وہ لاک ڈاؤن کی پہلی شام تھی، جب میں نے اسے دیکھا۔
سورج ڈوبتے ہی افق پر اداسی اتر آئی۔ شہر چپ چاپ سمٹ گیا۔ درجہ حرارت گرگیا تھا۔ سڑکوں پر آج شور کم تھا، اور بس اسٹاپ کی تاریکی میں ایک خوف دبے پاؤں چل رہا تھا۔
میں شہر کی مرکزی شاہراہ پر موجود سلیٹی رنگ کی عمارت کے پانچویں فلور پر موجود تھا۔ ملازمین اپنے اپنے کام نمٹا کر، کمپیوٹر اسکرین بند کرنے کے بعد، انگڑائیاں لیتے شہر کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ کبھی کبھی کوئی قہقہہ سنائی دیتا، جس کے پس پردہ ڈر کی سراسرہٹ ہوتی۔
فلور کی سب عورتیں پہلے ہی جاچکی تھیں۔ صرف 10، 12 مرد تھے۔ ایک لڑکا کینٹین میں آج کی آخری چائے کپوں میں انڈیل رہا تھا۔ گورا چٹا، سنہری بال، نیلی آنکھیں۔ آنکھیں، جو بہت سی سرخی دیکھ چکی تھیں۔