گزشتہ دنوں دنیا میں سب سے زیادہ ٹیسٹ کرنے والے ملک آئس لینڈ کے ڈیٹا میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 50 فیصد کیسز ایسے تھے جن میں علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔
امریکا کے ادارے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کے ڈائریکٹر کے مطابق امریکا میں ایسے کیسز کی تعداد 25 فیصد تک ہوسکتی ہے جو اس وائرس کو آگے لوگوں تک پھیلا رہے ہیں۔
سی ڈی سی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ ریڈفیلڈ نے ایک انٹرویو میں بتایا 'تفصیلات سے اب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ بڑی تعداد میں مریض ایسے ہیں جن میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں اور اس کی تعداد 25 فیصد تک ہوسکتی ہے'۔
اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے امریکا کے معروف وبائی امراض کے ماہرین نے فیس ماسکس کو ہتھیار بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کووڈ 19 کے حوالے سے قائم ٹاسک فورس میں شامل ڈاکٹر انتھونی فوچی کے مطابق وہ عام عوام کو فیس ماسکس پہننے کی تجویز دینے پر غور کررہے ہیں، ابھی یہ طے تو نہیں ہوا، مگر ایسا ہت جلد ہوسکتا ہے۔
اگر امریکی انتظامیہ کی جانب سے بڑے پیمانے پر فیس ماسک کے استعمال کی ہدایت کی گئی تو سی ڈی سی کی جاری کردہ ہدایت کے کلاف ہوگا جس میں کہا گیا ہے کہ فیس ماسک صرف طبی ورکرز، بیمار افراد اور ان کا خیال رکھنے والوں کو پہننچے چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت کا بھی کہنا ہے کہ فیس ماسک کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے تاہم اب وہ بھی اس حوالے تحقیق کرکے شواہد جمع کررہا ہے۔
بدھ کو عالمی ادارے کے ڈائریکٹر نے کہا کہ وہ ایسے شواہد جمع کررہے ہیں جن کی بنیاد پر کورونا وائرس کی وبا کے دوران لوگوں کو فیس ماسک کے استعمال کا مورہ دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ابھی نیا وائرس ہے اور ہم مسلسل اس کے بارے میں سیکھ رہے ہیں، تو جیسے جیسے وبا آگے بڑھ رہی ہے، وہیسے ہی شواہد بھی سامنے آرہے ہیں اور ہماری تجاویز بھی تبدیل ہورہی ہیں۔
امریکی صدر نے ملک میں تیزی سے بڑھتے کورونا وائرس کیسز کے باعث عوام کو حفاظتی تدابیر کے طور پر مشورہ دیا کہ اگر ماسک دستیاب نہیں تو وہ عارضی طور پر اسکارف کا بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
میڈیا کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’تقریباً ہر کسی کے پاس اسکارف ہوتا ہے، جو لوگ ماسک پہننا چاہتے ہیں وہ پہن لیں اس میں کوئی مسئلہ نہیں، لیکن میں مشورہ دوں گا کہ بازار جاکر ماسک خریدنے کے بجائے اسکارف پہن سکتے ہیں‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ویسے تو ہم بڑی تعداد میں ماسک تیار کر رہے ہیں تاہم یہ ہسپتال بھیجنے کے لیے ہیں، جہاں ان ماسک کی سب سے زیادہ ضرورت ہے‘۔