‘پرتعیش زندگی کی نمائش ہوسکتی ہے تو کسی کی مدد کرنے کی کیوں نہیں؟‘
جہاں پاکستان کی کئی نامور شخصیات دکھاوا کرکے لوگوں کی مدد کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں وہیں اداکار سلمان شیخ عرف مانی اس حوالے سے کافی الگ رائے رکھتے ہیں۔
مانی نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں انہوں نے اپنے گھر میں موجود راشن کے سامان کے حوالے سے بتایا، جو وہ ضرورت مندوں میں بانٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: یاسر حسین کی دکھاوا کرکے مدد کرنے والوں پر تنقید
یہ ویڈیو مانی کی اہلیہ حرا مانی بنا رہی تھی، اس دوران اداکار کا کہنا تھا کہ ’یہ 500 بوری آٹا ہے جو ہزار گھروں میں جائے گا، لیکن میں نیک کام کی تشہیر کیوں کررہا ہوں؟ اس لیے کیوں کہ جب ہم بچوں کی تصاویر لگاتے ہیں، گھروں کی تصاویر لگاتے ہیں، ہوائی جہاز میں بیٹھ کر تصاویر لگاتے ہیں؟ تو اس کی کیوں نہیں؟ آپ لوگ بھی یہ دیکھ کر ہمیں فالو کریں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم بہت تیزی سے راشن بانٹ رہے ہیں، لوگ تنقید کررہے ہیں لیکن ہمارا حوصلہ بڑھتا جارہا ہے، اب تک کئی برانڈز اس نیک کام میں ہمارے ساتھ جڑ گئے ہیں‘۔
انہوں نے ویڈیو میں یہ بھی دکھایا کہ وہ ضرورت مندوں کو دینے والے راشن بیگز میں کیا کیا سامان شامل کررہے ہیں۔
اداکار کے مطابق اس نیک عمل میں کئی لوگ انہیں سپورٹ کررہے ہیں۔
تاہم مانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ لوگ ضرور غلطی کررہے ہیں جو راشن دے کر تصاویر بنواتے ہیں البتہ ہوسکتا ہے کہ ان کی نیت اچھی ہو۔
یہ بھی پڑھیں: لوگوں کی مجبوری کو پبلسٹی اسٹنٹ نہ بنائیں، فیصل قریشی
اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے مانی نے کیپشن میں ایک قرآنی آیت کا حوالہ بھی دیا۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’شوبز شخصیات ہوتے ہوئے جب ہم اپنی دولت، اپنے شوز کی ریٹنگز، اپنے قیمتی ملبوسات کی نمائش کرسکتے ہیں اور اسے ٹرینڈنگ کا نام دے دیتے ہیں تو پھر جب ہم کوئی اچھا کام کرتے ہیں اور اسے دکھاتے ہیں تو سستی شہرت حاصل کرنے کا الزام لگادیا جاتا ہے‘۔
اداکار کے مطابق اس لاک ڈاؤن کے دوران حرا اور انہوں نے لوگوں کی مدد کرنے کے حوالے سے سوچا اور اس حوالے سے انسٹاگرام پر بھی لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اس عمل میں ان کا ساتھ دیں جس کے بعد انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
مانی کے مطابق وہ کسی کو راشن دیتے ہوئے تصاویر شیئر نہیں کررہے اور نہ ہی وہ یہ دکھا رہے ہیں کہ کون ان کے گھر مدد کے لیے آرہا ہے۔
واضح رہے کہ صوبے سندھ میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر صوبائی حکومت نے 23 مارچ کی رات 12 بجے سے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔
مراد علی شاہ نے کہا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران کسی کو غیر ضروری گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
صوبے میں لاک ڈاؤن کے باوجود اشیائے خور و نوش کی دکانیں صبح 8 سے رات 8 بجے تک کھلی رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: ’غریبوں کی مدد کرتے ہوئے ان کی عزت نفس سے مت کھیلیں‘
تاہم 27 مارچ کو وزیر اعلیٰ سندھ نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس کو صوبے میں لاک ڈاؤن مزید سخت کرنے کا کہتے ہوئے شام 5 بجے دکانیں بند کرنے کی ہدایت کردی۔
صوبائی حکومت نے مساجد میں نمازوں کے اجتماعات پر بھی پابندی کا اعلان کیا تھا۔
بعدازاں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
خیال رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز بڑھنے کا سلسلہ جاری ہے اور ملک میں مزید نئے کیسز سامنے آنے سے تعداد 4 ہزار 194 تک جا پہنچی ہے جبکہ اب تک اس عالمی وبا سے 60 افراد انتقال کرچکے ہیں۔
جہاں ایک طرف یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے وہیں اس کے مقامی طور پر منتقلی کے کیسز میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔