نقطہ نظر

کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں کینیڈا نے امریکا پر سبقت کیسے حاصل کی؟

کینیڈا میں حفاظتی کٹ اور بنیادی میڈیکل کے سامان کی کمی نہیں جس کے سبب ہسپتالوں میں کام کرنیوالوں کو دشواری کا سامنا نہیں

3 کروڑ 76 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل اور رقبے کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک کینیڈا میں بھی کورونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔

یہاں پہلا کیس 27 جنوری کو سامنے آیا تھا اور اب تک مریضوں کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ 2 ہزار 800 سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ میڈیا و دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی اطلاعات کے مطابق کینیڈا 'پرو ایکٹیو' یا فعال سرگرمی سے کورونا وائرس کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔

آئیے کینیڈا میں مقیم چند پاکستانیوں سے وہاں کی تازہ ترین صورتحال جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ بھی پتا لگانے کی سعی کرتے ہیں کہ وہاں حکومتی سطح پر لاک ڈاؤن کو کامیاب بنانے کے لیے ایسے کون سے فوری اقدامات کیے گئے ہیں جن سے عوام گھروں میں سکون سے مطمئن بیٹھے ہوئے ہیں اور وہاں صحت کی سہولیات کس طرح فراہم کی جارہی ہیں؟

ہسپتال کی فارمیسیاں کیسے کام کر رہی ہیں؟

یہ جاننے کے لیے ہم نے قاسم ظفر سے بات کی۔ قاسم 3 سال قبل کراچی سے کینیڈا آئے تھے اور کینیڈا میں رجسٹر شدہ فارماسسٹ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’یہاں بھی شعبہ صحت سے منسلک افراد کو کورونا وائرس سے لڑنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ پوری دنیا کے ہیلتھ ورکر کی طرح ہم بھی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں لیکن بلاشبہ احتیاط برتنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے‘۔

قاسم نے ابتدائی اقدامات کے بارے میں بتایا کہ ’انتظامیہ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ فارماسسٹ، اسٹاف اور مریضوں کے درمیان ایک حفاطتی شیٹ اوپر سے نیچے تک لگا دی۔ یعنی ہم براہِ راست مریضوں سے کوئی رابطہ نہیں کر رہے اور یہ شیٹیں اوپر چھت تک لگائی گئی ہیں۔ پھر ہم کیش کا کم سے کم استعمال کر رہے ہیں اور زیادہ تر ادائیگیاں کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کی جارہی ہیں‘۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’ایک وقت میں ایک ہی مریض فارمیسی کے اندر آسکتا ہے۔ وہ ہمیں ڈاکٹر کا نسخہ دیتا ہے۔ ہم اسے ہدایت دیتے ہیں کہ وہ ہسپتال سے باہر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ہماری کال کا انتظار کرے اور جب ان کی دوائیں تیار ہوجاتی ہیں تو ہم انہیں فون پر اطلاع دیتے ہیں۔ دوائیوں سے متعلق کونسلنگ بھی ہم فون پر ہی فراہم کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ادویات شہریوں کے گھروں تک بھی پہنچائی جارہی ہیں۔ گھر پہنچانے والا شخص گھر کی گھنٹی نہیں بجاتا بلکہ بذریعہ کال انہیں اپنے آنے کی اطلاع دیتا ہے‘۔

قاسم کہتے ہیں کہ ’ہم اپنی حفاظت کے لیے لازماً M 3 کے ماسک لگانے کے ساتھ دستانے اور کٹ پہنتے ہیں۔ ہم فارمیسی آنے کے بعد اور نکلنے سے پہلے کام کی جگہ کو اینٹی سیپٹک کے محلول لائزول یا 70 فیصد الکحل والے اسپرے سے صاف کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں فارمیسی میں 2 ٹیمیں بنی ہوئی ہیں: فارمسٹ اور فارمسٹ ٹیکنیشن۔ دونوں ٹیمیں مل کر کام کرتی ہیں لیکن دونوں ٹیمیں ایک دوسرے سے ملتی نہیں ہیں اور ان کے آنے اور جانے کے اوقات بھی الگ رکھے گئے ہیں۔ پہلے ایک ٹیم جائے گی اور اس کے 10 منٹ بعد دوسری ٹیم آئے گی۔ ہمارے ہاں کئی کورونا وائرس کے مریض آئے تھے اور ان میں سے 2 کا انتقال بھی ہوچکا ہے‘۔

قاسم سمجھتے ہیں کہ ’وہ اور عملے کے دیگر ساتھی ہر ممکن احتیاطی تدابیر پر عمل کی بدولت اپنی صحت بحال رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں شہری آمد و رفت کے لیے بسیں چل رہی ہیں لیکن ہر بس آدھی خالی ہوتی ہے۔ کارڈ اور ٹکٹ کے پیسے نہیں لیے جارہے ہیں بلکہ بہت سی جگہوں پر یہ سہولت مفت مہیا کی جارہی ہے۔ انتظامیہ کی ہدایات کے مطابق اگر بس 50 فیصد بھر جائے تو اگلے اسٹاپ پر مسافروں کو نہیں اٹھایا جاتا جبکہ مسافروں کو پچھلے دروازے سے چڑھنے اور اترنے کی ہدایت کی گئی ہے‘۔

ہسپتالوں کی بلڈ لیب کیسے کام کررہی ہے؟

صائمہ محمود پاکستان میں مائیکرو بایولوجسٹ کی حیثیت سے 12سال تک کام کرتی رہی ہیں اور 7 سال پہلے کینیڈا کے شہر ٹورنٹو آگئیں۔ اس وقت وہ 'ارجینٹ کیئر' نامی ہسپتال میں بطور میڈیکل لیب ٹیکنالوجسٹ کام کررہی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’کورونا وائرس کے بحران کے بعد ہمارے کام کے طریقہ کار میں تو کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی البتہ سخت احتیاطی تدابیر اپنانا اور ان پر سختی سے عمل شروع کردیا گیا ہے۔ ہم پہلے بھی احتیاط کرتے تھے لیکن اب پہلے سے زیادہ کر رہے ہیں۔ ہسپتالوں کی جرنل او پی ڈیز بند ہیں اس لیے کسی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے مریض، ڈاکٹر اور لیب ٹیکنیشن سے بذریعہ ٹیلیفون جبکہ ہمارا عملہ ڈاکٹروں سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطے میں رہتا ہے‘۔

صائمہ کہتی ہیں کہ ’ڈاکٹر مریض سے کی گئی بات چیت اور بھیجی گئی تصاویر کی مدد سے دوا تجویز کر رہے ہیں اور لیب کے لیے پہلے والا طریقہ نہیں اپنایا جارہا کہ جس میں بلڈ پریشر اور بخار نوٹ کرنے کے ساتھ پہلے چند بنیادی ٹیسٹ بھی لیے جاتے تھے۔ اب ڈائریکٹ فون پر رابطہ رکھا گیا ہے اور فون پر بات کرنے کے بعد بھی اگر ڈاکٹر کو لگتا ہے کہ مریض کو دیکھنا ضروری ہے تو کسی ایک طے شدہ وقت پر مریض کو ہسپتال بلا لیا جاتا ہے۔ حاملہ خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ڈاکٹر سے رابطے میں رہیں اور ایک یا 2 ماہ بعد ڈاکٹر سے قبل از وقت اپائنٹمنٹ لے کر چیک اپ کروائیں۔ ڈاکٹر فی دن صرف 2 سے 3 حاملہ خواتین کو دیکھتے ہیں یوں ہسپتال میں مریضوں کا رش بہت کم رہتا ہے‘۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’خون کا نمونہ لینے یا انٹرا مسکولر انجیکشن کے لیے بھی فون پر رابطہ کیا جاتا ہے۔ لیب ٹیکنیشن کو حفاظتی کٹ پہننے کے ساتھ تمام مجوزہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا لازمی ہوتا ہے۔ ہر مریض کے بعد ہمیں 10 منٹ دیے جاتے ہیں کہ ہم اپنی پروٹیکشن کٹ تبدیل کرلیں۔ ماسک ہر تھوڑی دیر میں تبدیل کیا جاتا ہے جبکہ ہر مریض کو دیکھنے کے بعد بیرونی حفاظتی تہہ [آؤٹر کورنگ] تبدیل کرنا لازمی ہے۔ کینیڈا میں حفاظتی کٹ اور بنیادی میڈیکل کے سامان کی کوئی کمی نہیں جس کی وجہ سے ہسپتالوں میں کام کرنے والوں کو حفاطتی امور میں دشواری کا سامنا نہیں ہے۔ ہمیں 20 سے 30 منٹ کے بعد اپنی حفاظتی کٹ تبدیل کرنا ہوتی ہے، بھلے ہی ہم کسی مریض کو دیکھیں یا نہ دیکھیں۔

صائمہ سمجھتی ہیں کہ بہتر سہولیات کی وجہ سے ہی اموات اور مریضوں کی تعداد نسبتاً کم رہی ہے۔ وہ اپنی بات کو بڑھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ 'کینیڈا نے کورونا وائرس سے بچنے کے لیے اچھا لائحہ عمل اپنایا ہے لیکن ہمیں اب بھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں کورونا کے مریض اور اموات کم تو ہیں لیکن لوگوں کی آگاہی کے لیے مزید کام کرنا ہوگا۔ یہاں پچھلے 2 ماہ سے مسلسل لاک ڈاؤن ہے۔ ہمارا ہسپتال ہی نہیں بلکہ تمام بڑے ہسپتالوں میں اسی طرح کام کیا جارہا ہے'۔

انہوں نے بتایا کہ '15فروری تک ہم کورونا وائرس کی صرف خبریں سُن رہے تھے اور ٹورنٹو میں کورونا کا پہلا مریض سامنے آگیا تھا۔ وہ دبئی کا سفر کرکے آیا تھا اور بیرونِ ملک سفر کرنے والوں میں وائرس کے نتائج مثبت آنے لگے تھے اور سچ بتاؤں تو میں ایسے بے شمار مریضوں سے ملی تھی جو بیرون ملک سے سفر کرکے آئے تھے، لیکن ہم اس وقت وائرس سے اتنا آگاہ نہیں تھے اور یوں بہت زیادہ احتیاط بھی نہیں کر رہے تھے۔ اب لگتا ہے کہ میں اور میرا گھرانہ اس وائرس سے متاثر ہوئے تھے کیونکہ فروری کے آخری ہفتے میں ہم سب گھر والوں کو نزلہ، زکام، کھانسی اور بخار کی شکایت رہی۔ اب لگتا ہے کہ ہمارا مدافعتی نظام اچھا تھا اور ہم کسی بڑی تکلیف سے گزرے بغیر ٹھیک بھی ہوگئے۔ ہماری طرح کئی گھرانے ہوں گے جن میں ابتدائی علامات یعنی کھانسی، نزلہ، زکام اور بخار ہوا ہوگا لیکن وہ پیراسٹامول، پیناڈول اور ٹیلی نال لے کر ٹھیک ہوگئے ہوں گے'۔

لوکل کمیونٹی میں وائرس کیسے پھیل رہا ہے؟

صائمہ محمود نے بتایا کہ 'ہم صرف کھانے پینے کی چیزیں لینے کے لیے باہر نکل رہے ہیں۔ سب دکانیں بند ہونے کے باوجود کورونا کا جراثیم منتقل ہورہا ہے۔ یہاں لوگ زیادہ فاسٹ فوڈ کھانے کے عادی ہیں۔ پچھلے دنوں سُننے میں آیا تھا کہ ایک بلڈنگ کے 16 افراد کے ٹیسٹ مثبت آئے اور ان سب نے باہر سے کھانا منگوایا تھا۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ کوئی فوڈ ڈیلیوری کے لیے گیا اور وہ وائرس کا شکار ہوگیا اور پھر یہ وائرس کھانوں کے ڈبے سے پھیلتا چلا گیا۔ لوگ ابھی تک نہیں سمجھ سکے کہ اگر آپ نے کھانا گھر بیٹھے منگوایا ہے تو کھانا لینے کے بعد ہاتھ دھونا بھی لازمی ہے۔ ویسے عمومی طور پر لوگ یہاں احتیاط کررہے ہیں اور شاپنگ پلازہ و دیگر ایسی جگہوں پر 6، 6 فٹ کا فاصلہ بھی اختیار کر رہے ہیں۔

'خریداری کے مراکز کا عملہ خود ہی ہر ٹرالی کو جراثیم کش اسپرے سے صاف رکھتا ہے۔ اسی طرح ہر ایک فرد اور ادارہ وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہے۔ خریداری سے فارغ ہوکر گھر آنے کے بعد یا تو سوائے دودھ کے سارا سامان 24 گھنٹوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے یا پھر ساری تھیلیاں باہر چھوڑ کر صرف سامان اندر لے جایا جاتا ہے، پھر یہاں خریدار اپنے بچاؤ کو یقینی بنانے کے لیے گھر آنے کے بعد نہاتے اور اپنے کپڑوں کو دھو تے ہیں۔

'ہم اپنی سی احتیاط تو کر رہے ہیں لیکن کسی دوسرے کے بارے میں کچھ بھی یقین سے کہنا ممکن نہیں، اسی لیے صبح اٹھنے کے ساتھ ہی اگر ہلکا سا بھی گلا خراب ہو تو پہلا خیال کورونا وائرس کا آتا ہے۔ ایک ڈر اور خوف کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ مجھ سمیت میری دوستوں اور صحت کے شعبے میں کام کرنے والے دیگر لوگ بھی وائرس سے خائف نظر آتے ہیں۔ میری ایک لیب ٹیکنیشن دوست سکھویندر اتنی 'نفسیاتی دباؤ' میں آگئی ہے کہ اس نے 3 ہفتوں کی چھٹی لے لی کیونکہ اسے ہر وقت یہ خیال رہنے لگا تھا کہ وہ اپنے ساتھ اپنے گھر وائرس نہ لے جائے، پھر وہ ہر مریض کے بعد حفاظتی کٹ اور آؤٹر کورنگ تبدیل کرنے سے تنگ آگئی تھی۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ پوری دنیا میں اس وقت ہیلتھ کیئر کا اسٹاف سب سے زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہے اور دباؤ کو برداشت کرنا آسان نہیں'۔

امریکا سے کہاں غلطی ہوئی؟ اور کیا کینیڈا وہ غلطی کرنے سے بچ گیا؟

نوشین ربّانی پچھلے 15 سالوں سے ٹورنٹو میں مقیم ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ ان کا مختلف پروجیکٹ کی وجہ سے امریکا آنا جانا لگا رہتا ہے اور ان کی 2 نندیں بھی وہاں رہائش پذیر ہیں اس لیے وہ کسی حد تک وہاں کے نظام سے واقف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں امریکا میں کورونا کے مریضوں اور اموات میں اضافے کی وجہ لاک ڈاؤن میں تاخیر ہے۔

’جب 2 یا 3 ہزار کیس رپورٹ ہوئے تھے تو متعلقہ امریکی حکام اس کی سنگینی کا اندازہ نہیں لگاسکے، نہ حکومتی عہدیداروں نے اور نہ ہی لوگوں نے اس کی ممکنہ شدت محسوس کی۔ مزاجاً بھی امریکی عوام پابندیوں کو پسند نہیں کرتے اور ان میں احساسِ ذمہ داری نسبتاً کم ہے۔ خاص کر بڑے شہروں میں جیسے نیویارک، واشنگٹن ڈی سی، شکاگو وغیرہ میں لوگوں نے خاصی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بڑے شہروں کے اپنے بڑے مسائل ہیں، تیز رفتار زندگی اور کام کے سلسلے میں مسلسل سفر میں رہنا بھی ان کی مجبوری ہے۔'

وہ بتاتی ہیں کہ ’نیویارک اور اطراف کے شہروں میں بہت زیادہ سفر کیا جاتا ہے۔ بڑی کمپنیوں کے مرکزی دفاتر وہیں ہیں۔ کیلی فورنیا اور فلوریڈا، ان کے سیاحتی اور تفریحی مقامات کی وجہ سے مشہور ہیں اور عام دنوں میں بھی وہاں سیاحوں کا کافی زیادہ آنا جانا لگا رہتا ہے، اور کورونا کے آغاز کے دنوں میں بھی موسم اچھا ہونے کی وجہ سے بھی لوگ گھر سے باہر تھے۔ پھر امریکا میں لوگ انٹر اسٹیٹ کام کرتے ہیں۔ بڑے شہر مہنگے ہیں لیکن سفر کافی سستا ہے۔ وہ اس سسٹم کے اتنے عادی ہیں کہ کوئی فلوریڈا میں رہتا ہے لیکن نوکری النوائے میں ہے۔ وہ پیر کی صبح فلائٹ پکڑ کر جاتا ہے اور جمعرات کی شام فلائٹ لے کر گھر آجاتا ہے۔ بس پھر بڑے شہروں میں سیاح وائرس لے کر آگئے اور لوگ انٹر اسٹیٹ سفر کرتے رہے۔ جس کی وجہ سے یہ وائرس تیزی کے ساتھ پھیلا‘۔

نوشین مزید بتاتی ہیں کہ کینیڈا میں وائرس صرف ٹورنٹو، مونٹریال اور برٹش کولمبیا کے علاقے وینکوور کے علاقوں میں رہا۔ ٹورنٹو میں آبادی زیادہ ہے جبکہ وینکوور میں چینی باشندے بہت زیادہ آتے ہیں۔ ان تینوں شہروں میں انٹرنیشنل فلائٹ کا بھی رش رہتا ہے، اس لیے سب سے پہلے ان علاقوں میں وائرس پھیلا۔ حکومت نے ان تینوں شہروں کو مکمل طور پر بند کرنے کا فوری فیصلہ لیا اور یوں دیگر علاقوں میں وائرس کے پھیلنے کی شرح کم رہی۔

امریکا اور کینیڈا کے شعبہ صحت میں کیا بنیادی فرق ہے؟

نوشین اس حوالے سے بتاتی ہیں کہ دونوں ممالک کے شعبہ صحت کا جائزہ لیں تو امریکا میں صحت کا نظام کینیڈا سے بہت اچھا نہیں ہے۔ ہسپتال نجی حیثیت میں کام کرتے ہیں اور مہنگے علاج کی وجہ سے لوگ انشورنس کرواتے ہیں۔ اگر علاج کی سہولت سبسیڈائز نہ ہو یا مریض کو انشورنس کا سہارا نہ ہو تو علاج تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے کیونکہ ایک حادثے پر ہی ساری جمع پونجی خرچ ہوجاتی ہے۔

’مثلاً امریکا میں بچے کی نارمل پیدائش کے لیے 6 ہزار سے 8 ہزار ڈالر کا خرچہ آتا ہے جبکہ سی سیکشن ہو تو 10 سے 15 ہزار ڈالر چاہیے ہوتے ہیں۔ لوگوں کی اوسط ماہانہ آمدنی 2 سے ڈھائی ہزار ڈالر ہے جس میں سے انہیں بجلی پانی کے بل بھی دینے ہوتے ہیں اور گھر کا کرایہ بھی۔ اب اس صورتحال میں امریکی شہری انشورنس کمپنی سے رجوع کرتے ہیں جس کے بعد ہسپتال کے خرچے میں سے 80 فیصد انشورنس کمپنی جبکہ 20 فیصد مریض خود ادا کرتا ہے۔ صحت کا شعبہ چونکہ سرکار کی ذمہ داری نہیں اس لیے حکومت اتنے بڑے پیمانے پر مریضوں کو سنبھالنے کے لیے تیار بھی نہیں تھی۔

’اب لاکھوں مریضوں کو علاج کی ضرورت پڑے گی تو وہ خرچہ کون اٹھائے گا؟ انشورنس کمپنیاں بھی ایک محدود مقدار میں ہی سہولتیں مہیا کرسکتی ہیں اس لیے امریکا میں لوگوں کو سب سے زیادہ معاشی مار پڑی ہے۔‘

اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے نوشین کہتی ہیں کہ دوسری طرف کینیڈا میں صحت کا شعبہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں ہسپتالوں میں کوئی بل نہیں ادا کرنا پڑتا۔ کینیڈین حکومت کی کوشش ہے کہ بجٹ میں شعبہ صحت کے لیے مختص رقم کے اندر ہی کورونا وائرس کے مریضوں سے نمٹ لیا جائے یعنی مریضوں کی تعداد نہ بڑھے۔ ہمیں کوئی انشورنس نہیں لینا پڑتی۔ ہوتا یہ ہے کہ ہماری تنخواہ سے منہا ہونے والے ٹیکس کا ایک چھوٹا حصہ صحت کے شعبے کو دے دیا جاتا ہے۔ اب جس طرح ان 2 پڑوسی ملکوں میں نظامِ صحت مختلف ہے بالکل اسی طرح دونوں ملکوں کی کورونا وائرس سے نمٹنے کے لائحہ عمل میں بھی تفریق پائی جاتی ہے۔

سماجی دُوری کو برقرار رکھنا کیسے ممکن ہوا؟

نوشین بتاتی ہیں کہ امریکا اور کینیڈا میں پہلے نمبر پر عیسائی، دوسرے نمبر پر غیر مقلد اور تیسرے نمبر پر مسلمان اورپھر یہودی اور ہندو آباد ہیں۔ یہاں حال ہی میں ایسٹر کا تہوار منایا گیا تھا، عوامی سطح پر یہ اعلان کیا گیا کہ کورونا سے لڑنے کے لیے ہم گھروں پر ہی اپنا تہوار منائیں گے۔ وہاں امریکا میں چرچ کے باہر احتجاج ہوا اور مسلم آبادی نے مسجدیں کھولنے کی بات کی لیکن یہاں جنہوں نے مسجدیں کھولیں ان پر جرمانے لگائے گئے۔ اب تو باقاعدہ ایک قانون پاس ہوا ہے جس کے مطابق اگر کسی جگہ پر 5 سے زائد افراد اکٹھا ہوں گے تو پکڑے جانے ہر فرد کو 850 ڈالر کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ یہ ایک بڑی رقم تھی جس کی وجہ سے لوگوں نے ایسے کسی اجتماع میں شرکت سے خود کو باز رکھا کیونکہ معاشی تنگی پہلے ہی اتنی زیادہ ہے اس پر اتنے مہنگے جرمانوں کی ادائیگیوں سے کون نہیں ڈرے گا؟ دوسری طرف امریکا نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

علاوہ ازیں وہ کینیڈین شہری بیرون ملک سے لوٹے ہیں انہیں 2 ہفتے اپنے گھر پر قرنطینہ میں رہنا ہوتا ہے۔ انہیں کھانے پینے کی اشیا لینے کے لیے بھی باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر ان کی شکایت پولیس تک پہنچی تو ان پر 5 ہزار ڈالر کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا اور ایک سال کے لیے جیل بھی ہوسکتی ہے۔ یوں کینیڈا میں پولیس کا کردار بھی بڑھایا گیا ہے۔

حکومت کا ایک ہی نعرہ ہے کہ ہمیں کورونا کو ختم کرنا ہے۔ یہاں آرمی کا فی الحال کوئی کردار نہیں، لیکن انہیں بھی تیار رکھا گیا ہے کہ ہنگامی حالات کی صورت میں مریضوں کو ہسپتال پہنچانے اور دیگر کاموں میں ان سے مدد لی جاسکتی ہے۔

بہتر معاشی اصلاحات

کینیڈا کے شہری کافی وقت سے لاک ڈاؤن میں گھروں تک محدود ہیں، جس نے سب سے زیادہ چھوٹی ملازمتوں سے وابستہ افراد کو معاشی طور پر متاثر کیا ہے، مثلاً شاپنگ مال میں کام کرنے والا عملہ، کیش کاؤنٹر اور سیلز والے وغیرہ۔

مالز کی بندش سے ان سب کی نوکریاں ختم ہوگئی ہیں۔ ان چھوٹے طبقے اور اولڈ ایج میں کام کرنے والے افراد کے لیے حکومت نے ایک پورا فنڈنگ سسٹم بنایا جسے 'کووڈ 19 اکنامکس ریسپانس پلان' کا نام دیا گیا ہے، جس کی مد میں لوگوں کے اکاؤنٹ میں اتنے پیسے آرہے ہیں، جن سے ان کا گزارا ہو رہا ہے۔

کون کون سے ادارے لاک ڈاؤن میں بھی کام کر رہے ہیں؟

کینیڈا میں بینک، گیس اسٹیشن، گروسری اسٹور اور شعبہ صحت سے منسلک ادارے کھلے ہیں اور وہاں احتیاطی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کام جاری رکھا گیا ہے۔ گروسری اسٹور اگرچہ کھلے ہیں لیکن لوگ ہفتے دس دن میں ہی خریداری کرنے جاتے ہیں۔

بینک کھلے ہیں لیکن اوقات کار کم کردیے ہیں۔ لوگوں کو تاکید کی گئی ہے کہ بہت ضروری کام کے لیے ہی بینک جائیں۔ حکومت نے بینکوں سے قرضہ لینے والوں کے لیے 6 ماہ پر محیط 'مورگیج ڈیفر پروگرام' متعارف کروایا ہے جس کے ذریعے قرض داروں کو 6 ماہ کی چُھوٹ مل گئی ہے اسی طرح عمارتوں کے کرایوں کی ادائیگی میں بھی 6 ماہ کی چھوٹ دی گئی ہے۔ لوگوں کو چھوٹے موٹے کاموں کے لیے بینک جانے کے بجائے آن لائن ایپلیکیشن کے استعمال کی تاکید کی جارہی ہے۔

او پی ڈیز کی بندش ہے لیکن مریض بے یار و مددگار نہیں

نوشین بتاتی ہیں کہ ’یہاں سب ہسپتال کھلے ہیں لیکن نجی کلینک کی پچھلی تمام اپائنمنٹ منسوخ کردی گئی ہیں۔ کورونا وائرس کے بحران کے بعد ہم اپنے ڈاکٹر سے 'بذریعہ کال' ہی رابطہ کرسکتے ہیں۔ پچھلے دنوں میری اسپیشل اپائنمنٹ تھی اور بلڈ ٹیسٹ بھی کروانا تھا۔ مجھے آن لائن اپائنمنٹ بل بھیج دیا گیا تھا اور میں اس کا پرنٹ نکال کر اپنے ساتھ کلینک لے کر گئی۔ وہاں لیب ٹیکنیشین مریض کو کم سے کم چُھونے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہاں ہماری سیٹ کو ہمارے آنے سے پہلے بھی صاف کیا گیا تھا اور پھر ہمارے جانے کے بعد بھی صاف کیا گیا۔ بلڈ ٹیسٹ کی رپورٹ پر مجھے ڈاکٹر نے کال کرکے بُلایا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ غیر ضروری طور پر ڈاکٹر اور مریضوں کا براہِ راست سامنا نہ ہو۔

’ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے ساتھ کام کرنے والے ڈاکٹروں اور عملے کے لیے الگ الگ سیکشن بنا دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بائیو لیب میں وائرس کی ویکسین کے لیے جو ریسرچ ورک ہورہا ہے اس کا سیکشن بھی علیحدہ ہے جبکہ داخلی راستے بھی الگ الگ بنائے گئے ہیں۔ کوشش یہی ہے کہ تشویشناک مریض دیگر مریضوں سے نہ مل سکیں۔

’کینیڈا میں سوشل سیکٹر ان حالات میں سب سے اہم کردار ادا کر رہا ہے کیونکہ عمر رسیدہ افراد کی ایک بڑی تعداد اولڈ ہوم میں رہتی ہے اور ان اولڈ ہومز میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد اور اموات سب سے زیادہ ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر حکومت نے یہاں کے اسٹاف کو زیادہ تنخواہ اور الاؤنسز دیے ہیں۔ ان اولڈ ہومز کے عملے بھی حفاظتی کٹ کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اس کے علاوہ ان کے اوقات کار بھی کم کیے گئے ہیں تاکہ یہ تھکاوٹ کا شکار نہ ہوں۔‘

ہنگامی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کے اہم اقدامات

فضائی اور زمینی راستے مکمل طور پر بند ہونے کی وجہ سے آٹو انڈسٹری متاثر ہورہی ہے۔ حکومت نے اس صنعت کو سہارا دینے کا طریقہ یہ نکالا کہ اس کے ملازمین کو نئے وینٹی لیٹر بنانے کا کام دے دیا۔ جہاں جہازوں کے پُرزے اور دیگر آلات بنتے تھے وہاں اب وینٹی لیٹرز، ٹیسٹنگ اور حفاظتی کٹ کی تیاری کا کام ہو رہا ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ کینیڈا کسی بھی ہنگامی صورتحال کو سنبھال سکے۔

عارضی ہسپتال اور قرنطینہ سینٹر کا ایمرجنسی پلان

ممکنہ ہنگامی صورتحال کے پیش نظر حکومت نے ایسے چند ریزورٹ اور پکنک کے مقامات کو منتخب کرلیا ہے جنہیں مریضوں کی تعداد بے قابو ہونے پر قرنطینہ سینٹر میں تبدیل کردیا جائے گا۔ ان کی انتظامیہ اسٹینڈ بائی پر ہے۔ یہاں تعمیراتی صنعت سے وابستہ اداروں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ اگر عارضی بیڈ اور ہسپتال بنانے کی ضرورت پڑی تو ان سے خدمات لی جاسکتی ہیں۔

حفاظتی کٹ کی تیاری کے لیے درزیوں سے مدد

ایک تیسرا اہم اور اچھا کام یہ ہوا ہے کہ ٹیسٹنگ کٹ اور ڈاکٹروں کے لیے مطلوبہ گاؤن اور ماسک کی طلب کو پورا کرنے کے لیے درزیوں کی مدد لی گئی ہے۔ دیگر درزیوں کے علاوہ شادی کے گاؤن بنانے والے درزیوں کے پاس وافر مقدار میں موٹا اور سفید کپڑا تھا، اب چونکہ شادیاں ہو نہیں رہیں لہٰذا اس حکومتی اقدام سے انہیں معاشی سہارا مل گیا ہے۔ وہ لوگ 'ان ہاؤس' کام کریں گے اور اس کے لیے الگ سے فنڈ بھی جاری کیا گیا ہے۔

شعبہ تعلیم اور سیاسی یکجہتی

ساری اسکولنگ آن لائن کردی گئی ہے اور 2 ماہ بعد گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوجائیں گی۔ اگلے سال کے لیے ایمرجنسی تعلیمی کیلنڈر کی تیاری کا عمل بھی جاری ہے۔

نوشین بتاتی ہیں کہ ’ہمیں ہمارے وزیرِاعظم روزانہ کی بنیادوں پر صورتحال سے آگاہ کرتے ہیں۔ سیاسی میدان کی بات کریں تو یہاں اکثر 3 بڑی سیاسی جماعتیں کنزرویٹو، لیبر اور نیو ڈیموکریٹک پارٹی آمنے سامنے رہتی ہیں لیکن اس وقت تینوں مل کر کام کر رہی ہیں اور لائحہ عمل کی تیاری میں مصروفِ عمل ہیں۔ تینوں کی طرف سے روزانہ کی بنیادوں پر عوام کو بتایا جاتا کہ اب اگلا پلان کیا ہے‘۔

عمیر پٹیل پچھلے 8 ماہ سے کینیڈا میں مقیم ہیں اور ایک بینک میں کام کرتے ہیں۔ چند ہفتے پہلے ہی کیلگری سے مونٹریال منتقل ہوئے ہیں۔ عمیر نے بتایا کہ ’میں چونکہ دوسرے شہر سے آیا تھا لہٰذا میں نے پہلے 14 دن قرنطینہ میں گزارے اور ہم گھر سے باہر نہیں نکلے۔ آج کل ہفتے میں ایک بار ہی ضروری سامان کی خریداری کے لیے باہر نکلنا ہوتا ہے۔ صفائی کا پہلے سے زیادہ خیال رکھا جارہا ہے۔ لوگوں کا آپس میں ملنا تقریباً ختم ہوگیا ہے، باہر سڑک پار کرتے ہوئے بھی کوئی دوسرا شخص آپ کی اپنائی ہوئی دوری کی حدود کو نہیں توڑے گا اور پہلے آپ کو جانے دے گا یا آپ اسے جانیں دیں گے تاکہ فاصلہ برقرار رہے‘۔

عمیر بھی مانتے ہیں کہ احتیاطی اقدامات میں دیر کرنے کی وجہ سے امریکا میں اموات میں اس قدر اضافہ ہوا اور پھر وہاں آبادی بھی زیادہ ہے۔

کینیڈا میں کورونا وائرس سے بُری طرح متاثر ہونے والے صوبوں میں کیوبک بھی شامل ہے اور کیوبک میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شہر مونٹریال ہے۔ وہاں آبادی بھی زیادہ ہے اور سیاحت کا رجحان بھی۔ عمیر سمجھتے ہیں کہ اس کی ایک اہم وجہ کمیونٹی سسٹم ہے، یہاں بہت سی کمیونٹیز نے آپس میں ملنا بہت دیر تک جاری رکھا۔

قاسم حسین زیدی 5 سال سے کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مقیم ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے قاسم ٹورنٹو میں لاجسٹک کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سفر کے دوران غیر متعلقہ افراد کو ساتھ بٹھانے پر جرمانہ عائد کیا جارہا ہے۔ اونٹاریو کے ڈاؤن ٹاؤن شہر برئمپٹن میں ایک خاندان کو اس وقت خطیر جرمانے کا سامنا کرنا پڑا جب وہ ایک گھریلو تقریب میں مصروف تھا۔

حکومتی کارکردگی کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس مصیبت کی گھڑی میں وزیرِاعظم نے فوری 82 ارب ڈالر کی خطیر رقم جاری کی جو بہت منظم طریقہ کار سے لوگوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جارہی ہے۔

قاسم بتاتے ہیں کہ یہاں 14مارچ سے 5 اپریل تک چھٹیاں رہتی ہیں اس لیے پہلے تعلیمی ادارے بند تھے لیکن اب آن لائن تعلیم کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور جن طالب علموں کے گھروں پر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں تھی، انہیں حکومت کی طرف سے یہ سہولت بالکل مفت فراہم کی جارہی ہے۔

شیما صدیقی

شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔