’آج لاک ڈاؤن کا آٹھواں روز ہے، راشن معلوم نہیں کہاں رہ گیا‘
وبا میں ایک شادی
ایک مہینہ پہلے، ہاں بالکل ایک مہینہ پہلے وہ کتنی خوش تھی، دن تھے کہ گزر ہی نہیں رہے تھے۔ عامر جو اس کا بچپن کا منگیتر تھا، اس نے دبئی سے آنا تھا اور 23 تاریخ کو ان کی شادی طے تھی۔
آخر 15 تاریخ بھی آگئی، اسی دن عامر کا جہاز لاہور اترنا تھا۔ لالا اور ان کے سارے دوست ایک گاڑی پر اسے لینے گئے تھے اور جب وہ گاؤں واپس آئے تو صفیہ نے اسے کھڑکی سے دیکھا تھا۔ 2 سال میں وہ کتنا بدل گیا تھا، مونچھیں لمبی لمبی اور پہلے سے کچھ موٹا بھی ہوگیا تھا۔ ’شادی ہوجائے پھر تو کہوں گی روز ورزش کیا کرے‘، وہ یہ سوچ کر مسکرا دی۔
شادی کی تاریخ 23 طے تھی کہ ملک میں وبا پھوٹ پڑی، حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے۔
’اب کیا ہوگا؟‘ کیا ہماری شادی کبھی نہیں ہوگی اور ہم ایسے ہی اپنے اپنے گھروں میں بند رہیں گے۔‘
صفیہ بہت پریشان تھی، بڑے چچا ایک دن گھر آئے اور اُس کے ابّا سے کہا کہ ’شادی 23 کو ہی ہوگی، لوگ نہیں بلائیں گے بس خاندان کے لوگ ہی ہوں گے لیکن شادی ضرور ہوگی۔‘
ڈھولکی جو چند روز ہوئے رک گئی تھی پھر بجنے لگی اور 23 تاریخ کو وہ بیاہ کر عامر کی ڈولی میں آن بیٹھی۔
رات گئے جب وہ کمرے میں آیا تو بے تحاشا کھانس رہا تھا۔ حتٰی کہ وہ کھانستے کھانستے فرش پر گرگیا۔
وہ گھبرا گئی۔
’پانی دوں آپ کو؟‘ لیکن وہ تیز تیز سانس لیتے ہوئے تڑپ رہا تھا۔
وہ باہر کو دوڑی۔
’بڑے چچا وہ، وہ عامر کی طبعیت بگڑ گئی ہے،‘ اس نے چلّا کر کہا۔
سب دوڑ کے کمرے میں آئے تو وہ فرش پر بے ہوش پڑا تھا۔
’ایمبولینس بلاؤ،‘ بڑے چچا چیخے۔
ایمبولینس آگئی لیکن لاہور پہنچنے سے پہلے ہی صفیہ بیوہ ہوگئی تھی۔
بھوک کا وائرس
جب سے شہر میں وائرس نے حملہ کیا تھا لوگ گھروں میں چھپ کر بیٹھ گئے تھے لیکن اَچھو کہاں جاسکتا تھا؟
وہ ایک مزدور تھا، روز شہر کے چوک پر بیٹھا رزق کا انتظار کرتا اور اب تو سڑکیں آدمیوں سے خالی ہوگئی تھیں۔
’حکومت مزدوروں کے لیے رقم اور راشن کا انتظام کر رہی ہے، یونین کونسل کے دفتر میں جاکر اپنا نام لکھواؤ‘، ایک دن ایک پڑھے لکھے بابو نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اس سے کہا۔
’اوہ تو نام لکھوانے سے راشن مل جائے گا؟‘
’ہاں، ہاں وبا میں راشن حکومت کے ذمے ہے، فوراً جاؤ۔‘
وہ اسی وقت یونین کونسل کے دفتر جا پہنچا۔ وہاں لوگوں کی بھیڑ تھی۔ دُور تک لمبی قطار، جیسے سارا شہر ہی غریب ہو۔ وہ قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ وہاں یونین کونسل کے عملے کے علاوہ کسی نے بھی حفاظتی ماسک نہیں پہن رکھا تھا، شاید ان غریبوں کا خیال تھا کہ بھوک سے بڑا کوئی وائرس نہیں۔ 4 گھنٹے بعد اس کا نمبر آگیا، اس نے نام اور شناختی کارڈ نمبر لکھوا دیا۔ اسے کہا گیا کہ 3 دن بعد آکر پتا کرے۔
آج آٹھواں روز ہے، راشن معلوم نہیں کہاں رہ گیا ہے۔
دنیا ایک کوارنٹین ہے
اس نے کھڑکی سے باہر کھلے پھولوں کو دیکھا تو ایک آہ سی اس کے سینے سے نکلی۔ اُسے معلوم نہیں تھا لیکن وہ رو رہا تھا، ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر ہاتھ پر آن گرا۔
اُس نے اپنے بیٹے کو جو شہر میں تھا، پیغام بھیجا۔
’گھر میں رہنا اور باہر مت نکلنا۔‘
تھوڑی ہی دیر میں موبائل کی اسکرین جوابی میسج سے چمکنے لگی۔
’میں گھر پر ہوں، آپ نے بھی باہر نہیں نکلنا،‘ حالانکہ اس کا بیٹا اس وقت اپنے بینک میں موجود تھا۔ میسج بھیجنے کے بعد بیٹے نے اپنا موبائل بند کردیا کہ 5 بجے سے پہلے اسے بہت سارے کام ختم کرنے تھے۔
’میں بھی گھر پر ہوں، تمہارا بینک کتنے روز بند رہے گا؟‘ اس نے ایک اور پیغام بھیجا اور جواب کا انتظار کرنے لگا لیکن وقت پھیلتا گیا حتٰی کہ باہر سورج ڈوب گیا۔
وہ پریشانی کے عالم میں کمرے کے چکر کاٹنے لگا، آخر وہ جواب کیوں نہیں دے رہا، اس نے کئی بار فون کیا لیکن آگے فون بند تھا، ایسا کیوں؟ وہ خود سے یہ سوال پوچھتا تو گھبرا جاتا۔
’نہیں، نہیں ایسا کچھ نہیں ہوسکتا،‘ اُس نے خود کو گھیرتے وہموں کو سر جھٹک کر دُور کیا لیکن وہ بے حد پریشان تھا۔ وہ باہر نہیں نکل سکتا تھا کہ باہر وبا تھی سو وہ بیٹے کو میسج ہی کرتا رہا۔
’ٹھیک ہو؟‘
’جواب کیوں نہیں دے رہے؟‘
’سب خیریت تو ہے؟’
’بیٹا میں بہت پریشان ہوں؟‘
رات گئے اُس کے موبائل فون کی اسکرین چمکی۔
’بابا سوری، موبائل بند تھا، سب خیریت ہے، آپ پریشان نہ ہوں‘۔
میسج پڑھ کر وہ قہقہے مارتے ہوئے رونے لگا۔
وبا کے دنوں میں دُکھ، سُکھ، ہنسی، خوشی، آنسو جیسی کیفیات اپنی حیثیت بدلنے لگتی ہیں، اسے محسوس ہوا جیسے ساری دنیا ایک کوارنٹین ہے جس میں سب انسان قید ہیں۔
وبا سے پہلے کا خواب
گبریل فرانسسکو وینس میں رہتا تھا اور وبا پھیلنے سے پہلے اس کی زندگی ان 2 باتوں کے گرد گھوم رہی تھی کہ وہ اتنی رقم جمع کر لے کہ اس سے وہ ایک گاڑی اور اپنا ذاتی اپارٹمنٹ خرید لے، اس کے لیے وہ بہت محنت کر رہا تھا اور 2 جگہوں پر کام کرتا تھا۔
پھر شہر میں وبا پھیل گئی اور شہر کو بند کردیا گیا۔ 2 سال پہلے تک اسے کبھی بھی رقم جمع کرنے کا خیال نہیں آیا تھا لیکن پھر اس کی ملاقات ازابیلا سے ہوئی اور وہ اس کی محبت میں گرفتار ہوگیا۔ ایک روز دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس نے ازابیلا سے کہا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
’ایک ایسے شخص سے بھلا میں کیسے شادی کرسکتی ہوں جس کے پاس گاڑی نہیں اور وہ ایک کرائے کے فلیٹ میں رہتا ہے۔‘
’میں یہ سب حاصل کرسکتا ہوں، مجھے کچھ وقت دو۔‘
اس دن کے بعد وہ ایک مشین بن گیا، دن رات بس کام، کام اور صرف کام۔ وہ ہر ممکن کوشش کرتا کہ زیادہ سے زیادہ روپے بچا لے یہی وجہ تھی کہ اس نے 2 سالوں میں اپنے بینک اکاونٹ کو کافی بھر لیا تھا۔
وبا پھیلی تو حکومت نے شہر کا لاک ڈاؤن کردیا۔ اس نے حکومتی اعلان کو نظر انداز کیا اور ایک ہفتہ مزید شہر میں پھرتا رہا حالانکہ جن 2 جگہوں پر وہ کام کرتا تھا وہ بند تھیں، لیکن اس سے گھر نہیں بیٹھا جاتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ایک چھوٹے سے وائرس سے چھپ کر بیٹھ جانا ہرگز عقلمندی نہیں لیکن پھر ایک شام وہ گھر لوٹا تو اسے اپنے بدن میں درد محسوس ہوا۔
اگلے روز بخار اور چھینکوں سے اس کا ایک قدم چلنا بھی دوبھر ہوگیا تھا۔
پہلی بار اسے حقیقتاً خوف محسوس ہوا۔
اس نے موبائل سے اپنا بینک اکاونٹ چیک کیا۔ ہاں اس کے پاس اب اتنے ’یوروز‘ جمع ہوچکے تھے کہ اس سے ایک گاڑی اور فلیٹ خریدا جاسکتا تھا۔ وہ اور ازابیلا ہنسی خوشی زندگی گزار سکتے ہیں۔ ایک مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آکر غائب ہوگئی کہ ابھی تو وہ بیمار تھا۔
تیسرے روز اس کی طبعیت مزید خراب ہوگئی۔ اس نے ایمرجینسی فون نمبر ملایا اور اپنی خراب صحت کے بارے میں اطلاع دی۔
کچھ دیر بعد ایمبولینس اس کے دروازے پر تھی اور اسے ہسپتال لے جاکر الگ کمرے میں منتقل کردیا گیا۔
10ویں روز اس کا سانس اُکھڑنے لگا، اگلے روز اس کو کچھ ہوش آیا تو اس نے قریب کھڑے ڈاکٹر کو اپنا آکسیجن ماسک ہٹانے کے لیے کہا۔
ڈاکٹر نے سر کے اشارے سے منع کیا۔
اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگ گئے، وہ کچھ کہنا چاہتا تھا، ڈاکٹر نے اس کا ماسک ہٹایا۔
اس کی آنکھوں سے مزید آنسو بہنے لگے اور اس کا سانس اُکھڑنے لگا۔
’ڈاکٹر! میں مر رہا ہوں، میرے موبائل میں ایک نمبر ہوگا، ازابیلا۔ اس کو بتا دیجیے گا کہ مرنے سے پہلے میرے پاس گاڑی اور فلیٹ خریدنے کی رقم جمع ہوگئی تھی لیکن پھر شہر میں وبا پھیل گئی۔‘
وبا میں ڈوبتا منظر
وہ ایک فوٹو گرافر تھا، شہر شہر، قریہ قریہ گھوم کر قدرتی مناظر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرنا اس کا من پسند مشغلہ تھا۔
اسے بچپن ہی سے قدرتی مناظر سے عشق تھا، بارش ہوتی تو قطروں کی جلترنگ کو گھنٹوں سنتا رہتا جیسے یہ کوئی دلفریب ساز ہو۔ مٹی پر پڑتی بوندیں اس کے اندر خوشبو کا طوفان اٹھا دیتیں، پہاڑوں پر جاکر اس کا جی چاہتا کہ وہ وہیں بس جائے اور صحراوں کی راتیں اسے پاگل کردیتی تھیں۔ وہ سوچتا یہ دنیا کس قدر حسین ہے پھر جب وہ 60 سال کا ہوا تو اس نے کیمرے کا استعمال ترک کردیا کہ اسے محسوس ہونے لگ گیا تھا کہ دنیا جتنی حسین ہے اسے کسی بھی کیمرے میں نہیں سمویا جا سکتا تو آدمی کو جتنا میسر ہو اتنا اپنی آنکھوں میں محفوظ کرلے۔ وہ نگر نگر قدرت کے کرشمے دیکھنے کے لیے پھرتا رہتا۔
وہ شہر کے ان پہلے 100 لوگوں میں شامل تھا جو وبا کا شکار ہوکر ہسپتال میں داخل ہوئے تھے۔
روز بروز اس کی حالت بگڑتی جارہی تھی۔ ایک سہ پہر جب اسے محسوس ہوا کہ سانس کہیں اندھیرے میں گُم ہونے لگی ہے تو اس نے ڈاکٹر سے کہا۔
’کیا آپ میری آخری خواہش پوری کر سکتے ہیں؟ دراصل میں آخری بار سورج کو ڈوبتے دیکھنا چاہتا ہوں‘
وبا میں دیا گیا انٹرویو
ڈاکٹر علی مہدی تہران کے ایک سرکاری ہسپتال میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے کہ شہر کو وبا نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہاں ان کے پاس جدید آلات کی کمی تھی اور مریض تھے کہ ہزاروں کی تعداد میں اس وبا کا شکار ہوکر ہسپتال میں داخل ہو رہے تھے۔
ایک شام ایک ٹی وی چینل نے ڈاکٹر علی مہدی سے انٹرویو لیا۔
’ڈاکٹر صاحب اس وبا میں مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، آپ ان حالات پر کیا کہیں گے؟‘، انٹرویو لینے والے صاحب نے سوال کیا۔
’ہمارے پاس اب اتنے مریضوں کو بچانے کے لیے کوئی گنجائش نہیں، حتٰی کہ ہسپتال کے برآمدے اور صحن بھی مریضوں سے بھر گئے ہیں، ہسپتال میں صرف 3 وینٹی لیٹر ہیں، ہم کتنے مریضوں کو بچائیں۔‘
’تو کیا آپ عمر کے حساب سے مریضوں کو بچانے کا سوچ رہے ہیں؟‘، اینکر نے پوچھا۔
’دیکھیں یہ سوال اسٹوڈیو میں بیٹھ کر پوچھنا بہت آسان ہے لیکن آپ یقین کریں ایک ڈاکٹر کے لیے یہ بہت مشکل کام ہوتا ہے، کل ہی ایک بزرگ جو اس وبا کا شکار تھے اور سانس مشکل سے لے رہے تھے، ہم نے انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا تھا۔ پھر آدھے ہی گھنٹے بعد ہمارے پاس کئی نوجوان تشویشناک حالت میں لائے گئے۔‘
ڈاکٹر علی مہدی ایک لمحے کو رُکے، جیب سے رومال نکال کر آنکھوں کے آگے کرلیا۔
’میں جب بوڑھے سے وینٹی لیٹر اتارنے لگا تھا تو اس نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جو میں وبا کے بعد بھی شاید کبھی نہ بھلا پاؤں۔‘
وبا میں آبادی کے اعداد و شمار
وبا کے دوران عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹ پر وائرس سے متاثر ہونے والے نئے مریضوں اور پہلے سے مبتلا مریضوں کے مرنے یا صحت مند ہونے کے اعداد و شمار لمحہ بہ لمحہ اپڈیٹ ہو رہے تھے۔
سنتیاگو میلان کے ایک اخبار میں صحافی تھا، وہ شہر میں مرنے والوں کے اعداد و شمار مرتب کرکے روز اخبار کی ہیڈلائن بناتا۔
’27 مارچ کو 911 لوگ وائرس کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔‘
وہ یہ خبر اپنے کمپیوٹر پر لکھ کر پانی پینے کے لیے اٹھا۔
واپس آکر اس نے ایک نظر اپنی خبر پر دوڑائی اور عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹ کے صفحے کو ری فریش کیا تو اعداد و شمار بدل چکے تھے۔
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔