کینیڈین میڈیکل ایسوسی جرنل میں شائع تحقیق میں آسٹریلیا، کینیڈا، امریکا اور متعدد ممالک میں پونے 4 لاکھ کووڈ 19 کے کیسز کا جائزہ لیا گیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج سے اہم نئے شواہد سامنے آتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عوامی طبی اقدامات اس وبا کو پھیلنے کی رفتار میں کمی لاسکتے ہیں۔
اس تحقیق میں 29 مارچ 2020 کے کیسز کا موازنہ 27 مارچ کے کیسز سے کیا گیا اور دیکھا گیا کہ عرض البلد، درجہ حرارت، نمی، اسکولوں کی بندش، اجتماعات پر پابندی اور سماجی دوری کے اقدامات سے اس وائرس کے پھیلنے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
انہوں نے دریافت کیا کہ عرض البلد یا درجہ حرارت سے اس وائرس کے پھیلاؤ میں کوئی تعلق نہیں جبکہ نمی اور پھیلاؤ میں کمی کے درمیان کمزور تعلق دریافت کیا گیا۔
آسان الفاظ میں موسم جتنا بھی گرم ہوگا اس سے وبا کے پھیلنے کی رفتار پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے اور اس نتیجے نے سائنسدانوں کو حیران کردیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک ابتدائی تحقیق میں عندیہ دیا تھا کہ عرض البلد اور درجہ حرارت کردار ادا کرسکتے ہیں، مگر اس تحقیق کو زیادہ سٰخت مموسم میں دہرانے پر ہم نے متضاد نتیجہ حاصل کیا۔
سائنسدانوں نے یہ ضرور دریافت کیا کہ عوامی طبی اقدامات بشمول اسکولوں کی بندش، سماجی دوری اور بڑے اجتماعات پر پابندی ضرور موثر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے متعدد ممالک کو یاد دہانی کرای جاسکتی ہے جہاں پابندیوں کو نرم یا ختم کیا جارہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ موسم گرما اس مسئلے کو دور کرنے والا نہیں، یہ بہت اہم ہے کہ لوگ اس بارے میں جایں، دوسری جانب مزید عوامی طبی اقدامات اس وبا کی رفتار کو سست کرسکتے ہیں، یہ اقدامات بہت اہم ہیں کیونکہ فی الحال یہ واحد چیز ہے جو وبا کو سست کرسکتی ہے۔
محققین نے تحقیق میں کچھ رکاوٹوں جیسے ٹیسٹنگ کے عمل مختلف ہونا، کووڈ 19 کی اصل شرح کے تخمینے کی صلاحیت نہ ہونا اور سماجی دوری پر عملدرآمد کا ذکر بھی کیا۔
اپریل کے آخری عشرے میں امریکا کی کنیکٹکیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں نئے نوول وائرس کے خلاف قدرت کے طاقتور ہتھیار الٹرا وائلٹ روشنی کے اثرات کو دیکھا گیا جو ڈی این اے کو نقصان پہنچانے، وائرسز کو مارنے اور صحت مند جلدی خلیات کو کینسر زدہ کرنے کے لیے جانی جاتی ہے۔
محققین نے کہا 'ہم نے دریافت کیا کہ الٹرا وائلٹ روشنی سے کووڈ 19 کے پھیلنے کی رفتار کو سست کیا جاسکتا ہے'۔
تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ یہ بیماری عارضی طور پر گرم موسم میں سست ہوسکتی ہے، خزاں میں واپس اور اگلی سردیوں میں پھر عروج پر ہوسکتی ہے۔
تاہم محققین نے یہ بھی کہا کہ تحقیق کے ممکنہ نتائج کے حوالے سے شبہات بہت زیادہ ہیں۔
اس سے قبل اپریل میں ہی امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز نے نمی اور درجہ حرارت سے وائرس پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد دریافت کیا تھا کہ اس سے جراثیم پر معمولی اثرات ہی مرتب ہوتے ہیں۔
امریکا کے یو ایس نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے ماہرین نے اس حوالے سے کہا 'وہ ممالک جہاں اس وقت موسم گرم ہے جیسے آسٹریلیا اور ایران، وہاں بھی اس وائرس کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہے جس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کسی اور جگہ بھی نمی اور درجہ حرارت میں اضافے سے کیسز کی تعداد میں کمی آنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا'۔
مارچ میں امریکا کے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی ابتدائی تحقیق میں بتایا گیا کہ گرم علاقوں میں رہنے والی برادریوں میں بظاہر اس کورونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار دیگر مقامات کے مقابلے میں نسبتاً سست ہے۔
محققین نے دریافت کیا کہ کورونا وائرس کے زیادہ پھیلاؤ والے علاقے وہ ہیں، جہاں درجہ حرارت کم تھا یعنی 3 سے 17 ڈگری سینٹی گریڈ۔
اگرچہ وہ ممالک جہاں اس وقت موسم گرما چل رہا ہے، وہاں بھی کورونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، مگر 18 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد والے مقامات میں ان کی تعداد عالمی کیسز کے 6 فیصد سے بھی کم ہے۔
تحقیق میں شامل پروفیسر قاسم بخاری نے بتایا کہ جہاں درجہ حرارت کم ہوتا ہے وہاں کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے، آپ یہ رجحان یورپ میں دیکھ سکتے ہیں، حالانکہ وہاں کا طبی نظام دنیا میں بہترین ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ درجہ حرارت کے عنصر کا عندیہ امریکا میں بھی ملتا ہے جہاں جنوبی ریاستیں جیسے ایریزونا، فلوریڈا اور ٹیکساس میں واشنگٹن، نیویارک اور کولوراڈو کے مقابلے میں وائرس پھیلنے کی رفتار سست نظر آتی ہے۔
موسم کا یہ اثر اس سے ملتا جلتا ہے جس کا مشاہدہ وبائی امراض کے ماہرین دیگر وائرسز میں کرچکے ہیں۔
اسپین اور فن لینڈ کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق میں دریافت کیا کہ خشک ماحول اور 2 سے 10 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے دوران یہ وائرس تیزی سے پھیلتا ہے۔
اسی طرح چین میں ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ چینی حکومت کی جانب سے وبا کی روک تھام کے لیے جارحانہ اقدامات کرنے سے قبل ایسے شہر جہاں درجہ حرارت زیادہ اور ہوا میں زیادہ نمی تھی، وہاں وائرس کے پھیلنے کی شرح دیگر کے مقابلے میں سست تھی۔
مگر ان میں سے کسی بھی تحقیق کا جائزہ دیگر سائنسدانوں نے ابھی تک نہیں لیا اور امریکا کے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے تسلیم کیا ہے کہ عناصر جیسے سفری پابندیاں، سماجی فاصلے کے اقدامات، ٹیسٹوں کی دستیابی اور ہسپتالوں کا بوجھ ممکنہ طور پر مختلف ممالک میں کیسز کی تعداد پر اثرانداز ہوئے۔
درحقیقت سیزنل وائرسز جیسے انفلوائنزا اور موسمی زنزلہ زکام بھی گرمیوں کے دوران مکمل طور پر غائب نہیں ہوتے، بلکہ کسی نہ کسی حد تک لوگوں کے جسموں اور دنیا کے دیگر حصوں میں موجود رہتے ہیں، جہاں وہ دوبارہ پھیلنے کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں مقامی سطح پر اس وائرس کے پھیلنے سے بھی یہ اشارہ ملتا ہے کہ گرم درجہ حرارت کے حوالے سے یہ وائرس ممکنہ طور پر زیادہ مزاحمت کرسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ممالک پر فوری اور جارحانہ اقدامات کے لیے زور ڈالا جارہا ہے تاکہ اس کی روک تھام کی جاسکے۔