محققین نے دریافت کیا کہ کورونا وائرس کے زیادہ پھیلاؤ والے علاقے وہ ہیں، جہاں درجہ حرارت کم تھا یعنی 3 سے 17 ڈگری سینٹی گریڈ۔
اگرچہ وہ ممالک جہاں اس وقت موسم گرما چل رہا ہے، وہاں بھی کورونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، مگر 18 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد والے مقامات میں ان کی تعداد عالمی کیسز کے 6 فیصد سے بھی کم ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں ان دنوں گرمیوں کا آغاز ہو رہا ہے، اور عموماً درجہ حرارت 25 اور 30 سینٹی گریڈ کے درمیان ہوتا ہے جب کہ آنے والے دنوں میں گرمی کی شدت مزید بڑھ جائے گی جو اس حوالے سے خوش آئند بھی ہے۔
اور اس وقت تمام صوبوں میں ہی اس کے کیسز سامنے آرہے ہیں، اگرچہ زیادہ تعداد زائرین کی ہیں مگر مقامی طور پر بھی وائرس کی منتقلی سے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جیسے کراچی میں ہی ایسے کیسز کی تعداد 102 ہے۔
تحقیق میں شامل پروفیسر قاسم بخاری نے بتایا کہ جہاں درجہ حرارت کم ہوتا ہے وہاں کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے، آپ یہ رجحان یورپ میں دیکھ سکتے ہیں، حالانکہ وہاں کا طبی نظام دنیا میں بہترین ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ درجہ حرارت کے عنصر کا عندیہ امریکا میں بھی ملتا ہے جہاں جنوبی ریاستیں جیسے ایریزونا، فلوریڈا اور ٹیکساس میں واشنگٹن، نیویارک اور کولوراڈو کے مقابلے میں وائرس پھیلنے کی رفتار سست نظر آتی ہے۔
موسم کا یہ اثر اس سے ملتا جلتا ہے جس کا مشاہدہ وبائی امراض کے ماہرین دیگر وائرسز میں کرچکے ہیں۔
امریکا میں گلوبل ایڈز کورڈینٹر اور نئے کورونا وائرس کے لیے قائم امریکی ٹاسک فورس کی رکن ڈاکٹر ڈیبورا بریکس نے ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ فلو کے دوران بھی عام طور پر نومبر سے اپریل کے دوران زیادہ کیسز سامنے آتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ رجحان 2002 کے سارس کورونا وائرس کی وبا کے دوران بھی نظر آیا تھا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ نئے کورونا وائرس کے حوالے سے بھی ایسا دیکھنے میں آئے گا یا نہیں۔
اس کے علاوہ بھی دیگر تحقیقی رپورٹس میں گرم موسم سے نئے کورونا وائرس کے پھیلنے کی رفتارر میں کمی کا بتایا گیا ہے۔
اسپین اور فن لینڈ کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق میں دریافت کیا کہ خشک ماحول اور 2 سے 10 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے دوران یہ وائرس تیزی سے پھیلتا ہے۔
اسی طرح گزشتہ ہفتے چین میں ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ چینی حکومت کی جانب سے وبا کی روک تھام کے لیے جارحانہ اقدامات کرنے سے قبل ایسے شہر جہاں درجہ حرارت زیادہ اور ہوا میں زیادہ نمی تھی، وہاں وائرس کے پھیلنے کی شرح دیگر کے مقابلے میں سست تھی۔
مگر ان میں سے کسی بھی تحقیق کا جائزہ دیگر سائنسدانوں نے ابھی تک نہیں لیا اور امریکا کے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے تسلیم کیا ہے کہ عناصر جیسے سفری پابندیاں، سماجی فاصلے کے اقدامات، ٹیسٹوں کی دستیابی اور ہسپتالوں کا بوجھ ممکنہ طور پر مختلف ممالک میں کیسز کی تعداد پر اثرانداز ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ موسم اور کورونا وائرس کے درمیان تعلق پالیسی سازوں اور عوام کے لیے اطمینان کا باعث نہیں ہونا چاہیے 'ہمیں اب بھی ٹھوس احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے، گرم موسم ہوسکتا ہے کہ وائرس کو کچھ حد تک غیرفعال کردے، مگر کم مؤثر پھیلاؤ کا مطلب اس کا خاتمہ نہیں ہوتا'۔
انہوں نے مزید کہا کہ گرم موسم ہوسکتا ہے کہ ہوا یا سطح پر کورونا وائرس کی بقا کو طویل دورانیے کے لیے مشکل بنادے مگر وہ پھر بھی گھنٹوں تک متعدی رہ سکتا ہے۔
درحقیقت سیزنل وائرسز جیسے انفلوائنزا اور موسمی زنزلہ زکام بھی گرمیوں کے دوران مکمل طور پر غائب نہیں ہوتے، بلکہ کسی نہ کسی حد تک لوگوں کے جسموں اور دنیا کے دیگر حصوں میں موجود رہتے ہیں، جہاں وہ دوبارہ پھیلنے کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے امریکا میں ذیلی ادارے پان امریکن ہیلتھ آرگنائزیشن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جرباس باربروسا کے مطابق نئے کورونا وائرس پر موسم کے اثرات کے بارے میں تصویر واضح ہونے کے لیے مزید 4 سے 6 ہفتے درکار ہوں گے۔