لا جولا انسٹیٹوٹ فار امیونولوجی کی اس تحقیق میں کووڈ 19 کے 20 صحتیاب مریضوں کا جائزہ لیا گیا۔
محققین نے بتایا کہ کہ مدافعتی نظام معمولی ہو تو یہ فکرمندی کی بات ہوسکتی ہے، مگر ہم نے کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کے خلاف ٹی سیل کا بہت فعال ردعمل دیکھا، اور یہی اسپائیک پروٹین اس وقت بیشتر تحقیقی کام میں ہدف ہے، یہ نتائج ویکسین کی تیاری کے حوالے سے زبردست خبر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وائرس کے خلاف بہترین ویکسین اور وبا کے کنٹرول کے اقدامات مدافعتی ردعمل کو سمجھنے میں چھپے ہیں، لوگ فکرمند ہیں کہ کووڈ 19 کے خلاف جسم میں امیونٹی پیدا نہیں ہوتی اور لوگوں میں دوبارہ وائرس کی تشخیص کی رپورٹس ان خدشات کو بڑھا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مگر یہ جاننا کہ ایک عام فرد کس حد تک مضبوط مدافعتی ردعمل ظاہر کرتا ہے، وہ ان خدشات پر قابو پانے میں مدد دے سکے گا۔
تحقیقی ٹیم کی اس سے پہلے ایک تحقیق میں بائیو انفارمیٹیکس ٹولز کو استعمال کرکے پیشگوئی کی گئی تھی کہ نیا نوول کورونا وائرس انسانی ٹی سیلز کو متحرک کرسکتا ہے۔
اس نئی تحقیق میں دیکھا گیا کہ اس بیماری کے شکار افراد میں صحتیاب ہونے کے بعد یہ ٹی سیلز کس حد تک کام کرتے ہیں اور وائرس کو شناخت کرسکتے ہیں۔
سائنسدانوں نے وائرس کے پروٹین ذرات کو 2 گروپس میں تقسیم کیا، ایک میں وائرل جینول کے تمام پروٹینز کو شامل کیا گیا جو کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین میں ہوتے ہیں۔
دوسرے گروپ میں اسپائیک پروٹین کی سطح پر توجہ دی گئی کیونکہ اس وقت جن ویکسینز کی تیاری پر کام ہورہا ہے، ان سب میں کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کو ہی ہدف بنایا جارہا ہے۔
محققین نے مضبوط سی ڈی 4 یا مددگار ٹی سیل ردعمل کو دریافت کیا جو اینٹی باڈی بننے میں مدد دیتا ہے، اس کے علاوہ تحقیق میں شامل تمام صحتیاب افراد میں وائرس کو مارنے والے ٹی سیلز کے بننے کے عمل کو بھی دیکھا گیا جو وائرس سے متاثرہ خلیات کو قابو کرتے ہیں۔
محققین نے کہا کہ ہم نے دریافت کیا کہ وائرس کے شکار ہونے کے بعد ہم انسانی جسم میں ایک روایتی اور کامیابی اینٹی وائرل ردعمل کی توقع کرسکتے ہیں۔