شکریہ لاک ڈاؤن: میں نے معروف سیریز ’منی ہیسٹ‘ کو کیسا پایا؟
ویسے تو دنیا میں کہانی کہنے اور سُننے کی روایت صدیوں پُرانی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ کہانی کے اس بیانیے میں تبدیلی آنے لگی۔ کہانی سننے کے لیے داستان گوئی کا فن ایجاد ہوا جبکہ کہانی پڑھنے کے لیے اس کو لکھنے کی شروعات ہوئی، یوں تخلیقِ ادب کی ابتدا ہوئی۔
اس پوری سرگرمی کے پیچھے ہزاروں سال کی تاریخ ہے، پھر ایک موڑ ایسا آیا جب کہانی کو دِکھانے کا عمل شروع ہوا تو اس کے ساتھ تھیٹر کے فن کی روایت متعارف ہوئی۔
انسانی اختراع نے اس میں مزید راہیں نکالیں، جن کی بنیاد پر ریڈیو، ٹیلی وژن اور سنیما نے کہانی کو سنانے اور دکھانے کا اپنا اپنا روپ دھارا۔ ان سب میں فلم کے میڈیم کو سب سے زیادہ شہرت ملی، انٹرنیٹ کی آمد کے بعد اب ویب سیریز نے مقبولیت میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جو اپنے میڈیم میں فلم اور ڈرامے کا امتزاج بھی ہیں۔
90ء کی دہائی کے وسط میں ویب ٹیلی وژن کے تصورات اور انٹرنیٹ کے ذریعے ویڈیو کو ترسیل و نشر کرنے کی ابتدا ہوئی جبکہ 2000ء کے بعد اس نشریاتی انداز کی شہرت اور مقبولیت میں حقیقی طور پر اضافہ ہوا۔ 1997ء میں اسی نوعیت کے ایک ادارے 'نیٹ فلیکس‘ نے تفریح کی دنیا میں اس جدت بھرے نشریاتی انداز میں نئے امکانات کو جنم دیا۔
یوں کہانی کو دیکھنے کے عمل میں لامحدود اور منفرد تفریح کے نئے تصورات در آئے۔ آج پوری دنیا میں اس ویب سائٹ کے ذریعے فلمیں، ڈرامے اور ویب سیریز دیکھی جاتی ہیں جن میں سے بہت ساری نیٹ فلیکس کی اپنی ہی پروڈکشن میں بنائی جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک شہرہ آفاق نیٹ فلیکس ویب سیریز ’مَنی ہیسٹ‘ کا تبصرہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں دیکھی جانے والی مقبول ترین ویب سیریز میں سے ایک ہے۔
اس سیریز کے ذریعے کہانی کو جدید ثقافتی افکار کی آمیزش کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور اس میں اسپین کی اپنی ثقافت اور یورپ کی ثقافتی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ ہسپانوی اور انگریزی زبانوں میں بنائی گئی یہ ویب سیریز کئی عالمی اہم اعزازات سمیٹنے کے علاوہ تفریحی دنیا میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔
ناکامی اور کامیابی کی ویب سیریز
2017ء میں اسپین کے ایک مقامی چینل نے 15 اقساط پر مشتمل ڈراما ’انٹینا تھری‘ 2 حصوں میں نشر کیا۔ پہلے حصے نے ناظرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کی اور اس کو بے پناہ پسند کیا گیا لیکن دوسرے حصے میں آخری قسط تک آتے آتے یہ ڈراما سیریل اپنی کشش کھو بیٹھا۔
اسی برس معروف امریکی تفریحی ویب سائٹ ’نیٹ فلیکس‘ نے اس کے حقوق حاصل کرلیے۔ پہلے مرحلے میں ان اقساط کو نئی ترتیب دی، اقساط کا دورانیہ کم کیا، جس کی وجہ سے 15 اقساط 22 ہوگئیں۔ ان کو جب ریلیز کیا گیا تو پوری دنیا میں اس کی مقبولیت نے نئے ریکارڈ قائم کردیے۔
اس شہرت کو دیکھتے ہوئے نیٹ فلیکس نے اسے مزید توسیع دینے کا فیصلہ کیا اور اپنی پروڈکشن کے تحت 2 مزید سیزن تخلیق کیے، جس کی غرض سے اسپین میں اپنا نیا پروڈکشن ہاؤس بھی تشکیل دیا۔ رواں ماہ کے آغاز میں چوتھا سیزن ریلیز ہوچکا ہے اور پوری دنیا میں دیکھا جا رہا ہے۔ 2020ء میں ہی اس کا 5واں سیزن نشر ہونے کی توقع ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں اس وقت یہ ویب سیریز اوّل نمبر پر ہے اور یہ منفی ومثبت دونوں پہلوؤں سے زیرِ بحث ہے۔
پاکستان کا تذکرہ
اس ویب سیریز کے تیسرے اور چوتھے سیزن میں پاکستان کا تذکرہ بھی آچکا ہے۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی یورپی اور امریکی فلم یا ڈرامے میں پاکستان کا ذکر آئے اور وہ ذکرِ خیر ہو؟
اس ویب سیریز میں 2 بار پاکستان کا نام سامنے آیا ہے۔
- پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آیا جب اس کہانی کا مرکزی کردار یعنی لوٹ مار کرنے والے گروہ کا سرغنہ اور ماسٹر مائنڈ 'پروفیسر' کمپیوٹر سے متعلق ہائی جیکنگ کے لیے ایک پاکستانی ہائی جیکر کا تذکرہ کرتا ہے جبکہ
- دوسری مرتبہ تو صرف ذکر ہی نہیں بلک ایک پاکستانی کردار کو بھی متعارف کروا دیا گیا۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ ڈکیتی کی غرض سے جب گروہ ایک ہسپانوی بینک پر قابض ہوتا ہے اور وہاں ان کی ایک مرکزی رُکن گولی لگنے سے شدید زخمی ہوجاتی ہے تو یہ ڈکیت ہائی جیکر پولیس سے مدد لینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں ناکامی ہوتی ہے پھر یہ پاکستان کے شہر اسلام آباد سے ایک ڈاکٹر احمد کا آن لائن تعاون حاصل کرتے ہیں اور ان کی مدد سے ایک پیچیدہ سرجری کامیاب ہوجاتی ہے۔
اب بظاہر تو اس کی وجہ سے پاکستانی بڑے خوش ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا پر اس خوشی کا غل غپاڑہ مچا ہوا ہے لیکن ذرا باریکی اور سنجیدگی سے دیکھا جائے تو پاکستانیوں کو اس میں مجرموں کا سہولت کار دکھایا گیا ہے جس پر رنجیدہ یا شرمسار ہونے کے بجائے پاکستانیوں کی اکثریت خوش ہے اور شنید یہ ہے کہ اس ویب سیریز کے پانچویں اور آخری سیزن میں ایک اور پاکستانی کردار دکھایا جائے گا جس کا تعلق بھی پاکستان سے ہوگا۔ اس حوالے سے مغربی میڈیا نے بھی اشارے دیے ہیں۔
کہانی، اسکرپٹ رائٹنگ
ویب سیریز کے ہدایت کار ’ایلکس پینا‘ ہی اس کے اسکرپٹ رائٹر ہیں، جس میں ان کی معاونت ’جویر گومز‘ نے کی ہے۔ سیریز میں 2 کہانیاں ہیں، جن میں پہلی کہانی 2 سیزن پر مبنی ہے۔ اس میں ایک صداکار کے ذریعے کہانی کے کردار بیان کیے گئے ہیں، یعنی صداکاری کے ذریعے کہانی کو مزید آسان کرکے دکھانے کا طریقہ بھی اختیار کیا گیا ہے۔
ان کہانیوں میں ایک ایسا گروہ دکھایا گیا ہے جو اسپین میں ڈکیتی کی تاریخی واردات کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اس گروہ کے کارندوں کے نام دنیا کے مختلف ممالک کے شہروں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں، جیسے ٹوکیو، برلن، نیروبی، ریو، ماسکو وغیرہ۔
اس گروہ کو اپنی پہلی واردات اسپین کے مرکزی معاشی ادارے ’رائل منٹ آف اسپین‘ جبکہ دوسری ڈکیتی ’بینک آف اسپین' میں کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ پہلی واردات میں یہ گروہ کامیاب رہا، جبکہ دوسری واردات کا حتمی فیصلہ اس ویب سیریز کے اگلے سیزن 5 میں ہوسکے گا۔
اس کہانی میں تقریباً 20 اہم کردار ہیں جن کی آمد و رفت ویب سیریز میں جاری رہتی ہے۔ ڈکیتیاں کیسے کی جائیں گی، یہ 'پروفیسر' پکارے جانے والا مرکزی کردار طے کرتا ہے، اس کے لیے وہ مختلف عادت و اطوار کے کارندے جمع کرتا ہے جن میں مرد اور عورتیں شامل ہیں۔
پروفیسر ان کو باقاعدہ ایک جماعت کی صورت میں ایسے تربیت دیتا ہے جیسے وہ ڈکیتی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کسی جامعہ میں داخلہ لے کر آئے ہوں۔ اس دوران ان کے آپس کے جنسی تعلقات اور رومانوی معاملات بھی کہانی کی رنگینی کو بڑھاوا دیتے ہیں۔
میری نظر میں کہانی کے سب سے کمزور حصے بھی یہی ہیں۔ ایک طرف تو دکھایا گیا ہے کہ جرائم پر مبنی مشن میں ذاتیات کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس کے لیے مجرموں کو باقاعدہ تربیت دی گئی ہے، ان کو جذباتی ہونے سے منع بھی کیا گیا ہے اور صرف عقلی دلائل مدِنظر رکھے گئے ہیں لیکن دیکھا یہ گیا کہ ایک ایک کرکے سب کردار جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں، جس میں پولیس، مجرم اور مغوی تینوں طرح کے کردار شامل ہیں۔
کہانی جب آگے بڑھتی ہے اور جب وہ پہلی ڈکیتی شروع کرتے ہیں تو ان کرداروں کا ماضی بھی کہانی میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ ہر کردار اپنے غم اور خوشیاں دیگر کرداروں کو سناتا اور بتاتا ہے۔
جیسے جیسے کہانی مزید آگے بڑھتی ہے ویسے ویسے کرداروں کا آپسی تصادم بھی زور پکڑنے لگتا ہے۔ ایک طرف جرائم پیشہ ذہنیت کے افراد اور ان کے قبضے میں درجنوں مغوی افراد تو دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ان کی حکمتِ عملی دیکھنے کو ملتی ہے۔
دونوں طاقتوں کے مابین مکالمہ اور معاملات کی تفہیم سے کہانی کی دلچسپی برقرار رہتی ہے، تاہم پہلے 2 سیزن تک تو کہانی کی یہ گرفت مضبوط ہے لیکن تیسرے اور چوتھے سیزن میں کہانی میں کچھ خاص کشش باقی نہیں رہتی، جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہاں کہانی اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور کچھ نیا نظر نہیں آتا۔ اس سب کے باوجود ابھی تک تو یہ ویب سیریز مقبولیت کے گراف پر نیچے آتی نظر نہیں آرہی ہے مگر آنے والے دن حتمی طور پر یہ طے کریں گے کہ اس کے نئے سیزن کے نتائج کیا ہوں گے؟
لاک ڈاؤن میں ابھی تو جبری فراغت کے مارے لوگ بالخصوص پاکستان میں پورے پورے سیزن دیکھنے میں مصروف ہیں۔ یعنی عوام کے فارغ ہونے کا اندازہ اس طریقے سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے 41 سے 59 منٹ کے دورانیے کی 31 اقساط پر مبنی اس ویب سیریز کی ساری قسطیں دیکھ لی ہیں اور سوشل میڈیا پر اس کے بارے میں اپنے خیالات کا تفصیلی اظہار بھی کررہے ہیں۔
عکس بندی اور ہدایت کاری
3 اپریل 2020ء کو اس ویب سیریز کا چوتھا سیزن ریلیز کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی نصف گھنٹے کی ایک دستاویزی فلم بھی جاری کی گئی جس میں یہ بتایا گیا اس کی عکس بندی کا کام کس طرح انجام دیا گیا؟ اس دوران کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ اسپین اور اٹلی میں خاص طور پر ہجوم کے سامنے اداکاروں کو اپنے کردار نبھانے پڑے اور سنیماٹوگرافی میں خاصی دِقت پیش آئی۔
کئی جگہ پر سینماٹو گرافر اپنا سر پکڑے دکھائی دیے، جس کی وجہ وہ ذہنی دباؤ تھا کہ جیسا کام وہ عکس بند کرنا چاہتے ہیں وہ ہو بھی پائے گا یا نہیں؟ ہسپانوی زبان کی اس ویب سیریز کا محور مجرمانہ سرگرمیاں، ہائی جیکنگ اور تِھرل تھا، جس کو اسپین کے علاوہ، اٹلی، پاناما اور تھائی لینڈ میں عکس بند کیا گیا ہے۔