زیادہ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اگر طلبا تواتر کے ساتھ وقفے لے کر اپنے جسم، ذہن اور آنکھوں کو آرام دیں گے تو ان مسائل سے چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے۔

لکھے الفاظ کو آواز کی صورت دینے والے سافٹ ویئر کی مدد سے دستاویزات کو ایک آڈیو سبق میں بدلا جاسکتا ہے، اس طرح طلبا کو ہر لفظ پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس کے علاوہ ایسی بہت سی ایپلیکشنز دستیاب ہیں جو اسکرین کے کلر ٹیمپریچر میں تبدیلیاں پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں، یوں آنکھوں پر پڑنے والے بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔

معذور طلبا کو چاہیے کہ وہ کورس شروع کرنے سے پہلے ہی اپنے خدشات استادوں کو بتائیں اور اپنے ادارے کے آئی ٹی سینٹر سے رابطہ کریں، ممکن ہے کہ وہ ان کے لیے آن لائن تدریس آرام دہ بنانے کی غرض سے مطلوبہ سافٹ ویئر فراہم کردے۔

وہ طلبا جنہیں الفاظ کو ٹھیک سے ہجے کرنے یا لکھنے میں مشکل پیش آتی ہے وہ مائیکرو سافٹ ورڈ اور گرامرلی جیسے پروگراموں کو استعمال کرسکتے ہیں۔ اب تو تحریر سے متعلق ایسے کئی پروگرام دستیاب ہیں جو ہجے اور گرامر کی غلطیوں کی نشاندہی کردیتے ہیں اور اس کے علاوہ ان میں تحریر سے جڑے دیگر ٹولز بھی شامل ہیں۔ طلبا آواز کو تحریر میں تبدیل کرنے والے سافٹ ویئر کو بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ پاکستان کی یونیورسٹیاں اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام طالب علموں کو ایسے سافٹ ویئر تک رسائی حاصل ہو۔

اگر 'نوٹ لکھنے' میں مسئلہ پیش آتا ہے اور اس سے پہلے خصوصی ضروریات رکھنے والے طلبا اس کام کے لیے کسی قسم کی مدد حاصل کر رہے تھے تو وہ اب آن لائن لیکچروں کو ریکارڈ کرسکتے ہیں یا پھر اپنے استادوں سے ریکارڈنگ حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ طلبا کو اساتذہ کی جانب سے دی جانے والی پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کی نقول تک بھی رسائی دی جائے تاکہ انہیں نوٹس بنانے میں مدد مل سکے۔

دوسری طرف پاکستان کی یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ وہ اپنی فیکلٹی کے لیے ایس او پیز تیار کریں اور خصوصی ضروریات رکھنے والے طلبا کی سہولت کے لیے ٹریننگ اور ورکشاپ کا اہتمام کریں۔ اساتذہ کو خصوصی ضروریات رکھنے والے طلبا کے ساتھ کھل کر گفتگو کرنے اور ان کا مؤقف یا ان کی رائے جاننے کے لیے کہا جائے۔ آن لائن کورس کے آغاز پر ہی طلبا کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ استاد انہیں کتنی مرتبہ معلومات بھیجا کریں گے اور طالب علم کے رابطہ کرنے پر اساتذہ اوسطاً کتنے وقت میں جواب دیں گے۔

اپنے کلاس کے ساتھیوں کی نسبت خصوصی ضروریات رکھنے والے طلبا میں ٹیکنالوجی سے واقفیت کم یا زیادہ ہوسکتی ہے۔ اسی لیے ایسے طلبا کے لیے خصوصی کورس تیار کیے جائیں تاکہ وہ ورچؤل کمرہ جماعت، فاصلاتی تدریس اور جدید ٹیکنالوجی سے آگاہی حاصل کرسکیں۔

پاکستان میں فیکلٹی، عملہ، یونیورسٹی انتظامیہ اور معاشرے کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معذوری کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ایک حالت کا نام ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان افراد کی ضروریات کو پورا کرنے اور ان کی مشکلات کو کم سے کم کرنے کے ساتھ ساتھ مسائل میں گھرے شہریوں کو مرکزی دھارے میں داخل کرنے میں ان کی مدد کریں۔


یہ مضمون 22 مئی 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

محمد علی فلک

لکھاری ٹیکساز اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں فُل برائٹ پی ایچ ڈی امیدوار ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔