نقطہ نظر

شبقدر: 180 سال سے قید دروازے اور تاریخ کے انمٹ نقوش

عدالت نے قلعے کا ڈیزائن بنانے والے ماہرِ تعمیرات کو قصوروار قرار دے کر اس کے ہاتھ کاٹنے اور قلعے کے دروازوں کو 100 سال کی قید کا فیصلہ سنایا۔

شبقدر: 180 سال سے قید دروازے اور تاریخ کے انمٹ نقوش

عظمت اکبر

قفس کی تنہائی اور تاریکی قیدی کے دل و دماغ پر ایسا اثر چھوڑتی ہے کہ اسے آزادی کا تصور ہی اجنبی لگنا شروع ہوجاتا ہے۔

کیا رات کیا دن، سب ساعتیں یکساں محسوس ہوتی ہیں۔ خاص طور پر اس قیدی کے لیے جسے اپنا جرم تک معلوم نہ ہو۔ میرا قصور کیا تھا؟ اس سوال کے جواب کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے سوچ تک مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے۔

یقیناً قید وبند ایک اذیت ناک تجربہ ہے اور اس کا احساس صرف ان انسانوں یا جانوروں کو ہوتا ہے جو اس اذیت سے گزرے ہوں۔ مگر گزشتہ ہفتے میں ایک ایسے قیدی سے مل کر آیا ہوں جو نہ تو انسان ہیں اور نہ جانور بلکہ قلعہ شبقدر کے 2 ایسے دروازے ہیں جو ناکردہ جرم کے عوض انسانی ساختہ قانون کے تحت 180 سال سے پابندِ سلاسل رہے۔ یوں لگتا ہے اپنی قید کی مدت پوری ہونے کے بعد یہ تاریخ کے اوراق کی قید میں چلے گئے کہ شاید ان دروازوں کے مقدر میں فقط قید ہی لکھی ہے۔

راجہ رنجیت سنگھ کی حکمرانی کا دور تھا اور شبقدر (جسے پرانے وقتوں میں شنکر گڑھ پکارا جاتا تھا) میں سکھوں کی فوج کے خلاف مہمند قبائل کے زبردست حملے جاری تھے۔ اس دور میں راجہ رنجیت سنگھ نے اپنے بیٹے شیر سنگھ کو شبقدر کے کسی محفوظ مقام پر قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا تاکہ مہمند قبائل کے حملوں کی روک تھام کا بندوبست کیا جاسکے۔

شیر سنگھ نے اس زمانے کے ایک ماہرِ تعمیرات ’توتا رام‘ سے رابطہ کیا اور ڈیزائن فائنل کرنے کے بعد 1835ء میں شنکر گڑھ (شبقدر) میں نسبتاً بلند ٹیلے پر اس قلعے کی تعمیر کا آغاز کیا۔

اس قلعے کے ذریعے شہر کے اردگرد دیگر قلعوں میں موجود سکھ فوجوں کے ساتھ پیغام رسانی اور مہمند قبائل کی نقل وحرکت پر نظر رکھی جانی تھی۔ قلعے کی تعمیر کا کام 2 برسوں کے قلیل عرصے میں مکمل کیا گیا اور 1837ء میں یہاں پر شیر سنگھ کی قیادت میں سکھ افواج نے مہمند قبائل کی سرکوبی کے لیے باقاعدگی سے کام شروع کیا۔ قلعے کی تعمیر سے قبل شنکر گڑھ کو شریف کور پکارا جاتا تھا تاہم تعمیراتی کام کی تکمیل کے بعد سکھ اس قلعے کے آس پاس آباد ہوگئے، یہاں پر اپنا کاروبار شروع کردیا اور علاقے کا نام شنکر گڑھ رکھ دیا گیا۔

اس قلعے کو بلندی پر تعمیر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس کے ذریعے دُور دُور تک نگرانی رکھی جاسکے تاکہ دشمن کے ممکنہ حملوں کے خلاف بہتر انداز میں صف بندی کرلی جائے جبکہ اس کے واچ ٹاور کے ذریعے پشاور اور ملحقہ علاقوں کے ساتھ رابطہ بھی کیا جاتا تھا۔

3 برسوں کے مختصر عرصے میں مہمند قبائل نے اس قلعے پر کئی بار حملے کیے لیکن انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔

1840ء کے موسمِ سرما میں مہمند قبائل کا لشکر ’سعادت خان‘ کی قیادت میں قلعہ شنکر گڑھ (شبقدر) پر حملہ آور ہوا۔ پہلے پہل تو سکھ افواج نے جم کر مقابلہ کیا لیکن حملہ آور لشکر کے کچھ سپاہی قلعے کے مرکزی دروازے توڑ نے میں کامیاب ہوگئے اور قلعے میں موجود سکھ سپاہیوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔ راجہ شیر سنگھ نے پشاور اور مچنئی قلعوں میں فوجیوں سے مدد کے لیے پیغام بھیجا، جس کے نتیجے میں مہمند قبائل کا لشکر واپس لوٹنے پر مجبور ہوگیا۔

شیر سنگھ نے جہاں اپنی رہی سہی فوج کو اکٹھا کرنا شروع کیا وہیں مہمند قبائل کی طرف سے قلعے کے دروازے توڑنے کے اقدام پر غور و فکر کرنے کے بعد اس وقت کے ایک ’فرانسیسی جنرل جین ویٹوریا‘ کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا۔ عدالت نے 2 دن کے اندر اندر قلعے کا ڈیزائن بنانے والے ماہرِ تعمیرات ’توتا رام‘ کو قصوروار قرار دے کر اس کے ہاتھ کاٹنے اور قلعے کے دروازوں کو 100 سال کی قید کا فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے کے تحت جہاں ’توتا رام‘ کے ہاتھ کاٹ دیے گئے وہیں قلعے کے مرکزی دروازوں کو ایک طویل قید کے لیے واچ ٹاور کے ساتھ آہنی زنجیروں سے باندھ دیا گیا۔

شبقدر کے تاریخی شہر میں بچپن سے لڑکپن تک زندگی کے بہترین سال گزارے ہیں اور اس قلعے کو کئی بار دیکھ بھی چکا ہوں، لیکن گزشتہ ہفتے مجھے چند مقامی صحافی دوستوں کے ساتھ ایک بار پھر شبقدر کے تاریخی شہر کی سیر اور اس قلعے میں 180 سال سے قید دروازوں کی فریاد سننے کا موقع ملا۔ یہاں مجھے میرے آباؤ اجداد کی جدوجہدِ آزادی اور اس مقصد کے لیے دی جانے والی ان گنت قربانیوں کی داستانوں کو ایک بار پھر سننے کا موقع میسر آیا۔

مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد یہ علاقہ سکھوں کے قبضے میں چلا گیا تھا اور 1850ء تک انہی کے زیرِ قبضہ رہا۔ آگے چل کر یہ علاقہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر تسلط آگیا۔ مہمند قبائل جہاں سکھوں کے خلاف لڑتے رہے وہیں ملانجم الدین المعروف ہڈا ملا کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف بھی برسرِ پیکار رہے۔

1876ء میں اس علاقے میں مسلمانوں کے مذہبی رجحان، شبِ قدر کی رات کو بھرپور طریقے سے منانے اور انگریزوں کے خلاف مقامی مسلمان قبائل کی شورش کو کم کرنے کے لیے اس علاقے کا نام بدل کر ’شبقدر‘ رکھ دیا گیا۔

قلعے میں موجود 2 ہٹس (کمرے) برطانیہ کے سابق وزیرِاعظم، قلم نگار اور برٹش آرمی آفیسر ونسٹن چرچل کے یہاں پر قیام کی یاد تازہ کر رہے تھے۔

1897ء میں چکدرہ کے مقام پر شورش کے خاتمے کے بعد چرچل کچھ عرصے کے لیے شبقدر قلعے میں رُکے تھے تاکہ یہاں پر عرصہ دراز سے جاری مہمند قبائل کے حملوں پر ضابطہ لایا جاسکے۔ جس کمرے میں چرچل نے قیام کیا تھا وہ آج بھی چرچل ہٹ کے نام سے موجود ہے اور چرچل کے زیرِ استعمال پلنگ، پنکھا، تصاویر اور دیگر چیزیں اسی کمرے کی زینت بنی ہوئی ہیں۔

جبکہ دوسرے کمرے میں میوزیم بنایا گیا ہے، جس میں انگریز فوج کا اسلحہ، وردی، اور دیگر نوادرات و تصاویر رکھی گئی ہیں۔

قلعے کے احاطے سے باہر ایف سی ٹریننگ سینٹر کی حدود میں موجود انگریز سپاہیوں کی قبریں 1915ء کی اس لڑائی کی یاد تازہ کر رہی تھیں جو حاجی صاحب ترنگزئی بابا کی قیادت میں مقامی مسلمان لشکر اور انگریز لشکر کے دمیان لڑی گئی تھی۔

1913ء میں سمانہ رائفلز اور بارڈر ملٹری پولیس کو ملا کر فرنٹیئر کور (ایف سی) فورس کو وجود میں لایا گیا جبکہ 1944ء میں اس قلعے کو باقاعدہ ایف سی ٹریننگ سینٹر کا اعزاز حاصل ہوا، جس کے بعد سے ہر سال یہاں ہزاروں کی تعداد میں جوان تربیت حاصل کرتے ہیں اور ملکی سلامتی و دفاع میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

تقریباً 4 لاکھ نفوس اور 45 لاکھ سے زائد اﯾﮑﮍ رقبے پر مشتمل ضلع چارسدہ کی خوبصورت تحصیل شبقدر دریائے سوات اور کابل کے درمیان آباد ہے۔ ﯾﮧ ﺷﻤﺎﻝ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺳﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﺸﺎﻭﺭ ﺳﮯ 35 ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﮐﮯ ﻓﺎﺻﻠﮯ ﭘﺮ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﮯ۔ اپنے اسٹریٹجک محل وقوع کی وجہ سے یہ علاقہ صوبہ خیبر پختونخوا میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔

اس کے مشرق میں دوآبہ اور چارسدہ کے ہرے بھرے علاقے، شمال میں دریائے سوات، جنوب میں دریائے کابل، مغرب میں ضلع مہمند، باجوڑ کے قبائلی علاقے اور افغانستان کا سرحدی علاقہ واقعی ہے جس کی وجہ سے یہ ایک اہم تجارتی مرکز بھی بن جاتا ہے۔

تاریخ سے شغف رکھنے والے سیاحوں کے لیے شبقدر انتہائی اہمیت کا حامل شہر ہے۔ یہاں پر نہ صرف شیر سنگھ کا تعمیر کردہ قلعہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے بلکہ اس قلعے کے اردگرد شبقدر کا تاریخی بازار، پٹوارخانہ، مٹہ مغل خیل فورٹ اور اس میں انگریزوں کا قبرستان، میچنئی فورٹ، مہمند ڈیم، دریائے سوات پر قائم کردہ منڈہ پل، یوسف بابا اور ابازئی کے مقام پر تاریخی قلعہ بھی دیدنی نظاروں سے مالامال مقامات ہیں۔

شبقدر کے لوگ بہت ہی ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔ یہ محنت اور ہنرمندی میں بھی لاجواب ہیں۔ یہاں تیار ہونے والی چادریں (شال) اس کے علاوہ سوتی اور کھدر کا کپڑا، چارسدہ کے مشہور چپل اور گڑ و دیگر چیزیں نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونِ ملک بھی سپلائی کی جاتی ہیں۔

شبقدر بازار گھومنے کے بعد ہم شبقدر سے 10 کلومیٹر دُور واقع تاریخی قصبہ مٹہ مغل خیل گئے جہاں سے پھر تقریباً 5 کلومیٹر کا مزید سفر کرنے کے بعد شکار گاہ کے طور پر خاص شہرت رکھنے والے علاقے ’میاں پٹے‘ پہنچے۔

ماضی میں یہ علاقہ مہمند قبائل اور انگریزوں کے درمیان مختلف جنگوں کا میدان بنا رہا۔ موسم سرما میں نایاب پرندوں کی بڑی تعداد یہاں کے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا لیتی ہے جس کی وجہ سے مقامی شکاری اس علاقے کا رُخ کرتے رہتے ہیں۔ میاں پٹے ضلع مہمند کی سب سے خوبصورت تحصیل پنڈیالی کا نکتہ آغاز بھی ہے۔ یہاں کے پہاڑی راستے اور پُرسکون ماحول ٹریکنگ کے شوقین افراد و سیاحوں کی طمانیت کا سامان ثابت ہوسکتے ہیں لہٰذا جب وہ شبقدر آئیں تو یہاں کا رخ کرنا نہ بھولیں۔

میاں پٹے کے علاقے میں مقامی دوستوں کے ساتھ وہاں کی خوبصورتی اور تاریخ سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد ہم نے واپسی کی راہ لی۔

شبقدر کی سیر کے خواہاں سیاحوں کے لیے چند ہدایات


عظمت اکبر سماجی کارکن اور ٹریپ ٹریولز پاکستان کے سی ای او ہیں۔ آپ کو سیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔

عظمت اکبر

عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔