صحت

کورونا وائرس کا علاج جون میں دستیاب ہونے کا امکان

لگ بھگ دنیا کے ہر کونے میں پہنچ جانے والی اس بیماری کے علاج کے لیے دنیا بھر میں سائنسدان کوششیں کررہے ہیں۔

نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 اب 50 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کرچکی ہے جبکہ 3 لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

لگ بھگ دنیا کے ہر کونے میں پہنچ جانے والی اس بیماری کے علاج کے لیے دنیا بھر میں سائنسدان کوششیں کررہے ہیں۔

اب برطانیہ سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے اہم ترین دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس کا پہلا علاج اگلے ماہ تک دستیاب ہوجائے گا۔

یہ دعویٰ سائنسدانوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر ادویات کی آزمائش کے بعد کیا گیا۔

اس تحقیق میں 10 ہزار سے زائد مریضوں کو شامل کیا گیا ہے جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی اور انہیں ایچ آئی وی، انسداد ملیریا سمیت 5 ادویات استعمال کرائی جارہی ہیں جو پہلے ہی مختلف امراض کے علاج میں مدد فراہم کررہی ہیں۔

اس تحقیق کے اولین نتائج جون کے آخر میں سامنے آسکتے ہیں اور محققین کا کہنا ہے کہ اگر وہ کامیاب رہے تو اس علاج کو فوری طور پر برطانیہ بھر میں متعارف کرایا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ تمام ادویات پہلے ہی دیگر مقاصد کے لیے لائسنس ہیں تو ان کے استعمال کے لیے ریگولیشن کے عمل سے گزرنا نہیں پڑے گا۔

اس تحقیق میں شامل آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مارٹن لانڈرے نے ایک آن لائن بریفننگ کے دوران بتایا کہ جن اقسام کی ادویات کو ہم نے منتخب کیا ہے، ان کے استعمال کی مشق بہت تیزی سے بدل رہی ہے، ڈاکٹروں ان ادویات کی تجویز کے لیے آزاد ہیں اور کووڈ کے علاج کے لیے تاخیر نہیں ہوگی، بلکہ ان کا استعمال فوری طور پر ہوسکے گا۔

جن ادویات کو اس تحقیق میں شامل کیا گیا ہے ان میں لوپناویر۔ریٹوناویر (ایچ آئی وی کے علاج کے لیے عام استعمال ہونے والی)، ڈیکسا میٹاتھاسون (ورم میں کمی لانے والا ایک قسم کا اسٹرائیڈ) اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کردہ ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن شامل ہیں۔

ان کے علاوہ اینٹی بائیو ٹیک azithromycin اور ورم کے علاج کے لیے انجیکشن کی شکل میں دی جانے والی دوا tocilizumab بھی تحقیق میں بھی شامل ہیں۔

پروفیسر مارٹن لانڈرے نے بتایا کہ اگر کوئی دوا اموات کی شرح میں 20 فیصد تک بھی کمی لاسکے تو ہزاروں زندگیوں کو بچانا ممکن ہوجائے گا۔

تاہم ان کا ماننا ہے کہ مختلف تھراپیز کا امتزاج زیادہ مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا 'اموات کا خطرہ 20 فیصد تک کم ہونا سننے میں زیادہ نہیں لگتا، تاہم اگر ہم متعدد ادویات کو دریافت کرسکے جن میں سے ہر ایک خطرے کو 20 فیصد تک کم کردیتی ہے، تو ہم اموات کی شرح کو فوری طور پر 50 فیصد تک کم کرسکیں گے'۔

ان کا کہنا تھا 'زیادہ امکان یہ ہے کہ صرف ایک دوا فاتح ثابت نہیں ہوگی، زیادہ امکان یہی ہے کہ متعدد ادویات ہی مددگار ثابت ہوسکیں گی'۔

تحقیقی ٹیم کے قائد پروفیسر نک ہوربے نے خبردار کیا کہ کورونا وائرس برطانیہ میں ایک مستقل وبا کی شکل اختیار کرسکتا ہے اور طویل المعیاد بنیادوں پر ادویات کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا 'چاہے ہم ایک موثر ویکسین حاصل ہی کیوں نہ کرلیں، تو بھی میرے خیال میں اس وائرس کا خاتمہ ناممکن ہوگا'۔

انہوں نے مزید کہا 'وہ شاید ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے، تو ہمیں ویکسینشن کے ذریعے اس کے اثر کو جس حد تک ممکن ہو کم تو کرنا ہوگا مگر جو اس کا شکار ہوجائیں، ان کے لیے موثر علاج کی ضرورت ہوگی'۔

کورونا وائرس کا ایک مریض کتنے لوگوں کو بیمار کرسکتا ہے؟

کورونا وائرس کس عمر کے افراد کو زیادہ شکار کرسکتا ہے؟

کورونا وائرس کے مریض کتنے دنوں تک بیماری دیگر افراد میں منتقل کرسکتے ہیں؟