اور اب سائنسدانوں نے اس کا جواب دیا ہے کہ آخر یہ وائرس اتنی تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے اور اس کی تیزرفتاری سے روک تھام کس طرح ممکن ہے۔
ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ووہان میں اس وبا کے آغاز پر ہر متاثرہ شخص نے اوسطاً اس وائرس کو آگے 5.7 افراد میں منتقل کیا۔
امریکا کی لاس ایلموس نیشنل لیبارٹری نے اس مقصد کے لیے ریاضیاتی تجزیہ کیا اور ان کے بیان کردہ اعدادوشمار فروری میں عالمی ادارہ صحت اور دیگر پبلک ہیلتھ اداروں کے اعداد سے دگنا زیادہ ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج چین میں وبا تک محدود ہیں مگر ان کا اطلاق دنیا کے دیگر حصوں میں بھی کیا جاسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی روک تھام توقعات سے زیادہ مشکل ہے۔
تحقیق کے مطابق اس پھیلاؤ کی رفتار کو ذہن میں رکھا جائے تو اس کی روک تھام کے لیے 82 فیصد آبادی میں اس کے خلاف قوت مدافعت ہونی چاہیے، اب یہ ویکسین کے ذریعے ہو یا بیمار ہونے کے بعد تندرست ہونے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس تحفظ کے بغیر ہہت زیادہ سماجی دوری کی مشق کی ضرورت ہوگی کیونکہ اس وقت اوسطاً ہر 5 میں سے ایک مریض میں اس کی تشخیص نہیں ہورہی۔
دنیا بھر میں حکومتوں کی جانب سے یہ طے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کب اور کیسے لاک ڈائون کا خاتمہ کیا جائے، کیونکہ یہ بھی خدشہ ہے کہ پابندیاں ختم کرنے سے وائرس کی لہر ایک بار پھر زور نہ پکڑلے۔
خیال رہے کہ دنیا بھر میں اس وائرس سے اب تک 16 لاکھ سے زائد افراد متاثر جبکہ 96 ہزار ہلاک سے زیادہ ہلاک ہوچکے ہیں، پاکستان میں بھی 4688 کیسز کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ 68 جاں بحق ہوگئے۔
چین میں اب وبا پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے مگر حال ہی میں وہاں ایسے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جن میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔
اس نئی تحقیق کے نتائج جریدے ایمرجنگ انفیکشز ڈیزیز میں شائع ہوئے اور اس میں موبائل فون ٹریول ڈیٹا اور چینی صوبے ہوبے کے باہر کیس رپورٹس کو استعمال کرکے یہ تخمینہ لگایا گیا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ مارچ میں چین اور جنوبی کوریا میں نئے مصدقہ کیسز کی تعداد میں کمی سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وائرس کی روک تھام ممکن ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس وبا کا خااتمہ بڑے پیمانے پر ویکسینیشن یا قوت مدافعت سے ہی ممکن ہوسکے گا۔
مگر اس وائرس سے شکار افراد دوبارہ اس سے متاثر ہوسکتے ہیں یا نہیں، اس حوالے سے بھی ابھی تک سائنسدانوں کوئی واضح بات نہیں کرسکے ہیں۔
کچھ کے خیال میں ایک بار بیمار ہونے کے بعد اس وائرس کے خلاف جسم میں مدافعت پیدا ہوجاتی ہے جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہ ابھی کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہوگا۔
تاہم کوریا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کے مطابق اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے افراد میں کورونا وائرس دوبارہ بھی متحرک ہوسکتا ہے۔
کم از کم جنوبی کوریا میں 51 کیسز میں ایسا ہوا ہے جو صحتیاب ہوئے مگر پھر ان میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوگئی۔
کورین ادارے کا کہنا تھا کہ یہ لوگ دوبارہ وائرس کا شکار نہیں ہوئے بلکہ یہ ان کے جسم میں موجود وائرس ہی دوبارہ متحرک ہوگیا۔
کورین سی ڈی سی کے ڈائریکٹر جنرل جیونگ یون کیونگ کا کہنا تھا کہ ہم اس حوالے سے ایک جامع تحقیق کررہے ہیں، کیونکہ ایسے متعدد کیسز سامنے آئے ہیں جب علاج کے دوران مریض میں ٹیسٹ ایک دن نیگیٹو آیا مگر بعد میں مثبت ہوگیا۔
ایک مریض کو اس وقت مکمل صحتیاب قرار دیا جاتا ہے جب اس کے 24 گھنٹے میں 2 ٹیسٹ کے نتائج نیگیٹو آئے ہوں۔
جنوبی کوریا ان ابتدائی ممالک میں سے ایک ہے جہاں اس وبائی مرض کے کیسز کی تعداد اچانک بہت زیادہ بڑھ گئی تھی، مگر فروری کے اختتام سے نئے کیسز کی شرح میں نمایاں کمی آچکی ہے۔