کیا سارک تمام تر اختلافات کو بھلا کر کورونا سے جنگ لڑ سکتا ہے؟
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا وائرس کو 'عالمی صحتِ عامہ کی ہنگامی صورتحال' قرار دیے ہوئے اب 2 ماہ گزر چکے ہیں لیکن عالمی رہنما تاحال اس وبائی پھوٹ کو پوری طرح سے سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ جنوبی ایشیا اپنی سیاسی تقسیم اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کی کمی کے باعث کٹھن چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے۔
اگرچہ جنوبی ایشیا میں رپورٹ شدہ کیسوں کی تعداد نسبتاً کم ہے لیکن اس خطے کے ملکوں میں تشخیصی جانچ کے محدود اور قابلِ اعتراض معیار کے ساتھ طبّی سہولیات کی کمی کے پیش نظر یہاں وبائی پھوٹ کی شدت اختیار کرنے اور بحران سے نمٹنے کی تیاری پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
بہرحال یہ بحران جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) کے ممالک یعنی افغانستان، پاکستان، ہندوستان، مالدیپ، نیپال، سری لنکا، بھوٹان اور بنگلہ دیش کو ایک موقع فراہم کرسکتا ہے کہ وہ مل کر اس وبائی امراض کا مقابلہ کریں۔
مشترکہ تعاون کے لیے ہندوستان نے ایک کروڑ امریکی ڈالر، پاکستان نے 30 لاکھ امریکی ڈالر، سری لنکا نے 50 لاکھ امریکی ڈالر ، بنگلہ دیش نے 15 لاکھ ڈالر، نیپال اور افغانستان نے 10، 10 لاکھ ڈالر، مالدیپ نے 2 لاکھ ڈالر اور بھوٹان نے ایک لاکھ امریکی ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔
ذوفین ٹی ابراہیم نے پاکستانی وزیر اعظم کی ہیلتھ ٹاسک فورس اور عالمی ادارہ صحت پاکستان کی جانب سے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے تشکیل دی جانے والی مشاورتی کمیٹی کے ممبر ذوالفقار اے بھٹہ سے بات کی، اور ان سے پوچھا کہ سارک کے لیے اس مشن میں شامل ہونا کیوں ضروری ہے؟
کیا جنوبی ایشیا کے سائنسدان اور طبی برادری اس وبائی مرض سے نمٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟
جی ہاں بالکل اہلیت رکھتے ہیں، لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہوسکتا ہے جب ہم آپسی اختلافات کو ایک طرف رکھیں اور مل کر کام کریں۔ لیکن اگر اس خطے کے لوگ ایک دوسرے کے لیے تعصب اور کینہ رکھیں گے تو یہ کام ممکن نہیں ہوگا۔
سیاستدانوں کے برعکس کورونا وائرس سیاسی حدود یا مذہب کی بنیاد پر لوگوں میں فرق نہیں کرتا بلکہ ہر ایک کو یکساں طور پر متاثر کرتا ہے۔ آغاز کے طور ہر ملک کی حکومت کو اپنے سائنسدانوں اور صحتِ عامہ کے ماہرین کو اہمیت دینا ہوگی، لیکن ان کو بمشکل ہی مشاورت کے لے بلایا جاتا ہے بلکہ جو افراد حکومت کے اندرونی حلقے تک پہنچنے میں کامیاب ہوبھی جاتے ہیں ان کے مشوروں کو اکثر سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور ان کے مجوزہ اقدامات پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔
ہم جانتے ہیں کہ حکومتوں کو تعاون اور اعتماد بحال کرنے اور معلومات کے تبادلے میں مشکل پیش آتی ہے۔ کیا سائنسی برادری بھی اس مسئلے سے دوچار ہے؟
سارک سیکریٹریٹ صحت عامہ کے اقدامات اور وبا کی تیاریوں کے سلسلے میں کتنا غیر فعال رہا ہے اس کی ایک بہترین مثال موجودہ عالمی وبا کا بحران ہے کہ جس میں تاخیری سربراہی اجلاس کے بعد، وزرائے صحت کو ایک دوسرے سے رابطے میں آنے کے لے ایک ماہ کا وقت لگا۔
یہی نہیں بلکہ عملی طور پر صحت عامہ کے رہنماؤں اور سائنسدانوں کو ایک جگہ لانے کے لیے کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی گئی ہے۔ یہ سب علاقائی سیاست اور عدم اعتماد کا ہی نتیجہ ہے۔ ممکن ہے کہ سائنسی برادری میں تعصب کم ہو لیکن وہ بھی قوم پرستی کے گھمنڈ اور دباؤ سے محفوظ نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے عہد کے اس بڑے صحت عامہ کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے حکومتیں انفرادی اور یونیورسٹی سطح پر تبادلوں پر عائد پابندیاں ختم کردیں۔
کیا اب بھی ایک ایسا مرکز تیار کرنے کا وقت ہے جہاں معلومات اکٹھی کی جاسکیں، تجاویز کی جانچ اور حل تیار کیے جاسکیں؟ یہ مرکز کہاں ہوگا؟ اس کا عملہ کہاں سے آئے گا؟
جی بالکل، سارک سیکریٹریٹ کو اس کام میں سہولت فراہم کرنی چاہیے۔ وبائی صورتحال کی تازہ معلومات، وبا سے متعلق علم، رسک بڑھانے والے عناصر کے جائزوں، وبائی پھیلاؤ کی روک تھام اور علاج کے لیے اپنائے جانے والے طریقوں کے تبادلے کے ساتھ ساتھ بنیادی تحقیق کی سہولت فراہم کرنی چاہیے۔ اس خطے کے ممالک اور بالخصوص وہاں کے دیہی علاقوں میں صحت عامہ کا ناقص معیار یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہمیں ایک جٹھ ہو کر اس بحران کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
ایک جٹھ ہو کر اس بحران کا مقابلہ کرنا کیوں ضروری ہے؟
ہمارا ایک مشترکہ دشمن ہے جسے پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہے اور وہ خطے کے ایک ملک سے دوسرے ملک میں خاموشی سے منتقل ہوسکتا ہے۔ اگر خطے کو 1918ء-1919ء کے انفلوئنزا جیسی 60 لاکھ سے ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کی جانیں لینے والی تباہ کاری سے بچانا ہے تو ہمیں متحد ہوکر کام کرنا ہوگا، ایک دوسرے سے معلومات بانٹنی ہوں گی، نتائج کا ڈیٹا بیس تیار کرنے کے ساتھ ساتھ وبا کی روک تھام اور علاج کے لیے معیاری طرز عمل اپنانا ہوگا۔
کیا آپ کے پاس اس حوالے سے کوئی جامع مرحلہ وار منصوبہ ہے؟
پہلا قدم اعتماد سازی اور مشترکہ وسائل اور مواصلاتی مرکز کی تعمیر ہے۔ میں اس پر کام کر رہا ہوں۔ اس کام کے لیے ضروری ہے کہ مختلف سطحوں پر باہمی تعاون بحال اور غیر ضروری جمود کو توڑا جائے۔ خطے کے اندر طلباء ، ماہرین تعلیم اور محققین کے مابین تعاون کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ یہاں کاروباری افراد / اسٹارٹ اپس (مقامی کاروباری اداروں)، ریاست (جو سیکیورٹی پلان مہیا کرسکتی ہے)، اور صنعت (جیسے بایو ٹیکنالوجی، دواسازی) کے مابین 3 طرفہ تعاون قائم کرتے ہوئے ملکی اور علاقائی سطح کے رابطے بحال کیے جاسکتے ہیں۔