تیرھویں صدی عیسوی میں جب انگلستان، ہالینڈ اور فرانس تجارت کے ذریعہ دولت کے انبار لگا رہے تھے تو اسپین اس وقت ایک دوسرے طریقے سے اپنے خزانے بھر رہا تھا۔ اس کے جہاز ران ہندوستان کا بحری راستہ دریافت کرنے میں تو ناکام رہے تھے لیکن وہ شمالی اور جنوبی امریکہ کے براعظموں پر اتفاقاً پہنچنے اور وہاں اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
براعظم جنوبی امریکہ کے ممالک میکسیکو اور پیرو میں سونے چاندی کی بہت سی کانیں موجود تھیں۔ اسپین کے جہازوں نے دھڑا دھڑ یہ قیمتی دھاتیں اپنے وطن پہنچانی شروع کردیں۔ 1545ء سے 1560ء کے دوران اسپین ان کانوں سے مسلسل چاندی نکالتا رہا اور اس عرصہ میں اسپینی ٹکسالوں نے تقریباً دو لاکھ ستر ہزار کلو گرام چاندی کے سکے تیار کیے اور آئندہ بیس سال کے عرصہ میں یہ مقدار تین لاکھ چالیس ہزار کلو گرام تک پہنچ گئی۔
دولت کی فراوانی نے اس وقت کے اسپینی حکمرانوں کو اپنی مملکت کی توسیع کے لیے بےتاب کردیا اور اُنہوں نے پے در پے جنگوں میں خود کو ملوث کرکے اس دولت کو فوجی اخراجات پر صرف کیا۔ اسپین کے دولت مند طبقے کی دولت میں روز افزوں اضافہ ہوتاجارہا تھا،لیکن وافر مقدار میں چاندی اور اس کے سکوں کو وہ نہ تو کھاسکتے تھے اور نہ ہی پہن سکتے تھے چنانچہ اس دولت کا بے تحاشا استعمال سامانِ عیش و عشرت کے حصول پر صرف ہونے لگا تھا۔
جب اسپین کی یہ دولت زرِ مبادلہ کی شکل میں دیگر ممالک پہنچی تو اس نے پورے یورپ کی معاشیات کو اُلٹ پلٹ کرکے رکھ دیا۔ دولت کی اچانک اور بے تحاشہ آمد سے اشیائے صرف کی قیمتوں میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا، 1600ء تک یہ اضافہ تین گنا تک ہوچکا تھا۔
یاد رہے کہ قیمتوں میں اضافے کی بھی ایک سائنس ہے، جس طرح سکے کی قیمت کم کرنے سے چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے، اسی طرح جب روپے کی بڑی تعداد بازار میں آجاتی ہے تو چیزوں کی قیمتوں میں زبردست اضافہ شروع ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ روپیہ یا کرنسی بھی ایک ایسی ہی چیز ہے جس کی طلب ہروقت موجود رہتی ہے، لیکن اس کی سپلائی اتنی نہیں ہونی چاہئیے جتنی اس کی مانگ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرنسی اس قدر قیمتی سمجھی جاتی ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھیے کہ ہوا کی ہم سب کو ضرورت ہے، لیکن ہوا چونکہ ہر جگہ موجود ہے اس لیے اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ لیکن پینے کا صاف پانی کمیاب ہے۔ اس لیے اس کو حاصل کرنے کے لیے اس کو خریدنا پڑتا ہے،، یا ا س کی قیمت ٹیکس کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہی اصول کرنسی کے معاملے میں بھی کام کرتا ہے۔ اگر مارکیٹ میں کرنسی کی افراط ہوجائے تو اس کی قیمت گرجائے گی اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کسی چیز کو خریدنے کے لیے آپ کو زیادہ دام دینا پڑیں گے۔ دوسرے الفاظ میں گرانی (مہنگائی) اور ارزانی (سستائی) کا تعلق روپے (کرنسی) کی مقدار کی کمی بیشی سے ہے جو کہ بازار میں گردش کررہا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب یورپ کے بازاروں میں سونے چاندی کی بہتات ہوگئی تو لامحالہ چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔
افراطِ زر کے اُس دور میں جن لوگوں نے سب سے زیادہ فائدہ اُٹھایا وہ تاجر طبقہ تھا، چونکہ لوگوں کے پاس خوب پیسہ تھا، اسی حساب سے تاجروں نے چیزوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا اور خوب دولت سمیٹی، لیکن معاشرے کے دیگر طبقات اور خود حکومتوں کے لیے یہ صورتحال نہایت پریشان کن تھی۔ نچلے طبقے کے لوگ مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے، دوسری طرف حکومتوں نے اپنے مصارف میں بے پناہ اضافہ کرلیاجسے آگے چل کر پورا کرنا مشکل ہوگیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکمرانوں نے اپنی مالی دشواریوں پر قابو پانے کے لیے نودولتیوں کا سہارا لیا، اس طبقے نے حکمرانوں کی مجبوریوں سے خوب فائدہ اٹھایا اور ان سے بہت سی مراعات حاصل کرلیں، ان مراعات کی بناء پر انہوں نے خود کو قانون سے بالاتر سمجھ لیا، مختلف طبقات ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے کے لیے میدان میں اُتر آئے، فرائض سے ہر ایک نے منہ موڑ لیا۔ چنانچہ اگلا دور یورپ کے لیے انتہائی خوفناک تھا۔
سترہویں صدی کے ابتدائی عشرے میں ایک ہولناک جنگ کا آغاز ہوا جو تیس سال تک جاری رہی، اس جنگ میں یورپ کی دوتہائی آبادی موت کے گھاٹ اُتاردی گئی، جو باقی بچی ان کی بربادی دیکھی نہ جاتی تھی، دیہاتوں کا بڑا حصہ برباد ہوگیا۔ شہر وںمیں مستقل لوٹ مار جاری تھی، تباہ ہونے والے علاقوں میں بھیڑیوں کے گروہ گشت کرتے تھے اور انسانی لاشوں کا گوشت نوچ نوچ کر کھاتے تھے۔
سترھویں صدی میں ایک جانب یورپ میں بے شمار محلات توتھے دوسری طرف بھکاریوں کے لشکر شہروں میں دربدر کی ٹھوکریں کھارہے تھے۔ 1630ء میں پیر س کی چوتھائی آبادی بھکاریوں پر مشتمل تھی فرانس کے دیہاتی علاقوں میں آدھی آبادی فاقہ کشی کا شکار تھی۔ انگلستان اور ہالینڈ میں زندگی کا نقشہ فرانس سے مختلف نہ تھا اور سوئٹزر لینڈ کی صورتحال کچھ یوں تھی کہ فاقہ کش بھکاریوں کی بڑی تعداد شہر میں دن رات امراء کے محلات کو گھیرے رہتی ، جب ان بھکاریوں سے نجات پانے کی کوئی سہل راہ دولت مندطبقے کو سجھائی نہ دی تو ان لوگوں نے باقاعدہ شکاری دستے ترتیب دینے شروع کردیے جن کا کام ان بھکاریوں کا شکار کرنا تھا۔
دنیا کی قدیم تاریخ سے بھی ایسے شواہد ملے ہیں جب معاشی ناانصافیوں کی بناء پر معاشرے تباہ وبرباد ہوگئے۔ آثارِقدیمہ کے ماہرین نے دریائے نیل کے قریب سے ازمنۂ قدیم کی ایک ''لوحِ قحط'' برآمد کی تھی۔ ماہرین مصریات اتفاق کرتے ہیں کہ اس پر دنیا کے قدیم ترین قحط کی یادداشت کندہ ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد سے تقریباً دو ہزار سال قبل ''تو سارتھرس'' کے زمانۂ حکمرانی میں مصر میں یہ ہولناک قحط پڑا تھا۔ اس لوح پر تو سارتھرس کے یہ الفاظ کندہ ہیں:
''میں اپنے عظیم الشان تخت پر بیٹھا اپنی بدبختی پر خون کے آنسو بہارہا ہوں، کیونکہ میرے عہدِ حکومت میں پچھلے سات برسوں سے نیل میں طغیانی نہیں آئی، غلّہ کم پیدا ہوا، فصل اچھی نہیں ہوئی اور ہر قسم کی خوراک کی ''قلّت'' ہے چنانچہ میری رعایا کا ہر شخص اپنے پڑوسی کے لیے ''چور'' بن گیا ہے۔''
آج ہم اپنے ملکی حالات کا جائزہ لیں تو کیا تو سارتھرس کے مصر سے ملتی جلتی صورتحال پاکستان میں برسوں سے قائم نہیں ہے، بلکہ شاید توسارتھرس کے مصر سے بدتر صورتحال ہمارے ملک ہو، لیکن یہاں تو سارتھرس کی طرح شاید کوئی آنسو بہانے والا بھی نہیں ہے۔
ہمارے ہاں ناجائز ذرائع سے حاصل ہونے والی دولت، اسمگلنگ اور دیگر مہربانوں کی مہربانیوں نے بظاہر بازاروں میں روپے کی ریل پیل نظر آتی ہے، لیکن اس کا ردّعمل یہ ہے اشیائے صرف کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
(جاری ہے)