عالمی ادارہ صحت بھی کہہ چکا کورونا لیبارٹری میں نہیں بنا، چین
چینی حکومت نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) بھی متعدد بار کہہ چکا ہے کہ دنیا بھر میں 20 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کرنے والا کورونا وائرس کسی لیبارٹری میں تیار نہیں کیا گیا۔
چینی حکومت کی جانب سے یہ وضاحتی بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یہ خبریں سامنے آئیں کہ امریکی خفیہ ایجنسیوں نے اس بات کی تحقیقات شروع کردی ہے کہ کیا واقعی کورونا کو کسی لیبارٹری میں تیار کیا گیا؟
امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز اور سی این این کی رپورٹس کے مطابق امریکی حکومت نے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی مدد سے اس بات کی تفتیش شروع کردی ہے کہ کیا واقعی مہلک وبا کو کسی لیبارٹری میں تیار کیا گیا؟
رپورٹس میں امریکی خفیہ ایجنسی اور حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ اگرچہ بیشتر حکومتی و خفیہ ایجنسی کے عہدیداروں کو یقین ہے کہ کورونا کو کسی لیبارٹری میں تیار نہیں کیا گیا تاہم اس کے باوجود امریکی حکومت نے اس کی تحقیقات شروع کردی ہیں کہ کہیں کورونا وائرس، چین کے شہر ووہان کی کسی لیبارٹری میں تو تیار نہیں کیا گیا۔
امریکی حکومت کی جانب سے کورونا کو لیبارٹری میں تیار کرنے کے حوالے سے تفتیش شروع کرنے کی خبریں ایک ایسے وقت میں سامنے آئیں جب چند روز قبل ہی امریکی صدر نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ امریکی حکومت اس بات کو دیکھ رہی ہے کہ کورونا وائرس کہیں لیبارٹری کی پیداوار تو نہیں۔
سی این این نے 16 اپریل کو اپنی رپورٹ میں بتایا کہ امریکی حکومت نے خفیہ ایجنسیوں کے عہدیداروں کی مدد سے کورونا کے لیبارٹری میں تیار ہونے کے معاملے کی تفتیش کا آغاز کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا لیبارٹری میں تیار ہوا؟ امریکی خفیہ ایجنسیوں نے تحقیق شروع کردی
امریکی حکومت کی جانب سے تفتیش کے آغاز کے بعد چینی حکومت نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت بھی کہہ چکا ہے کہ کورونا کسی لیبارٹری میں تیار نہیں کیا گیا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق چین کے محکمہ خارجہ کے ترجمان لی جیان ژاؤ نے پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ ڈبلیو ایچ او بھی کہہ چکا ہے کہ کورونا کسی لبیارٹری میں تیار نہیں ہوا۔
رپورٹ کے مطابق لی جیان ژاؤ نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران پوچھے گئے سوالات کے جواب میں مذکورہ وضاحت دی۔
ترجمان دفتر خارجہ سے کورونا وائرس کو ووہان کی لیبارٹری میں تیار کرنے سے متعلق سوال پوچھا گیا تھا جس پر انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت بھی متعدد بار کہہ چکا ہے کہ کورونا کو کسی لیبارٹری میں تیار کرنے کے شواہد نہیں ملے۔
خیال رہے کہ کورونا وائرس کی وبا چین کے صوبے ہوبے کے شہر ووہان سے دسمبر 2019 کے وسط میں شروع ہوئی تھی اور ابتدائی 2 ماہ تک مذکورہ وبا صرف چین تک ہی محدود تھی اور وہاں پر 82 ہزار سے زائد لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے۔
اگرچہ چند تحقیقات میں یہ بات کہی گئی ہے کہ کورونا وائرس ممکنہ طور پر ووہان شہر کی گوشت مارکیٹ سے چمگادڑ یا سانپوں کے گوشت سے سامنے آیا اور انسانوں میں منتقل ہوا تاہم بعض ماہرین ایسی تحقیقات کو بھی شکوک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکی فوج کورونا وائرس کو ’ووہان‘ لے کر آئی، چین کا دعویٰ
کورونا وائرس کے حوالے سے پہلے ہی دن سے دنیا بھر کے لوگ، ماہرین و سیاستدان مخمصے کا شکار ہیں اور کئی اہم سیاستدان بھی اس وبا کو حیاتیاتی ہتھیار سمجھتے ہیں تاہم عالمی ادارہ صحت نے ایسے خدشات کو مسترد کیا ہے۔
امریکا سمیت دیگر بڑے ممالک کے سیاستدان عالمی ادارہ صحت کے کردار کو بھی کورونا وائرس کے حوالے سے شکوک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے مذکورہ وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں کردار ادا نہیں کیا اور وہ اس حوالے سے چین کا ساتھ دیتا دکھائی دیا تاہم عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ نے ایسے الزامات کو مسترد کر دیا۔
کورونا وائرس کے باعث 16 اپریل کی سہ پہر تک دنیا بھر میں متاثر افراد کی تعداد 20 لاکھ 70 ہزار سے زائد جب کہ ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ 37 ہزار سے زائد ہوچکی تھی۔
کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ افراد امریکا میں ہیں جب کہ ہلاکتیں بھی وہیں سب سے زیادہ رپورٹ ہوئی ہیں۔