ناچاہتے ہوئے بھی کورونا کی تشخیص کے لیے میرے 2 ٹیسٹ کیوں ہوئے؟
میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ نہیں کرانا چاہتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کے مجھ میں صوبائی وزیرِ تعلیم سعید غنی کی طرح بظاہر کوئی علامات موجود نہیں تھیں۔ پھر دوسرا مجھے Nasal Swab دینے والا عمل بڑا تکلیف دہ لگتا تھا۔ ساتھ ہی مجھے یہ بھی لگتا تھا کہ کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ کٹس کم ہیں اور اچھا یہی ہوگا کہ وہ کسی ایسے فرد کے کام آئیں جس میں واقعی مرض کی علامات موجود ہوں۔
30 مارچ کو میں نیوز کوریج کے لیے ڈیفینس میں واقع انٹیگریشن ایکسپرٹس نامی ادارے پہنچا۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ ادارہ انووٹیو ہیلتھ کیئر سسٹم کے تحت کورونا وائرس کی ریپڈ ٹیسٹنگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جی ہاں، آپ نے بالکل ٹھیک پڑھا، ریپیڈ ٹیسٹنگ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس ٹیسٹنگ کی درستگی کی شرح 95 فیصد تک ہے۔ ایک اور حیران کن بات یہ کہ اس طریقہ کار کے ذریعے کورونا وائرس کے مثبت یا منفی ہونے کا نتیجہ صرف 10 منٹ میں سامنے آجاتا ہے۔
ادارے کے چیف ایگزیکٹیو افسر نے بتایا کہ اس ٹیسٹ کی قیمت کورونا وائرس کی پی سی آر ٹیسٹنگ سے کم ہے۔
دورانِ ڈیمو ڈاکٹر ضیا نے میرے ساتھ ہی ٹیسٹ پرفارم کیا اور خوش قسمتی سے وہ منفی تھا۔ ٹیسٹ صرف انگلی سے نکالے گئے خون کے 3 قطروں سے ممکن ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ اس ٹیسٹ کو گھر میں باآسانی کوئی بھی پرفارم کرسکتا ہے۔ جیسے ذیابطیس چیک کی جاتی ہے۔
یہ بھی بتایا کہ فِن لینڈ اور دیگر ممالک سے ادارہ ان کٹس کو درآمد کرچکا ہے، لیکن ٹیسٹ کرنے کا معاملہ حکومتی اجازت سے مشروط ہے۔
آپ نے خبروں ہی میں سنا ہوگا کہ حال ہی میں کراچی سے کورونا وائرس کے پہلے مریض یحییٰ جعفری نے اپنا پلازمہ عطیہ کردیا۔ دراصل یہ مشورہ اور تجویز ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی کی تھی اور اب انہوں نے ہی حکومت کو ریپڈ ٹیسٹنگ کی فوری اجازت دینے کا بھی مشورہ دیا ہے۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک لمبے عرصے تک لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دوسرا یہ کہ پی سی آر سسٹم کے تحت کسی بھی ٹیسٹ کا نتیجہ 24 گھنٹوں میں آتا ہے۔ ساتھ ہی ٹیسٹنگ کٹس کی قیمت اور قلت دونوں ہی اس ٹیسٹ کے تیزی سے کیے جانے کے درمیان رکاوٹ ہیں۔
ڈاکٹر طاہر شمسی کا کہنا یہ ہے کہ شہریوں کی فوری ریپڈ ٹیسٹنگ کرانے سے روز مرہ امور کی بحالی جلد ممکن ہوسکے گی۔ ساتھ ہی جن افراد کا ٹیسٹ پہلے مثبت آچکا تھا اور اب منفی ہے ان کی اینٹی باڈیز ناصرف دوسروں کے کام آسکتی ہیں بلکہ ان کو دوبارہ کورونا وائرس ہونے کا کوئی خطرہ بھی موجود نہیں ہے۔
کراچی میں ایس آئی یو ٹی، انڈس اور ڈاؤ ہسپتال کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ مفت کرتے ہیں، لیکن میں شروع سے ہی لوگوں کو بلا ضرورت ہسپتالوں کا رخ نہ کرنے کا مشورہ دیتا رہا ہوں۔ اس کی 3 بڑی وجوہات ہیں۔
- پہلی یہ کہ ہسپتالوں میں ٹیسٹنگ کٹس کی کمی ہے۔
- دوسری وجہ ان ہسپتالوں میں گھومتا پھرتا رسک فیکٹر ہے۔ پھر انتطار کے باوجود یہ بھی ممکن ہے کہ ہسپتال آپ کو اسکریننگ کے بعد ہی گھر روانہ کردے اور ٹیسٹنگ کی نوبت نہ آئے، اور
- تیسری وجہ یہ ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔
جیسا کے میں نے کہا کے میں ٹیسٹ نہ کرانے کے حق میں تھا۔ لیکن میرے ساتھ یک نا شد دو شد والا معاملہ ہوگیا۔
جی ہاں۔
ہوا کچھ یوں کہ ڈپٹی کمشنر ساؤتھ نے باغ ابن قاسم کے پاس انڈس ہسپتال کی مدد سے پاکستان کی پہلی ڈرائیو تھرو کورونا وائرس ٹیسٹنگ سروس شروع کی ہے۔
اپنے نیوز چینل کے توسط سے اس سروس کی کوریج کے لیے پہنچا اور ماحول کو دیکھتے ہوئے فوری طور پر اسکرپٹ اپنے ذہن میں ترتیب دے دیا۔
ڈرائیو تھرو ٹیسٹ میں 3 مرحلے تھے۔
- یعنی پہلے مرحلے میں صرف سوال جواب،
- اس میں کچھ شک ظاہر ہو تو ایکسرے، اور
- ایکسرے کے بعد کووڈ 19 کی ایپ کے ذریعے ٹیسٹ کرنے یا نہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے
اب چونکہ 2 روز قبل ریپڈ ٹیسٹ کے نتیجے میں میرا رزلٹ منفی آچکا تھا اس لیے مجھے یقین تھا کہ مجھے دوسرے مرحلے کے بعد ہی واپس روانہ کردیا جائے گا۔
ٹیسٹ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہوا۔ پہلے مرحلے میں مجھ سے سوالات ہوئے اور اس کی بنا پر مجھے ایکسرے کرانے کا مشورہ دیا گیا۔ ایکسرے کے بعد کووڈ 19 کی ایپ کے ذریعے ٹیسٹ کرنے یا نہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ حیران کن طور پر ڈاکٹر نے مجھے ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دے دیا۔
یہ سن کر میں حیران بھی ہوا اور پریشان بھی کہ بھلا ایسا کیوں؟ کیا کوئی گڑبڑ تو نہیں؟
خیر میں نے اسی لمحے اپنے اسکرپٹ میں اضافہ کیا اور تیسرے پڑاؤ کا ذکر بھی کردیا۔
یہ وہی مرحلہ ہے جس سے ہر کوئی گھبراتا ہے۔
ناک اور حلق کے ذریعے ہونے والے 15 سیکنڈ کا ٹیسٹ آنسو نکال دیتا ہے۔ اس دوران اپنی تھوک کو باہر پھینکنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔
بہرحال یہ مرحلہ بھی مکمل ہوا اور 24 گھنٹوں بعد اس ٹیسٹ کی رپورٹ بھی منفی آئی، جو میرے لیے اب تک کی سب سے اچھی خبر تھی۔ لیکن اس کے باوجود ڈاکٹرز نے مجھے پُرہجوم جگہوں کا رخ کرنے میں احتیاط برتنے کا مشورہ دیا۔
جی ہاں احتیاط برتیں کیونکہ یہی وہ مشورہ ہے جو کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد سے ہر کسی کو دیا جارہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اپنے ذہن کو انتشار سے بھی بچانے کی کوشش کیجیے۔
میرے ایک دوست نے اپنے سیلف کوارنٹائن کا دورانیہ محض اس لیے 21 دن کرلیا ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر اس نے خبر دیکھی کے مرض کے جانے میں 21 دن بھی لگ سکتے ہیں۔ حالانکہ ایسا باالکل نہیں ہے۔
ٹھیک ایسے ہی کئی لوگ دیگر ممالک سے سامنے آنے والی ویڈیوز کو دیکھ کر موازنہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ عمل بھی ٹھیک نہیں۔ اطراف کے گھروں میں مشتبہ کیس سامنے آنے کی صورت میں سیلف کوارنٹائن کو جاری رکھیں اور علامات ظاہر ہونے کی صورت میں ہی ہسپتال کا رُخ کیجیے۔
گزشتہ 15 دنوں سے زیادہ اس بیماری کی کوریج کے بعد اور مختلف حالات و واقعات اور مریضوں کی عمر کا بغور جائزہ لینے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ 50 سال سے زائد کی عمر کے افراد کے لیے احتیاط لازم ہے۔
اب تک سندھ میں ہوئیں اموات کا جائزہ لیں تو ان افراد کی عمریں 50 سے 80 سال کے قریب ہیں۔ یہ اعداد و شمار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ گھروں کے بزرگوں کی قوت مدافعت کم ہوتی ہے، اس لیے سب سے زیادہ ان کا خیال رکھا جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کے لاک ڈاؤن کے دوران کئی افراد کے چولہے ٹھنڈے ہوئے ہیں۔ کئی افراد کو کورونا سے زیادہ راشن کی فراہمی، گھر چلانے، کرائے کی ادئیگی اور نوکری جیسے معاملات کی فکر ستارہی ہے۔ لیکن یقین کیجیے کہ اگر زندگی رہی تو یہ مشکل بھی ختم ہوجائے گی۔
اس بات سے تو شاید ہی کوئی انکار کرے کہ حکومتِ سندھ کی جانب سے راشن بانٹنے کا مکینزم اس قدر مؤثر نہیں ہے، جتنا ہونے کی ضرورت تھی۔ اس لیے کوشش کیجیے اپنے طور پر جو کوشش کرسکیں کیجیے۔ اپنی استطاعت کے مطابق گھروں کے قریب موجود ضرورت مند افراد پر نظر رکھیے، اور جو بھی ممکن ہوسکے ان کی مدد کیجیے۔
لکھاری پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں۔ جامعہ کراچی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں تحقیق کررہے ہیں۔ تفریح کے ساتھ ساتھ دلچسپی کے موضوعات پر بھی لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔