اٹلی، جو آج ویران ہے
آج دنیا کی توجہ چین کے شہر ووہان سے ہٹ کر اٹلی کے شہر 'لمبارڈی' پر مرکوز ہوچکی ہے، کیونکہ اب یہ شہر کورونا وائرس کا نیا 'مرکز' بن چکا ہے۔ اٹلی میں یہ وبا چوتھے ہفتے میں داخل ہوچکی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اٹلی میں بحران بد سے بدترین شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹ کے مطابق صرف 21 مارچ کو وائرس کے باعث 793 افراد موت کا شکار بنے۔
لیکن اٹلی میں زمینی حقائق کیا ہیں یہ جاننے کے لیے ہم نے وہاں کچھ پاکستانیوں سے رابطہ کیا، آئیے جانتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔
پڑھیے: کورونا وائرس، برطانیہ میں معمولات زندگی کیسے ہیں؟
پاکستانی نژاد نوجوان خاتون ماہا اٹلی کے صوبے ایملیا رومگنا کے شہر کوریگیو میں اپنے شوہر اور بیٹی کے ساتھ رہتی ہیں۔ 2006ء سے اٹلی میں رہائش پذیر ماہا پیشے کے لحاظ سے سول انجینئر ہیں۔
وہ اٹلی کی تازہ ترین صورتحال کا احوال کچھ اس طرح بتاتی ہیں، اب ہم ریڈ زون میں آگئے ہیں۔ ہم پچھلے 3 ہفتوں سے ہی گھر میں بند ہیں۔ یہاں کرفیو جیسا ماحول ہے۔ ہمیں صرف 3 صورتوں میں گھر سے باہر نقل و حرکت کی اجازت ہے۔
پہلی صورت، اگر ہمارے پاس ورک کنٹریکٹ ہے یعنی اگر ہم سے پولیس اور انتظامیہ پوچھ گچھ کرے تو ہم اپنا کنٹریکٹ دکھائیں گے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اگر ہمیں ڈاکٹر کے پاس جانا ہے، اپنا میڈیکل سرٹیفیکٹ یا کوئی دوا لینی ہے یا فارمیسی جانا ہے تو اس کے لیے انتظامیہ ایک سرٹیفیکیشن پر دستخط کرواتی ہے۔ انتظامیہ اگلے 24 گھنٹوں میں سرٹفیکٹ کے حصول کے لیے بتائی جانے والی وجہ کی تصدیق بھی کرتی ہے، مثلاً ڈاکٹر سے جاکر پوچھا جاتا ہے آیا ہم ان کے پاس گئے بھی تھے یا نہیں، اگر ہم غلط ثابت ہوئے تو ہم پر 2 طرح کی سزائیں دی جاسکتی ہیں، جس کے لیے باقاعدہ ایک قانون پاس کیا گیا ہے۔ قانون کے مطابق اگر آپ نے اس مخصوص سرٹیفیکیشن کے حصول کی خاطر جھوٹ بولا تو 6 مہینے کے لیے آپ کی نوکری جانے کے ساتھ 206 یورو کا جرمانہ ہوگا یا 3 ماہ کی قید کی سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔ غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نکلنے کے لیے جھوٹ بولنے پر کئی لوگوں کو جیل میں ڈالا بھی جاچکا ہے۔
باہر نکلنے کی تیسری صورت خریداری ہے۔ یہاں خریداری کا مقصد فی الحال صرف کھانے پینے کی اشیا ہیں۔ کسی بھی طرح کے کپڑے ،جوتے، میک اپ یا کسی اور اشیا کی خریداری کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے بھی یہاں صرف اشیائے خور و نوش کی دکانیں ہی کھلی ہیں۔ اب تو احتیاطی اقدامات کا یہ عالم ہے کہ ان دنوں دکانوں پر ایک ساتھ 15 سے زائد افراد دکانوں کا رخ نہیں کرسکتے اور ان میں سے بھی دکان کے اندر صرف 5 افراد داخل ہوسکتے ہیں۔ اس پابندی کو یقینی بنانے کے لیے دکانوں کے باہر پولیس اہلکار تعینات کردیے گئے ہیں۔
حکومت کی جانب سے خریداروں کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ایک میٹر کی دُوری بناتے ہوئے خریداری کریں۔ گاڑی میں 2 سے زائد افراد سوار نہ ہوں، یعنی ایک فرد گاڑی ڈرائیو کر رہا ہے تو دوسرے کو پچھلی سیٹ پر بیٹھنا ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک علاقے کے باسیوں میں سے صرف ایک ہی شخص سب کے لیے خریداری کرسکتا ہے۔
کھانے پینے کی خریداری کو بھی کنٹرول کیا جا رہا ہے. پہلے لوگ دیوانہ وار پورے پورے شیلف خالی کر رہے تھے۔ جب بیماری آئی تو شروع میں حالت یہ تھی کہ ہمیں نہ پانی مل رہا تھا، نہ دودھ کیونکہ لوگوں نے کھانے پینے کی بنیادی چیزوں کو ذخیرہ کرلیا تھا، تاہم حکام نے اس صورتحال میں عوام کو یقین دہانی کروائی ہے کہ انہیں کھانے پینے کی چیزوں میں کسی قسم کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا یعنی فرسٹ ایڈ فراہم کی جائے گی لہٰذا آپ اہل خانہ کے افراد کے حساب سے ہی خریداری کریں، اور کسی بھی طور پر افراتفری کا شکار نہ ہوں۔
ماہا ایک دفتر میں کام کرتی ہیں لیکن اس بیماری کے بعد سے انہیں گھر سے کام کرنے کی اجازت مل چکی ہے، مگر ان کے شوہر اب بھی دفتر جارہے ہیں۔
ماہا بتاتی ہیں کہ ’میرے گھر پر رہنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ بچوں کی وقتی دیکھ بھال کے لیے بے بی سٹر یا جسے عام لفظوں میں آیا کہا جاتا ہے، اس کی سہولت موجود نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں کہا گیا ہے کہ اگر گھر کے 2 فرد کام کرتے ہیں اور دونوں کو کام پر بلایا جارہا ہے تو گھر کا ایک فرد گھر پر رہے گا اور بچوں کو سنبھالے گا اور حکومت گھر پر بیٹھنے والوں کو 80 فیصد تنخواہ بھی فراہم کرے گی۔
ماہا بتاتی ہیں کہ ’یہاں پر کھانے پینے کے مراکز بھی بند پڑے ہیں، البتہ کھانا آرڈر کیا جاسکتا ہے۔ اٹلی کے باسیوں کا معمول ہے کہ وہ ہفتہ وار چھٹی کے دن گھروں پر کھانا پکانے کے بجائے ہوٹلوں یا ریسٹورینٹس کا رخ کرتے ہیں۔ گھر سے باہر قدم رکھے مجھے 3 تین ہفتے ہوگئے ہیں لیکن آج نکلوں گی۔ اگر گھر پر کھانے پینے کی کوئی چیز ختم ہوجائے تو میں اپنے میاں کو سودے سلف کی فہرست دیتی ہوں۔ انتظامیہ پہلے اس فہرست کا جائزہ لیتی ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ہم کوئی بھی چیز ضرورت سے زیادہ نہ خرید رہے ہوں، یوں خریداری کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘۔
صحت کی سہولیت سے متعلق ماہا بتاتی ہیں کہ اٹلی میں صحت کی سہولیات بہتر تھیں لیکن کورونا وائرس کی صورت میں جس طرح کی ناگہانی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس میں 3 ہزار خصوصی نگہداشت کے یونٹ کیا کرسکتے ہیں؟ ہر طرف خوف کی فضا پھیلی نظر آتی ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمارے علاقے میں بہت بہتری نظر آرہی ہے۔ پہلے یہاں ایک دن میں 15 سے 20 کیس رپورٹ ہو رہے تھے جن کی تعداد گھٹ کر اب 3 سے 4 رہ گئی ہے۔ لاک ڈاؤن سے فائدہ ہوا ہے کیونکہ اس طرح لوگوں کے درمیان فاصلہ رہتا ہے۔ میں 3 ہفتوں بعد جب گھر سے باہر نکلی تو 6 سے 7 جان پہچان والے لوگ ملے لیکن سب کے سب اجنبی سے محسوس ہوئے، ظاہر ہے ان حالات میں کون کس سے آگے بڑھ کر ملنا چاہے گا؟
پڑھیے: کورونا وائرس کا پھیلاؤ: اٹلی ہمیں کیا سبق دے رہا ہے؟
میں یہاں پاکستانیوں کو بھی یہ پیغام دینا چاہوں گی کہ اگر باہر نکلیں بھی تو ہاتھ دھو کر نکلیں۔ آنکھ، ناک، کان اور منہ کو ہاتھ نہ لگائی۔ انفیکشن کسی سے صرف ہاتھ ملانے سے نہیں پھیل رہا بلکہ وائرس ایک میٹر کے فاصلے سے بھی اُڑ کر دوسرے شخص کو اپنا شکار بناسکتا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ بھی ہدایت دی گئی ہے کہ گھر سے باہر نکلتے وقت ہم لازمی ماسک پہنیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ماسک مکمل تحفظ فراہم نہیں کرتا لیکن کسی نہ کسی سطح پر بچت ضرور ہے۔
اٹلی میں 19 مارچ کو ’فاڈر ڈے‘ تھا۔ ہم نے گھروں سے دکانوں پر کال کی، انہوں نے تحائف کی تصاویر بھیج دیں۔ ہم نے تحائف منتخب کیے اور اپنے گھر بھجوادیے۔ یہاں اسٹیشنری، گوشت اور سبزی کی دکانیں گھر پر مفت سامان پہنچا رہی ہیں تاکہ لوگ گھروں سے کم سے کم نکلیں۔ یعنی ہر ایک اپنی استطاعت کے مطابق اس بحران میں لوگوں کی مدد کر رہا ہے۔
یہاں لوگوں نے اپنے اپنے گھر کے باہر پوسٹر آویزاں کیے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں خیریت سے ہیں۔ شاپنگ کا بھی یہ حال ہے کہ انتظامیہ نے عملے پر یہ ذمہ داری لگائی ہے کہ صبح 4 بجے آکر تمام دکانوں کی صفائی کی نگرانی کریں اور ٹرالیوں کو سینیٹائز کریں۔ بازاروں میں بھی وائرس سے بچاؤ کے اس قدر سخت انتظامات کیے گئے ہیں کہ اندر داخل ہونے سے پہلے آپ کا جائزہ لیا جاتا ہے آیا آپ نے ماسک اور دستانے چڑھائے ہوئے ہیں یا نہیں۔ اگر آپ نے ان احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کیا ہوا تو اندر داخلے سے پہلے آپ کو یہ سب کرنے کا کہا جائے گا۔
بلوگنا کے رہائشی ایاز کا علاقہ ریڈ زون میں واقع نہیں ہے۔ وہ اپنے علاقے کا احوال بتاتے ہیں کہ یہاں بھی باہر جانے کی اجازت نہیں۔ فارمیسی اور کھانے پینے کی جگہوں کے علاوہ یہاں ہر جگہ بند ہے۔ یہاں بھی صرف 5 افراد سے زیادہ لوگ دکان میں داخل نہیں ہوسکتے۔ ہمارے علاقے میں متاثرہ افراد کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ سب سے زیادہ تباہ کن صورتحال میلان شہر کے شمالی حصے میں ہے۔ البتہ یہاں زندگی پُرسکون ہے اور لوگ بھی گھروں میں رہنا پسند کر رہے ہیں۔
ان کے خیال میں ابتدائی طور پر غیر سنجیدگی کے مظاہرے نے صورتحال کو ہولناک بنا دیا ہے۔ فروری میں بھی ایئرپورٹ پر تمام آنے والے مسافروں کی جانچ کی جا رہی تھی لیکن اس مِیں سختی کا پہلو نہیں تھا۔ یہاں تک کہ یکم مارچ کو ترکی اور دیگر ممالک کی ایئر لائنز نے اپنی پروازیں معطل کیں اور میں جانتا ہوں کہ بہت سے پاکستانی جو یورپ میں سفر کرتے رہتے ہیں وہ اس مرض کا شکار ہوئے۔
ایاز کے مطابق عمر رسیدہ افراد تو چلیں پہلے سے مختلف امراض کا شکار ہیں اور کمزور مدافعاتی قوت رکھنے کی وجہ سے اس وائرس نے انہیں زیادہ پریشان کیا ہے، لیکن اب تو نوجوان بھی اس وائرس کی زد میں آکر موت کا شکار بنتے جا رہے ہیں۔
ابتدائی طور پر حکام کی تجاویز پر دھیان نہیں دیا گیا، یہاں تک کہ ماسک پہننے کی بھی زحمت نہیں کی گئی۔ سب کو یہی لگ رہا تھا کہ بولوگنا شہر کو کوئی خطرہ لاحق نہیں اور لوگوں کو پُرسکون رہنا چاہیے۔ یوں زیادہ احتیاط نہیں برتی گئی اور اب دیکھ لیجیے کہ یہاں دُور تک سڑکوں پر سناٹے کے سوا کچھ نہیں، بس اگر کہیں بہت زیادہ لوگ نظر آجائیں تو وہ 8 سے 10 افراد ہوتے ہیں جو خریداری کی خاطر بازار کے آگے کھڑے نظر آتے ہیں۔
شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔